ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم : Air Commodore Zafar Masud


ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

 Air Commodore Zafar Masud (Fondly remembered as  Mitty Masud)

تحریر : عاطف ملک


ایر کموڈور ظفر مسعود کو میں نہیں جانتا تھا۔ ان سے تعلق عجب طریقے سے ہوا۔ 2003 یا 2004 کی بات ہے کہ میں اسلام آباد میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی قریبی گالف کورس کے ساتھ کی بیرونی سڑک پر ایک بوڑھے میاں بیوی  آہستہ آہستہ چلتے نظر آتے تھے۔ خاتون کوئی یورپین خاتون تھیں۔ میں سمجھا کہ کسی کے والدین ہیں ۔ پھر اکثروہ خاتون اکیلی واک کرتی نظر آنے لگیں  بعد میں علم ہوا کہ اُنکے خاوند علیل ہیں ۔ ایک دن اُن سے بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ مسز ایر کموڈور ظفر مسعود ہیں۔ وہ جرمن خاتون نوکری کی غرض سے کراچی آئی تھیں کہ ماڑی پورمیں تعینات ظفر مسعود کی محبت میں گرفتار ہو کے یہیں کی ہو گئیں۔ اتفاقاً میں اور میری بیگم دونوں جرمن زبان بولتے ہیں سواُن سے ہمارا تعلق گہرا ہوگیا۔ انکا اکلوتا بیٹا جرمنی کے شہر  کولون میں رہتا تھا جبکہ یہ دونوں میاں بیوی ایر فورس کے سیکٹر ای-۹میں دوکمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ایر چیف مارشل ریٹا ئرڈ جمال نے اُن کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ ہم میاں بیوی نے بھی عقیدتاً اور محبتاً  ان کو اپنا بڑا جان کراپنے تعیں انکا خیال کرنے کی کوشش کی ۔ وہ ہمارے گھر بھی چکر لگا لیتی تھیں اور ہم بھی اُنکے ہاں حاضری دیتے تھے۔ میری بیٹی کے لیے تحفہ لے کر آتی تھیں، وہ انہیں جرمن آنٹی کہتی تھی۔ 

 ظفر مسعود کا تعلق گجرانوالہ سے تھا۔ پاکستان بننے سے قبل رائل انڈین ایرفورس میں کمیشن حاصل کیا۔ 1958 میں ظفر مسعود نے 16 سیبر جہازوں کے ساتھ عمودی ڈائمنڈ  کی شکل بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔  اس ڈائمنڈ کی نوک پر ظفر مسعود کا جہاز تھا۔ آپ نے سرگودھا میں فائٹر لیڈر سکول قائم کیا جس کا اب نام کمبیڈ کمانڈر سکول ہے۔ 1965 کی جنگ میں ظفر مسعود سرگودھا کے بیس کمانڈر تھے، اور ہلال جرات سے نوازے گئے۔ کیا کمانڈر ہونگے جن کے ماتحتوں میں سرفراز رفیقی،  یونس حسن، ایم ایم عالم اور سیسل چوہرری جیسے نام ہیں۔ 1971 میں ایسڑن کمانڈ کے اے او سی تھے اور گمان یہی کیا جارہا تھا کہ وہ جلد ہی پاکستان ایر فورس کے چیف ہونگے، مگرظفر مسعود اپنے ملک میں ہی کیے جانے والے آرمی آپریشن سے متفق نہیں تھے۔ آپ کی رائےاپنے سینوں کو ٹھونکتے بے خبروں سے الگ تھی۔ نابیناوں کے جھنڈ میں اس بینا نے استعفی دینے کو بہترجانا۔  بدقسمتی سے ایسے بہادروں کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔

انکی بیگم سے ریٹارئمنٹ کے بعد کی زندگی کا قصہ سننے کو ملا۔ وہ دورموجودہ زمانے کی  مراعات و نوازشات و برکات سے  قبل کا تھا ۔  جمع پونجی لگا کر دونوں نے ایبٹ آباد میں گھر بنایا ۔ وہ الگ لہجے میں اردو بولتی گوری خاتون بازار میں بھاو تاو کر کے تعمیری سامان کے ریٹ کو کبھی قابو لانے کی کوشش کرتی ، کبھی راج مزدوروں کی چالاکیوں کو پکڑ رہی ہوتی۔ کچھ سالوں کے بعد اُنہوں نے جرمنی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔ مکان بیچا اورجرمنی چلے گئے۔  مگر زندگی وہاں کونسی آسان تھی بلکہ وہاں کا خرچ تو اور زیادہ تھا۔ سو چند سالوں بعد واپس پاکستان آگئے۔ ایر چیف مارشل  ریٹائرڈ جمال  کے توسط سے ایک دو کمرے کا فلیٹ ای-۹ میں ان دونوں کو دیا گیا۔

ایر کموڈور ظفر مسعود کا جب انتقال ہوا تو ہم دونوں میاں بیوی  مسز ایلزبتھ  مسعود کے غم میں برابر کے شریک تھے۔ وفات کے دوسرے تیسرے دن میں اُن کے فلیٹ میں بیٹھا تھا کہ مسز مسعود  ایک بڑا  پوسڑ  لے کر آِئیں، کہنے لگیں کہ عاطف یہ تم لے لو۔  میں نے پوسڑ کھولا تو  1958  کے وہ فضائی کرتب کی تصویر تھی - 16 سیبر جہاز  ایک ساتھ سیدھا  آسمان کی طرف  اڑان بھرتے۔ ہر جہاز کے ساتھ  اس کے اڑانے والے پائیلٹ کے دستخط تھے۔  میں چپ سا رہ گیا، اس خاتون نے مجھے کس اعزاز کے لیے چن لیا تھا ۔ مگر اُس تصویر پر توپاکستانی قوم کا حق بنتا تھا،  سو میں نے  لینے سے انکار کیا اور  پی-اے-ایف میوزیم کو عطیہ  کرنے کی اُن سے درخواست کی۔ 

اسی نشسست میں انہوں نے کہا کہ عاطف میں خوش ہوں کہ ظفرکی  موت سے چند دن قبل میں اُس کی خوشی کا باعث بنی۔ کہنے لگیں کہ ظفر چپ چپ تھا، مجھے کہنے لگا کہ مجھے بعض اوقات تمھارا خیال آتا  ہے کہ  استعفی دیکرمیں تمھاری زندگی میں مشکلات لے آیا ۔ اس کے چہرہ پر ایک دکھ تھا، ایک محبت کرنے والے کا دوسرے کے لیے بے غرض خیال ۔  میں نے اُسے کہا کہ آج ہم لوٹ کر واپس اُس دور میں چلے جائیں اور وہ فیصلے کا وقت دوبارہ تمہارے سامنے ہو ، تو بھی میں تمہیں یہی کہوں گی کہ تمھارے استعفی کا فیصلہ درست ہے اور میں تمھارے ساتھ ہوں ۔ ظفر کا چہرہ پرسکون ہوگیا  اور دو دن بعد وہ مر گیا۔ میں خوش ہوں کہ وہ اس دنیا سے مطمن گیا ۔ 

میں نے اُس سفید بالوں، جھریوں زدہ چہرے والی پتلی دبلی  عورت کو غور سے دیکھا اور مجھے سمجھ آگئی کہ کیوں فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ 

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com  
  



Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر