اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مضموں کی دوسری قسط

اس مضمون کی پہلی قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔

اماں نے اپنے شہید بیٹے کے نام پر ہسپتا ل بنانا شروع کیا۔  یہ عجب بات تھی، بیٹے ماوں کے نام پر یادگاریں بناتےہیں، یہ تو اُلٹ معاملہ تھا۔ مگر اماں  کہاں
 عام عورت تھیں وہ  خاص عورت تھیں۔ اور جب اماں نے یہ کام شروع کیا تو اُن کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دو دن قبل ہی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں تو اُن کی عمر شاید تین چار سال زیادہ ہی ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلےآپ گورداسپور کے ایک گاوں میں پیدا ہوئِیں۔ اُس وقت کون پیدائش کی تاریخ کا خیال رکھتا  تھا اورماں جی تو بہت عرصہ بعد سکول داخل ہوئیں۔ خیال ہے کہ اُس وقت استاد نے جو دل چاہا تاریخ ڈال دی ہوگی۔

ماں جی پا کستان بننے سے قبل گورداسپور کےایک گاوں میں پیدا ہوئیں- آپ کے ماں باپ دونوں ان پڑھ تھے۔ شاید  تین چار  سال کی عمر  کی  ہوں گی  کہ  اُن پر پہلا  دکھ آیا۔ شام کو جلتے دیے کے ساتھ  کھیل رہی تھیں کہ دوپٹے اور کپڑوں  کو آگ  لگ گئی۔ گاوں  میں کوئی نیم حکیم تھا جس نے علاج خراب کر دیا۔ اماں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ حکیم نے چونے کا لیپ کر دیا تھا۔ چونے کے پانی سے لوگ جلے کا دیسی علاج کرتے ہیں، مگر حکیم شاید جانتا نہ تھا۔ نتیجتاً اماں کے چہرے پر بچپن سے ہی جلنے کے مستقل نشان پڑ گئے تھے اور اس سے بڑھ کے اُن کے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ضائع ہوگئی۔  بچپن میں جب میں نے ہوش سنبھالا تواماں کے ہاتھوں کو دیکھتا اوراپنے ہاتھوں کو دیکھتا تو سمجھ نہ آتی، بہت عرصہ لگا ایک ننھے ذہن کو  اس معمے کو  سمجھنے میں، اور پھراِس معمے کی جگہ ایک خاموش درد نے لے لی۔ 

اماں  آٹھ نو سال کی ہونگی  کہ 1947  کے ہجرت کے خون آلود سفر سے گذریں ۔ گورداسپورابتدائی اعلان اور نقشے کی رو سے پاکستان کا حصہ تھا سو وہاں کےمسلمان باسی مطمن تھے۔ مگرعین وقت پراُسے بھارت کا حصہ بنادیا گیا اورقتل وغارت کا ایک بازار گرم ہوا۔  بے سروسامانی کی حالت میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑکرجان بچانے کو نکلے۔  وہ جگہ جہاں آپ کے بزرگوں کی قبریں ہوں، جہاں کی ہوا میں آپ کے بچپن اورجوانی کی یادوں کی آمیزش ہو، جن گھروں کی تعمیرآپ کے بزرگوں نے اپنا  پیٹ کاٹ کرکی ہو، وہ آ پکی پشتی زمین جس نے آپکے پرکھوں کواناج دیا ہو، جس کا کونہ کونہ آپ کے بزرگوں کی محنت سے مہکا ہو، جہاں اُن کا خون پسینہ گرا ہو۔ وہ چھوڑنا کہاں آسان ہے ۔ کسان کے لیے تو زمیں ماں کی مانند ہے کہ وہ اُسے پالتی ہے، اپنی کوکھ  سے رزق دیتی ہے اور پالے جانور کسان کو اولاد کی مثل ہوتے ہیں۔ اوران سب کو چھوڑنا، ہمیشہ کے لیے چھوڑنا، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔  کیا کوئی لفظ اس دکھ کو بیان کرسکتا  ہے۔ الفاظ  کا دامن خالی ہے، بے معنی، کسی نہ کام کا، بے یار و مددگار۔ یہ دکھ الفاظ کی استطاعت سےکہیں آگے کا ہے۔ اماں آٹھ نو سال کی ہوں گی کہ یہ دکھ آن پہنچا۔ 

اماں نے پیدل قافلے کے ساتھ  دریائے راوی پارکیا اورپاکستان میں داخل ہوئیں۔ یہ  سفر خوف کے سائے تلے تھا؛  سکھوں کے نہتے قافلوں پر حملے، جا بجا بکھری لاشیں،  لاشیں نوچتے گدھ  اورایک آٹھ نو سال کی بچی غیر یقینی مستقبل کی راہ پر۔  اماں کے ذہن میں یہ سفر نقش تھا۔ اُس بچی کو یوں یاد  پڑتا تھا  کہ وہ  لٹے پٹے قافلے کے ساتھ لاہورکی مال روڈ یا ملتی جلتی روڈ سے ننگے پیرگذری تھی تواُس کے پیریوں جلے تھے کہ مال روڈ سے گذرتے یخ بستہ کار میں بھی اماں گبھرا کر پاوں جوتوں سے نکال کر سیٹ پر رکھ  لیتی تھیں۔

 اماں مرتے دم تک اپنے گاوں کو نہ بھولیں، انکی باتوں میں گورداسپور، کلانور، ڈھیسیاں کا ذکرآتا رہتا۔ کبھی اماں اور  انکے ہم عمراکٹھے ہوتے تو چھوڑ آئے گاوں کے درختوں، مکانوں، حویلیوں، گلیوں، نہروں کا ذکر ہوتا۔ ایسے میں اُنکی آ نکھوں میں عجب اداسی ہوتی، اُ نکی آنکھوں میں ایک نہ نظر آ تی نمی ہوتی۔ یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ وہ پودے جنہیں اپنی زمین سے اکھاڑ کرنئی زمین میں لگا دیا گیا۔ وہ اس نئی زمین میں جڑپکڑ تو گئے مگر پرانی زمین کی باس، اُس کی خوشبو وہ کبھی نہ بھلا  پائے۔ یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ اماں نے اس غم کو پاکستان سےگہری محبت میں بدل لیا۔ اماں نےہمیں بتلایا کہ اس ملک کی کیا اہمیت ہے، اس کےحصول  کے لیے کیا قیمت ادا  کی گئی ہے۔  ہم سالہا سال لاہورمیں رہے۔ یہ دور انڈین فلموں اوردوردرشن کی مقبولیت کا تھا مگر ہمارے گھر میں کبھی ٹی وی پرانڈین چینل نہ لگا۔  ہمارے گھر کی چھت  پر لگے انٹینا  کا رخ ہمیشہ پاکستان کی طرف ہی رہا۔ 
دوسری قسط
 
 اس مضمون کی تیسری قسط درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔





Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر