ہجرت


                                                              تحریر: عا طف ملک 
یہ افسانہ اردو جریدےادب لطیف میں شائع ہوچکا ہے۔ 

پس منظر: 
  حکومتِ نے کچھ عرصہ قبل ڈے لائیٹ سیونگ کے نام پر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی تھیں۔ یہ افسانہ اُسی فیصلے کے تناظر میں لکھا گیا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے، ایک لمحہ جو اُس نے گذارا  نہیں،  ایک پل جس میں اُس نے سانس نہیں لیا ، جو اُس پر نہیں بیتا، جسے اُس نے محسوس نہیں کیا ، جو اُس کے احساسات سے نہیں گذرا ، جس کو اُس نے خرچ نہیں کیا  اُس کے حساب سے کیسے خارج ہو گیا ۔ اُس کی عمر سے کیسے منہہ ہو گیا ، خود بخود ، بنا  اُس سے پو چھے۔  ذاتی بنک اکاونٹ میں جمع رقم  کہ جس پر انسان کا  حقِ ملکیت ہوتا  ہے، ضبط ہو جا ئے،  بغیر قصور کے،  بغیر  بتائے، بنا پو چھے ۔ وہ یہی سوچتا رہا  ، اسے جلن تو نہیں کہتے مگر اِک زیاں کا احساس تو  تھا، جیسے بو ڑھے کسان سے گندم کی بوری نہ اٹھائی جائے  تو جوان بیٹا کچھ کہے بغیر بوری اُٹھا لے، ایک لمحہ جو  برسوں بیت جانے کا احساس دلا جاتا ہے، خامو شی کے ساتھ، چپکے سے ۔اُس نے سوچا یہ حکومت کون ہوتی ہے گھڑیوں کی سوئیاں آگے پیچھے کرنے والی، بنا پوچھے میری زندگی کا ایک گھنٹہ لے جانے والی۔   
                                                                        
 محمد یقین جب گورداسپور کے گاوں  بیبل چک میں پیدا ہوا تھا  تو اُس  کے باپ نے اُس کا نام یقین نہ جا نے کیا  سوچ کر  رکھا تھا ۔ شا ید  نورمحمد  چاہتا  تھا  کہ اُس  کے بیٹے کو   اپنے  اوپر  یقین  ہو ۔ شا ید   اسی خوا ہش پر  نورا  اُس کو  کاندھوں  پر بٹھا کر  تین گاوں  پیدل سکول چھوڑ کر  اور  لے کر آتا  تھا۔ جب 1946 میں محمد یقین نے دسویں کا امتحان دیا  تو  اُسے یقین نہ تھا کہ وہ پا س ہو جائے گا اور آگے اُس نے کیا کرنا ہے۔ اُسے تو صرف وہ لمحہ یاد ہے کہ جب اُس نے میڑک  سیکنڈ  ڈویژن  پاس کیا تو  نورے نے گاوں بھر  میں  بتا شے  بانٹے تھے اور گاوں میں سینہ پُھلا کر فخر سے پھرا تھا  کہ  برادری  کے  پہلے دس جما عت پاس کا باپ تھا۔ بن ماں کے اکلوتے لڑکے کو اُس نے ایسا پالا تھا کہ گاوں میں نورے کی مثال  دی جاتی تھی۔   
                                                                                
   اگلے سال پاکستان بننے پر جب محمد یقین نے پیدل راوی پار  کیا تھا تو  اُس کے مہاجر قافلے کے تین چوتھا ئی لوگ راستے میں سکھوں کے حملے میں مارے گئے تھے۔ اُسکی آنکھوں  کے سامنے نورے کے سینے میں برچھی  آر پار ہوئی تھی، نورے کو صرف کلمہ پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ یقین نے باپ کے سر پر بندھی سفید پگڑی کھول کر اُسی کے خون سے تر  کی اور کسی مقدس شے کی مانند سینے سے لگا کر کھڑا ہو گیا ۔ گاموں کمہار نے جب اُسے بت کی مانند باپ کی لاش پر کھڑے دیکھا  تو  ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ کو کھینچا اور بھاگنے لگا۔ خون سے بھری وہ پگڑی یقین کے سینے سے لگی رہی،  پاکستان پہنچ کراُس نے ایک گڑھا کھود کر وہ پگڑی دفن کی اور پہلی دفعہ رویا ۔ 
                                                           
  محمد یقین نے اِس آزاد  مملکت میں اپنا آغاز  تمام مشکلات کے باوجود  بڑے یقین سے کیا۔ یہ ملک ہی اُس کے لیے سب کچھ تھا ، دن میں پڑھائی  اور شام کو مزدوری۔ کلیموں اور الاٹمنٹوں کی جب باری آئی تو  وہ کیا  الاٹ کراتا  ، اپنا کلیم تو وہ سرحد پار کرتے ہی دفنا  آیا تھا ۔ یقین نے محکمہ تعلیم میں چا لیس سال نوکری کی۔ اُس نےمحنت سے پڑھایا  اور اُس کے شاگردوں نے ہمیشہ اُسکی عزت کی۔ عزت کے علاوہ اُسکی کمائی اُسکا اکلوتا بیٹا تھا جس کا نام اُس نے اپنے باپ کے نام پر نور محمد رکھا۔ نور محمد نے جب لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تو  یقین کو  خوشی کے اُس لمحے کا ادراک  ہوا جب اُس کے باپ نے گاوں میں بتاشے بانٹے تھے۔

نور محمد نے ڈگری تو حاصل کرلی مگر نوکری لینا آسان نہ تھا۔ نوکریاں کم تھیں اور سفارشیں زیادہ تھیں۔ انجینئیر نور محمد کبھی ٹیوشنیں پڑھاتا اور کبھی نوکری کے لیے درخواستیں جمع کراتا۔ سب سے بڑھ کر حقائق کی دنیا پڑھائی کی دنیا سے بالکل فرق تھی۔ وہ جو اپنے بڑوں کے لہو کی قربانیوں کے قصے سن کر بڑا ہوا تھا، جب چار طرف پھیلی بے انصافی دیکھتا تو اس کی آنکھ خون کے آنسو روتی۔ اس کے کچھ ساتھی سی-ایس-ایس کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے کہ معاشرے سے انتقام کے لیے کمزور کو یہی راستہ نظر آتا تھا کہ خدمت میں عظمت نہیں بلکہ دوسروں سے اپنی عہدے کے بل پر خدمت کروا کر عظمت حاصل کرلی جائے۔ نور محمد کو یہ راستہ کبھی پُر کشش، کبھی قابل نفرت، کبھی قابلِ رحم محسوس ہوتا۔ پیسے، عہدے کی شکل میں پُرکشش، استحصالی نظام کے کارندے کی شکل میں قابل نفرت اوراُس  ظالم کے لیے قابلِ رحم جو معاشرے سے انتقام کے خاطر اپنی ذات کے ٹکڑے کر بیٹھے۔
 
کسی بھی ذہین نوجوان کی طرح نور محمد کے لیے یہ بڑا تکلیف دہ دور تھا۔ اسی دوران اُسے علم ہوا کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے دروازے دوسرے ممالک کے ذہین افراد کے لیے کھولے ہیں کہ وہ جو اپنے گھر میں بے توقیر ہیں، وہ وہاں آ کر اپنی محنت سے کچھ  بن سکتے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ ہجرت کا وقت پھر آگیا ہے۔ پہلی ہجرت جان بچانے کے لیے کی گئی تھی، یہ ہجرت کس لیے ہوگی؟ آسائش کے لیے، آرام کے لیے، بے توقیری سے بچاو کے لیے، بے انصافی سے بچنے کے لیے، بے بسی سے محفوظ رہنے کے لیے،  کس لیے ہوگی؟ نور محمد کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ وار کرنے والوں کے ہتھیار اور تھے اور وہ جتھوں کی شکل میں چار سو حملہ آور تھے؛ چار سو اور چوبیس گھنٹوں کے حملہ آور، کلرک سے لے کر اوپر تک کے سرکاری عہدیدار، ملاوٹ کا مال بیچتے دکاندار، تعلیم کی بولی لگاتے ادارے، امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کو اپنے نفع کے لیے استعمال کرتے قانون کے رکھوالے، حملہ آورچاروں طرف سے آٹھوں پہروں کے حملہ آور تھے۔ اُسے اپنے باپ کی قربانیوں کا خیال تھا، مگر اسے اپنا بھی خیال آتا تھا، ایک اگلی نسل جو اس سے چلنی تھی اُس کا بھی خیال آتا تھا۔ ہجرت ہی ایک واحد راستہ نظر آتا تھا، مگر ہجرت کبھی بھی آسان نہیں ہوتی، آدمی کو دو ٹکڑے کر دیتی ہے۔

جب ماسٹر محمد یقین کو نور محمد نے بتایا کہ اس نے کینیڈا کی امیگریشن لے لی ہے اور وہ نئے دیس کو ہجرت کر رہا ہے تو محمد یقین کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے سینے میں برچھی گھونپ دی گئی ہے، جیسے اُسکی عمر  کی سوئیاں یکایک  آگے کر دی گئی ہیں، بنا اُس سے پوچھے، بنا بتلائے، اُس کے ذاتی اکاوئنٹ میں جمع رقم، اُس کی محنت، دھوپ پسینے کی کمائی یکایک ضبط ہوگئی، بنا  اُس کےعلم کے، بغیر کسی قصور کے۔
 

  
   #aatifmalik                                                                                                           

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر