مرزا استاد بیگ
تحریر عاطف ملک
Few words to explain: perpetual machine is called دوامی مشین and Opportunity is موقع .
مرزا استاد بیگ ہمارے دفتری ساتھی ہیں، نوکری میں ہم نے اُن کے جوہر خوب دیکھے۔ فرماتے کہ نوکری کو اخلاقیات سے الگ رکھو کہ نوکری میں قول و فعل کا تضاد خامی نہیں بلکہ خوبی ہے۔ مزید فرماتے کہ نوکری میں انسان پھول کی مانند ہونا چاہیئے، مگر ہر ایرے غیرے پھول کی مانند نہیں بلکہ سورج مکھی کے پھول کی مانند کہ ہر وقت چہرہ سورج کی جانب ہونا چاہیئے۔ ہمیں اِن افکار پر سوچ میں پا کر مزیدرہنمائی کی خاطر کہنے لگے کہ دفتر میں اُس مرغی کی مانند ہو جو انڈا دے نہ دے مگر کُڑکُڑ کی مسلسل آوازیں نکال کر سب کو اپنے جانب متوجہ رکھتی ہے کہ ابھی انڈا آیا چاہتا ہے۔ سو اسی بنا پر دفتر میں کردار نہیں بلکہ گفتار کے غازی کی شہرت رکھتے تھے۔ زبان کا استعمال مرزا کے مقابل ہم نے کسی کا نہ پایا۔
ایک دن ہمیں نصیحت کرتے کہنے لگے کہ مقبولیت پر نہیں بلکہ قبولیت پر کام کرو ۔ پھر اپنے قول کی مزید تشریح کرنے لگے کہ مقبولیت تب حاصل ہوتی ہے جب آپ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں، اِس سے ماتحتوں کو تو کوئی فائدہ ہو آپ کچھ نہ پائیں گے- اِس کے برعکس آپ کا افسرِاعلی آپ کو قبول کر لے تو آپ فائدہ میں رہیں گے۔ سو اِسی بنا پر مرزا کے ماتحتوں میں سے جو تبادلہ کر وا پائے دوسرے دفاتر کو عازمِ سفر ہوئے، جو نوکری چھوڑ نے کی استعداد رکھتے تھے، نوکری چھوڑ بھاگے۔ جو اِن دونوں صورتوں سے قاصر تھے، اُنہوں نے قسمت کا لکھا جان کر قبول کیا کہ شاید آخرت میں اِس تکلیف کا اجر پائیں گے۔ایک دن مرزا کے اردلی کو خلافِ معمول مسکراتا پاکر ہم نے پوچھا تو اُس نے راز کی بات افشا کر دی۔ کہنے لگا کہ مرزا کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک بزرگ کے پاس اپنا دکھ لے کر حاضر ہوا ، بزرگ نے داستانِ غم سُن کر ایسا توڑ بتایا کہ اب زندگی میں افاقہ تھا۔ ہچکچاتے بتانے لگا کہ مرزا کے آفس میں داخلے سے پہلے اب بیت الخلاء جانے کی دعا پڑھ لیتا ہوں سو سب خبائث سے محفوظ رہتا ہوں ۔
ایک دن مرزا کے دفتری نظریات سے اختلاف کرتے ہم نے کہا کہ مرزا ہمارے خیال میں ہمارا مسلہ نافرمانی نہیں بلکہ تعبداری ہے۔ پھڑک گئے، کہنے لگے نوکری کے لیے جو وسعتِ نظر کی ضرورت ہے، آپ اس سےعاری ہیں۔ اُس کے بعد ایک لمبا لیکچر دیا، جس کے بعد ہمیں آنکھیں ڈھانپے، دائرے میں چلتے کولہو کے بیل پر رشک آنے لگا، بلکہ مرزا کوغور سے دیکھا تو ہمیں آنکھوں پر بندھا کپڑا صاف دکھائی دیا۔
ایک دفعہ خلافِ معمول مرزا کو دنیا کی بے ثباتی پر رنجیدہ پایا ۔ استفسار پر بتایا کہ کل بعد از نمازِ مغرب مسجد میں میلاد پر اُن کے افسر اعلی مہمانِ خصوصی تھے۔ مرزا اُس دن کے اثرات پر زور دیتے فرمانے لگے کہ وہ دن ہی کچھ ایسی مبارک ساعت تھا کہ مرزا جو کہ صرف جمعہ کے جمعہ مسجد کا رخ کرتے تھے، عصر سے ہی مسجد کی جانب کھنچے چلے گئے۔ کارنر پلاٹ کی مانند ایک موقع کی نشست چنی ۔ دروغ بر گردنِ راوی یعنی بر گردنِ مرزا ، کہنے لگے کہ اُس افسرانہ موجودگی سےماحول میں اتنی نورانیت آگئی تھی کہ فرشتوں کے پھڑ پھڑانے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ مولانا صاحب کے وعظ میں وہ اثر تھا کہ باس کے پہلو میں بیٹھے مرزا بار با ر آبدیدہ ہو جاتے تھے، گیلے رومال سے بار باراپنی خشک آنکھیں پونچھتے۔ مزید فرمانے لگے کہ واعظ کے ایک ایک لفظ پر دس نیکیاں تو اگلے جہاں ملنی تھی، مگراس دن تو اِسی دنیا کہ سنورنے کا موقع تھا اور مرزا کے بقول موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے بلکہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہو۔ سواس بنا پر ہم نےمرزا کے ہاتھوں کئی بیگار کو مواقع اور کئی مواقع کو بیگار بنتے دیکھا۔ پانی میں مدہانی گھما کرمکھن نکالنے کا اعلان کرتے، زبان دانی کی داد دیجیئے کہ اُنکے بڑے مان بھی لیتے کہ وہ یہ معجزہ کرکےدکھائیں گے۔ پھر یہ موقع بیگار بن کرماتحتوں پر برستا اور آخر میں مکھن کیا نکلتا کوئی ماتحت موردِالزام ٹھہرتا اور مرزا مکھن میں سے بال کی طرح نکل جاتے۔ ماتحت ہی نااہل تھے ورنہ مرزا تو دوامی مشین کب کی بناچکے ہوتے ۔ مرزا محبت اور جنگ کی سطح پر نوکری کو بھی رکھتےتھے کہ اس کے لیے سب حرکات جائز جاننتے تھے۔ ادارے کے نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر اپنے نفع و نقصان کا خیا ل کرتے اور اپنے بعد اپنے افسر اعلی کےنفع و نقصان کا خیا ل کرتے کیونکہ نوکری کی ریاضی میں اگر آپ اپنے بڑے کا فائدہ کر پائیں تو اجر آپ تک بھی آتا ہے۔ سو اس بنا پر ہم نے مرزا کو اکثر ادارے سے بڑھ کر شاہ کا وفادارپایا۔
یوسفی صاحب نے جھوٹ کی تین قسمیں بتائی ہیں؛ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار۔ اسی بنا پر مرزا کو سر کاری اعداد و شمار سے خاص شغف تھا۔ اعداد کی قلابازی سے مرزا دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے پر قادر تھے۔ ایک دفعہ ہمارے پوچھنے پر بتانے لگے کہ اُن کے آباء میرٹھ میں عدالت کے قاضی تھے، دن میں عدد کی بات طے ہوتی، شام کو شمار کرتے۔ سو سائل کی جیب کے مطابق عدالتی کاغذات سے جادوئی کبوتر سے لیکر حسینہ ایمان فروش تک نکال لاتے تھے۔ غر ض یہ کمال آج حاصل نہ کیا تھا بلکہ کئی پشت سے پیشہ آباء عددگری تھا۔
مرزا ہر ہفتے بالوں کو سیا ہ رنگتے تھے ۔ ہمیں کہنے لگے کہ بالوں اور دل کا رنگ متضاد ہوتا ہے، سیاہ بالوں والوں کا دل روشن ہوتا ہے ۔ ہم نے اختلاف کی اجازت چاہی اور کہا مرزا گو ہم نے بعض سفید بالوں والوں کو دل کا سیا ہ پایا مگر بعض کو دل کا روشن بھی پایا ۔ کہنے لگے کہ کبھی کالے بکرے کی قربانی دی ہے، باطن کا اجلا ہوتا ہے اسی لیے تو دافعِ بلیات ہے۔ سو مرزا نے اعما ل کی بجائے بالوں کی سیاہی کو نیکی جان رکھا تھا۔ مرزا سے ایک دفعہ تعلیم پر گفتگو ہوئی، ہم نے کہا مرزا ہم نے تمہاری صحبت میں یہ جانا ہے کہ جتنی مرضی تعلیم حاصل کرلو مگر موٹی کھال پر بارش اور تعلیم دونوں اثر نہیں کرتیں۔ کہنے لگے، رہے نہ تم کند ذہن کے کند ذہن، یہ موٹی کھال نہیں بلکہ موٹی آسامی بننے کے سفر کا نشان ہے کہ تعلیم اور اخلاق بے نشان ہوجاتے ہیں۔
مرزا غلامیِ اعلی کے خوگر تھے ، اپنے کمالات کی بنا پر لوگوں کی بد دعا اور ترقی پر تر قی لیتے رہے۔ عرصے بعد ملاقات ہوئی تو گئے دنوں کا ایک عکس تھے۔ ریٹارئمنٹ کے بعد ایک نوکری کی، وہاں بھی اپنی خو نہ بدلی، کسی اپنے سے بڑے اہلِ فن کا شکار ہوئے، انکوائری ہوئی، نوکری و عزتِ اعداد وشمار دونوں گئیں ، اب گئے دنوں کے قصوں پر اور اگلے شکار کی تلاش پر چل رہے تھے۔ اورکیا کہیں، "حق مغفرت کرے عجب حضور مرد تھا"۔
#aatifmalik
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment