اگست 1947 اور ماموں رفیق کی کہانی
اگست 2018 کو لکھا
بچپن میں یاد نہیں کہ کب ماموں رفیق سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ میری والدہ اور والد دونوں کے رشتے کے بھائی تھے۔ شاید وہ ہمارے گھر آئے تھے یا ہم اُن کے گھر گئے تھے۔ اُن کے گھر جانے کی ملاقات کےعلاوہ بھی وجہ ہوتی، سو اماں ابا عید تہوار سے قبل اُن کی طرف جاتے تھے۔
لاہورمیں انجینرنگ یونیورسٹی سے جی ٹی روڈ پر شہر کی طرف چلیں تو سڑک ریلوے لائن کےساتھ چلتی جاتی ہے۔ گھڑی شاہو کا پل اترکربائیں مڑیں تواسی جی ٹی روڈ پرچڑھیں گے۔ شروع میں بائیں طرف ریلوے ملازموں کی کالونیاں ہیں اوردائیں طرف پرانی آبادیاں ہیں؛ سوامی نگر، تیزاب احاطہ، سلطان پورہ، آگے چمڑہ منڈی اور جی ٹی روڈ ریلوے لائن کے متوازی ہو جاتی ہے۔ ایک موریہ پل اور دو موریہ پل، جو پل نہیں بلکہ ریلوے لائن کے نیچے سے نکلتے راستے ہیں کہ جن سے نکل کر سرکلر روڈ سے ہوکر اکبری منڈی ، شاہ عالمی اور اندرون لاہور جاسکتے ہیں۔ سوامی نگر، تیزاب احاطہ کےعلاقےعمومی طورپرمتوسط، سفید پوشوں کے علاقے تھے۔ ایک بہت بڑی تعداد ریلوے کے ملازمین کی تھی؛ بکنگ کلرک، گارڈ، کانٹا بدلنے والے، ریلوے کے ورکشاپوں میں کام کرنے والے محنت کش اوران علاقوں میں نسبتاً مزید غریب محلوں میں رہتے قلی۔
ماموں پڑھے لکھے اتنے نہ تھے۔ ریلوے میں کانٹا بدلنے کی نوکری کرتے تھے، کانٹا مین کہلاتے تھے۔ ایک پٹری سے آتی ریل گاڑی کو دوسری لائن پرڈالنے کے لیے پٹریوں کے ساتھ لگے بڑے بڑے لیورز کو زورلگا کر کھینچ کرسائیڈ لائن سے مین لائن پر اور مین لائن سے سائیڈ لائن پر گاڑی ڈالتے تھے۔
رہائش تیزاب احاطہ کےعلاقے کی ایک تنگ گلی میں تھی۔ موٹر سائیکل اورسائیکل ہی گلی میں جا سکتی تھی۔ گلی میں داخل ہوں تو دونوں طرف گندے پانی کے نکاس کی نالیاں بہہ رہی تھیں، آگے جائیے تو گلی کے ایک کونے میں ہینڈ پمپ لگا تھا کہ رہائشی پانی لے سکیں۔ ہینڈ پمپ کے ساتھ ہی ایک کمرے کی مسجد تھی۔ مسجد کے سامنے پرانے سے بنے گھر تھے۔ تقسیم کے بعد مہاجرلٹ پٹ کر آئے تو ہندوں کے خالی کیے ان گھروں کو سر چھپانے کے لیے غنیمت جانا۔ تاریک سی سیڑھیاں اوپر چڑھتی تھیں، پہلی منزل پر دائیں کے گھر میں ماموں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ تاریک سے کمرے کہ دھوپ مشکل سے گھر میں داخل ہوتی تھی، برآمدے کی چھت میں ایک چوکور حصہ چھوڑا گیا تھا، جس میں سلاخیں لگی تھیں کہ روشنی اور ہوا گھر میں آسکیں، مگر یہ ناکافی محسوس ہوتا تھا۔
ایک کانٹا بدلنے والے کی ریلوے میں اتنی تنخواہ نہیں ہوتی، سو ماموں نوکری کےعلاوہ گلیوں میں پھیری لگا کرکپڑا بیچتے تھے۔ سائیکل کا پچھلا کیرئیرتبدیل کرکےاسکی سطح بڑھالی تھی۔ شاہ عالمی کی تھوک مارکیٹ سے کپڑا لاتے اور سائیکل کے پیچھے کپڑے کا ایک گھٹر لاد کرگلیوں گلیوں آواز لگاتے پھرتے۔ ماپ کا گزسائیکل کےڈنڈے پرباندھا ہوتا۔ گلی محلے میں عورتیں ادھار پر کپڑا خریدتیں، کہ پہلی کی پہلی گھرتنخواہ آنے پرادائیگی ہوتی۔ ماموں کی حساب کی کاپی کئی غریبوں کے حال کی رازدار تھی۔ اُنکے گھرجانا ہوتا تو بلب کی ناکافی روشنی میں تاریک سے کمرے میں گھٹرکھلتا اوراماں کپڑے پسند کررہی ہوتیں اورخریدتیں۔
ماموں نے داڑھی رکھی تھی، مگرداڑھی چہرے کے بائیں گڑھے کو چھپانےمیں ناکام تھی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ جبڑے کی ہڈی درمیان میں نہیں ہے۔ داڑھی سے اوپر بھی زخم کا ایک نشان نظرآتا تھا، مندمل ہوچکا تھا مگر نشان چھوڑ چکا تھا۔ ایک دفعہ بنیان میں بیٹھے تھے تو دیکھا کہ بایاں کندھے کے درمیان میں گوشت نہ تھا، ایک گہرا گھاو تھا، مندمل ہوچکا تھا مگرنشان چھوڑچکا تھا۔
ایک بچے کا تجسس تھا اورایک بڑے کی کہانی تھی۔ کہانی جو ایک فرد کی کہانی نہ تھی بلکہ ایک نسل کی کہانی ہے۔ 1947 میں ماموں گیارہ بارہ سال کے ہوں گے اورگورداسپور کےایک گاوں میں رہتے تھے۔ گورداسپورابتدائی اعلان کے مطابق پاکستان کا حصہ تھا، اس بنا پر وہاں کے لوگ مطمن تھے۔ عین وقت پرنقشہ تبدیل کردیا گیا، اورایک قتل وغارت کا بازار گرم ہوا۔ مسلمان گاوں اورگھرانوں پرحملے ہوئے، عصمتیں پامال ہوئیں، جوان، بوڑھے، عورتیں، بچے، نومولود سب نشانہ تھے، کوئی جائے اماں نہ تھی۔ ماموں کے گاوں پر جب سکھوں نےحملہ کیا تو یہ گیارہ سال کا بچہ بھی نشانہِ قاتل تھا۔ ایک کرپان کے وار نے کاندھے کا حصہ علیحدہ کیا، دوسرے وار نے منہہ مسخ کر ڈالا۔ حملہ آوروں نے بکھری لاشوں میں اس بچے کو بھی اک لاش ہی جانا، مگروہ بچہ ابھی سانس لے رہا تھا، زخمی، خوفزدہ، بے اماں۔ گھر ہوتے گھر نہ رہا تھا، ماں باپ نہ رہے تھے، رشتہ دار نہ رہےتھے، دوست نہ رہے، فقط دشمن تھے، پشتوں سے ساتھ رہتے اب دشمن تھے، جان کے درپے، ایک گیارہ سال کے بچے کی جان کے درپے۔ اپنے دیس میں وہ یک دم اجنبی تھا، اجنبی، بے یارو مددگار، زخمی اورخون آلود۔ ایک رشتہ دارجو پولیس میں تھے، بعد میں گارڈ کے ہمراہ ایک ٹرک لے کر پہنچے، ماموں کی حالت دیکھی تو محسوس کیا کہ وہ نہ بچیں گے۔ ایک لاش کو کدھراٹھاتے پھریں، سوانہیں وہیں چھوڑدیا۔ کیا قیامت کی گھڑی ہوگی کہ ایک چچا اپنے زخمی بھتیجےکو مرنے کی لیے چھوڑدے، کھلےمیں، بے گور و کفن، چھوڑدے کہ وہ مجبور ہے کہ اُس نے زندوں کو مرنے والوں پر فوقیت دینی ہے۔ زندگی کے تقاضےبڑے بے رحم ہوتے ہیں۔ یہ اس مملکتِ خداداد کی کہانی ہے، زخم خوردہ و خون آلود۔
ماموں زندگی اورموت کی پرچھائیوں میں ایک سے نکل کر دوسرے میں آتے جاتے رہے۔ ہوش اورگم ہوتے ہوش میں بس زندہ رہنے کی بے ساختہ خواہش ہی اُس بچے کی رہبر تھی۔ گھسٹتے ایک کھیت میں اپنے آپ کو چھپا لیا۔ مٹی اور پودے اپنے زخموں پرلیپ دیے کہ خون روکنے کو یہی پایا تھا۔
گاوں کے کچھ مسلمان ہم عمربھی کھیتوں میں چھپے تھے، ان میں سےکوئی اُن تک پہنچ گیا۔ اپنے لحاظ سے انکی تیمارداری کی۔ اورمارنے والے سے بچانے والے کی ذات بڑی ہے، سو سانس چلتا رہا۔ دوسرے ہم عمرکچھ کھلاتے پلاتے رہے۔ پانچویں دن فوج کا ٹرک گاوں پہنچا تواپنے ان کم عمر ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان پہنچے۔ والٹن کے کیمپ میں رہے، کچھ علاج بھی شروع ہوگیا۔ اور وہی چچا، جو مردہ سمجھ کر چھوڑ آئے تھے، انہوں نے کیمپ میں ڈھونڈ لیا۔ واقعی مارنے والے سے بچانے والے کی ذات بڑی ہے۔
ماموں کی زندگی پاکستان میں محنت سے بھرپور رہی، ریل کےکانٹے بدلتے اور گلیوں میں آوازلگا کر کپڑا بیچتے۔ آج لاہور کے ایک عام سے قبرستان میں دفن ہیں، مگر یقین ہے کہ دیکھتے ہونگے کہ کب پاکستان کے سفر کی پٹری کا کانٹا بدلے گا اورسائیڈ لائن سے مین لائن کا سفرشروع ہوگا۔ ماموں رفیق جیسے بہت سے محنت کش ان پٹری بدلنے والے لیورز پر زورآزما رہے، اپنی پوری طاقت کے ساتھ۔ اورآج بھی کئی زور لگارہے ہیں، کہ زندہ رہنے کی بے ساختہ خواہش نہیں مر سکتی۔
اورلازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم بھی دیکھیں گے کہ پٹری بدلے گی، سائیڈ لائن سے مین لائن کا سفر شروع ہوگا کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی توہے۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment