Posts

Showing posts from 2017

گذرا سال

تحریر : عاطف ملک 31 دسمبر 2017 کو لکھا۔ دسمبر کی دھند میں اک سال اور گم ہوا اور میں سال کے آخری دن بیٹھا سوچ رہا ہوں اس سال کی لحد کے پتھر پر کیا  لکھوں سالِ گم  یا سالِ حاصل گذرے سال میں نے پانی بہنے کی آواز سنی تھی بیج سے اُ گتا  پودا  دیکھا منزل کے کئی رستے جانے اورجان کر رستہ بھول گیا تھا وقت سے اُس کو لڑتے دیکھا جس کے پاس وقت نہیں تھا بھوک،  پریشاں غم ، تعلق، سوندھی خوشبو آ نکھ  کا  آ نسو بےغرض محبت سب کو ہی محسوس  کیا  تھا سالِ حاصل سا لِ حاصل لفافے  پر  پھرمیں نے لکھا  سا لِ حاصل اور وقت کی لہروں پر پوسٹ کیا سالِ حاصل سالِ حاصل Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

گھونگا اور میں

تحریر  : عاطف ملک گھونگے نے جب آ نکھیں کھولیں ساحل پر جب ریت کو دیکھا موجوں کی تغیانی دیکھی بادل کی روانی دیکھی پاس سے بہتا پانی دیکھا فلک کی نیلی چادر دیکھی مجھ سے آ کر یوں وہ  بولا "میں بھی کتنا  چھوٹا  ہوں" میں بھی اُس کے ساتھ  پھر نکلا ساحل پر جب ریت کو دیکھا موجوں کی تغیانی دیکھی بادل کی روانی دیکھی پاس سے بہتا پانی دیکھا فلک کی نیلی چادر دیکھی اُس کو  پھر  میں یوں ہوں بولا "میں بھی کتنا  چھوٹا  ہوں" پاس سے پھرآواز یوں آئی نظر بڑائی،  سفر  بڑائی    دونوں اب ہیں سفر پہ  نکلے گھونگا، میں، میں   اور  گھونگا   چار دسمبر  2017 کو   سٰڈنی سے پرتھ  کی فلائیٹ میں لکھا۔  Copyright © All Rights Reserved  : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

ہمزاد

ہمزاد دنیا دا اک بھریا میلہ وچ کھلوتا  کلم کلا پایا اونے پاٹا  کرتا پیروں ننگا، تن تے لیرا اودا  میرا  اک پرچھاواں دھپے سڑدا ، راہ وچ رُلدا ۱۹دسمبر  ۱۹۸۹ عاطف ملک Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

دھوکا

                          تحریر عاطف ملک میرے قہقہے کو  ٰغور سے سن اس میں ان گنت دکھوں کی آواز ہے شامل کبھی گلی میں گذرتی اُس نار کو دیکھ جس کو  وقت نے جوانی میں بوڑھا  کر دیا ہے اُن چوڑیوں  کی چھنکار کوسن جس میں کئی حسرتیں  سر نیہوڑ ے بیٹھی ہیں اپنے گھر میں کام کرتی اُس لڑکی کو دیکھ کہ جس کی  ہمجولیاں گڑیوں سے کھیل رہی ہیں اور  وہ اس عمر میں دکھوں کی گاڑی کے آگے جتی اپنے گھر کی تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے چراغوں میں اپنا لہو جلا رہی ہے ۱۲ جولائی ۱۹۸۹ انجیننرنگ کی پڑھائی کے تیسرے سال میں لکھا} { Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

لمحہ ادراک

تحریر  :عاطف ملک نومبر ۲۰۰۲              ایک لمحہ کی کیا حقیقت ہے۔ روزِآفرینش  سے آج تک کی لڑی میں ایک لمحہ کیا حقیقت  رکھتا ہے۔ جسم میں دوڑتے  خون  کےبہاو  میں ایک قطرہِ خون  کیا ہے۔ سمندروں سے بھری دنیا میں ایک قطرہِ شبنم کیا ہے۔ ایک آنسو ادراک کی کیا حقیقت  رکھتا  ہے۔ نوجوان کپتان کئی رات سے نہ سویا  تھا۔ اُسکی آنکھیں بوجھ سے بند  ہوتی تھیں، خوابیدہ، بھاری، بوجھل۔ پلکیں بند ہوتیں، مگرآنکھوں کےسرے پانی سے گیلے رہتے، سانس تھکن سے چور مگر نیند دور رہتی۔ کپتان کئی رات سے نہ سویا  تھا ،وقت گزرتا، دن گذرجاتا  رات مگربھاری بوجھ کی مانند  لمبی جاگتی رہتی۔ ،کپتان کے بال اپنی رنگت بدل گئے  ،رتیں بدل گئیں  ،کئی جاڑے گذرے  ،کئی رنگ نکلے مگر کپتان نہ سویا۔ نوجوان کپتان کئی رات سے نہ سویا تھا۔ کئی رات ، کئی دہائیوں کی رات۔ ،اُس  کی آنکھیں بوجھ سے بھاری  مگر نیند اُس سے دور رہی۔ وہ ایک لمحے میں جی رہا تھا۔ ایک لمحہ جو قرن ہا قرن سے بھاری ہوگیا تھا۔ ایک لمحہ جووجہِ نفرت بن کر تما م وجودِ وقت سے احساس کے ترازومیں بھاری ہوگیا۔ کپتان کئی برس اسی ایک لمحہ میں قید رہا۔ پھراُس  نے اس لمحے کی اسیر

ایم ایم عالم سے ایک ملاقات

Image
                                                                   تحریر: عاطف ملک یہ دو ہزار پانچ کی بات ہے کہ  کراچی جانا ہوا اور پتہ لگا کہ فیصل بیس میں وہ شخص رہتا ہے جس سے قرون اولی کے مجاھدوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ نمبر معلوم  کر کے فون کیا اورحاضر  ہونے کی اجازت طلب کی۔ اگلے دن کا وقت ملا۔ دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ درویش منش رہ رہا تھا جس کے نام پر لاہور کی مہنگی ترین سڑک ہے جس پر واقع کسی بھی  ریسٹورنٹ  کے ایک وقت کے کھانے کا بل بہت سوں کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔ سادہ سا کمرہ ، دیوار  کے ساتھ الماریاں جو کہ کتابوں سے بھری پڑی تھیں، بستر کے ساتھ تپائی پر زیرِ مطالعہ کتابیں دھری تھیں ، دیوار کے ساتھ لگی دو بیساکھیاں، میز پر سیلوں والی ٹارچ  سامنے موجود  کہ کثرت سے ہوتی لوڈ شیڈنگ میں آسانی سےڈھونڈ لی جائے۔ عیاشی کے طور پر گولڈ لیف کی ایک ڈبی لائیٹر کے ساتھ میز پر رکھی تھی ۔ سادہ مگر ہر  چیز قرینے سے صاحبِ کمرہ کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تھے محمد محمود عالم جنہیں لوگ ایم ایم عالم کے نام سے جانتے ہیں۔   میں نے پٹھانوں کی عموماً پہنے جانے والی سفید ٹوپی پہنے سفید کرتہ شلو

گلشن میں لہو رنگ

گلشن میں لہو رنگ                                                                                                                                     تحریر: عاطف ملک                       Gulsahn-e-Iqbal garden bomb blast Sunday, 27 March 2016 Lahore during start of Spring. At least 72 people were killed in a presumably suicide blast that took place in Lahore's crowded Gulshan-i-Iqbal park on Sunday evening. At least 300 others were injured. The powerful blast ripped through a massively crowded area of the park adjacent to Gate 1 which houses swings, train and some other attractions for children. A large number of victims were children and women. This poem was written the very next day, 28 March 2016 as the pain was unbearable.                                                                                          بہار میں یہ کیسا منظر ہے          چہار سو لہو رنگ ہے                                       پھول مسلے  ہیں کلیاں اجڑی ہیں                تتلیاں روندی ہیں

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم : Air Commodore Zafar Masud

Image
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم  Air Commodore Zafar Masud (Fondly remembered as  Mitty Masud) تحریر : عاطف ملک ایر کموڈور ظفر مسعود کو میں نہیں جانتا تھا۔ ان سے تعلق عجب طریقے سے ہوا۔ 2003 یا 2004 کی بات ہے کہ میں اسلام آباد میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی قریبی گالف کورس کے ساتھ کی بیرونی سڑک پر ایک بوڑھے میاں بیوی  آہستہ آہستہ چلتے نظر آتے تھے۔ خاتون کوئی یورپین خاتون تھیں۔ میں سمجھا کہ کسی کے والدین ہیں ۔ پھر اکثروہ خاتون اکیلی واک کرتی نظر آنے لگیں  بعد میں علم ہوا کہ اُنکے خاوند علیل ہیں ۔ ایک دن اُن سے بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ مسز ایر کموڈور ظفر مسعود ہیں۔ وہ جرمن خاتون نوکری کی غرض سے کراچی آئی تھیں کہ ماڑی پورمیں تعینات ظفر مسعود کی محبت میں گرفتار ہو کے یہیں کی ہو گئیں۔ اتفاقاً میں اور میری بیگم دونوں جرمن زبان بولتے ہیں سواُن سے ہمارا تعلق گہرا ہوگیا۔ انکا اکلوتا بیٹا جرمنی کے شہر  کولون میں رہتا تھا جبکہ یہ دونوں میاں بیوی ایر فورس کے سیکٹر ای- ۹ میں دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے۔  ایر چیف مارشل ریٹا ئرڈ جمال نے اُن کی دیکھ بھال اپنے ذمہ ل

آسڑیلیا میں بکرے کی تلاشHumour

تحریر :عاطف ملک پچھلے سال عیدِ قربان پر پرتھ میں ایک مسلم قصائی کو بیعانہ کے طور پر دو ہفتے قبل پیسے دے دیے تھے۔ اُس نے ایک پرچی عطا کی اور کہا کہ عید سے اگلے دن آپ کو گوشت ملے گا، سو عید کے اگلے دن اُن کے درِ دکان پر حاضری دی  جہاں اپنے جیسے اور بھی مشتاقان  کی قطار تھی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں پرچی تھی اور کسی کی پرچی نہ چل رہی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ قصائی کہیں کا بھی ہو، اوصاف  ایک سے ہی ہیں۔ ہم نے کافی تانک جھانک کی مگر کوئی بکرا نہ نظر آیا۔ پتہ چلا کہ جانور کہیں اور سے ذبح ہوکر کسی گاڑی  پر لاد کر لائے گئے تھے اور دکان پر بس آخری ٹکڑوں میں کاٹے جارہے ہیں۔ اب ایسی بقرعید جس میں بکرا بھی نہ نظر آئے، کیا عید ہوگی؟ مگر بھلا ہو قصاب کا  کہ اُس نے اپنے قصابوں کی یاد  تازہ رکھی۔ خدا خدا کر کے انہوں نے ہمیں ایک برآون  کارٹن عطا کیا، اپنے ہاں تو ایسے کارٹنوں میں میڈیکل سٹوروں میں دوائیاں ترسیل ہوتی ہیں۔ پتا چلا کہ اس میں گوشت ہے، اور ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ دوائیوں کی طرح اس سے بھی افاقہ ہوگا۔ اب ایک پورا بکرا ایک پانچ سے سات کلو کے کارٹن میں، کدھر گئے سری پائے، کلیجی  پپھرے، چپ رہے، ہمیں بزرگوں نے

ایک سرکاری سکول کے عظیم استاد کی یاد میں

تحریر:عاطف ملک پچھلے دنوں فیس بک پر نوٹیفکیشنز آئیں کہ آپ  کو ٹیگ  کیا  گیا  ہے ۔ دیکھا  تو چند پرانے طالبعلموں نے مختلف  صفحات پر ان اساتذہ میں شامل کیا تھا جنہیں وہ یاد کرتے ہیں۔ اس سے قبل  بھی کچھ  پرانے  طلبا  نے جب پیشہ ورانہ زندگی  شروع کرنے پر پڑھائے گئے مضمون کی افادیت پائی تو ای میل کر کے اپنے تاثرات بھیجے تھے۔  اپنے  دامن میں جھانکتا ہوں تو کچھ بھی نہیں پاتا،  بس ایک اطمینان ہے کہ  وقت ِسوال کچھ تو  پیش  کرنے کے قابل ہوں گا۔    یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصہء محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے کچھ کہانیاں سنا پائے، کچھ زندگیوں میں اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی، خود پیاسے تھے، آگے بھی پیاس دیتے  رہے۔  شاباشیں دیں، ڈانٹیں بانٹیں، محبتیں جہاں ملیں، نفرتوں کا بھی شکار ہوئے۔ کہیں غلطیاں بھی کیں، بس نیت ٹھیک تھی۔ کچھ کے آگے چلے، کچھ  ایسے ملے کہ  جن کے پیچھے چلنے کو بہتر جانا۔ ایک ادھیڑ عمر طالبعلم ملا جس نے جدوجہد  کے معنی سمجھا دیے۔ ایک انجینیرنگ پڑھتا مضطرب تھا جو  سائنس کا سوال پوچھنے بھی آیا  تو فارسی کے اشعار ساتھ لایا، اپنی بے چینی کا رنگ ہمیں بھی دے گیا۔ وہ سرا

مرزا استاد بیگ

                                            تحریر عاطف ملک Few words to explain: perpetual machine is  called  دوامی مشین   and Opportunity is  موقع .           مرزا عبدالودود بیگ اردو کے بےمثل مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے ایک کردار ہیں۔ ہم نے عقیدتاً ایک ہم آواز  کردارمستعار لیا ہے کہ شاید اِس سے تحریر میں اُس چاشنی کا رنگ آجائے جو یوسفی صاحب کی تحریر کا خاصہ ہے۔اس تحریر میں کسی سے مماثلت کو اتفاقی یا الہامی جانیے گا۔ اگر کسی اور سے مطابقت پائیں تو اتفاقی جانیں اور اگر اپنا رنگ پائیں تو الہامی جانیں۔ پہلی صورت میں آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں بھی آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، کہ اس طور الہام القا کرنے والے کو ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔                                                           مرزا استاد بیگ ہمارے دفتری ساتھی ہیں، نوکری میں ہم نے اُن کے جوہر خوب دیکھے۔ فرماتے کہ نوکری کو اخلاقیات سے الگ رکھو کہ نوکری میں قول و فعل کا تضاد خامی نہیں بلکہ خوبی ہے۔ مزید فرماتے کہ نوکری میں انسان پھول کی مانند ہونا چاہیئے، مگر ہر ایرے غیرے پھول کی مانند نہیں بلکہ سورج

سوال

                                                      تحریر: عاطف ملک  آرزو  و عطا کے  بیچ میں خواب و تعبیر کے درمیاں عمل و جزا کے سفر میں تدبیر و تقدیر کے دوش پر                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے خوف و بھوک کے  روپ میں اپنے کاندھوں پہ ان گنت صدیوں کا بے کراں وسعتوں کا آرزوں کے خوابوں کا حقیقت و سرابوں کا بوجھ لیے زندگی ایک دائرے میں گرداں ہے                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے تپتی بے اماں دھوپ میں ضعیف لاغر جسم اپنے سے بھی بھاری بوجھ کو اٹھاتے ہیں ایر کنٹیشنڈ دفتروں میں اغراض کے غلام بندے جھوٹ سنتے ہیں، جھوٹ کہتے ہیں اپنے کاندھوں پہ احساس سے کہیں بھاری  بوجھ کو اٹھاتے ہیں ایک دائرے میں گرداں ہیں                                                   آدمی کی کیا حقیقت ہے Copyright © All Rights Reserved : No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact: aatif.malikk@gmail.com

ہجرت

                                                                تحریر: عا طف ملک   یہ افسانہ اردو جریدےادب لطیف میں شائع ہوچکا ہے۔  پس منظر:      حکومتِ نے کچھ عرصہ قبل ڈے لائیٹ سیونگ کے  نام پر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی تھیں۔ یہ افسانہ اُسی فیصلے کے تناظر میں  لکھا گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، ایک لمحہ جو اُس نے گذارا  نہیں،  ایک پل جس میں اُس نے سانس نہیں لیا ، جو اُس پر نہیں بیتا، جسے اُس نے محسوس نہیں کیا ، جو اُس کے احساسات سے نہیں گذرا ، جس کو اُس نے خرچ نہیں کیا  اُس کے حساب سے کیسے خارج ہو گیا ۔ اُس کی عمر سے کیسے منہہ ہو گیا ، خود بخود ، بنا  اُس سے پو چھے۔  ذاتی بنک اکاونٹ میں جمع رقم  کہ جس پر انسان کا  حقِ ملکیت ہوتا  ہے، ضبط ہو جا ئے،  بغیر قصور کے،  بغیر  بتائے، بنا پو چھے ۔ وہ یہی سوچتا رہا  ، اسے جلن تو نہیں کہتے مگر اِک زیاں کا احساس تو  تھا، جیسے بو ڑھے کسان سے گندم کی بوری نہ اٹھائی جائے  تو جوان بیٹا کچھ کہے بغیر بوری اُٹھا لے، ایک لمحہ جو  برسوں بیت جانے کا احساس دلا جاتا ہے، خامو شی کے ساتھ، چپکے سے ۔اُس نے سوچا یہ حکومت کون ہوتی ہے گھڑیوں کی سوئیاں آ