کہانی ---- کیوں، کیا اور کیسے؟

 اس تحریر میں ہم کہانی سے متعلق تین سوالات کے بارے میں بات کریں گے۔

کہانی کیوں لکھی جائے؟

کیا کہانی لکھنا سیکھا جاسکتا ہے؟

کہانی کیسے لکھتے ہیں؟

ہم سب کہانیاں سننا پسندکرتے ہیں۔ ہم سب کہانیاں سنانا پسند کرتے ہیں۔ ہم سب خود کہانیاں ہیں، کہانیاں ہمارے پاس بکھری ہیں۔

بچپن میں دادا دادی، نانا نانی سب سے ہم کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا ہو، علی بابا اور چالیس چور ہوں یا شہرزاد جو اپنی زندگی بچانے کے لیے ہزار داستان سنائے ۔۔۔ ہم کہانیاں سننا چاہتے ہیں۔ پہلے کہانیاں سننا اور پھر کہانیاں پڑھنا۔ جو لوگ میری عمر کے ہیں انہوں نے آنہ لائبریری کی مدد سے کئی کہانیاں پڑھی ہوں گئی۔  کہانیاں پھیل کر ناول بن جاتی ہیں۔

اشتیاق احمد کے انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق، فرزانہ ہو یا ابن صفی کی عمران سیریز، نسیم حجازی اور عنایت اللہ اپنے رنگ سے کہانیاں سنائیں یا رحیم گل جنت کی تلاش میں انگلی پکڑ کر سفر پر لے چلیں۔ کہانیاں ہمارے ساتھ رہی ہیں۔

کہانیاں رنگ نسل اور زبان سے بالاتر ہیں۔ دوسری زبانوں کی کہانیاں ہمارے پاس آتی رہی ہیں، سنڈریلا کی کہانی جو بہت پرانی ہے مگر سب سے پہلے اٹالین زبان میں سولہ سو چونتیس میں شائع ہوئی۔

 جرمنی سے پائیٹ پائیپر کی کہانی جو اپنی بین یا بانسری بجا کر چوہے اور پھر بچے لے گیا۔ اگر غور کریں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں بلکہ ہمیں ساتھ لے کرگیا تھا۔

اب کہانی ڈرامے اور فلم کی شکل میں پیش ہوتی ہے۔ نیٹ فلیکس کی آمدنی کہانی سے ہی شروع ہوتی ہے۔

پہلے ہم کہانی سنتے تھے، پھر پڑھنے لگے۔ پھر ہمیں پتہ چلا کہ کہانی تو ہم خود ہیں۔ اور اب ہم کہانی سنانا پسند کرتے ہیں۔

پتہ ہے کل کیا ہوا، آگے کہانی ہے۔

ہماری ایک خالہ تھیں، کراچی میں رہتی تھی، آگے خالہ  کہانی ہے۔

جب میں ساتویں میں تھا تو میری جماعت میں ایک لڑکی پڑھتی تھی، آگے کہانی ہے۔

ہمارے اردگرد  کہانیاں بکھری ہیں بلکہ ہم خود بھی کہانی ہیں۔ محبت کی کہانی، خود غرضی کی کہانی، ایثار کی کہانی، پرندوں کی کہانی، جانوروں کی کہانی، کھیلوں کی کہانی، امارت کی کہانی، غربت کی کہانی، کامیابی کی کہانی، ناکامی کی کہانی، زندگی کی کہانی، موت کی کہانی، سوچ کی کہانی، حقیقی کہانی، جادوئی کہانی، ازل کی کہانی، ابد کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض یہ کائنات کہانی ہے جس میں کہانیاں اپنی اپنی کائناتیں ہیں۔

کہانی طریقے سے بیان کی جائے تو مشکل بات آسان کر کے سمجھا دیتی ہے۔ انسان کہانیاں سنتا ہے، اسی لیے الہامی کتابوں نے بھی اپنا پیغام  کہانیوں کی صورت بیان کیا ہے۔ 

سو آج کے پہلے سوال کی جانب آتے ہیں کہ کہانی کیوں لکھی جائے، یا آپ کہانی کیوں لکھیں؟

کیوں، اس لیے کہ ہمارے پاس، آپ کے پاس بہت کہانیاں ہیں۔

اب اگلے سوال کی جانب آتے ہیں کہ کیا کہانی لکھنا سیکھا جاسکتا ہے؟

ہم سے ہر ایک کہانیاں سنا تو رہا ہی ہے، سو لکھنا بھی شروع کر دیں۔

مگر آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے کہانی لکھنا تو نہیں آتا۔

جیسے ایک بچہ چلنا شروع کرتا ہے، لڑکھڑاتا ہے، ڈولتا ہے، پھر چند قدم اٹھانے لگتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد اعتماد سے چلنا شروع کر دیتا ہے۔

آپ کہانیاں تو سنا ہی رہے ہیں، سو جانیے کہ قدم تو اٹھا ہی رہے ہیں،  لکھیں گے تو خود ہی اعتماد کے ساتھ چلنا شروع کردیں گے۔

اپنے لیے سخت مطالبہ نہ رکھیں، بچے کی مانند اپنی کہانیوں کو لڑکھڑانے کی پوری اجازت دیں۔ مت چاہیں کہ آپ نے صرف شاہ کار کہانیاں ہی لکھنی ہیں۔  لکھیں، اور کچھ عرصے میں آپ اعتماد سے کہانیوں کی دنیا میں قددم اٹھانے لگ جائیں گے۔

تو دوسرے سوال کا جواب ہے کہ جی کہانیاں لکھنا سیکھا جاسکتا ہے۔

اب ہم تیسرے اور اہم ترین سوال کی جانب آتے ہیں کہ کہانی کیسے لکھتے ہیں؟

اس سلسلے میں ہم افسانے کے بارے میں بات کریں گے کہ اس کو لکھنے کی کیا تکنیک ہے؟

کہانی کیسے لکھی جائے؟  کیسے اس کو موثر بنایا جاسکتا ہے؟ کس چیز کا خیال رکھا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں میں ساتھ مثالیں بھی دونگا اور  ان افسانوں کے لنکس بھی دونگا کہ آپ ان افسانوں کو پڑھ سکیں اور بتائی گئی تکنیک کے ساتھ ان کا رشتہ جوڑ سکیں۔

سب سے پہلے تو افسانہ کسی کردار یا کسی کریکٹر کے متعلق کہانی سناتا ہے، عام طور پر افسانے میں بہت زیادہ کردار نہیں ہوتے۔ ناول میں زیادہ کردار ہوتے ہیں۔ افسانے کے کردار یا بنیادی کردار کے بارے میں کچھ  سامنے لایا جاتا ہے۔ یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس کا کوئی عمل، اس کی کوئی اندرونی کشمکش، اس کی کوئی سوچ، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کہانی میں یک دم کچھ غیر متوقع آجائے اور وہ قاری کو کردار کے بارے میں کچھ ایسی پرت دکھائے جو ویسے ظاہر نہ ہو، تو کہانی کا اثر بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل جتنا غیر متوقع ہوگا، اتنا ہی پڑھنے والوں کے لیے کہانی دلچسپی کا باعث بن جائے گی۔


سب سے پہلا افسانہ بلکہ مختصر افسانہ پینسل تراش ہے۔ یہ افسانہ دو ہزار پندرہ کے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے افسانوں کے مقابلے میں منتخب ہوا تھا۔ اس کہانی کا بنیادی کردار ایک ہیڈ کلرک ہے جو پینسلوں کو تراش کر، ان کے تیز سکے بنا کر رکھنے کا عادی  ہے، یہ اس کی عادت ہے جس کے بغیر وہ نہیں رہ سکتا۔ پھر اس افسانے میں دوسرا کردار روبینہ کا آتا ہے جو کہ دفترمیں نئی ٹائیپسٹ رکھی جاتی ہے۔ یہ افسانہ ہیڈ کلرک کا اپنا پنسل تراش روبینہ کو دینے کے عمل سے قارین کو اس کی سوچ کی سمت لے جاتا ہے۔ کہانی علامتی ہے اور قاری کو اپنا نتیجہ خود نکالنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔

پینسل تراش افسانے کا لنک،پڑھنے کے لیے ادھر کلک کریں

دوسری کہانی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ بھی کہنا چاہوں گا بلکہ زور دے کر کہنا چاہوں گا کہ کہانی کار کو اپنے آس پاس پھیلے کہانیوں کے محرک ملتے ہیں۔ جیسے اس اگلی کہانی کا محرک ایک واقعہ تھا جو ایک پینٹر اور ایک اعلی سرکاری عہدیدار کے درمیان پیش آیا۔ آپ یہ کہانی "چھوٹا آدمی" کے عنوان سے پڑھ سکتے ہیں۔ 

کہانی چھوٹا آدمی، پڑھنے کے لیے ادھر کلک کریں

سو کہانی لکھنے والے کو ایسے محرک یا بنیاد اپنے پاس نوٹ کر لینی چاہیئں۔ آپ کسی کاپی پر لکھ سکتے ہیں۔ اپنے موبائل فون میں لکھ سکتے ہیں یا بنیادی خیال ریکارڈ کرلیں کہ بعد میں اس پر کہانی مکمل کر سکیں۔   

ایک اور کہانی جو کردار کے غیر متوقع عمل پر لکھی گئی ہے، وہ "وارنٹ آفیسر مسکین اور گندے انڈے" ہے جس میں ایک کردار بڑا عاجز سا ہے جبکہ دوسرا کردار طاقت میں اور بدتمیز ہے۔ کہانی کے آخر میں اس عاجز کا غیر متوقع عمل پوری کہانی کا بہاو بدل دیتا ہے۔

وارنٹ آفیسر مسکین اور گندے انڈے، کہانی پڑھںے کے لیے ادھر کلک کریں

اسی طرح احمد ندیم قاسمی کا افسانہ گنڈاسہ پڑھیں، اس کے آخر میں بھی اس کے بنیادی کردار مولے کا عمل غیر متوقع ہے اور پڑھنے والے کو خود اپنا نتیجہ اور سوچ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ افسانہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کردار کے کچھ بیرونی مقصد تھا جو اس کی ماں اور دیہی معاشرہ  اس سے متقاضی تھا۔ دوسری جانب اپنے دشمن کی منگیتر سے مل کر مولا ایک  اندرونی  کشمکش بھی تھی۔ قاسمی صاحب نے مولے کے عمل سے اس کشمکش کی گہرائی کا اندازہ دے کر یہ شاہکار افسانہ لکھا ہے۔ اس افسانے میں ایک واقعہ پیش آتا ہے اور پھر اگلے واقعات اس کے تسلسل میں چلتے ہیں۔ آپ بھی اپنی کہانیوں میں ایسا تسلسل لا سکتے ہیں کہ پڑھنے والا تجسس اور دلچسپی کا شکار ہو۔

اگر ممکن ہو تو کہانی میں اتار چڑھاو لائیے، ایک کلائمکس لائیے اور پھر ممکن ہو تو کہانی کا رخ بدل دیں جیسا کہ قاسمی صاحب نے اپنے افسانے گنڈاسہ میں کیا ہے۔

افسانہ گنڈاسہ، پڑھںے کے لیے ادھر کلک کریں 

کہانی کار کہانی سناتا ہے، کوئی تبلیغ یا نصیحت نہیں کرتا۔ کئی کہانیوں کا نتیجہ قاری کی اپنی سوچ پر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کہانی میں ایک ہی عمل یا ایونٹ ہو،  کئی ہوسکتے ہیں مگر ضروری ہے کہ وہ مختلف ایونٹس کا آپس میں کسی طرح سے تعلق ہو۔ غلام عباس کا افسانہ بہروپیا اس کی مثال ہے۔ بہروپیے میں ایک کردار کئی سوانگ رچاتا ہے جبکہ دو دوست اس کی اصلیت جاننے کی کوشش میں اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور آخر میں تھک کر پیچھا چھوڑ دیتے ہیں۔

کہانی بہروپیا پڑھنے کے لیے ادھر کلک کریں

بعض دفعہ کہانی سامنے کچھ بیان کررہی ہوتی ہے مگر اس کے پس منظر میں ایک بڑی کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ غلام عباس کا افسانہ آنندی اس کی مثال ہے۔ اس افسانے پر انڈیا میں فلم منڈی بنائی گئی جس میں شبانہ اعظمی اور نصیر الدین شاہ نے کام کیا۔

افسانہ آنندی پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کہانی میں اندرونی کیفیت اور کشمکش کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بیرونی منظر اور اندرونی کشمکش کو ایک ربط کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال ایک افسانہ "حلال ذہن میں ہوتا ہے" جس میں آسٹریلیا میں گریجویشن پارٹی میں شامل ایک پاکستانی طالب علم  کا اپنی اردگرد کے ماحول اور اپنے ذہنی کرب کا بیان ہے۔

افسانہ، حلال ذہن میں ہوتا ہے، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ایک اور افسانہ جو ماحول اور بیرونی منظر کو اندرونی منظر سے جوڑتا ہے،  اس کا عنوان " شہر بھی انسان ہے"۔ اس افسانے میں  ایک ڈاکٹر کے ہسپتال سے گھر جاتے سفر اور اس کے ذہن کے آتے خیالات کا ربط بیان کیا گیا۔

افسانہ، شہر بھی انسان ہے، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

لیکن ضروری نہیں ہے کہ کہانی بھی بہت گہری باتیں کی جائیں۔ اس کی مثال ایک ہلکی پھلکی کہانی "نیلام گھر میں دو نادان" ہیں۔ اس میں نیلام گھر میں سوالات میں حصہ لیتے دو نوجوانوں کی روداد بیان کی گئی ہے۔ اسے پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام سا واقعہ بھی پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی پیدا کر سکتا ہے۔

کہانی، نیلام گھر میں دو نادان، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

 اس کی ایک اور مثال تحریر " آسٹریلیا میں بکرے کی تلاش" ہے جو ایک بقرعید پر بکرے کی قربانی کی دلچسپ روداد ہے۔

کہانی، آسٹریلیا میں بکرے کی تلاش، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

افسانہ یا چھوٹی کہانی لکھنے کا فائدہ ہے کہ آپ بہت سے تجربات کر سکتے ہیں۔ لوگ مختلف اسلوب میں کہانیاں لکھ رہے ہیں، مثلاً  کہانی مکالمے کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے، اس کی مثال میں دو مکالمے پیش کرتا ہوں، جس میں کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ ایک کا عنوان "ْقصہ دو مسافراں" جبکہ دوسرے کا عنوان "عورت ہی عورت کی مددگار ہے"۔

کہانی، قصہِ دو مسافراں، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کہانی، عورت ہی عورت کی مددگار ہے، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مکالمے کی علاوہ کہانی خط کی صورت میں بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کی مثال ایک کہانی، "سرکاری فائل – پھوپھی جان کے نام خط " ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز میں محکمہ جاتی بیوروکریسی کے کام کرنے کے طریقے کو دکھایا گیا ہے۔

کہانی، سرکاری فائل - پھوپھی جان کے نام ایک خط، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

نئے ذرائع گفتگو کو استعمال کرتے ایک کہانی ای میلز کی مدد سے بیان کی گئی ہے۔ کہانی کا عنوان ہے "تین ای میلز کی کہانی" ۔ یہ ایک مزے کی کہانی ہے جس میں صرف ایک کاروبار کی یک طرف ای میلز سے کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔

کہانی، تین ای میلز کی کہانی، پڑھنے کے لیے ادھر کلک کریں

پہلے زمانوں سے لوگ شاعری میں پراثر انداز سے کہانی بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کی مثال مختلف زبانوں میں نظر آتی ہے، پنجابی میں ہیر وارث شاہ، اردو میں مثنوی سحر البیان، سندھی میں عمر ماروی اور بلوچی میں رزمیہ شاعری منظوم کہانی ہیں۔ میں نے ایک مختصر کہانی کرونا وائرس کے پس منظر میں لکھی جس کا عنوان " وائرس سکونا" ہے۔ علی افضل نے اس کا منظوم پنجابی میں ترجمہ کیا ہے جو کہ آپ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔ سو شاعری کے ذریعے بھی کہانی بیان کی جاسکتی ہے۔

مختصر کہانی، وائرس سکونا، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کہانی، وائرس سکونا، کا منظوم پنجابی ترجمہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں

مختصر کہانیاں بھی لکھی جاتی ہیں۔ تاریخ میں ملا نصیر الدین کی کہانیاں مختصر تھیں۔ اب ہزار لفظوں سے شروع ہوکر پانچ سو،  سو لفظوں اور پچاس لفظوں بلکہ اس سے بھی کم لفظوں کی کہانیاں لکھی جاری ہیں۔ انگریزی میں اسے فلاش فکشن کہتے ہیں جیسے کیمرے کی فلاش مختصر وقت کے لیے منظر کو روشن کرتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ میری ایک سو لفظوں کی کہانی جس کا عنوان " ڈر کہانی" ہے وہ پڑھ سکتے ہیں۔

سو لفظوں کی کہانی، ڈر کہانی، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

انگریزی کی ایک سو الفاظ کی کہانی، تحریر عاطف ملک

جادوئی کہانیاں تو ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں مثلاً الف لیلہ مگر اب ایک اور طرح کی کہانیاں لکھی جارہی ہیں جو عموماً حقیقی ہوتی ہیں مگر ان میں کچھ حصہ مافوق الفطرت ڈال دیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے میجیکل ریلزم کہتے ہیں۔ میں نے اس حقیقی و جادوئی ادب کے امتزاج میں کچھ تجربے کیے ہیں۔ آپ میری کہانیاں "پراسرار رات"  اور "پرانی کوٹھی" پڑھ سکتے ہیں جو میجیکل ریلزم کے علاقے میں ہیں۔

کہانی، پراسرار رات، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

کہانی، پرانی کوٹھی، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سو آج ہم نے کہانی کے بارے میں بات کی۔ کیوں کہانی لکھیں، کیا کہانی لکھنا سیکھا جاسکتا ہے اور کیسے کہانی لکھی جائے اس بابت بات ہوئی۔ ہم نے کہانیوں کی مختلف اقسام پر بھی نظر ڈالی۔ اس سلسلے میں کچھ افسانوں اور کہانیوں کی مثالیں بھی دی گئیں۔ یہ مثالیں زیادہ تر میری اپنی تحریروں کی تھیں۔ بہت سے لکھاریوں کی تحریریں بطور مثال دی جاسکتی ہیں مگر میں نے اپنی تحریروں کی مثالیں اس لیے دیں کہ میرے لیے ان تحریروں کا ربط  کہانیوں کی اقسام کے  ساتھ جوڑنا آسان تھا۔

اقسام کی فہرست بالکل بھی مکمل نہیں ہے۔ میں خود ایک طالب علم ہوں اور سفر میں ہوں۔ سوچا کہ اب تک کے سفر میں جو سیکھا ہے وہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ اگر آپ کے کوئی سوال ہوں تو کمنٹس میں لکھیے۔

لکھنا شروع کریں۔ ہمت کریں۔ بری بات ہے کہ کسی کے پاس کہانی ہو اور وہ اسے بیان نہ کرے، اُسے نہ لکھے۔

کہانی لکھیے۔ آپ کی کہانی لوگ سننا چاہتے ہیں۔


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com  

#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu

#عاطف ملک

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ