تحریر: عاطف ملک صبح کے دس بج رہےتھے۔ میں دفتری انتظار گاہ میں بیٹھا ، اخبارپلٹ رہا تھا۔ ایک دفتری داخل ہوا اور بتایا کہ اب آپ کی باری ہے، آپ میٹنگ روم میں تشریف لے جائیں، دائیں طرف تیسرا کمرہ ہے۔ برآمدے میں مختلف دروازے تھے ، جن کے باہر ان دفاتر کے عہدیداروں کے نام نہ تھے بلکہ عُہدوں کے نام تھے۔ اُس برآمدے میں فرد کچھ نہ تھا، منصب کی اہمیت تھی۔ تیسرے دروازے کے باہر دیوار پر میٹنگ روم کی لگی تختی اپنی جگہ پر ہلکی ٹیڑھی تھی۔میں نے دروازہ کھولا اور سلیوٹ کے لیے دایاں ہاتھ بلند کیا۔ یہ سلیوٹ بھی اُس برآمدے میں لگی عہدوں کے تختیوں کی مانند مرتبے کو تھا، فرد اس جہاں میں کچھ نہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک بڑا بیضوی میز تھا۔ میز کے لمبائی رخ پر دوسری جانب فضائیہ کے تین افسر بیٹھے تھے۔ درمیان میں بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو گروپ کیپٹن بیٹھا تھا، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا، یہ رنگ اُس کے ہوابازی کے گھنٹ...
تحریر : عاطف ملک نوٹ: اس مضمون کی تمام تصاویر مصنف نے کھینچی ہیں۔ جو تصاویر کہیں اور سے لی جائیں گی، ان کی بابت لکھا جائے گا۔ ہے Seville اشبیلیہ کا انگریزی میں نام بچپن سے علامہ اقبال کی نظم مسجد قرطبہ پڑھنے کے بعد سرزمینِ اندلس دیکھنے کی خواہش تھی۔ 2018 میں الحمداللہ یہ خواہش پوری ہوئی۔ اس کا تصویری سفر نامہ پیش کرنے کی کوشش ہے۔ پہلی قسط اشبیلیہ شہر کے سفر کی ہے۔ اشبیلیہ کو 712 عیسوی میں بربر مسلمانوں نے فتح کیا تھا جو کہ مغرب سے حملہ آور ہوئے تھے۔ مغرب عربی میں شمالی افریقہ کےعلاقے کو کہا جاتا ہے جن میں الجزائر، مراکش، تیونس ، لیبیا اور موریطانیہ کے ممالک شامل ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی نسل بربر کہلاتی ہے جو کہ دس ہزار قبلِ مسیح سے ان علاقوں میں رہ رہی ہے۔ طارق بن زیاد جس نے 711 عیسوی میں سپین پر مغرب موجودہ مراکش سے حملہ کیا تھا وہ بربر النسل تھا۔ افریقہ اور سپین کے درمیان اس مقام پر پانی کی پتلی گذرگاہ ہے جو کہ اٹلانٹک سمندر جسے اردو میں بحر اوقیانوس کہتے ہیں اور میٹیٹیرین سمن...
اپنی والدہ مسز کلثوم منصور کی یاد میں ماں جی کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے، مگر وہ سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتیں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب سویٹرتیار ہوجاتا تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی، کہیں بازووں پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار، اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔ اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا۔ اُن کے پاس اپنا کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یاغیرموجودگی سے بالاتر، صحیح پیمائش کرن...
Comments
Post a Comment