غرناطہ کا مدرسہ یوسفیہ
تحقیق، تحریر و تصاویر: عاطف ملک
غرناطہ کو چلیے، حصہ سوم درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html
https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html
مدرسہ یوسفیہ میں مسجد کے کمرے کے دروازے کی اندرونی تصویر |
غرناطہ مدرسے کی موجودہ بیرونی تصویر |
کہا جاتا ہےکہ یہ مدرسہ مسلم سپین میں سب سے پرانا تھا اورموجودہ جگہ سے قبل غرناطہ میں شاہی املاک میں قائم تھا۔ اُس پرانی جگہ کاعلم نہیں ہوسکا۔ اس خیال کی وجہ یہ ہےکہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنہ 1066 عیسوی میں قائم کیا گیا تھا اور اندلس میں مسلمان حکمرانی 711 عیسوی میں قائم ہوئی سو یہ لازمی خیال کیا جاسکتا ہے کہ مدرسے کا قیام 1349 عیسوی سے کہیں پہلے ہوگا [2]، [5]۔
عمارت کو شاعری اوراقوال سے مزین کیا گیا تھا جو اُس دورکے ہنرمندوں اورخطاطی کی مہارت کا آئینہ دار ہے۔ ان میں سے ایک عربی عبارت جو بچ گئی ہےاس کا ترجمہ کچھ یو ں ہے، "اگر آپ کی روح جستجو کی چاہ رکھتی ہے اورلاعلمی کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے، تو یہ جگہ ہے جو علم اورعزت کی آبیاری کرتی ہے۔علم حاصل کریں اورستاروں کی طرح روشن ہو جائیں، اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کمال تک لے جائیں"[3]۔
مدرسےکا بڑا بیرونی دروازہ ایک صحن میں کھلتا تھا۔ اس صحن کے درمیان میں اندلسی طرزِ تعمیر کے مطابق حوض تھا اورچاروں طرف کمرے بنے تھے جن میں پڑھائی کے کمرے اورطالبعلموں کی رہائش تھی۔ صحن کے ایک جانب مسجد تھی، آج اس مدرسے کی تمام عمارت میں صرف مسجد کا ایک کمرہ ہی اصلی جالت میں بچا ہے۔
مدرسے میں مسجد کے کمرے میں داخلے کا دروازہ |
یہ چوکورکمرہ ہے، کمرے میں داخل ہوں تو سامنے محراب نظر آتی ہے۔ محراب اور کمرے کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ محراب کے گرد مختلف رنگوں سے جوڑ کر ڈیزائن بنائےگئے ہیں، اس کے علاوہ قرآنی آیات کی خطاطی بھی نمایاں ہے۔ الحمرا کے محل میں لکھا ہوا، " ولا غالب الا اللہ" بھی یہاں نظر آتا ہے۔ کمرے کے چاروں کونوں سے مقرنص ڈیزائن چھت پرجاکرآٹھ کونے لکڑی کے چھت سے مل جاتا ہے۔ چھت کے نیچےسولہ کھڑکیاں ہیں جو ہوا اور روشنی کے لیے استعما ل ہوتی ہونگی۔ کمرے میں خطاطی اور ڈیزائن میں استعمال ہوئے اصل رنگ ابھی تک محفوظ ہیں۔
محراب سے اوپر کی تصویر |
کمرے کے کونے پر مقرنس ڈیزائن اور چھت پر روشنی
کے لیے کھڑکیاں |
مدرسے کو ٹاون ہال میں تبدیل کر دیا گیا۔ عمارت میں کئی تبدیلیاں ہوئیں، حوض کومٹی سے پر کردیا گیا۔ صرف مسجد کا کمرہ ہی اپنی اصل حالت میں باقی ہے۔ موجودہ دور میں یہ عمارت اب غرناطہ یونیورسٹی کے حوالے ہے۔
اس مدرسے کے نمایاں طالبعلموں میں ابن الخطیب شامل ہے جو کہ ایک شاعر، فلسفی، مورخ، طبیب اورغرناطہ میں وزیر رہے۔ الحمرا میں دیواروں پر انکی شاعری آج بھی خوشخط لکھی دکھائی دیتی ہے۔ ابن الخطیب نے یورپ کو صابن سے متعارف کروایا۔ اسکی تحقیق سے بیماریوں کے خاتمے کے لیےغسل میں صابن کا استعمال یورپین کو بتلایا گیا۔ لفظ سوپ یعنی انگریزی میں صابن عربی لفظ صف اور صفاء سے نکلا ہے جس کا مطلب صفائی ہے [4]۔
مسافرنے کمرے کو غور سے دیکھا۔ کمرہ قبلہ رو کھڑا تھا، صدیوں سے کھڑا، ساکت۔ اذانوں کے آواز کہیں تھی، دور کہیں، یا کہیں نزدیک ہی، اذاں شاید تھی، یا شاید نہیں تھی، یقیناً تھی یا شاید گماں تھا۔ گماں جیسے کسی پیارے کو دفن کرنے کے بعد بھی گماں رہتا ہے کہ یہیں ہے، یہیں آس پاس، سرگوشی کرتا، ابھی آئے گا۔ غم کی چادرجسم پراوڑھے، دکھ میں لپٹے بھی گماں ہوتا ہے، سب جھوٹ ہے، جھوٹ۔ دھند کی طرح چاروں طرف پھیلا جھوٹ۔
مسافر نے حُسن کی طرف دیکھا۔ حُسن اوردکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔
مسافر کے پاس نذر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ ایک جسم تھا، قبلہ روہو کراُس کمرے میں سجدہ ریزہوا۔ صدیوں سےٹھہری، جامد زمین پر پیشانی رکھ دی۔ اورکچھ دینے کو تھا بھی نہیں۔ ساتھ کوئی اوربھی سجدہ ریز تھا، عالم یا صوفی۔ اسی مدرسے کے سبق پڑھتے بچے یا کوئی فاضل استاد۔
کوئی تھا، انتظارمیں، برس ہا برس کے انتظارمیں، صدیوں سےانتظارمیں۔ اذاں کی آواز تھی، یا نہیں تھی۔ کوئی ساتھ تھا یا نہ تھا، کچھ تو تھا یا کچھ بھی نہ تھا، اک سرگوشی تھی، ولاغالب الا اللہ ۔
حُسن اوردکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔
مسافرنے کمرے کو غور سے دیکھا۔ کمرہ قبلہ رو کھڑا تھا، صدیوں سے کھڑا، ساکت۔ اذانوں کے آواز کہیں تھی، دور کہیں، یا کہیں نزدیک ہی، اذاں شاید تھی، یا شاید نہیں تھی، یقیناً تھی یا شاید گماں تھا۔ گماں جیسے کسی پیارے کو دفن کرنے کے بعد بھی گماں رہتا ہے کہ یہیں ہے، یہیں آس پاس، سرگوشی کرتا، ابھی آئے گا۔ غم کی چادرجسم پراوڑھے، دکھ میں لپٹے بھی گماں ہوتا ہے، سب جھوٹ ہے، جھوٹ۔ دھند کی طرح چاروں طرف پھیلا جھوٹ۔
مسافر نے حُسن کی طرف دیکھا۔ حُسن اوردکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔
مسافر کے پاس نذر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ ایک جسم تھا، قبلہ روہو کراُس کمرے میں سجدہ ریزہوا۔ صدیوں سےٹھہری، جامد زمین پر پیشانی رکھ دی۔ اورکچھ دینے کو تھا بھی نہیں۔ ساتھ کوئی اوربھی سجدہ ریز تھا، عالم یا صوفی۔ اسی مدرسے کے سبق پڑھتے بچے یا کوئی فاضل استاد۔
کوئی تھا، انتظارمیں، برس ہا برس کے انتظارمیں، صدیوں سےانتظارمیں۔ اذاں کی آواز تھی، یا نہیں تھی۔ کوئی ساتھ تھا یا نہ تھا، کچھ تو تھا یا کچھ بھی نہ تھا، اک سرگوشی تھی، ولاغالب الا اللہ ۔
حُسن اوردکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔
غرناطہ کو چلیے، حصہ سوم درج ذیل لنک پر ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html
ایک سجدہِ عقیدت، صدیوں سے مسجد کی بے سجدہ زمیں پر |
مدرسے کے اندر سے تصویر ۔ درمیان میں روشنی کے لیے
جگہ ہے، جبکہ چاروں طرف کمرے ہیں |
مسجد کے کمرے کی چھت اور کھڑکیاں |
مسجد کے کمرے کے کونے کی تصویر |
Comments
Post a Comment