ایک انجینیر کے ایر ڈیفنس میں شب و روز

تحریر : عاطف ملک

اگر آپ سیلانی طبیعیت کے حامل ہوں، آوارہ گرد ہوں، بے چین روح ہوں، آپ کا گھر میں جی نہ لگتا ہو، ویرانے آپ کو صدائیں دیتے ہوں، آپ کو بزرگوں کی بہت دعائیں یا کچھ بد دعائیں ہوں،  آپ کی کوئی سفارش نہ ہو، آپ کے پیر میں چکر ہوں، کھنڈرات آپ کے لیے کشش کے حامل ہوں، کوئی چڑیل آپ کے عشق میں گرفتار ہو، تو پاک فضائیہ کی ایر ڈیفنس کی موبائل یونٹ ہی آپ کا  مقدر ہے۔

 اب ہمارے وہ دوست جوایرڈیفنس سے ناواقف ہیں اور موبائل یونٹ کو موبائل فون کی کوئی قسم جان رہے ہیں بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس کے ساتھ کچھ فری نائیٹ پیکچز بھی ہیں۔ وہ جان لیں کہ ہم نے اپنے چند دوستوں کا حال ان پیکچز میں یوں پایا کہ ہمارے نزدیک یہ کسی دعا کے زمرے میں نہیں آتا۔ توصاحبو، ایرڈیفنس کی موبائل یونٹ ایک ماڈرن خانہ بدوشوں کا گروپ ہے۔ کہنے کو انکا ہیڈکواٹر کسی فضائیہ کی بیس میں ہوتا ہے، مگر حقیقت میں انکے پاوں میں پہیے اور کاندھوں پر بسترے لدے ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست جوگی مراد آبادی نے کچھ وقت ایسی یونٹ میں گذارا تو کہنے لگا،" گنہگار ہوں، نماز کی طرف تو نہ آسکا  مگر بخدا  اس نوکری  کے بعد  سے تبلیغی جماعت کی دل سے عزت کرنے لگا ہوں"۔ ٹرکوں پر نصب ریڈارخانہ بدوشوں کی گھوڑا گاڑی کی مانند  ہوتے ہیں بلکہ پرانے ہونے پر ہم نے تو اکثر کو گدھا گاڑی کے موافق پایا۔ اکٹر جائیں تو جو مرضی کر لو کیا مجال کہ ان کو اپنی جگہ سے ہلا پائیں۔

اپنی ابتدائی نوکری ہم نے ایسی ہی ایک یونٹ میں کی۔ یہ تعیناتی اپنے ساتھ یادوں کی ایک بہار لیکر آئی جو آج بھی ذہن کے گوشوں کو مہکاتی ہے۔ یہ وقت شہروں سے دور ویرانوں کی خاک چھانتے گذرا۔ کبھی کراچی سے باہر ساحل سمندر پر کیپ ماوںس کی پہاڑی پر شب باشی کی، کبھی تھر کے صحرا میں دن گذارا۔  قاضی احمد سے ملاقات کی گو یہ انسانی ملاقات نہ تھی کہ قاضی احمد اندرون سندھ کا ایک قصبہ ہے۔  ہالا کی دستکاریوں سے مستفیذ ہوئے، بادشاہ نہ ہوتے ہوئے بھی کوٹ ڈیجی کے قلعے پر ڈیرے ڈالے۔ 

ہمارا اس سے قبل تھانے کچہری سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا  مگر اب روز کا تھانے آنا جانا لگا رہتا تھا گو یہ تھانہ پولیس کا تھانہ نہ تھا بلکہ تھانہ بلا خان کا قصبہ تھا کہ جہاں اکثر ہمارا پڑاو ہوتا تھا۔ حیدرآباد کے پاس سے گذرتے گلاب کے باغوں کی خوشبو ہے کہ آج بھی تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ ٹنڈوآدم کی سجی کا ذائقہ اب بھی زبان کی سطح پر زندہ ہے۔ میرپور خاص کے سندھڑی آم، شہداد پور کے کیلے، شکارپور کا اچار، غرض یہ نوکری ایک ذائقوں کی دنیا سے روشناس کراگئی۔ انہیں ذائقوں میں بعض مقامات کا گدلا گھاری پانی بھی تھا، جسے پینے کے لیے زبردستی منہ کو کھولنا اور آنکھوں کو بند کرتا پڑتا تھا۔ 

بحثیت ایک جونیئر انجنیئر کےہماری سواری ان سفروں میں ہینو یا دوسرے ٹرکوں پر ہوتی تھی کہ آدمی سراپا سفر میں رہتا تھا گو زیادہ مواقع پر یہ سفر انگریزی زبان کا سفر تھا۔ مٹی کے بندے کا مٹی کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا۔ منزل تک پہنچتے مٹی و مٹی ہو گئے ہوتے۔ بال گرد آلود، چہرہ مٹی رنگ، بینائی بس قریب کی رہ جاتی تھی۔ ٹرک میں تیل کے بیرل، ٹینٹ، سنتری فوجی جوان، ایئر مین، سویلین لاسکر، بانس، کیموفلاج نیٹ، غرض خانہ بدوشوں کے قافلے میں صرف بھیڑ بکریوں کی کمی رہ جاتی بلکہ کئی مواقع پر یہ کمی بھی پوری کر لی جاتی تھی۔ 

دور دراز علاقوں کے یہ سفر مٹی کے ساتھ  ساتھ آدمی کے بھی قریب لائے۔ دیہات کے رہنے والے محبتوں کے امین نکلے۔ انکے دل انکے حالات سے کہیں کشادہ پائے۔ اسی سالہ اللہ ڈینو حُرآج بھی یاد ہے جو دس میل کا فاصلہ پیدل چل کر ہمارے کیمپ  صرف ہماری خیریت پوچھنے آیا۔ مہمان علاقے میں آئیں تو میزبانی فرض ہوتی ہے۔ 

یہ تجربہ انسان دوستی کا تجربہ تھا ۔ بندہ صحرائی کو جاننے کا، نعمتوں کے شمار کرنے کا، برداشتِ انسانی کو دیکھنے کا۔ کئی میل تک آبادی کا نام و نشان نہیں، سکول گنتی کے، ہسپتال کسی گنتی میں نہیں، لوگ جفاکش اور محبت آمیز۔  اس نوکری نے مجھے پاکستان سے محبت سکھائی، اپنے ماتحتوں سے آشنا کیا۔ چکوال کا لمبا تڑنگا ریاض ڈرائیور تھا  کہ مشکل سے مشکل راہ پر ریڈار کا بڑا ٹرک لے جانے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ اُس نے "دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے" کے مصداق متروک سڑکوں اور خطرناک راستوں پر ایسے ٹرک چلائے کہ جملہ مسافران آیات کا ورد ہی کرتے رہے۔

 سکھر شہر کے باہر اروڑ کا علاقہ ہے کہا جاتا ہے کہ  سندھ کی پہلی مسجد یہیں بنی تھی، یہیں ہم نے کالی ماتا کا مندر بھی دیکھا۔ وہاں ایک بنجر پہاڑ پر ریڈار چڑھانا تھا۔ یہ ریڈار بڑے فلیٹ بیڈ ٹرک پر نصب تھا۔ بے قاعدہ سا راہ چوٹی تک جاتا تھا، راستے کی چوڑائی بھی کم تھی، راہ بھی کچا تھا کہ ریڈار  ٹرک کے بھاری وزن میں اُس کے بکھر جانے کا خطرہ تھا۔ باقی ڈرائیوروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ میں جو کانوائے کا انچارج تھا، پریشان تھا کہ کیا کروں۔ ایسے میں ریاض آگے ہوا کہ میں یہ ریڈار اوپر لے کر جاتا ہوں۔ جوانی کے خون نے جوش مارا اور میں بھی ریاض کے ہمراہ ٹرک پر چڑھ کر ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ سارا کانوائے ٹرکوں سے اتر کر  اس سفر کے  منظر کا متمنی تھا۔ گھر گھر آئی کیبل سے قبل کا دور تھا، ہالی وڈ کی تھرل موویز ابھی نہ پہنچی تھیں سو لوگ ایسےمعرکوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ میں اگلی سیٹ پر بیٹھ تو گیا کہ ریاض کو حوصلہ رہے مگر اچھا ہوا کہ اُس نے ساری توجہ کچے راہ پر ہی رکھی، ہمارے چہرے پر نہ ڈالی۔ ٹرک کا ٹائر ہلکا ہلکا گھومتا تھا، کھائی کے ساتھ، پہاڑ کے چوٹی کو جاتےکچے راہ کی بالکل آخری حد کنارے پراور ہمارے دل کی دھک دھک اور ٹائر کی حرکت ہمیں تو بخدا بالکل ایک ہی لگ رہی تھیں۔ وقت تھم سا گیا تھا اوراُس دن مولنا مرسلین کی یاد کرائی سب دعائیں ایک کے بعد ایک تسلسل سے یاد آرہی تھیں۔ ہم نے ایک ہاتھ  ڈیش بورڈ پر سختی سے رکھا تھا کہ کپکپاہٹ پر قابو رہے اور دوسرا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر تھا کہ کہیں چھلانگ لگانے کی ضرورت آئے تو کسی ڈھونڈ میں دیر نہ لگے۔ خیال ہے کہ جامد وقت میں ایک عرصے بعد حرکت ہوئی اور ہم پہاڑ کی چوٹی پر تھے۔ ٹرک سے اترا تو نہ جانے کیوں قمیص سینے سے تنگ سی لگنے لگی، لگا کہ سینہ دو انچ بڑھ گیا ہے۔ ریاض کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ قمیص یکایک واپس اپنے ناپ کی ہوگی ہے۔ جان گئے کہ کئی کمانڈروں کی کامیابی ایسے گمنام ریاضوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ 

اس واقعہ کے بعد سے اب حوصلہ ہے کہ پلِ صراط سے بھی کامیاب گذر جائیں گے۔ 

ریاض ڈرائیورتھا تو دوسری طرف سرگودھا کا یار محمد ریڈیو ٹیکنیشن تھا۔ پلک جھپکتے ریڈیو ریلے کا ٹاور کھڑا کرکے کمیونیکیشن بحال کردیتا تھا۔ میانوالی کا  سپاہی واصف تھا کہ ویرانے میں ماہیا گاتا توچرند پرند رک جاتےتھے۔ ہم نے تو اُس کے ماہیے پر کئی پرندوں کو اپنی ماداوں کو بڑی محبت آمیز نگاہوں سے دیکھتے دیکھا، یا شاید ہماری بھی نادانی کی عمر تھی۔ 

اس تمام قصے میں اپنےساتھ جانے والے باورچیوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ چاچا رفیق تھا کہ اپنے ہاتھ کے کھانوں سے جنگل میں منگل کردیتا تھا۔ یہیں ہم نے جوانوں کی اپنے افسران سے فرمانبرداری دیکھی۔ غرض یہ ایک خاندان تھا ، ایک دوسرے کی محبتوں میں شریک، ایک دوسرے کا خیال رکھتا۔ 

آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ نے انسان کو جاننا ہے، اپنے ملک سے روشناس ہونا ہے تو جنگل کی طرف چل نکلیں۔ مگر اکیلے نہیں، ایک ایر ڈیفنس کا کانوائے ساتھ لیں۔ ایک حقیقتِ پنہاں ہے جو آپ پر آشکار ہونے کے انتظار میں ہے۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com




Comments

  1. Sir I am really impressed with your vision and writing style. I started my career in a same way with you, but we were in Punjab that time,,,year 2002. You didn't join the party that time, but honestly the experience was almost same. After reading your blog, I went 17 years back..... though I just served there for 8-10 months, as I was actually a wrong person for that assignment..
    An Aerospacian,,,

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر