ْقصہِ دو مسافراں

تحریر: عاطف ملک

پہلا مسافر: میں نے بیرون ممالک کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا ہے اور جن پاکستانی طلبا  سے مجھے واسطہ پڑا ہے، انہیں میں نے محنتی اور ذہین پایا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اتنا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پیچھے ہیں؟

دوسرا مسافر: اس کی کئی وجوہات ہیں؛ فنڈز کی کمی، فرسودہ کورسز، پرانا نظام جو طلبا کے صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے دباتا ہے، غیرمعیاری اساتذہ، پرائمری اور ہائی سکول کی رواجی تعلیم وغیرہ  وغیرہ مگر شاید سب سے بڑی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے انتظامی امور پر سفارشی لوگوں کی تعیناتی جن میں تعلیمی سمجھ  بوجھ کی کمی ہے۔ ان افراد کا بنیادی کام دوسرے تعلیمی مسائل کو حل کرنا اور نظام میں ترقی لانا ہے مگر بدقسمتی سے وہ خود سب سے بڑا مسلہ ہیں۔

پہلا مسافر: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

دوسرا مسافر: میں تمہیں اس کی ایک زندہ وجاوید مثال سناتا ہوں۔ ہوائی یونیورسٹی قائم ہوئی تو وہاں کا پہلا وائس چانسلر ایسے شخص کو لگایا گیا جس کا یونیورسٹی سےدور کا بھی تعلق نہ رہا تھا، مگر لگانے والوں نے اسے یونیورسٹی نہیں بلکہ ایر سے واسطہ رکھنے پر لگایا تھا۔ اس کی  بڑی کوالیفکیشن یہ تھی کہ ایر مارشل کا رینک تھا اور دوسرا ایر سے تعلق یہ تھا کہ جہاز اڑاتا رہا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ تیسرا تعلق بھی تھا کہ دماغ میں ہوا بھری تھی۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اگرنظام عدل سے ناواقف سفارشی قاضی کسی عدالت میں لگا دیا جائے تو نظام کا کیا ہوگا، تو بس یہی حال یونیورسٹی کا ہوا۔
 
موصوف ریٹائر ہونے سے قبل  محکمہِ جنگیِ ہوائی کے اس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ لگے تھے جو تعلیم کے لیے افسران کو اندرون و بیرون ملک چنتا اور بھیجتا ہے۔ اُنہوں نے زمینی شعبوں کے افسران کی نشستیں کم کردیں کہ انہیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ تعلیم دشمن جانا جاتے تھے۔ ہمارے ایک دوست جس کی نوکری افسران کے ریکارڈ کے محکمہ میں تھی، دیکھا کہ موصوف کی اپنی تعلیم سیکنڈ ڈویژن بی اے تھی۔ تعلیم سے دشمنی کی وجہ شاید اپنی تعلیمی کارکردگی کا خیال بھی ہوسکتا ہے۔ انگریزی کے رزلٹ کا علم نہیں مگر بدتمیزی کے لیے انگریزی کا ہی چناو کرتے تھے۔ ان کے سابقہ ریکارڈ اور تعلقداری کی بنا پر ریٹائرمنٹ کے بعد یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر متعین ہوئے۔ 

پہلا مسافر: مگر میں نے سنا تھا کہ انہیں بہادری کو تمغہ ملا تھا۔

دوسرا مسافر: یہی  تو مسلہ ہے کہ یونیورسٹی چلانے کے لیے بہادری کے تمغے کی نہیں بلکہ تعلیمی تمغے والوں کی ضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو جاننا چاہیئے آج زمانہ سپیشلائزیشن کا ہے کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ اب ان حضرت کا ایک جنگی قسم کا قصہ بھی سن لو۔
ایک صبح میں اپنے ایک ساتھی کے پاس بیٹھا تھا جو کہ ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں کام کرتا تھا۔ اُس کو ایک فون آیا اور گفتگو کچھ ایسی ہوئی۔ 
" سر، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟"
دوسری جانب سے کچھ کہا گیا۔
" دیکھیے سر، مرنے والا سرکاری ملازم بھی تھا۔ ہمیں اس کا پوسٹ مارٹم کروانا پڑے گا"۔
فون پر دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔"سر، بالکل ٹھیک ہے کہ اس کا خاندان یہ کہہ سکتا ہے کہ پوسٹ مارٹم نہ کریں۔ مگر اس کی موت کی وجہ کوئی بھی ڈاکٹر پوسٹ مارٹم کے بغیر نہیں لکھے گا۔ اس کی پنشن اور واجبات اِس کے بغیر ادا نہیں ہوں گے"۔
 آگے سے لمبی بات ہوتی رہی اور وہ درمیان میں سر سر کہتا رہا۔ اُس کے چہرے سے جھنجھلاہٹ ظاہر تھی مگر یقیناً وہ دوسرے کے عہدے کی بنا پر کال بند نہیں کرسکتا تھا۔ 
آگے سے لمبی بات چلتی رہی۔ 
اللہ اللہ کرکے کال ختم ہوئی۔ میرے سوالیہ چہرے کو دیکھ کر اُس نے معاملہ کھولا۔ کل رات وائس چانسلر صاحب شکار پر گئے تھے۔ اپنے ساتھ ایک لاسکر جو کہ ان کے پرانے محکمے میں گریڈ چار کا سرکاری ملازم تھا اُسے خرگوشوں وغیرہ کوجھاڑیوں سے نکالنے کے لیے ساتھ لے گئے تھے۔ اُسی شکار کے درمیان ان کے بقول غلطی سے وہ ملازم گولی کا شکار ہوکر جانبحق ہوگیا۔ یہ کم از کم قتلِ خطا کا کیس تو بنتا تھا۔ صاحبِ اختیار نے مرنے والے کے خاندان کو پیسے اور دباو کے زیرِ اثر چپ کروا لیا تھا۔ اب چاہتے یہ تھے کہ پوسٹ مارٹم نہ ہو، سمجھ سکتے ہیں کہ قدرتی موت کہلوانے کی کوشش تھی۔ کوئی کیا بولتا کہ مرنے والا خون خاکِ نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔ صاحب اپنی نوکری پر براجمان رہے اور تعلیم واساتذہ کی بے توقیری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

پہلا مسافر: ایک آدمی ادارے کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

دوسرا مسافر: بھائی، کسی بیوقوف کی صلاحیتوں کو کبھی کم نہ جانو اور ایسا بیوقوف جو متکبر بھی ہو، وہ ایسی تباہیاں لاسکتا ہے کہ دانا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا، وہ اپنے جیسوں کو کلیدی حیثیتوں پر لائے گا، جو جی حضوری پر چلیں گے کیونکہ قابلیت پر تو کہیں ایسی نوکری نہ پاتے۔ بات سمجھانے کے لیے ایک اور قصہ سناتا ہوں۔ 

وائس چانسلر کے بعد انہی کے ساتھ کے پرواز کے حامل رجسڑار کے عہدے پر لائے گئے۔ جب وجہِ افتخار مشین چلانا ہو تو ایسوں کی اکثریت عموماً انسان کو سمجھنے اور خصوصاً پڑھے لکھے انسانوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ تعلیم یافتہ کے لیے اکثر حقارت کا اظہار کرتے ہیں۔ محترم اپنے آپ کو زمانے کے مجدد جانتے تھے اور یونیورسٹی میں نئی نئی جہتیں لانے لگے۔ پڑھانے والوں پر اعتماد نہ تھا، مختلف طریقہ کار شروع کروادیے، کاغذات کی بھرمار تھی، صبح یہ کاغذ بھریے، دوپہر کو یہ کاغز مکمل کیجیئے۔ اجازت ناموں کی بھرمار ہوگئی۔ تعلیم  روزنامچوں اور بہی کھاتوں کا شکار ہوئی اور یونیورسٹی پٹوار خانہ بن کر رہ گئی۔ 
 ایک میرا شاگرد تھا جس نے ماسٹرز اسی یونیورسٹی سے کیا۔ اس کی پہلی پوزیشن تھی مگر اُس کو گولڈ میڈل اس لیے نہ دیا گیا کہ اس کے تھیسیس کے شروع ہونے کا کاغذ وقت پر نہیں جمع کروایا گیا تھا۔ طالب علم سر پیٹتا رہا کہ یہ میرا کام نہ تھا، میں تو دیے گئے تحقیق کے موضوع پر کام کرتا رہا، یہ فارم جمع کروانا میری ذمہ داری نہ تھی، مجھے کس جرم کی سزا میں گولڈ میڈل سے محروم کیا جارہا ہے۔ مگر رجسٹرار انسانوں کی مختلف نسل سے تھے، کامن سینس اور بعض مقامات پر سینس کو بھی عام انسانوں کی چیز سمجھ کر اس سے دور رہتے تھے سو بالکل نہ مانے اور اُس طالب علم کو اُس کے اعزاز سے محروم رکھا گیا۔

پہلا مسافر: اگر معاملات ایسے ہوگئے تھے تو کیا اساتذہ نے اس پر احتجاج نہ کیا؟

دوسرا مسافر: استادوں نے جان لیا کہ بندر کے ہاتھ آرسی ہے۔ زیادہ تر نے چپ میں عافیت جانی مگر کچھ سرپھرے آن کھڑے ہوئے۔ ایک سرپھرا پروفیسر تھا جو انسانیت پر یقین رکھتا تھا اور شخص ایسا کہ آدمی اُس پر فدا ہوجائے۔ وہ اُن دنوں الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، میرا ایک اور یونیورسٹی میں ان کا ساتھ رہا تھا۔ ایک قصہ ان کا بھی سناتا ہوں۔
ایک دن اُنکا فون آیا کہ اگلے ہفتے ہمارے ماسٹرز کے طالبعلموں کے تھیسیس کےعنوانات کی پریذینٹیشن ہیں، قواعد کے مطابق ایک یونیورسٹی سے باہر کے پی ایچ ڈی کو بھی ان کو سننا اور اپنی رائے دینی ہوتی ہے، سو آپ اس کے لیے آئیں۔ سہ پہر کا وقت رکھا ہے کہ آپ کے اپنے کام کا حرج نہ ہو۔ میں تو ان پر فدا تھا، کہا کہ آپ کا حکم ہے تو سر کے بل بھی آنا پڑا تو آونگا، سو اپنی رضامندی اگلے ہفتے کے لیے دے دی۔ اُس دن سے ایک دن قبل ان کا فون آیا کہ کل آپ وقت پر آیے گا اور اپنے صبر کا پیمانہ بھر کر ساتھ لائیے گا۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے۔ کہنے لگے کچھ نہیں، آپ قصہ گو ہیں سو آپ کے لیے قصہ حاتم طائی کے مطابق ایک قصہ تیار کیا ہے کہ آپ بھی کہہ پائیں کہ ایک دفعہ دیکھا ہے، دوسری دفعہ نہ ہی دیکھوں۔ کچھ بھی ہو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا اور بس بیٹھے رہنا ہے۔ کل ملاقات ہوتی ہے۔
 میں نے سوچا، یااللہ، یہ ماجرا کیا ہے؟
اگلے دن مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہیڈ آف الیکٹریکل انجینئرنگ کے دفتر میں پہنچا۔ ان کے دفتر میں ان کے ساتھ ایک سفید باریش شخص بیٹھا تھا۔ بال سلیقے سے بنے تھے، نازک فریم کی عینک جس کے اندر سے آنکھوں کی چمک نظر آتی تھی۔ تعارف کروایا کہ یہ پروفیسر اعجاز منصور قریشی ہیں، انہوں نے اپنی پہلی ڈگری کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ سے ایویانکس میں حاصل کی تھی۔ پچیس سے زائد طلبا کو پی-ایچ-ڈی کرواچکے ہیں اور تین سو سے زائد تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ ہم سے ہاتھ ملا کر کہنے لگے، آپ کا ذکر بہت سنا ہے۔ ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس موقع کی مناسبت سے لطیفے اور اشعار ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ گذرے وقت کو بہت یاد کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پروفیسر صاحب کی زرہ نوازی ہے، انہوں نے کہا ہے تو موقع کی مناسبت سے غالب کا ایک  مصرع پیش کرتا ہوں " ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"۔ قریشی صاحب ہنس پڑے، کہنے لگے پہلے آپ کے متعلق سنا تھا، اب یقین بھی آگیا۔ 
ہم اٹھ کر اُس کمرے میں چلے گئے جہاں طالب علموں نے پریذنٹیشن دینی تھی۔ ذہن میں خیال بھی تھا کہ دیکھیئے کیا معاملہ پیش آتا ہے۔ اب جو اصحاب سوچ میں ہیں کہ ابھی تو طالب علم نے کام بھی شروع نہیں کیا تو تھیسس کے عنوان  کے نام پر طالب علم کو کیوں پروفیسروں کے  سامنے کٹھرے میں کھڑا کر دینا چاہیئے؟
 اصل میں تحقیق کا میدان ایسا ہے کہ استاد کو بھی علم نہیں ہوتا ہے کہ معاملہ کس طرف جا نکلے، بہاو کہاں جا کر رکے گا، کدھر راستہ بدلنا پڑے، کب منزل یک دم سامنے آجائے۔ طالب علم پر تو اس کا انحصار ہوتا ہی ہے، رہبر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ انگلی سے پکڑ کر لے جانے کا معاملہ نہیں بلکہ استاد راستے کی اجمالی نشاندہی کرتا ہے، راستے کے پیچ و خم کا بتا دیتا ہے، کہاں راہ گم کر جانے کا خطرہ ہے اس کا اشارہ کر دیتا ہے۔ اب طالب علم کی عقل و زور بازو پر ہے کہ کہاں تک پہنچ پاتا ہے۔ سو ماسٹرز کا تھیسیس شروع کرنے سے پہلے طالب علم کو بتانا ہوتا ہے کہ اُس نے موضوع سے متعلق کیا منزل چنی ہے، اس منزل تک پہنچنے کے لیے ممکن مختلف راہوں کا پتہ کرنے کی کتنی کوشش کی ہے اور ان راہوں میں سے کس راہ پر چلنے کا خیال ہے اور کیوں؟ آغازِ تھیسیس  کے موقع پر اساتذہ طالب علم کے اس مجوزہ راہ کو جانچتے ہیں اور راہ کے خطرات اور رکاوٹوں کی پیشنگوئی کرکے بہتر تجاویز دیتے ہیں۔ مثال اس نقشے کی سی ہے جو ابھی کاغز پر لکیروں سے بنا ہے اور بنیاد کھودنے سے قبل تجربہ کار اس نقشے پر اپنی رائے دے کر بہتری کے طرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔ 

پہلا مسافر: بہت خوب، آپ نے اچھی مثال سے واضح کیا ہے۔ آگے قصہ سنایے کہ کیا ہوا؟

 دوسرا مسافر: سو صاحب، طالب علم روسٹرم پر آکر اپنے نوٹس اور کاغذات سیدھا کر رہا تھا اور ہم چار اساتذہ سامنے بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک کوٹ پینٹ ٹائی لگائے بابو صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ 
قبلہ، آپ کون ہیں؟" ہیڈ آف الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ نے استفسار کیا۔ 
جی، میں رجسٹرار آفس سے آیا ہوں۔ 
آپ کس لیے یہاں تشریف لائے ہیں؟
میں پریذینٹیشن کو آڈٹ کرنے آیا ہوں۔
کیا آپ انجینیئر ہیں؟ کیا آپ کو موضوع کی کچھ سمجھ ہے؟
جی، میں نے تو بزنس سٹڈیز پڑھی ہیں۔ مجھے تو اس موضوع کا علم نہیں ہے۔ 
محترم، پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ یو آر نوٹ ویلکم ہیئر۔
جی، مجھے تو رجسٹرار صاحب نے ڈیوٹی پر بھیجا ہے اور میں تو یہ پریذنٹیشن سن کر ہی جاوں گا۔ 
جناب، آپ نے شاید میری بات سنی نہیں ہے۔ آپ کوالفائیڈ نہیں ہیں کہ ان موضوعات کو سمجھ سکیں یا ان کے معیار پر اپنی رائے دے سکیں۔ اس کے علاوہ آپ کو الیکٹریکل انجیئنرنگ ڈیپارٹمنٹ نے بلایا بھی نہیں ہے بلکہ آپ بن بلائے مہمان ہیں۔ نیز یہاں جو چار پی ایچ ڈی بیٹھے ہیں، انہوں نے سالہا سال پڑھایا ہے، ان کی نگرانی میں طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ آپ کا یہاں ہونا ان  اساتذہ پر بے اعتباری کا اظہار کرتا ہے اور ہمیں یہ قابلِ قبول نہیں، اس لیے آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔ پروفیسر صاحب کے آواز میں غصہ اور جھنجھلاہٹ دونوں شامل تھیں۔
مگر وہ صاحب سننے کو تیار نہ تھے۔ کہنے لگے مجھے تو رجسٹرار صاحب نے بھیجا ہے اور میں نہیں جارہا۔
  
میں سوچ  رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کہیں معاملہ دست و گریبان تک تو نہ جا پہنچےگا۔ ویسے ان صاحب کی پھولوں کے ڈیزائن والی ٹائی اچھی تھی۔ ایک بےکار خیال ذہن میں آرہا تھا کہ اگر کوئی اس ٹائی کو کھینچے تو کیا پھولوں کے کانٹے ان کے گلے میں چبھ سکتے ہیں۔ 

پہلا مسافر: آپ مزاح کو چھوڑیے، ایسا معاملہ تو کبھی کسی یونیورسٹی میں دیکھا نہ سنا۔

دوسرا مسافر: معاملہ کافی گرم ہوگیا تھا اور مجھے اب سمجھ آرہی تھی کہ مجھے کیوں پہلے اشارہ دیا گیا تھا۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے روسٹرم پر کھڑے طالب علم کی طرف دیکھا جو اس تمام معاملے کو حیرت و پریشانی سے دیکھ رہا تھا اور اسے کہا،"بیٹا، آپ کی آج کی پریذنٹیشن کینسل ہوگئی ہے۔ آپ کو اگلی تاریخ بتا دی جائے گی"۔ 
طالب علم نے اپنے کاغذ سنبھالنے میں انتہائی پھرتی دکھائی اور پلک جھپکتے کمرے سے باہر تھا۔ 
رجسٹرار آفس کے بابو کو پروفیسر صاحب نے کہا، "جناب، آپ اب بے شک تشریف رکھے رکھیں، ہم چلتے ہیں"۔ یہ کہہ کر مجھ سے مخاطب ہوئے، آئیے آپ ہمارے ساتھ آئیں۔ ہم کمرے سے باہر نکل آئے۔ رجسٹرار آفس کے بابو نے کوئی چارہ نہ پاکر اپنی کرسی چھوڑی اور باہر نکل گئے۔  وہ آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہی تھے تو پاس کھڑے طالب علم کو آواز لگی۔
آجاو میاں، اب آپ کی پریذنٹیشن سنتے ہیں"۔ 
پریذنیٹیشن ہوئی۔ میں نے اور دوسرے اساتذہ نے اپنی رائے لکھ کر دی اور معاملہ وقتی طور پر اختتام پذیر ہوا۔ اگلے ہفتے علم ہوا کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے ہیڈ کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ علم نہیں کہ یہ عہدہ انہوں نے چھوڑا تھا یا انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔

سو جناب اب آپ کو سمجھ آرہی ہوگی کہ جب کلیدی شاخوں پر الو بٹھا دیے جائیں تو یونیورسٹیاں اور چمن سب اجڑتے ہیں۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
 

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ