ایم ایم عالم سے ایک ملاقات
تحریر: عاطف ملک
یہ دو ہزار پانچ کی بات ہے کہ کراچی جانا ہوا اور پتہ لگا کہ فیصل بیس میں وہ شخص رہتا ہے جس سے قرون اولی کے مجاھدوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ نمبر معلوم کر کے فون کیا اورحاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اگلے دن کا وقت ملا۔ دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ درویش منش رہ رہا تھا جس کے نام پر لاہور کی مہنگی ترین سڑک ہے جس پر واقع کسی بھی ریسٹورنٹ کے ایک وقت کے کھانے کا بل بہت سوں کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔
سادہ سا کمرہ ، دیوار کے ساتھ الماریاں جو کہ کتابوں سے بھری پڑی تھیں، بستر کے ساتھ تپائی پر زیرِ مطالعہ کتابیں دھری تھیں ، دیوار کے ساتھ لگی دو بیساکھیاں، میز پر سیلوں والی ٹارچ سامنے موجود کہ کثرت سے ہوتی لوڈ شیڈنگ میں آسانی سےڈھونڈ لی جائے۔ عیاشی کے طور پر گولڈ لیف کی ایک ڈبی لائیٹر کے ساتھ میز پر رکھی تھی ۔ سادہ مگر ہر چیز قرینے سے صاحبِ کمرہ کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تھے محمد محمود عالم جنہیں لوگ ایم ایم عالم کے نام سے جانتے ہیں۔
میں نے پٹھانوں کی عموماً پہنے جانے والی سفید ٹوپی پہنے سفید کرتہ شلوارمیں ملبوس اس منحنی سے باریش شخص پرنظر ڈالی۔ عام سا آدمی، سامنے سے گذرے تو آپ نگاہ نہ ڈالیں، اگر دیکھ بھی لیں تو پھر یاد نہ رکھیں۔ اُن سے بات کی تو حلم اور انکساری کا پیکر پایا۔ عجب آدمی، بڑا بننے کو تیار ہی نہیں، کوئی غرور، کوئی میں ہی نہیں ہے۔ آج کے دور میں جہاں بونے اپنے آپ کو دیو ثابت کرنے کی بے سود و بے لحاظ کوشش میں لگے ہیں، عجب شخص کہ میں اُسے دیو مانتا وہ اپنے آپ کو بونا ثابت کرنے میں لگا ہوا۔ آواز میں کوئی فخریہ پن نہیں، آٹھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو پانچ بھارتی جنگی جہازایک منٹ سے کم وقت میں گرائے جو کہ آج بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے، جنگ میں نو بھارتی جہازوں کو تباہ کیا مگر ذکرکرتے آواز میں کوئی فخر کا شائبہ تک نہیں، اپنا کوئی کمال نہ کہا۔ بس اللہ کا کرم تھا، میں نے تو کچھ نہ کیا، وہ سامنے آتے چلے گئے اورگرتے چلے گئے۔
جب سامنے دشمن کے جنگی جہاز ہوں، مرنے مارنے کا وقت ہو، جب پتہ نہ ہو کہ اب واپس زندہ بھی آنا ہوگا کہ نہیں تب انسان کا پتہ چلتا ہے۔ عام اعصاب کا آدمی ہوتو اوسان گم ہو جائیں، دائیں کو مڑنا ہو تو بائیں کو مڑ جائے۔ مگر ایم ایم عالم عام آدمی نہ تھے، وہ تو عالم میں خاص تھے۔ دشمن کے ہواباز بھی تولڑنے آئے تھے، تجربہ کار تھے، جنگ کی خاطر تیار کیے گئے تھے۔ کوئی تار پربیٹھی فاختائیں نہ تھیں کہ سامنے آتے چلے گئے اورڈھیر ہوتے گئے۔ ایم ایم عالم کا حوصلہ تھا، اُن کی تیاری تھی، ان کی شجاعت تھی، مگروہ اپنی کوئی بڑائی بیان کرنے کو تیار نہ تھے۔ حقیقت میں ایم ایم عالم اُس سے بھی بڑے آدمی تھے جتنا انہیں دنیا مانتی ہے۔
میں سوچ میں پڑگیا، کیا دیو ہونے کی لیے قوی ہیکل ہونا ضروری ہے، اس پتلے دبلے آدمی کے سامنے کسی دیو کی کیا حیثیت ہوگی۔
فضائیہ میں بعد میں ایر کموڈور کےعہدے تک پہنچے، اُس وقت کے فضائیہ کے سربراہ کے غلط اقدام کے خلاف آوازبلند کی۔ بونوں کی دنیا میں کوئی اُن کے ساتھ نہ کھڑا ہوا۔ وہ جو پاکستانی قوم کا حقیقی ہیرو تھا، پینشن چھوڑ کرغربت مگر سربلندی کے سفر پر چل نکلا۔ عام آدمی کہاں ایسا کر سکتا ہے۔ برسوں بعد اُسی ایر چیف کا جنازہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس نے اپنے وقت میں قوم کے ہیرو کی ناقدری کی تھی۔ چارلوگ کندھا دینے کو مشکل سے تھے، ادارے سے لوگوں حکماً اکٹھا کر کے جنازے کو کچھ شکل دی گئی۔
محمد محمود عالم بہاری نسل تھے، کلکتے میں پیدا ہوئے، بنگال میں پلے بڑھے۔ اردو کا لہجہ عام لوگوں سے مختلف تھا، پاکستان سے محبت میں سب قربان کیا۔ نوکری کو تج کیا اور روس کے خلاف جنگ میں جانکلے۔ وہ ہواوں کا شاھین، اب مردِ کوھستانی تھا۔ افغان مجاھدین کے ہمراہ ایسا لڑے کہ بعد میں تما م عمر ویسا ہی لباس رکھا، چترالی یا سفید پٹھانوں والی ٹوپی اورپشاوری چپل۔ مطالعہ کا شوق عمربھر رہا، اپنا ذاتی بہت بڑا کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ عجب شخص تھا عالم اورمجاھد دونوں پیرھن اوڑھے تھا۔
کمرے سے نکلتے سوچ میں تھا کہ کیا اِس شخص کی نذر کروں، میرا دامن اُس کے معیار کے کسی نذرانے سے خالی تھا۔ ایک دل تھا سو دروازے کی دھلیز پر رکھ آیا۔ خیال کے موتی ہیں جو آج بھی اُن کی یاد کو نذر کرتا ہوں۔
یہ دو ہزار پانچ کی بات ہے کہ کراچی جانا ہوا اور پتہ لگا کہ فیصل بیس میں وہ شخص رہتا ہے جس سے قرون اولی کے مجاھدوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ نمبر معلوم کر کے فون کیا اورحاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اگلے دن کا وقت ملا۔ دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ درویش منش رہ رہا تھا جس کے نام پر لاہور کی مہنگی ترین سڑک ہے جس پر واقع کسی بھی ریسٹورنٹ کے ایک وقت کے کھانے کا بل بہت سوں کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔
سادہ سا کمرہ ، دیوار کے ساتھ الماریاں جو کہ کتابوں سے بھری پڑی تھیں، بستر کے ساتھ تپائی پر زیرِ مطالعہ کتابیں دھری تھیں ، دیوار کے ساتھ لگی دو بیساکھیاں، میز پر سیلوں والی ٹارچ سامنے موجود کہ کثرت سے ہوتی لوڈ شیڈنگ میں آسانی سےڈھونڈ لی جائے۔ عیاشی کے طور پر گولڈ لیف کی ایک ڈبی لائیٹر کے ساتھ میز پر رکھی تھی ۔ سادہ مگر ہر چیز قرینے سے صاحبِ کمرہ کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تھے محمد محمود عالم جنہیں لوگ ایم ایم عالم کے نام سے جانتے ہیں۔
میں نے پٹھانوں کی عموماً پہنے جانے والی سفید ٹوپی پہنے سفید کرتہ شلوارمیں ملبوس اس منحنی سے باریش شخص پرنظر ڈالی۔ عام سا آدمی، سامنے سے گذرے تو آپ نگاہ نہ ڈالیں، اگر دیکھ بھی لیں تو پھر یاد نہ رکھیں۔ اُن سے بات کی تو حلم اور انکساری کا پیکر پایا۔ عجب آدمی، بڑا بننے کو تیار ہی نہیں، کوئی غرور، کوئی میں ہی نہیں ہے۔ آج کے دور میں جہاں بونے اپنے آپ کو دیو ثابت کرنے کی بے سود و بے لحاظ کوشش میں لگے ہیں، عجب شخص کہ میں اُسے دیو مانتا وہ اپنے آپ کو بونا ثابت کرنے میں لگا ہوا۔ آواز میں کوئی فخریہ پن نہیں، آٹھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو پانچ بھارتی جنگی جہازایک منٹ سے کم وقت میں گرائے جو کہ آج بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے، جنگ میں نو بھارتی جہازوں کو تباہ کیا مگر ذکرکرتے آواز میں کوئی فخر کا شائبہ تک نہیں، اپنا کوئی کمال نہ کہا۔ بس اللہ کا کرم تھا، میں نے تو کچھ نہ کیا، وہ سامنے آتے چلے گئے اورگرتے چلے گئے۔
جب سامنے دشمن کے جنگی جہاز ہوں، مرنے مارنے کا وقت ہو، جب پتہ نہ ہو کہ اب واپس زندہ بھی آنا ہوگا کہ نہیں تب انسان کا پتہ چلتا ہے۔ عام اعصاب کا آدمی ہوتو اوسان گم ہو جائیں، دائیں کو مڑنا ہو تو بائیں کو مڑ جائے۔ مگر ایم ایم عالم عام آدمی نہ تھے، وہ تو عالم میں خاص تھے۔ دشمن کے ہواباز بھی تولڑنے آئے تھے، تجربہ کار تھے، جنگ کی خاطر تیار کیے گئے تھے۔ کوئی تار پربیٹھی فاختائیں نہ تھیں کہ سامنے آتے چلے گئے اورڈھیر ہوتے گئے۔ ایم ایم عالم کا حوصلہ تھا، اُن کی تیاری تھی، ان کی شجاعت تھی، مگروہ اپنی کوئی بڑائی بیان کرنے کو تیار نہ تھے۔ حقیقت میں ایم ایم عالم اُس سے بھی بڑے آدمی تھے جتنا انہیں دنیا مانتی ہے۔
میں سوچ میں پڑگیا، کیا دیو ہونے کی لیے قوی ہیکل ہونا ضروری ہے، اس پتلے دبلے آدمی کے سامنے کسی دیو کی کیا حیثیت ہوگی۔
فضائیہ میں بعد میں ایر کموڈور کےعہدے تک پہنچے، اُس وقت کے فضائیہ کے سربراہ کے غلط اقدام کے خلاف آوازبلند کی۔ بونوں کی دنیا میں کوئی اُن کے ساتھ نہ کھڑا ہوا۔ وہ جو پاکستانی قوم کا حقیقی ہیرو تھا، پینشن چھوڑ کرغربت مگر سربلندی کے سفر پر چل نکلا۔ عام آدمی کہاں ایسا کر سکتا ہے۔ برسوں بعد اُسی ایر چیف کا جنازہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس نے اپنے وقت میں قوم کے ہیرو کی ناقدری کی تھی۔ چارلوگ کندھا دینے کو مشکل سے تھے، ادارے سے لوگوں حکماً اکٹھا کر کے جنازے کو کچھ شکل دی گئی۔
محمد محمود عالم بہاری نسل تھے، کلکتے میں پیدا ہوئے، بنگال میں پلے بڑھے۔ اردو کا لہجہ عام لوگوں سے مختلف تھا، پاکستان سے محبت میں سب قربان کیا۔ نوکری کو تج کیا اور روس کے خلاف جنگ میں جانکلے۔ وہ ہواوں کا شاھین، اب مردِ کوھستانی تھا۔ افغان مجاھدین کے ہمراہ ایسا لڑے کہ بعد میں تما م عمر ویسا ہی لباس رکھا، چترالی یا سفید پٹھانوں والی ٹوپی اورپشاوری چپل۔ مطالعہ کا شوق عمربھر رہا، اپنا ذاتی بہت بڑا کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ عجب شخص تھا عالم اورمجاھد دونوں پیرھن اوڑھے تھا۔
کمرے سے نکلتے سوچ میں تھا کہ کیا اِس شخص کی نذر کروں، میرا دامن اُس کے معیار کے کسی نذرانے سے خالی تھا۔ ایک دل تھا سو دروازے کی دھلیز پر رکھ آیا۔ خیال کے موتی ہیں جو آج بھی اُن کی یاد کو نذر کرتا ہوں۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment