اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مضموں کی پہلی قسط

                           اپنی والدہ مسز کلثوم منصورکی یاد میں                   
تحریر:عاطف ملک  
                                              
اماں کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں ۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے- مگروہ ایک سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتی٘ں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب وہ سویٹرتیا ر ہوتا  تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی،  کہیں بازووں  پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار۔ اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔ 

اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا ۔ اُن کے پاس اپنا  کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یاغیرموجودگی سے بالاتر، صحیح پیمائش کرنے والا۔ اگر دفتر سے کسی بنا پرمیں پریشان ہوکرگھرآتا توپتہ نہیں کیسے اُن کو  پہلے سے ہی پتہ  ہوتا۔ ہماری خوشیاں، ہمارے غم، ہماری کامیابیاں، ہماری ناکامیاں، ہماری ہنسی، ہمارے آنسوسب اُن کی ذات کا حصہ تھے، بن کہے، بن بتائے۔ میں اپنی پریشانیاں خود اُٹھانا چاہتا تھا، اُن کو بتائے بغیرمگر  وہ تو پوچھے بنا آپ کا وزن اُٹھا لینے والا خدمتگار تھیں اور  مجھے یہ بات بحثیت بیٹا تکلیف دیتی تھی، مگراماں— وہ ایسے ہی تھیں، وہ تمام عمر خدمتی رہیں۔ ما ں جی نے تمام عمر خدمت کی، اپنے بچوں کی، اپنے خاوند کی، رشتہ داروں کی، محلہ داروں کی، واقف کاروں کی، غیروں کی، اپنوں کی، پرائیوں کی۔

وہ کیا تھیں۔ کیا میں، اُنکا بڑا بیٹا،اُنہیں جانتا ہے۔ شاید  ہاں، شاید نہیں۔ 

 وہ دستکارتھیں، زندگی کی اُلجھی ڈوریں کمال ہنرمندی سے سلجھا دینی والی۔

وہ ایک جنگجو تھیں، زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  ایک معرکے سے نکل کراگلےمعرکے میں لڑنے والی۔ 

وہ ایک دیہاتی عورت تھیں، سادہ، محنتی، محبت آمیز، خود دار۔
  
وہ ایک خدمتگارتھیں، کندھے پر کپڑا ڈالے، جو  ویسے کہیں نظرنہ آئے مگر ضرورت پڑتے ہی جھٹ پٹ کام کرکےغائب ہوجائے۔ بنا کچھ چاہے، بنا صلہ مانگے۔ 

 کیا میں، اُنکا بڑا بیٹا اُنہیں جانتاہے۔ شاید ہاں، شاید  نہیں۔

یقیناً نہیں، ماں کو کہاں اولاد جان سکتی ہے۔ 

اورزندگی میں بہت جگہ پر اماں نے مجھے حیران کیا- اُنکی معاملہ فہمی اورموقع  کواحسن طریقے سے نمٹانا ایک بڑی صلاحیت تھی۔ کئی قصے ہیں۔ میں بوجہِ نوکری اسلام آباد میں تعینات تھا۔ اماں کبھی کبھی ہمارے پاس چند دن کے لیے آتی تھیں اور پھر واپس لاہور چلی جاتی تھیں۔ ایک دفعہ اماں کو  میں اپنی گاڑی میں لیکر براستہ جی  ٹی روڈ اسلام آباد  کے لیے روانہ ہوا۔ صبح گیارہ کے لگ بھگ کا وقت ہوگا،  کھاریاں سے گذرکرہم پوٹھوہار کےعلاتے میں داخل ہورہے تھے کہ عقب سے آتی ایک کار نےباربارلائیٹ مارنا شروع ردی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی، کار کے درمیانی شیشے میں دیکھا توایک صاحب تنہا ٹویوٹا کرولا کارمیں تھےاور مسلسل ہیڈ لائیٹ جلا بُجھا رہے تھے۔  کئی خیالات ذہن میں آئے؛ شاید کوئی واقف کار ہے، شاید میری گاڑی سے کوئی چیزگرگئی ہے، شاید گاڑی میں کوئی مسلہ ہے جو اُس گاڑی کے ڈرائیورکو نظرآرہا ہے،  وغیرہ وغیرہ۔ خیرمیں نے گاڑی کوسڑک کے کنارے پر روک دیا۔ وہ صاحب اپنی گاڑی سے اترے اور چل کرہماری گاڑی میں ماں جی کی سیٹ کی جانب آ گئے۔ کہنے لگے کہ منڈی بہاو دین سے آرہا ہوں اوراسلام آباد جارہا ہوں،ابھی کسی ہوٹل پر چائے کے لیے رکا تو دیکھا کہ بٹوہ تووہیں بھول آیا ہوں۔ اب گاڑی میں پٹرول بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔ آپ کی گاڑی کا نمبراسلام آباد کا دیکھا توآپ کو روکنے کا خیا ل آیا۔ مجھے ایک ہزار روپیہ ادھار دے دیں، ایک کاغذ کو بڑھایا کہ یہ میرا نمبر ہے اور پشاورموڑاسلام آباد پرمیرا سنگِ مرمر کا اِس نام سے کاروبار ہے۔ میں ابھی سوچ میں ہی تھا کہ ماں جی نے اپنا پرس کھولا اوراُن صاحب کے ہاتھ میں ہزار کا نوٰٹ رکھا اور مجھے کہا گاڑی چلاو۔  گاڑی چلتے ہی ماں جی نے کہا کہ یہ آدمی فراڈ ہے۔ میں حیران پریشان تھا،  پہلے تواُن صاحب کے طورطریقے سے مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی نوسر باز ہیں۔ اگر ماں جی کو یہ یقین تھا تو اُسے پیسے کیوں دیے۔ سو میں نے اماں سے یہ پوچھا کہ آپ نے اسے پیسے کیوں دیے۔ کہنے لگیں تو نے اچانک گاڑی روک دی تھی، کوئی اتنی آمدورفت والی جگہ نہ تھی اگر وہ شخص پستول نکال لیتا توہم کیا کر لیتے۔ میں نے تو تیرا صدقہ جان کر ہزار روپیہ اُس کے حوالے  کیا۔  مجھے یقین نہ تھا کہ وہ شخص جھوٹا ہے۔ خیر اسلام آباد پہنچ کر  اگلے دن اُس نمبر کوبند پایا اوراُس کے دیے گئے پتے پر کوئی سنگ مرمر کا کاروبار نہ تھا۔ ماں جی نے اُس دن کے بعد کبھی اُس واقعے کا ذکر نہ کیا کہ جیسے کبھی وہ پیش ہی نہ آیا ہو۔ 

ہماری بہن کی شادی تھی، شورمچ گیا بارات آگئی، بارات آگئی۔ استقبال کے لیے ہم گھر کے باہرکھڑے تھے۔ اماں کے ہاتھ میں دلہا کی والدہ اوربہن کو آمد پردینے کے لیے کچھ زیورایک پوٹلی میں تھے۔ بارات کی آمد کےہنگامےمیں کوئی موقٰع پاکر  پوٹلی کو کاٹ کر لے گیا۔ ماں جی کو جب اِس واردات کا احساس ہوا توانہوں نے کسی کو بتانے کی بجائے اپنے پاس پڑے کچھ اور زیورات  سے اس موقع کو سنبھال لیا۔ والد صاحب اور باقی گھروالوں کو اگلے دن بتایا۔ کہنے لگیں، جو  مال جانا تھا وہ تو چلا گیا تھا۔ شادی کے موقع پرکوئی بدمزگی نہ ہونا چاہیئے تھی اس لیے اُس وقت چپ رہی، اللہ نے دیا تھا سو کام آگیا۔

ایک اورقصہ ہے۔ محلے کی مسجد میں مغرب کی نماز  کے بعد ایک عمررسیدہ شخص  کھڑا ہوا۔ اپنے غم اورمصیبت کا بیان رقت آمیزطریقے سے کیا کہ محتاج  ہے ، بیٹا جوانی میں  مر گیا اوراب ایک ہفتے بعد بیٹی کی شادی ہے،  ہاتھ  خالی ہیں، تمام نمازیوں سے مدد کی درخواست ہے۔  ضرورت مند  نے اپنی حالت یوں بیان کی کہ لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق  خوب مدد  کی۔ میں خالی ہاتھ  تھا سواُن صاحب کو گھرلے آیا اور برآمدے میں بٹھایا۔ اماں کو جا کرسارا معاملہ بتایا۔ وہ اُن صاحب سے ملنے آگئیں اوراُن کی تمام بات سنی۔ ماں جی نے اُن صاحب کو کہا کہ میں آپ کی بیٹی  کے لیے کپڑے دیتی ہوں۔ اماں گھرپران سلے کپڑے رکھتی تھیں کہ عید تہوار یا تقریبات پرتحفے کے طور پردے سکیں۔ میں اندرگیا  تو دیکھا کہ صندوق سے دو ریشمی جوڑے نکا ل رہی ہیں۔ مجھے کہنے لگیں کہ یہ آدمی  فراڈ ہے۔ میں نے کہا  کہ پھر  آپ اُسے کیوں کپڑے دے رہی ہیں؟  جواب دیا جواُس کا کام ہے اُسے کرنے دیجیئے، جو ہمارا کام ہے وہ ہم کرتے ہیں۔  اماں کے کہنے کو میں چیک کرنا  چاہ رہا تھا  سواُن صاحب سے کہا کہ میں کل اپنے دوستوں سےاورمدد اکٹھی کر کےاُن کے گھر پہنچا دونگا۔ میرے اصرار پرانہوں نے اپنا پتہ بتلایا ۔ اگلے دن اس پتے پرمیں اُنہیں ڈھونڈتا رہا مگروہ وہاں کہیں نہ رہتے تھے۔

ایک دفعہ ایک نوکرانی چوری کرتے پکڑی گئی۔ معاملے کو مزید پرکھا گیا تو علم ہوا کہ کافی عرصے سے یہ سلسلہ شروع تھا۔ اماں نے اُس سے چوری شدہ رقم کی وصولی  کا   ایک عرصہ مقر ر کیا  اور بدستورکام پررکھا۔ میں نے کہا   کہ اسے فوراً نکال دینا چاہیئے۔ اماں نہ مانی، کہنےلگیں بیٹا ، اُسے کام کی ضرورت ہے۔ اس کا میاں نکھٹو ہے، بچے بیماری کا شکارہیں۔ اس کی چوری کے باوجود میں اُسے نہیں نکال سکتی۔ کچھ عرصے بعد اُس نوکرانی کا  دس سالہ بیٹا  گم ہوگیا۔ اگلے دن ایک گندے نالے سے اُس کی لاش ملی کہ  مرگی کے دورے کے  باعث  وہ نالے میں گر گیا  تھا۔ ہم سب بہت دکھ کا شکار ہوئے۔ اماں آڑے وقت اُسی نوکرانی کے ساتھ کھڑی تھیں۔

  اماں ساری عمر اپنا  جو کام  ہے وہ کرتی رہیں، یہ دیکھے بغیر  کے کہ اگلا  کیا کر رہا ہے۔

ماں جی کی زندگی کی کہانی انسانی جدوجہد  کی کہانی ہے،  اور ہمارے معاشرے کے لحاظ سے عورت ہونے کے ناطے یہ کہانی اور بھی پُر اثر ہے۔ 

پہلی قسط 

 اس مضمون کی دوسری قسط مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔




Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ