کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟
تحریر: عاطف ملک
صبح کے دس بج رہےتھے۔ میں دفتری انتظار گاہ میں بیٹھا ، اخبارپلٹ رہا تھا۔ ایک دفتری داخل ہوا اور بتایا کہ اب آپ کی باری ہے، آپ میٹنگ روم میں تشریف لے جائیں، دائیں طرف تیسرا کمرہ ہے۔ برآمدے میں مختلف دروازے تھے ، جن کے باہر ان دفاتر کے عہدیداروں کے نام نہ تھے بلکہ عُہدوں کے نام تھے۔ اُس برآمدے میں فرد کچھ نہ تھا، منصب کی اہمیت تھی۔
تیسرے دروازے کے باہر دیوار پر میٹنگ روم کی لگی تختی اپنی جگہ پر ہلکی ٹیڑھی تھی۔میں نے دروازہ کھولا اور سلیوٹ کے لیے دایاں ہاتھ بلند کیا۔ یہ سلیوٹ بھی اُس برآمدے میں لگی عہدوں کے تختیوں کی مانند مرتبے کو تھا، فرد اس جہاں میں کچھ نہ تھا۔
کمرے کے درمیان میں ایک بڑا بیضوی میز تھا۔ میز کے لمبائی رخ پر دوسری جانب فضائیہ کے تین افسر بیٹھے تھے۔ درمیان میں بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو گروپ کیپٹن بیٹھا تھا، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا، یہ رنگ اُس کے ہوابازی کے گھنٹوں کا عکاس تھا۔ میں اس کو نہیں جانتا تھا، مگر یہ بات ظاہر تھی کہ وہ اس کمیٹی کا انچارج تھا۔
اس کے بائیں جانب ایک باریش گروپ کیپٹن بیٹھا تھا۔ اس کی داڑھی رواجی مولویوں کی طرح درمیانی تھی۔ داڑھی جس کے بال آگے کی جانب سے کسی خصاب کی کرامت سےسرخی مائل سیاہ تھے جبکہ گالوں کی جانب کرامت کو مات کرتے سخت جان سفید رنگ بال اپنی ڈھیٹ موجودگی پر ڈٹے تھے۔ اس کے ماتھے پر ایک نشان تھا، درمیان میں ہوتا تو سجدوں کا قرار پاتا ، مگر وہ نشان ما تھے کی ایک جانب تھا،مگر پھر بھی ایک مذہبی رنگ لیے تھا۔ میں اُسے جانتا تھا وہ ایر ہیڈ کوارٹر زمیں اُس شعبے کا سربراہ تھا جو انجینئرنگ کے افسران کے تبادلے اور تعیناتی کرتا ہے۔ وہ بلاتکان بولنے کا عادی تھا۔ میں نے بعض موقعوں پر اُس سے بات چیت کی تھی جس میں ساری بات اُسی نے کی تھی اور جو ہوں ہاں میری طرف سے ہوئی وہ شاید چیت کے زمرے میں آتی ہو۔ مگر اس دن وہ چُپ تھا، عادات کو بھی عہدوں کے فرق کی سمجھ ہوتی ہے۔ اُس کے سامنے دو تین فائلیں دھری تھیں۔
تیسری کرسی پر ایک ونگ کمانڈر بیٹھا تھا۔ یہ ونگ کمانڈر سائیکالوجسٹ تھا اور اس کے سامنے بھی تین فائیلوں کی تہہ تھی۔ ہم کسی زمانے میں ایک بیس پر پڑوسی رہے تھے۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو اُ س کی آنکھوں میں اُس واقفیت کا رنگ چمکا تھا، مگر یہ وقت کسی شناسائی کے اظہار کا نہ تھا۔
ہاتھ کے اشارے سے انچارج گروپ کیپٹن نے مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے کرسی کو اٹھا کر پیچھے رکھتے خیال کیا کہ اُسے گھسیٹا نہ جائے۔ کرسی کے گھسٹنے کی آواز فوجی ایوانوں میں بری سمجھی جاتی ہے، ایسے ہی جیسے کھاتے وقت برتنوں اور ان سے ٹکراتے چھری کانٹوں کی آواز ناپسندیدہ ہے۔ ٹریننگ کے آغاز میں ہی سکھایا جاتا کہ ایسے کھایا جائے کہ آواز نہ ابھرے، اور نوکر پیشہ مودب ایسے ہوں کہ ہمیشہ سر تسلیمِ خم ہی رہے، سر نہ اُٹھے کہ ٹکراؤ کا شائبہ بھی نہ آئے۔شور اور ٹکراؤ ناپسندیدہ ہیں۔
مجھے ان فائلوں کے پیٹ میں لگے کچھ کاغذات کی رنگا رنگی کا اندازہ تھا۔
ان میں کچھ انکوائریوں کی تفصیل تھی، کچھ سرکاری ناخوشی کے پروانے اور کچھ تعریفی سرٹیفکیٹ، غرض کہ خوب رنگارنگی تھی۔ ان میں فضائیہ کے وائس چیف کا ایک تعریفی خط تھا کہ جس میں بے سمجھ کی اپنے طور پر کے ٹو پہاڑ تک کی آوارگی کی تحسین تھی۔ چوٹیوں کی آوارگی میں بے سمجھ کی ایک اور آوارہ گرد سے اتفاقی ملاقا ت ہوئی جو فضائیہ کے وائس چیف کو جانتا تھا سو وہ افسر اعلٰی تک خبر لے گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ تعریفی خط کسی توقع کے بغیر یک دم آن پہنچا تھا۔
کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟
مجھے بلایا گیا تھا۔ ہیڈ کواٹرز میں ایک دفتر قائم ہوا تھا جس کا کام بے سمجھوں کو سمجھانا تھا۔ دفتر کا نام کیرئیر کونسلنگ تھا۔ سنتے تھے کہ یہ دفتر عہدوں کی قانونی بندر بانٹ کے باقی ذریعوں کی مانند ایک ذریعہ ہے۔ یہ بات دل کو لگتی تھی کہ فوجی معاشرے میں جونیئرفرد کی بے وقعتی کو جاننے کے لیے کسی آنکھ یا احساس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کبھی اوپر والوں سے ایسی بات جو شکایت کا معمولی رنگ بھی رکھتی ہو تو جواب آتا تھا کہ کوئی آپ کے گھر درخواست لے کر آیا تھا کہ آپ اس نوکری میں آئیں۔ وہ اخبارات میں اشتہارات، مختلف سلیکشن کے امتحانات ، اور متعلقہ خرچے اور سب سے بڑھ کر فرد کی کوئی اہمیت وہاں نہ تھی۔
سو کسی توقع کے بغیر بے سمجھ رسالپور سے عازم ِ سفر ہو کر دفترِ فوجی کیرئیر کونسلنگ پہنچا تھا۔
سائیکالوجسٹ نے اپنی فائیلوں کو جھاڑا اور کہانی کا آغازآئی ایس ایس بی کے امتحان کے ذکر سے کیا۔ وہ امتحان جس میں ایک تصویر دکھا کر کہانی لکھنے کو کہا جاتا ہے، جہاں نوجوانوں کا ایک گروپ بیٹھ کر کسی موضوع پر اپنی آراء کو پھینٹ رہا ہوتا ہے اور ایک ممتحن اس پھینٹ سے اُن کا رنگ نکال رہا ہوتا ہے، جہاں ایک میدان میں لٹکتے رسے پر اپنے بازوں کی طاقت سے اونچائی کے سفر کو چڑھ کر بے سمجھ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں سب کچھ بازوں کی طاقت سے ممکن ہے۔ جہاں سرگوشی ہے کہ میس میں ویٹر بھی ممتحن ہیں اور چمچے کے استعمال اور پلیٹ پر چھری کے وار سے امیدوار کی بہادری اور نسلی اطوار کی خبر نکال لاتے ہیں۔ بے سمجھ کوہاٹ کی اس امتحان گاہ کے میس کے دروازے کے باہر اونچے پھیلے درخت پر بگلوں کے گھونسلوں کی بہتات ، بگلوں کے شور اور ناشتے میں دیے جانے والے انڈوں کی کوتاہ قامتی سے نتیجہ نکال لایا تھا کہ یہ انڈے انہیں گھونسلوں سے چرائے گئے ہیں۔
سائیکالوجسٹ کے سامنے اُس امتحان کا نتیجہ تھا، کہنے لگا آپ نےآئی ایس ایس بی کا امتحان پورے ملک کے امیدواروں میں ساتویں نمبر پر پاس کیا تھا۔ بے سمجھ سوچ رہا تھا کہ اِس میں اُس کا کیا کمال تھا؟ ذہانت جو بن مانگے دی گئی تھی، محنت کا حوصلہ جو ماں کے سمجھانے اور حالات کا عملی دین تھا، آدمیت جو اُس باپ سے آئی تھی کہ جو چار دن کوہاٹ کے کسی ہوٹل میں ٹھہرا تھا کہ بیٹا امتحان دے لے تو واپس لے کر جاؤں گا۔ بے سمجھ کوہاٹ کے امرودوں کے ذائقے کے بارے میں سوچنے لگا جو امتحان کے بعد باپ بیٹے نے کھائے تھے۔
کہانی اب تربیت کے دور کو جا نکلی تھی۔ سائیکالوجسٹ کہنے لگا ، آپ کی دورِ تربیت کی کارکردگی بھی نمایاں تھی، خصوصاً تعلیمی میدان میں آپ آگے تھے اور دوڑ کے میدان میں بھی آگے رہے ۔ اُس کے بعد ملکی سطح پر مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر پی ایچ ڈی کا سکالر شپ لیا۔ تعلیمی ریکارڈ بہترین رہا ہے۔ یہ سب آپ کی ذہانت بتاتے ہیں، مگر آپ کی نوکری کے ریکارڈ میں ایسے رنگ ہیں جن پر ہمیں آپ سے آج بات کرنی ہے، یہ آپ کی بہتری کے لیے ہے۔ آپ ملک و قوم کا سرمایہ ہیں۔
بے سمجھ کو اس طریقہِ واردات کا علم تھا، اِسے سینڈوچ اپروچ
کہتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی میں طالب علموں کے
تحقیقی مقالوں ( تھیسز) پر رائے اسی طریقے
سے دیتا تھا۔ پہلے دو تین مثبت جملے، اس کے بعد منفی
تنقید اور آخر میں پھر حوصلے مند جملے؛ منفی کو درمیان میں رکھیں اور دونوں جانب
سے مثبت کی پرتوں سے ڈھانپ دیں۔
بے سمجھ کو سمجھانے کے لیے اب انجیئنرنگ کا گروپ کیپٹن میدان میں تھا۔ بات کی بُنت کے لیے اُس نے سوال کا سہارا لیا۔
اگر آپ کا آفیسر کمانڈنگ کوئی حکم دے، جو آپ سمجھتے ہیں کہ غلط ہے تو آپ کیا کریں گے؟
میں اُسے بتاؤں گا کہ یہ غلط ہے، اور وجہ بھی بتاؤں گا کہ یہ کیوں غلط ہے۔
وہ اگر نہیں مانتا تو پھر؟
میں اُسے پھر بھی بتاؤں گا کہ یہ غلط ہے اور کیوں غلط ہے۔
وہ ابھی بھی نہیں مانتا تو؟
میرا کام اُسے بتانا ہے ، وہ میں کروں گا، مگر اگر وہ تین دفعہ سمجھانے کے بعد بھی نہیں سمجھتا تو میرا کام ختم ہے، اب اُس کے حکم کے مطابق کام ہوگا، وہ آفیسر کمانڈنگ ہے۔
آپ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹوں میں یہ منفی رویہ لکھا گیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسروں سے زیادہ سمجھدار ہیں؟
بے سمجھ کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ تھی کہ اُسے علم تھا کہ اُس کا جواب فلسفیانہ ہوگا۔
ہم سب برابر کے سمجھدار ہیں۔ انسان کوباقی مخلوق پر فوقیت سمجھ اور غور پر دی گئی ہے۔ انسان کی برتری کی وجہ یہ واحد خصوصیت ہےاور یہ سمجھ سب کے پاس ہےسو سب کا درست اور غلط بھی ایک ہے۔فرق نہیں ، درست اور غلط سب کے ایک ہیں۔
تینوں افسروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اُن کے چہروں پر عجب تاثر تھے۔
اس موقع پر سائیکالوجسٹ نے بات کا سرا پکڑا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو پورے معاملے کا علم نہ ہو اور آپ کا آفیسر کمانڈنگ حالات کے تناظر میں کچھ کہہ رہا ہو جو آپ اپنے محدود علم کی بنیاد پر غلط سمجھ رہے ہوں۔
درست یا سچ اپنے آپ میں درست ہوتا ہے، کسی توجیح ، مفاد یا بیرونی اثر سے قطع نظر درست ۔ اگر عمل کی نیت میں ملاوٹ ہوجائے تو درست عمل بھی درست نہیں رہتا۔ اگر کوئی ملک و قوم کی خدمت کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اور اگر وہی کام محکمانہ ترقی کے خیال سے کرے تو بے شک عمل ایک ہی ہے مگر دوسری صورت میں درست نہیں۔
انچارج گروپ کیپٹن نے اب اپنا حصہ ڈالا، سو آپ محکمانہ ترقی کے خواہاں نہیں ہیں۔
بے سمجھ اب اُسے کیا بتاتا کہ عہدے اور رینک کبھی بھی اُسے اس سطح کی ترغیب نہ دیتے تھے کہ سب جائز سمجھا جائے، چاہے اس کا اثر ریٹائرمنٹ پر ملنے والے سرکاری پلاٹ کے سائز پر بھی ہو۔
میں ترقی کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرنے کو درست نہیں جانتا۔ ویسے میری سوچ کچھ اور ہے۔ چلیے میں آپ کو ایک اور طریقے سے بتاتا ہوں۔ میں شاعر بھی ہوں ۔ ابھی ایک نظم لکھی ہے۔ اگر اجازت ہو تو آپ کو اِس کا ایک بند سناتا ہوں،اس سے بات واضح ہو جائے گی۔
تینوں افسران نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ انچارج گروپ کیپٹن نے کہا، سنائیے۔
بے سمجھ نے دونوں بازو میز پر دھرے، ذہن میں دو ہفتے قبل لکھی نظم کو لایا اور کہا ۔
نظم کا عنوان ہے ، سوال۔
آرزو و عطا کے بیچ میں
خواب و تعبیر کے درمیاں
عمل و جزا کے سفر میں
تدبیر و تقدیر کے دوش پر
آدمی کی کیا حقیقت ہے
یکا یک انچارج گروپ کیپٹن کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا۔
بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو گروپ کیپٹن ، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا، اس کے چہرے کا رنگ کچھ اور سرخ ہوگیا تھا۔ اُس نے ہاتھ اٹھایا اور اونچی آواز میں کہا، یہ انٹرویو سرکاری طور پر یہیں ختم ہے، مگر ہم اس سکواڈرن لیڈر سے مزید باتیں سُنیں گے۔
اس کی آواز میں تھرتھراہٹ محسوس کی جاسکتی تھی۔ اُس لمحےوہ میٹنگ روم جس کے باہر لگی تختی ہلکی ٹیڑھی تھی، اُس کے اندر سب اُلٹ ہوچکا تھا۔ شکاری خود شکار تھا، بے سمجھ سمجھدار گردانا گیا تھا، کہانی سنانے والے کہانی سننے کے متمنی تھے۔
اب بے سمجھ انہیں کیا سمجھاتا؟
بے سمجھ کو عقلمندوں نے سمجھایا تھا کہ اگر سالانہ رپورٹس اچھی لینی ہیں تو اپنے تحقیقی مقالوں میں صدرِ شعبہ کا نام شامل کرلے۔ بے سمجھ نے اپنی زندگی کی غلطیوں سے بہت کُچھ تو نہیں مگر ایک طاقتور سبق ضرور سیکھا تھا کہ شرمندگیوں میں سب سے تکلیف دہ خود سے شرمندہ ہونا ہے ۔ دوسروں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے، خود کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ شعبدہ باز ٹوپی سے کبوتر نکال سکتا ہے، بچہ لوگوں سے تالیاں بجواسکتاہے۔ یہ بچہ لوگ کوئی بھی ہوسکتے ہیں، عام تماشبینوں سے لے کر صدر ِشعبہ تک،ٹوپی اور کبوتر بے خبر بھی ہوں مگر شعبدہ باز جانتا ہے کہ شعبدہ کیا ہے؟ شعبدے کا مقصد عبدہ کے مقام سے بھی گراسکتا ہے، چاہے عبدل کے نام کے ساتھ معبود کے سو ناموں میں سے کوئی بھی جوڑ رکھا ہو۔ بے سمجھ جانتا تھا کہ ایسی بازی گری اونچائی کے مقام پر بے شک لے جائے، دوسروں کی نظروں میں معتبر بھی ٹھہرا دے مگر آپ اپنی نظروں میں گر گئے، تو مقام ِ اوج اصل میں ایک بوجھ ہے۔
بے سمجھ جانتا تھا کہ سب سے تکلیف دہ خود سے شرمندہ ہونا ہے۔
بے سمجھ اندھا دھند بھاگنے کا قائل نہیں تھا بلکہ وہ تیز بھاگنے کا بھی قائل نہ تھا۔ زندگی اُس کے لیے سو میٹر کی تیز رفتار دوڑ نہ تھی۔ زندگی کو اُس نے لمبی میراتھون دوڑ جانا تھا؛ سکون، حوصلے، صبر ، مستقل مزاجی سے قدم اٹھاتے، دوڑتے چلے جانا۔ دوڑ ضروری ہے مگر جب دوسرے آگے نکل رہے ہوں تو بھی حوصلہ مند رہنا، جب دوسروں سے آگے نکل رہے ہو تو بھی زمین پر نظر رکھناکہ اپنے زور کا دعوی بے معنی ہے، عطا ہی متن ہے، بخشش ہی مفہوم ہے، دَیا ہی بامعنی ہے۔
بے سمجھ نے تینوں منتظر چہروں کی جانب دیکھا، بے سمجھ انہیں کیا سمجھاتا۔
بے سمجھ نے سوچا میں انہیں کیا سمجھاؤں۔ مگر کچھ تو اُس نے کہنا تھا سو دھاگے کا سرا ایک جانب سے پکڑا،کہنے لگا کہ شاید زندگی میں سب کا اوسط برابر ہے، سو تقابل میں نہ پڑیں، راضی رہیئے راضی رہیں گے۔زندگی میں بعض اوقات بڑی محنت، کاوش، راتیں جاگنے کے باوجود، خون پسینے کے بعد بھی منزل نہیں ملتی، ہاتھ میں آکر ریت کی مانند پھسل جاتی ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ کمند وہاں پر پہنچ کر ٹوٹے جہاں سے کچھ ہاتھ بام رہ گیا ہو ۔ یہ اتفاق نہیں ہے، یہ ایسا ہی ہونا تھا۔ ضروری ہے کہ جان لیجیئے کہ محنت فرض ہے ، منزل فرض نہیں۔
مانتا ہوں کہ کمر توڑ کوشش کے باوجود منزل کھو دینا اور اس کے بعد بھی راضی رہنا آسان نہیں، مگر دوسری جانب اپنی زندگی پر نظر ڈالیے ۔ کئی دفعہ بن مانگے، بنا کوشش کے مل جاتا ہے، وہ کچھ مل جاتا ہے جس کے لیے کوئی دوسرا دن رات لگا رہا ، اُس نے انتھک محنت کی اور اِدھر یہ آپ کی جھولی میں ایسے ہی آن گرا، بنا کچھ کیے، معمولی کوشش سے، نشانہ خود اُڑ کر تیر کو آن لگتا ہے۔ انفرادی زندگی کی اوسط نکالیے، کچھ بنا مانگے عطا ہوگیا، کچھ جان توڑ کوشش پرملا اور کچھ تما م جتن کرنے کے بعد بھی نہ ملا۔ اوسط نکالیے، میں پڑھتا اور پڑھاتا ہوں، سمجھتا ہوں کہ زندگی کا اوسط ایسا ہے کہ گریڈ پاس کا ہے۔
انفرادی سے اب اجتمائی جانب پر آئیے۔بخدا، میں کسی سے اپنی زندگی بدلنے کو تیار نہیں، کسی بڑے عہدیدار، کسی ایر مارشل، کسی بھاگتے گھوڑے، کسی سے بھی نہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ، یہ آپ کے سامنے دھری فائیلوں میں لکھی رپورٹوں سے علیحدہ، اپنی تمام خامیوں اور خوبیوں، اپنی تمام ناکامیوں اور کامیابیوں کے ساتھ میں اپنی ذات میں منفرد ہوں۔ اس کائنات میں مجھ جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ میں الگ ہوں، جدا، مختلف، سب سے فرق ہوں۔ایسے میں کسی اور سے دنیاوی لحاظ سے اپنے آپ کو اگر میں کمتر جانوں گا، تو میں واقعی کمتر ہوں گا ۔ اس کی وجہ اصل میں میرا کمتر ہونا نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ میں اپنے خالق کو سمجھنے سے قاصر رہا، اُس خالق کو جس کا ہر فن پارہ جدا ہے۔ یہ ادنٰی سوچ مجھے حقیر بنانے کا سبب ہوگی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اجتماعی سطح پر بھی مقابلہ کرکے دیکھ لیں، اوسط تقریباً ایک ہی پائیں گے۔ کسی کے پاس دولت ، عہدہ ہے تو کچھ منفی بھی ساتھ جڑا ہے، کوئی بیماری، کوئی بد نصیبی ، کوئی جدائی، کچھ دکھ ، کچھ لپٹا پائیں گے۔ سب کو اکٹھا کریں، ایک ایک کی اوسط نکالیے، اوسط کو تقریباً ایک سا پائیں گے۔
بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو گروپ کیپٹن ، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا، اُس نے سر کے بالوں کو ہاتھ سے بائیں سے دائیں جانب کرتے کہا، تمہاری فائیلیں یہ خیالات بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ اچھا ہوا کہ تم سے ملاقات ہوگئی۔زندگی کو ایسے دیکھنے والے اور بھی ہوں گے ، مگر تم بات بھی کرنا جانتے ہو۔ مزید کچھ بتاؤ۔
بے سمجھ نے سوچا میں انہیں کیا بتاؤں؟
کہنے لگا ، یہ جاننا کہ محنت فرض ہے منزل فرض نہیں ، عمل کو غرض کی ہتھکڑی سے آزاد کردیتا ہے۔ ایسی آزادی سے بڑھ کر کیا آزادی ہو سکتی ہے۔
ایک اور بات ہے کہ اگر راضی ہو جائیں گے تو راضی رہیں گے۔
آپ کو میں ایک قصہ سناتا ہوں۔ یہ میرے ایک دوست کی کہانی ہے جو خود اُس نے مجھے سنائی ۔ وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا، ایف ایس سی میں بورڈ میں اول آیا۔ لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کرنے کے بعد سکالر شپ پر ماسٹرز کرنے کنگ فہد یونیورسٹی سعودی عرب چلا گیا۔ ایک دن وہاں ڈیپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ پر ایک اشتہار لگا دیکھا کہ مشہور آئل و گیس کمپنی شلمبرجیر کو فریش الیکٹریکل انجینئرز کی ضرورت ہے۔ اشتہار میں تنخواہ ڈالروں میں درج تھی۔ اُس نے جب ان ڈالروں کو پاکستانی روپوں کے ریٹ سے ضرب دی تو ایک ضرب اُسے بھی لگی۔ نوکری کی ابتداء میں ہی اتنے پیسے بھی مل سکتے ہیں، ریاضی میں خود باکمال ہونے کے باوجود یہ تو اس کی سوچ کے کسی حساب میں نہ تھا۔ اُس نے سوچا، پڑھائی چھوڑو، شلمبرجیر کی نوکری کرتے ہیں۔نوکری کی درخواست جمع کروائی اور ہر ہفتہ واری چھٹی پر مکے چلا جاتا، کعبہ کا طواف کرتا جاتا اور کہتا جاتا، یا اللہ شلمبرجیر کی نوکری دے دے، یا اللہ شلمبرجیر کی نوکری دے دے۔
ایک ساتھی طالب علم نے اُس کی یہ دیوانگی دیکھی تو سمجھایا کہ ایسا نہیں کرتے۔ رب کو بتاتے نہیں ہیں، رب کی مانتے ہیں۔ مگر دیوانہ کہاں سمجھتا تھا۔ اُس کے مکے کے سفر جاری تھے اور طواف ِکعبہ میں دعا شلمبرجیر کی نوکری کی استدعا تھی۔ سمجھانے والا سمجھاتا رہا کہ ایسا نہ کر، مان لے کہ ماننے میں عافیت ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ وہ شلمبرجیر کی نوکری منوانے میں لگا رہا۔
آخر شلمبرجیر کی نوکری کا پروانہ آگیا۔ تربیت کا مقام مصر کے ایک صحرا میں واقع تیل کا کنواں ٹھہرا۔ صحرا، دنیا اور تہذیب و تمدن سے دور، شدید درجہ حرارت، تنہائی، نہ کوئی ہم زبان ، نہ کوئی راز دان، پہنچنا ہو تو کمپنی کی ٹرانسپورٹ کے علاوہ نہ پہنچ پائیں، خط آئے تو کہیں راہ میں ہی گم ہو جائے۔ انچارج جو تربیت کا ذمہ دار ٹھہرا تھا ، وہ پرلے درجے کا بدتمیز تھا۔ تربیت میں کام کی نوعیت بھی متعین نہ تھی، انجینئرنگ کے کام سے الگ کہیں کوئی داغ دھبہ بھی ہوتا تو زیرِ تربیت انجنیئر ٹاکیاں لیے فرش مانجھ رہا ہوتا، اور تیل کے کنویں میں تیل کے داغ تو جابجا بکھر ے ہوتے ہیں۔ انچارج کو کہا کہ واللہ ، یہ صفائی کا کام تو اشتہار میں لکھے کام کی تفصیل میں کہیں نہیں تھا۔ اُس نے کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس صحرا میں کوئی اور بھی ہے؟ میں ہی یہاں خدا ہوں اور جو میں کہوں وہی صحیفہ ہے۔ تم ، میرے لیے انجینئر نہیں بلکہ خاکروب کی مانند ہو، اُٹھو اُس مشین کو ایسے صاف کرو کہ تیل کا نشان بھی باقی نہ رہے۔
وہ جو شلمبرجیر کی نوکری منوانے میں لگا رہا تھا اور کسی دوسرے کے سمجھانے میں نہ آتا تھا، یک دم اُس پر سمجھ کے دروازے کھل گئے ۔ اُس نے سوچا سمجھ کے نزول کے لیے تنہائی اور صحرا ضروری ہے۔ گیان آبادی میں نہیں ملتا اس کے لیے جنگلوں، صحراؤں ،بیابانوں کا رخ کرنا پڑتا ہےیا پھر ذات میں صحرا اتر ے تو سمجھ کے بے کواڑ دروازے کُھلتےہیں۔
وہ جو شلمبرجیر کی نوکری منوانے میں لگا رہا تھا اور کسی دوسرے کے سمجھانے میں نہ آتا تھا، اس نے ایک ماہ بعد ڈالروں سے بھری نوکری سے استعفی دیا اور اپنی چادر میں صحرا سے سیکھا زندگی کا سبق کس کر باندھ لیا ؛ راضی ہو جاؤ، راضی رہو گے۔
بے سمجھ کو دیوانگی سے دانائی کے مسافر نے یہ قصہ سنایا تو اُس نے دانا سےپوچھا ، اگر راہِ سمجھ میں بے کواڑ دروازے ہیں تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟
جواب آیا، بصارت کا مسلہ ہے، غرض کا پردہ آنکھوں پر ہو تو سمجھ بھی پردہ کرلیتی ہے۔
انچارج گروپ کیپٹن نے بے سمجھ سے کہا، وقت ختم ہوتا ہے کہ قطار میں اگلا منتظر ہے، جسے ہم نے سمجھانا ہے۔ مگر تمھارا شکریہ، تم نے ہمیں الگ منظر دکھایا ہے۔ گروپ کیپٹن نے بے سمجھ کی جانب مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ بے سمجھ سلیوٹ کرنے کے بعد کمرہ چھوڑتے اس اتفاقی ملاقات کا سوچ رہا تھا جو بغیر ہاتھ ملائے شروع ہوئی اور ایک گرم جوش مصافحے پر ختم ہوئی ۔
واپس پہنچا ،کسی نے قصہ سنا تو پوچھا، کیا تو اُس بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو گروپ کیپٹن ، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا، اُسے جانتا ہے؟
بے سمجھ اُسے نہیں جانتا تھا۔بتانے والے نے بتایا کہ اُسے جانے بغیر تیرا قصہ نامکمل رہتا ہے۔ وہ فائٹر پائلٹ، شمشیر اعزازی اور بیسٹ پائلٹ ٹرافی کا حامل، تمام فوجی کورسوں میں پہلی پوزیشن لینے والا، ایک فائٹر بیس کے ہوابازی کے شعبے کا آفیسر کمانڈنگ ( او سی فلائنگ) تھا غرض سرکاری دوڑ میں سب سے آگے تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ مستقبل میں وہ فضائیہ کا سربراہ یا کم ازکم ایرمارشل کے عہدے تک تو ضرور پہنچے گا۔
مگر مستقبل کس نے دیکھا ہے۔ ایک شام اُسے دل کا دورہ پڑ گیا، اور اگلی صبح سے وہ جو سب کچھ تھا یک دم کچھ بھی نہ رہا۔ خواب اور تعبیر کے درمیان میں کوشش سے بڑھ کر کچھ تھا ۔
بے سمجھ کو گرم جوش مصافحے کی وجہ سمجھ آگئی۔
چند سال گذر گئے۔ بے سمجھ کو نوکری کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ سمجھ نہ آئے تو علیحدگی حل ہے۔ آسمان کھلا تھا ، مگر فقط ذوق پرواز ہے زندگی کے پروردہ پنجرے سے آزادی دینے کے قائل نہ تھے۔ وہی جو کہتے تھے کہ کیا کوئی آپ کو گھر سے بلا کر لایا تھا؟خداحافظ کہنے کے بعد بھی روک رکھے تھے۔
وقت کا بہاؤ بالآخر پیغام لایا کہ سال بعد پرواز کی اجازت ہوگی۔ بے سمجھ نے نئے سفر کے لیے پر کسے، ایسے میں ایک نئے دیس سے پروانہ آیا کہ تیرے جیسے بے سمجھوں کو لیتے ہیں کہ ہمارے طالب علموں کو کچھ سمجھا دے ، مگر پہلے اپنی حالیہ منکوحہ نوکری سے پرانہِ آزادی لے کر بھیج۔ سو درخواست دفتر کی کہ اب جو جانا ٹھہر چکا ہے سو پروانہ تصدیقِ بےعذری (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ) مرحمت فرمائیں کہ اگلی تلاش پر اعتراض نہیں۔
دو تین ماہ گذر گئے، عجب گومگو ں کا عالم تھا، پوچھو تو کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ ایک سینئر سے ملاقات ہوئی جو ایسی ہی کشتی کا سوار تھا، اور سال سے سرٹیفکیٹ کے انتظار میں تھا۔ کہنے لگا کہ قوائد تو کہتے ہیں کہ جانے سے ایک سال قبل پروانہ تصدیقِ بےعذری جاری کیا جائے گا مگر یہ قوائد بھی سرکاری فوائد کی مانند عمل درآمد کے لیے عہدے اور رینک کے تابع ہیں۔
ادھر دور دیس سے پیغام آیا کہ سرٹیفکیٹ دیجیئے، انتظار کی حد پہنچ رہی ہے۔ وقت کی کمی تھی سو بے سمجھ ایک دن ہیڈ کواٹرز جا پہنچا۔ اُس دفتر پہنچا جس نے یہ سرٹیفکیٹ دینا تھا۔ انچارج کے متعلق پوچھا کہ کون ہیں؟ بتایا گیا کہ انچارج ایرکموڈورتو بیرونِ ملک گئے ہیں مگر ان کی جگہ ایک دوسرے ایرکموڈور معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
بے سمجھ پی اے کے دفتر گیا اور کہاکہ صاحب سے ملاقات چاہتا ہوں۔ اُس نے اندر بے سمجھ کا بتایا کہ ملنا چاہتا ہے۔ کہا گیا کہ بھیج دو۔
بے سمجھ دفتر میں داخل ہواتو سامنے ایک بھاری بھرکم ،سرخ وسپید ، کلین شیو ایرکموڈور بیٹھا تھا، جس کے یونیفارم پر لگے پائلٹ کے پر کا نشان سرخ تھا ، وہی چند سال قبل کا گروپ کیپٹن جس کے مصافحے میں گرم جوشی تھی۔
اگلے دن پروانہ تصدیقِ بےعذری بے سمجھ کے ہاتھ میں تھا اور زندگی کے ایک نئے باب کے دروازے کُھل رہے تھے۔
کیا اتفاق تھا
کہ جو صدرِشعبہ اپنے طور پر بے
سمجھ کا نقصان کررہا تھا، نہیں جانتا تھا
کہ وہ اصل میں فائدہ کررہا ہے۔
اُس لمحے بے سمجھ کو اپنی سالہا سال پہلے لکھی نظم کا بند پڑھتے خیال آیا۔
کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟ واقعی؟
Comments
Post a Comment