اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٘مضموں کی تیسری قسط

اس مضمون کی دوسری قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔

پاکستان ہجرت کے بعد اماں کےوالدین کو جڑانوالہ کے قریب  ایک گاوں میں زمین ملی اوروہ وہاں آباد ہو گئے۔ مگرابھی زندگی رواں بھی نہ ہوئی تھی کہ اگلا 
دکھ بھاگا آیا۔  گاوں میں کسی معمولی بات پررشتہ دار لڑ پڑے، ایک شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب یہ تھانہ کچہری کا معاملہ چل پڑا۔ غریب لوگ لٹ پٹ کے آئے تھےمگر انا پرستی، عدم برداشت اور عزت کے ایک سراب کے زیرِاثر اپنی ہی جان کے درپے ہوگئے۔ مقدمہ چل رہا تھے، دونوں فریقوں کے مرد حوالات  میں تھے۔ ایسے میں فریقِ مخالف کی کسی عورت نے اماں سے چھوٹے بھائی اوراس سے چھوٹی بہن کو زہرآلود مکئی کی چھلی دے دی۔  دونوں معصوم کہاں دشمنی کی بات جانتے تھے، دونوں زہرکا شکارہوکرمر گئے۔ اماں کبھی اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو نہ بھولیں۔ اُماں اوراُنکے بھائی ہیرے میں دو  یا تین سال کا فرق تھا-  کبھی کبھی اماں بھائی کو یاد کرتیں تو کہتیں آج ہیرا زندہ ہوتا تو اتنے سال کا ہوتا۔ انکے لہجے میں ایک تاسف ہوتا، ایک دکھ۔ ایک بہن کا دکھ جو کوئی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی سوچتی کہ کاش وہ کسی طرح اپنے ہیرے کو بچا لیتی۔ میں اُنکا چہرہ دیکھتا اورچپ سوچتا کہ انسان کی پتھر دلی نے کتنے ہیرے مٹی میں رول دیے۔  

اب دشمنی کی ماہیت  بدل گئی تھی ، نسلیں ختم کردینے کے ارادے تھے۔  ایسے میں  اماں کے والدین نے گاوں  چھوڑ دینے  کا فیصلہ کیا۔  ایک ہجرت کے بعد  یہ دوسری ہجرت تھی۔ جڑانوالہ  سے اب  یہ اندرون سندھ کی جانب نقل مکانی تھی۔   اوراس سفر میں ایک بچی تھی، قسمت کے ہاتھوں ایک صعوبت سے نکل  کر دوسرے امتحان کی جانب جاتی۔ اندرون  سندھ میں رزق ڈھونڈتے یہ خاندان مختلف قصبات سے ہوتا  بلآخر  نواب شاہ تحصیل کے ایک قصبے ٹنڈوآدم  میں جاکر سکونت پذیرہوا۔

میرے ذہن میں ٹنڈو آدم کی اولین یاد میرے نانا کی چارے کی دکان ہے، ایک جانب ایک کتر مشین تھی جسے میں ایک جانب سے مکئی کے سبز پودے ڈالے جاتے تھے اور کتر مشین کے گول پہیے کے ہینڈل کو گھمایا جاتا تھا تو دوسری جانب سے کٹا ہوا سبز چارہ نکلتا تھا- اسے کپڑے کی چادریا بوری میں ڈال کر گدھا گاڑی والے لے جاتے تھے۔ اکثر اونٹ والے بھی آتے، اونٹ کو دکان کی ایک سائیڈ پر  بٹھاتے اور چارا باندھ کر اونٹ پر لادتے اور چل پڑتے۔ میری فرمائش اور نانا کی سفارش پر اکثر مجھے گدھے اور اونٹ کی سیر کو موقع مل جاتا ، ورنہ میں دکان کے کونے میں پڑے مکئی کے پودوں میں سے کوئی نرم چھلی ڈھونڈتا رہتا ۔ ان پودوں کے تنے میں ایک نرم گِلی بھی ہوتی جسےدانتوں میں رکھ کر دبائیں تو رس چھوڑتی ، وہ مل جاتی تو پنجاب سے آیا یہ بچہ بہت خوش ہو جاتا۔ زندگی میں بہت کچھ پایا ؛ انعام ، فتح ، کامیابی، جیت۔ بعض کے لیے بہت محنت کرنا پڑی، بعض بخشش کے طور پرخود بخود جھولی میں آن پڑا۔ ہنسے، خوشی منائی، ناچے، مبارکبادیں وصول کیں۔ مگروہ مکئی کے پودے سے ڈھونڈ کے پانے والی ڈلی کی خوشی کچھ عجب تھی۔ کسی کامیابی نے ویسی مسرت نہ دی۔ عرصے بعد یہ سمجھ آئی کہ جب آپکی زندگی کا کینوس محدود ہوتا ہے، تو برش کا ایک ہاتھ ہی آپ کو مکمل گل رنگ کر جاتا ہے۔

زندگی بھی کیا کتر مشین ہے ، لمبے تڑنگے بانکے ادھیڑ کر ریزہ ریزہ کر دیے۔ وہ جو کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، زندگی کے پہیے کی زد میں آئے تو کٹے چارے کی مانند ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے- مگراُن میں وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنا اندر سبز رکھا کہ کسی کے کام آتے رہے۔ اماں آخری وقت تک خدمت کی بدولت سرسبز تھیں، آخری وقت تک مجھے اُن کے پاس آکر وہی خوشی کا احساس ہوتا تھا جو بچپن میں سبز چارے سے رس بھرے ٹکڑے کے ملنےسے ہوتا تھا۔
 ساتھ والی دکان آٹا چکی کی تھی ۔ ایک مشین جسے جب آن کیا جاتا تو  خوب شور ہوتا ، پٹے چلنے لگ جاتے۔ مشین پر ایک جانب  بہت بڑا  ٹین کا بنا چوکور  سا ڈبہ  ہوتا  جس میں گندم کے دانے ڈال دیے جاتے اور  مشین کے ایک اور  جانب ٹین کی ہی بنی ایک تنگ ہوتی چوڑائی سے سفید آٹا  نکلتا  ۔پھرتی سے اِس کے نیچے  بوری لگائی جاتی  جس کو بھرتے ہی تیزی سے دوسری بوری سے تبدیل کر دیا  جاتا۔ چکی پرکام کرنیوالوں کے کپڑے، بال، چہرے سب آٹے سے سفید ہوئے ہوتے اور تمام فضا  گرم تا زہ  آٹے کی خوشبو دے رہی ہوتی  ایک سوندھی خوشبو۔ مجھے یہ کام کرنے والے ہمیشہ سفید روحیں لگتیں۔ سفید شلوارقمیص، سر پرسفید کپڑا باندھے محنت کش۔  گندم کوئی اتنا سستا سودا بھی نہ تھا کہ جس کے لیے جنت چھوڑی گئی۔

آٹےکی خوشبو کا مقابلہ صرف  بارش کی خوشبو کرتی ہے، وہ جب کوری زمین پر  بارش کے قطرے گرتے ہیں تو وہ خام خوشبو اٹھتی ہے کہ اعلی بنائے گئے پرفیوم بھی اُس کے آگے کوئی حیثیت  نہیں رکھتے۔ گرم آٹے کی خوشبو ہویا  مٹی کی،  دونوں خام ہیں، خالص، بغیرکسی ملاوٹ کے، کسی سنگھار کے بغیر، کسی دکھاوے کی  بیساکھیوں  کےبغیر۔  ٹنڈوآدم  میرے لیے ہمیشہ ایسے ہی خالص رہا، کورا، مٹی کی بنی صراحی کی مانند جس کا پانی عجب مسرت دیتا ہے،ٹھنڈا  ، میٹھا، مٹی کی خوشبو  لیے۔  پی لینے کے بعد خصوصاً  شکر  کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حلق سے نیچے جاتا پانی ہی جسم کے رواں رواں کوشکرمیں مصروف کرجاتا، بن کہے، کسی عقلی تقاضےسے ماورا ۔ احساس کے معنی محسوس کرنے ہوں توکسی صراحی کا ٹھنڈا  پانی پی کردیکھیں ۔

تیسری قسط
اس مضمون کی چوتھی قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ