استاد ---- قسط اول

تحریر: عاطف ملک

وہ ہمارے نویں اور دسویں جماعت میں استاد تھے،  بیالوجی اور کیمسٹری پڑھاتے تھے۔ ایک پرانی سائیکل کو دھیرے دھیرے چلاتے سکول آتے۔ انہیں ہم نے کبھی سائیکل تیز چلاتے نہ دیکھا تھا بلکہ ان کی گفتگو کی رفتار بھی  ان کی سائیکل کی رفتار کی مانند نہ صرف کم تھی بلکہ اس سے ایک بیزاری کا رنگ جھلکتا تھا، گو ہمیں علم نہیں وہ بیزاری کس سے تھی، زندگی سے، نوکری سے، اپنی ذات سے یا اپنی سائیکل سے مگر کچھ تھا۔ اپنے ہی رنگ میں رہتے تھے، انہیں کسی پر غصہ کرتے نہیں دیکھا بلکہ کسی پر خوش ہوتے بھی نہ دیکھا۔ مردانہ سٹاف ممبران سے تو بیزار تھے ہی زنانہ کو بھی اسی بیزاری کی نگاہ سے دیکھتے تھے، غرض عورت مرد کی برابری کے قائل تھے۔ ہر کام آرام سے کرتے، ہمارے خیال میں تو تیزی بھی ان کے پاس سے آہستہ سے گذرتی ہوگی۔

اپنی ذہانت اور سالہا سال مضامین پڑھانے کے باعث انہیں کتابیں یاد ہوگئی تھیں۔ کلاس میں آتے، سامنے کھڑے ہوتے اور کتاب کھولے بغیر پڑھانا شروع ہوجاتے۔ آواز ایک ہی سطح پر رکھتے، چاہے کیمسٹری میں ایکشن سے چل کر ریکشن کے باعث دھماکا یا گیس کے بلبلے نکل رہے ہوتے یا بیالوجی میں عمل تولید سے نسلِ حیوانات و انسان میں اضافہ ہورہا ہوتا۔ ان کے بیانیے کی سطح ایک ہی رہتی۔  ہم سامنے بیٹھے کتاب کھولتے- ویسے کتاب ہم پڑھنے کے لیے نہیں کھولتے تھے بلکہ ان کی یادداشت چیک کرنے کے لیے کتاب دیکھتے رہتے۔ استاد کبھی موڈ میں ہوتے تو کتاب کے جملوں میں کہاں قومہ ہے وہ بھی بتلاتے۔

 ان کے رنگ کے ساتھ ساتھ کپڑوں کا رنگ بھی ایک ہی رہتا۔ قمیضیں دو تھیں جو بدل بدل کر پہنتے، مگر پتلون ہمیشہ ایک ہی  کاٹرائے کی بھورے رنگ کی تھی۔ سفر زندگی سے ان کی سائیکل کی چین اور پتلون دونوں گِھس رہے تھیں مگر بیزاری ذات نے کبھی انہیں اُن کی طرف متوجہ نہ کیا۔

ایک سوموار کے دن سکول کی صبح کی اسمبلی میں وہ کھڑے ہوئے تو لڑکوں کی قطاروں میں کُھسر پسر معمول سے کہیں اونچی تھی۔  سورج آج ضرور کہیں اور سے نکلا تھا کہ سر آج نیلے رنگ کی پتلون پہنے تھے۔

ہماری کلاس بے چینی سے ان کے پیریڈ کا انتظار کر رہی تھی۔ کلاس میں داخل ہوئے تو گرم جوشی سے پوری جماعت با آوازِ بلند انہیں مبارکباد دے رہی تھی۔

انہوں نے اپنے ٹریڈ مارک  یک صوتی لہجے میں کہا، "مبارکباد کی کوئی بات نہیں۔ یہ وہی پینٹ ہے، بس میں نے اسے رنگ کروالیا ہے"۔

زندگی میں اُن کے علاوہ کوئی ایسا نہ ملا جس نے جب دوسرا رنگ چڑھایا تو تبدیلیِ ذات کا اعلان نہ کیا ہو۔ ملمع کی چادر تان کر  اپنی بوہنی نہ کی ہو۔

اُدھر دسویں جماعت کے  لڑکوں میں سے ایک شاہ حسین پڑھتا تھا، میں رنگ سایاں دے رنگی ہاں، ہمیں سمجھ نہ آتی تھی۔ کہتا تھا کہ سمجھنے کی ضرورت نہیں، دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 


میں مندی ہاں کہ چنگی ہاں، میں صاحب تیہڈی بندی ہاں

گہلے لوک جانن دیوانی، میں رنگ سایاں دے رنگی ہاں

ساجن میرے اکھیاں وِچ وسدا، میں گلیاں پھراں تشنگی ہاں

کہے حُسین فقیرسائیں دا، میں ور چنگے دے منگی ہاں


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com  

#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu

#عاطف ملک

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ