ارسلہ کا کوئی قصور نہیں، اُس کو معاف کردیجیئے

تحریر:عاطف ملک 
 جولائی2017 

اے ایس پی سپیشل برانچ اسلام آباد ارسلہ سلیم نے مریم نواز کو کیا ایک سلیوٹ مار دیا، ملک میں بھونچال آ گیا۔ مسرت نذیر کے لونگ گواچے کی طرح اس کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ بھائی معصوم بچی کومعاف کردو۔ اُسے آج تک یہی توسکھایا گیا تھا کہ کارِسرکار ہے کہ سرکار کو سلام کرو۔اچھی بچی تھی اپنے سرکاری بڑوں کےکہنے پر عمل کیا۔ اسلام آباد کی ٹریفک تو ویسے ہی اُس کےسرکاری اُستادوں نے بند کردی تھی۔ مریم کی گاڑی رکی تو بھاگ کردوسرے سپیشل بھائی دروازہ کھولنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔ خاندانِ سرکاراں کی یہ بہن کیوں پیچھے رہتی۔ بھائی کیا ہوا، اگراُس نے ایک قلم اُٹھا کر پیش کر دیا، معصوم ہےمگراتنی بھولی نہیں کہ اُسے علم نہ ہو کہ قلمدان کس کے پا س ہے۔ اُسےآج تک یہی تو سکھایا گیا تھا اور پھرسپیشل برانچ سپیشل حقیقتیں تو بھی سکھا جاتی ہے۔ سروس کا مطلب بے شک خدمت ہو مگر پولیس سروس معاشرے کے طبقات کے مطابق سروس دیتی ہے، غریب آدمی کے اعضاء علیحدہ علیحدہ کر کے سروس کیے جاتے ہیں، جبکہ صاحبِ اقتدار کے لیے خدمتِ جسم و جاں سےبھی بڑھ کرکیا کیا نہ پیش کیا جاتا ہے ۔

ارسلہ کا بھی قصورنہیں، کیا آپ کو کوئی بھی سروس یعنی خدمت والا ادارہ ٹھیک نظر آتا ہے، کیا طب، کیا تعلیم، کیا فوج، کیا پولیس، کیا کوئی مثال ہے۔ بہت سے سادہ لوح جب اِن اداروں میں خدمت کی نیت سے شامل ہوتے ہیں تو کچھ عرصے بعد جان لیتے ہیں کہ یہ سروس نہیں بلکہ نوکری ہے۔ اب بہت سے اعمال جو سروس میں حرام ہیں، نوکری میں مستحسن ہیں۔ حرام سے حلال میں ایسی تیزتبدیلی اورکہاں آتی ہے؟ سو سمجھداراپنےآپ کوضرورتاً یا مجبورتاً نئے ڈھانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ شاید چل جاتا مگر نوکری باز ترقیاتی عمل میں شعبدہ باز میں تبدیل ہوجاتے ہیں اورانکی پوٹلی سے وہ فنکاریاں نکلتی ہیں کہ حرام بھی پکار اُٹھے، الاماں، الاماں۔

ایسے میں کچھ جو یہ رنگ نہ چڑھا پائیں، آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ یہ محکمے میں ہوتے تو ہیں پر "سانوں کی" کے مقولے پروقت گذارتے ہیں۔ ٹھنڈی سانس لیتے ہیں اورآسمان کی جانب تکتے پائے جاتے ہیں۔ مگران کے بعد کچھ بےادب بھی آپ کو اِن محکموں میں مل جائیں گے۔ احمد فراز نے کہا تھا

تمام شہر ہے شائستگی کا زہر پیئے
نہ جانےکیا ہوجودوچاربےادب بھی نہ ہوں

ایک مودب خاتون کی بات ہورہی ہے توایک بےادب خاتون کی بھی بات ہو جائے۔ اتفاق ہےکہ مریم نواز کا پالہ اس بےادب خاتون سے پڑ گیا تھا۔ تاریخِ قبلِ پرائِیویٹ میڈیکل کالجاں مریم نواز کا داخلہ میرٹ کے تکلفات کے بغیر کنگ ایڈورڑ میڈیکل کالج میں کروادیا گیا۔ امتحانات بھی ادب وآداب کے دائرے میں پاس ہورہے تھے جب تک یہ بےادب خاتون پروفیسر پردہ ِسکرین پر نہ آئی تھیں۔ پروفیسر صاحبہ کی بھی ناہنجاری کی کوئی حد تھی، ایک دفعہ فیل، دو دفعہ فیل۔ اُن کو سمجھایا گیا مگر بےادب کہاں سمجھتے ہیں، سواُٹھا کرشہربدر کیا گیا۔ مگربدمزگی اتنا کرگئیں کہ طالبہ بھی کالج چھوڑگی۔

سوجناب، کیا دعا کریں کہ بےادبوں میں اضافہ ہو؟ مگر مسلہ یہ ہے کہ بے ادب اپنے ساتھ اپنے خاندانوں کو بھی مسلسل امتحانات میں رکھتے ہیں، خود بھی دربدر، ساتھ کے بھی خوار۔ عاقبت کےخیال میں اپنے ساتھ اپنوں کی دنیا بھی خراب کرجاتے ہیں۔ سو جناب، سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ جب بیج کی آبیاری غرض کے پانی سے ہوگی، مفاد کی ہوا اُسے پالے گی، بڑھوتی ظلم اورجبرکی چھاوں میں ہوگی تو پودا کیسے سیدھا ہوگا۔

،معاف کردیجیئے
ارسلہ کا کوئی قصورنہیں اُس کو معاف کردیجیئے۔



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر