سانحہ آرمی پبلک سکول، پشاور

تحریر : عاطف ملک
یہ عجب مناظر تھے۔ یہ درسگاہ تھی جہاں بچےعلم حاصل کرنے آتے تھے۔ نرم شاخیں، وہ کلیاں جو پھول بنتی ہیں۔  ماوں باپوں کے خواب،  بہنوں اور بھائیوں کی محبتیں، دادا دادی اور نانا نانی کےلاڈ، کِھلتی ہوئی ہنسیاں۔ یہ بچے نہ تھے، رب کا بنایاعالم تھا، ہربغزکینہ سے پاک، رب کا رنگ لیے۔ ان کو دیکھوتومایوسی بھی جی اُٹھے، یہ نغمے تھے سرشاری کے، اُمنگ کے۔

یہ ماوں کے سہارے تھے۔  وہ ماں جو سردیوں کی تاریک راتوں میں اُس وقت اُٹھتی  جب سورج بھی اپنے بستر سے نہ نکلا ہوتا ۔ کہیں لکڑیاں جلاتی،  پھونکیں مارتی آنکھوں میں آنسوبھرلاتی ۔ کہیں کم ہوتی گیس میں دعا کرتی کہ ایک لمحے کو گیس  جل اُٹھے تو بچوں کا ناشتہ وقت پر تیار کردوں کہ کہیں سکول سے لیٹ نہ ہو جائیں۔  باورچی خانے سے پھر بچے کے بستر کو   لپکتی ، اُس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتی ، پیار سے اُٹھاتی ، ماتھا چومتی کہ  اُٹھ کر نماز  پڑھ لے  اور سکول کے لیے تیار ہو ۔  کوئی بچہ آرام سے اُٹھ جاتا  ، کوئی بستر پر ہی کروٹیں بدلتا  رہتا ، کوئی آدھی بند آنکھوں سے مزید  سونے کا اصرار  کرتا ۔ ماں کا ایک قدم باورچی خانے کی جانب جاتا کہ ناشتہ  اب تک تیار نہ ہوا ہوتا  اور دوسرا قدم  بچے کو جگانے کو  اُٹھتا  ۔  کبھی پیار سے ، کبھی ڈانٹ کر  ؛ اُٹھو ، سکول کو چلو۔ یہ مائیں عجب ہیں، خدا  کا  روپ ہیں۔ ماں، کبھی ٹھٹرتی سردی  میں خود  کانپتی بچوں کو گرمائش  دیتی، کبھی سخت گرمی میں خود جلتے بچوں کو سایہ فراہم کرتی۔ بچے کے پاوں پرایک ننھا کانٹا  لگنے پر ساری ساری رات بےحال رہتی ، خود بھوکی رہتی بچے کے ایک ایک لقمے کا خیال  کرتی ، اپنے ارمانوں کی قربانی دیتی بچوں کی خواہشات پوری کرتی ، اپنے دکھوں کو  اولاد سے چھپاتی ، آبدیدہ بھی ہو تو اپنے آنسوآنکھوں کے کونوں پر سہار دیتی ۔ 

ان بچوں کو سکول چھوڑتے اُنکے باپ تھے،  اپنی آنکھوں میں ان گنت خواب  بسائے، صبح سے شام تک اپنی بساط سے بڑھ کرمحنت اورجدوجہد میں مصروف ۔  شام کو جب تھکے ہارے گھر آتے تو بچوں کو دیکھ کراُنکی تھکن دورہوجاتی۔ چھوٹے بچوں کو ہوا میں اُچھالتے، کبھی بسترپرکشتی میں اُن سے جان بوجھ کر ہارتے، کرکٹ میں اُنہیں گیندیں کراتے اور آوٹ ہونے کی صورت میں خود ہی نو بال کی آواز  لگا  کر ایک اورباری دیتے۔  جمعہ پڑھ کر گھر آتے تو گھر کے دروازے تک کی دوڑ میں جان بوجھ کر ہار جاتے۔  آج جب یہ پودے جوانی کی طرف بڑھ رہے تھے تو باپ اپنے کئی دکھ بھول جاتے۔

یہ بچے مختلف خاندانوں سے آئے تھے۔ اِن میں شہر کی ہر آبادی کا رنگ تھا۔امراء کے بچے تھے توغرباء کے گھروں کےچراغ بھی، فوجی افسروں کے بیٹے تھے تو سپاہیوں اور صوبیداروں کے لختِ جگر بھی۔ گورے پٹھان طالبعلم تھے تو   پنجاب سے تعلق رکھنے والے گندمی رنگ بھی۔ انہیں میں میرے دوست ڈاکٹر گلزار کا بیٹا بہرام تھا، محبت آمیز، ملنسار، گرم جوش۔ ان میں باورچی زاھد کا بیٹا ابرار بھی تھا۔ کک زاھد جس کےجسم کی رنگت سردی گرمی میں آگ کے سامنے مسلسل کام کرکے بدل گئی تھی۔  مگراس ایذا پہنچاتی آگ کے سامنے جب اُسے اپنے بیٹے کا خیال آتا تو یکایک ایک ٹھنڈک اُسے تقویت دیتی، اُس وقت زاھد کواپنا پیٹ کاٹ کرابرا کی فیسیں ادا کرنا بالکل بھی بھاری نہ لگتا۔ ان میں میرے شاگرد حفیظ الرحمان کا چھوٹا بھائی عاطف الرحمان تھا، گول چہرہ، معصوم آ نکھیں، جذبات ایسے کہ آسمان ک چھولے۔ یہ اوراُن کےتمام ساتھی سبز رنگ کے کوٹ پہنے تھے۔ ان سب کی آنکھوں میں چمک تھی اوردنیا تسخیر کرنے کا جذبہ۔ ان میں ابھرتے مقرر تھے،  کرکٹ اورفٹبال کے شیدائی، بالوں کے مختلف سٹائل بناتے شرارتی لڑکے، بہنوں کے بال کھینچتے، استادوں کی نقلیں اتارتے، محبتوں کو بانٹتے۔  یہ سفر پہ  نکلے صحرا نورد تھے، ایسے مسافر تھے جن کے کپڑے مختلف علاقوں کی گرد سے چمکتےاورجن کے ذہن مختلف علاقوں کی کہانیوں سے مزین ہوتے۔ مگر اُس دن اُن کے کپڑے لہو رنگ تھے، سبزرنگ اُس دن ان کے خون کی لالی سے بھر گیا۔ اُس دن کتابوں کے اوراق پرالفاظ سیاھی سے نہیں بلکہ جواں خون سے لکھے تھے۔ اُس دن کئی سرپھرے سامنے آتی موت سے جاٹکرائے۔ بڑے بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کو بچاتے مارے گئے، وہ بھائی جواُن کے ماں جائے نہ تھے۔ سکول میں بڑی جماعت میں ہوتے بھائی جان ہونے کا حق انہوں نے اپنے خون سے ادا کیا۔

یہ عجب منظرتھا، سکول کا مین ہال ایک قربان گاہ بنی، جہاں قطع نظر رنگ و نسل، عمرو قد صرف آرمی پبلک سکول کا یونیفارم ہی وجہِ قربانی بنا۔ اس قیامت میں عجب منظرتھا، ان درندوں کے سامنےایک ماں کھڑی تھی، موت کے بالمقابل، بربریت اور درندگی کے روبرو، گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے، تن تنہا، نہتی۔ استاد کے لیےشاگرد اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ للکارتھی اُن بزدلوں کے لیے کہ اس ماں کی لاش سےگذرکرہی تم اولاد  تک پہنچ پاو گے۔ میری بہن، اس فانی دنیا میں تو نےعمل سے کر دکھلایا کہ بہادری کیا  ہوتی ہے۔ بہادری ہتھیار، صحت،  کمزوری ، مرد، عورت کی تفریق سے کہیں اوپرہے اور تو بہادر ہے، بہادر ۔ سامنے آتی موت  کی آنکھوں میں ایسے آنکھیں ڈالے کھڑی تھی کہ موت آنکھیں چرانے لگی۔

 جس  دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی  جانی  ہے،  اس  جاں  کی تو کوئی بات نہیں 

یہ عجب مناظر تھے۔  دیواریں گولیوں سے چھلنی، چھتیں آگ سے سیاہ رنگ، جا بجا بکھرے ہوئے بستے،  سینے گولیوں سے فگار، جلے ہوئے دروازے اورکرسیاں، فرش جلی ہوئی کاپیوں، کتابوں اورخون سےاٹا ہوا۔ مگرپھرایک جانب نگاہ پڑتی ہے تو سکول کا قول دیوار پر کندہ نظر آتا ہے۔ 

I shall rise and shine.

آئیے ہم سب مل کراٹھیں اوراکٹھےہو کران درندوں کے مقابلے پرکھڑے ہوں جن کی خباثت کا اس سے بڑھ کرکیا ثبوت ہوکہ پیغمبرِاسلام سے اپنی بربریت کا جوازلے رہے ہیں۔ 

یہ عجب مناظرتھے۔ لکڑی کے تابوتوں کی قطار، گریہ کرتے عزیزواقارب، رنج و ملال وبرداشت وانتقام کے تاثرات لیے چہرے ۔ اشک آلودہ مائیں جن کو چپ کرانےکوکوئی الفاظ نہیں، کم عمربچوں کی بے تاثر آنکھیں جو کہ اس ظلمِ عظیم کا احاطہ کرنے سے قاصرہیں اورچپ چاپ اپنے بڑے بھائیوں کے کفن اُٹھتے دیکھ رہے ہیں۔

یہ عجب منظرتھا۔ ایک ماں ہےکہ وارسک روڈ پرایک جانب سے دوسری جانب دوڑتی پھرتی ہے، ننگے پاوں، ننگے سر، دوپٹے چادر سے عاری ۔ کبھی ایک طرف کو بھاگتی ہے، رکتی ہے، پلٹتی ہے، دوسری طرف کو دوڑتی ہے۔ وہ پردہ شعارجس کے بالوں کوفلک نے نہ کبھی دیکھا تھا، آج سڑک پر بغیرخیالِ چادربھاگ رہی ہے۔ آج اُسکا بچہ تنہا ہے اوردرندوں کا خوف ہے۔ ایک جانب بھاگتی ہے، پھرخیال آتا ہے کہ بچہ دوسری جانب ہے، کوئی درندہ اُس کو نقصان نہ پہنچادے، دوسری طرف بھاگتی ہے، سراسیمہ، آوازحلق میں بند، آنکھیں پھٹی پھٹی، یکایک خیال آتا ہے تو پہلی طرف کو بھاگتی ہے۔ آسمان نے یہ منظرکئی صدیاں قبل بھی دیکھا تھا، جب مکے کے بے آباد، بنجر پہاڑوں پر ایک ماں اپنے بچے کی حفاظت کے لیے تن تنہا بھاگ رہی تھی۔ درندوں کا خوف اور پانی کی تلاش اُسے ایک جانب سے دوسری جانب لے جاتی تھی۔ اے میرے رب، تونے اُس ماں کے ایثار کو اتنا محبوب پایا کہ حج کا حصہ بنادیا۔  اے میرے رب، آج میری اِس بہن کی سعی کو بھی قبول کر، اوراس کے ہمراہ جو کئی خاندانوں نے اپنے لختِ جگراسماعیل کی تقلید میں قربان کر دیے، اس کے بدلے اس شہرِ پشاوراورملکِ پاکستان کوامن کا گہوارہ بنا دے۔ اور جس طرح مکہ کو تونے خوف اوربھوک سے محفوظ کردیا، اسی طرح ہمارے ملک کو بھی سکھ، چین اورفراوانی عطا کر۔ اے میرے مالک ہم سے بچھڑنے والے تمام طالبعلموں، اساتذہ اورسکول کےعملےکواپنے جوارِرحمت میں جگہ دے اور  اُنکے لواحقین کوصبرِجمیل عطا کر، انکی اپنےغیب سے مدد کر، آمین۔  بے شک جوتوجانتا ہے وہ ہم نہیں جانتے۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com











Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر