کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر
تحریر: عاطف ملک مسافر آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کے قائم شدہ احتجاجی خیمہ بستی کو روانہ ہے۔ مسافر یونیورسٹی میں داخل ہوا تو خاموشی ہے۔ اتوار کو یونیورسٹی بند ہوتی ہے۔ پارکنگ لاٹس خالی ہیں۔ مسافر کا سفر جاری ہے۔ پہلی پارکنگ کو چھوڑ دیا، اگلے کی جانب گاڑی ڈال دی۔ گاڑی کی درمیانی سکرین کے نقشے پر ایک نقطہ سفر میں ہے۔ مسافر بھی ایک ذرہ ہے جو یونیورسٹی کی راہوں پر سفر میں ہے۔ یونیورسٹی خاموش ہے۔ مسافر ان راہوں کو نہیں جانتا مگر وہ ان سے باخبر ہے۔ مسافر ملک ملک یونیورسٹیوں میں ایسی راہوں پر چلا ہے، راہ بھولا ہے، عمارتوں کے نمبر لگے، دروازے مقفل، کئی راہ برف سے اٹے تھے، کئی راہ بل کھاتے جاتے تھے، راہ چڑھتے تھے، پھر اترتے تھے، سیڑھیاں اوپر نیچے جاتی اور نمبر لگی عمارتوں میں بکھرے بالوں کے مصداق بل کھاتی راہیں جا پہنچتی تھیں۔ یہ یونیورسٹی کی راہیں وہ راہیں ہیں جو طالب علموں کی زندگی کے سفر میں شاہراوں کا کردار ادا کریں گی۔ یہ طالب علم کل مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ یونیورسٹی خاموش ہے، کچھ کمروں میں روشنی ہے، شاید کوئی یونیورسٹی پروفیسر ہےجو کسی ڈیڈ لائن پر