موچی دروازہ اور پانی


آج پتہ لگا کہ موچی دروازے لاہورمیں ایک جلسہ کو پانی سے فیضیاب کیا گیا ہے، مقصد  کچھ بھی ہومیدان بھی خوش ہوگا کہ پیاسے کو پانی تو ملا۔ اوراس موقع پرتو پانی خود چل کر پیاسے کےپاس آیا اورشاید فائربریگیڈ کےسرخ رنگ کی گاڑیوں پر لد کرآیا۔ وہ گاڑیاں بھی خوش ہوئیں کہ اسی بہانے ان کے ٹینکرزکی لیکچ کا پتہ بھی لگ گیا۔ پنجاب آئے مہمانوں کی آو بھگت بھی ہوئی، روایتی مہمان نوازی کے طور پر پانی پوچھا نہیں گیا بلکہ دیا گیا ۔ پانی کی بات ہو تو سب سے پہلے حکیم الامت علامہ اقبال کا شعر اپریل کے ماہ کی مناسبت سے یاد آتا ہے۔

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

پھراردو دانوں کی بات یاد آتی ہے کہ آنکھوں کا پانی مر گیا  ۔ موچی دروازے میں تو پانی بہت تھا ورنہ تو  کئی عزت دار زیادہ نہیں چلو بھر پانی کو ہی بہت سمجھتے ہیں۔ 

خیالِ اغلب ہے کہ ڈوب مرنے کا مقام ڈھونڈنا بھی اب مشکل ہے، کیونکہ بھارت کے دریاوں پر بند باندھ لینے کے بعد وہ ذمہ داران جو سوئے رہے، کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہنے پر مجبورہیں کیونکہ ڈوب مرنےکے لیے پانی سے بھرا مناسب مقام ہی نہیں ملتا۔

پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا  ہے، مگر اب بھی وقت  ہے کہ باقی کو سنبھال لیں اور خود بھی سنبھل جائیں۔ اور آنکھیں خشک ہیں، اس عورت آمنہ جنجوعہ کی بات سن کر بھی خشک جو ۲۰۰۵ سے اپنے شوہر کی تلاش میں کئی صحرا اور دریا پار کر گئی، ننگے پیر آبلہ پا۔ اور اس کے بچوں کی آنکھوں کے آنسو بھی امید کی ہریالی نہ لائے۔ ہم گنہگاروں کی آنکھیں ہی بھر آئیں تو شاید معافی مل جائے، وگرنہ قحط تو جاری ہے ہی۔ 

اور شہروں اور دیہات میں بستے بہت سے پیاسے جو کہ زندگی کی تار جوڑے رکھنے کے لیے روز ایک آگ کے دریا سے گذرتے ہیں، پانی کےمنتظر ہیں۔ 
:اور پاکستان بھی منیر نیازی کےالفاظ میں کہتا ہے

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

حبس بہت ہے۔ آئیے نماز اسستقاء ادا کریں اور دعا مانگیں کہ سب جل تھل ہوجائے، موچی دروازہ بھی اورتھرکا ریگستان بھی۔  بچے بھاگتے کودتے گھروں سے نکل آئیں، ننگ دھڑنگ پانی اچھالتے، زمیں سے سوندھی خوشبو  پھیلے، بلوچستان کے کاریز پانی سے بھر جائیں، پنجاب اور سندھ میں نہروں کی ٹیلوں تک پانی پہنچ جائے کہ کسانوں کی فصلیں ہری بھری ہوجائیں ۔ کشمیر سے نکلتے دریاوں میں پانی ہو، سرحد میں بنے ڈیم بھر جائیں،  پانی بھی آ جائےاوربجلی بھی۔

اور کچھ پانی آنکھوں سے بھی بہہ جائے، ندامت کا ، کہ دامن تر ہو جائیں۔ دعا پھر ہی قبول ہوتی ہے۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com



Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر