اکیسویں صدی کے طالبعلم کو کن صلاحیتوں پر عبور حاصل کرنا ہوگا؟

تحریر: عاطف ملک

پچھلی چند دہائیوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی معاشرے پرگہرا اثرڈالا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا ایک بے پایاں بہاو ہے جو کہ انسانی نسل کو بہا لے جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے زیرِ اثرمعاشروں میں نمایاں تبدیلیاں نظرآرہی ہیں، رہن سہن، لباس، زبان، سماجی تعلقات، سیاست غرض ہر شعبےمیں ایک تیز تبدیلی آئی ہے۔ فاصلے معنی کھو چکے ہیں کہ آج کی دنیا سمٹ کرقریب آگئی ہے۔ قابل اورصلاحیت مند افراد کے لیے ان گنت مواقع ہیں، پوری دنیا انکی قدردان ہے۔  دنیا کے کسی کونے سے بھی اٹھ کرایک صاحبِ ایجاد  تیزی سے تما م دنیا کی تسخیر  کر سکتا ہے، اورموجودہ دور نے اپنے مختصرماضی میں ٹیکنالوجی کے کئی سکندر دیکھے ہیں۔ بقول علامہ اقبال

جو عالمِ ایجاد  میں  ہے  صاحبِ ایجاد
ہر دورمیں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

آج کے دور میں یہ طواف فوری اورعالمگیر ہے۔ کریں گے اہلِ نظرتازہ بستیاں آباد، مگر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان بستیوں کے معماروں کوکونسا ہنرآنا چاہیئے۔ کیا سیکھا جائے اورکیسے سیکھا جائےکہ آج سیکھنے کے ساتھ ساتھ بہکنےاور وقت ضائع کرنے کے بھی اتنے ہی زیادہ مواقع ہیں۔ ٹیکنالوجی، اسکی تیزرفتاری، معاشرتی ومعاشی تغیراوران تمام عناصرکا پیچیدہ ربط موجودہ تعلیمی نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے، اور یہ مطالبہ فوری بھی ہے۔  مگر ہمیں ان تبدیلیوں کے خدوخال کا اندازہ نہیں، کیا تبدیلیاں لائی جائیں اورکیسے؟

یہ مضمون ان تبدیلیوں کی بجائے اس موضوع پر بات کرتا ہے کہ ہمارا ان تبدیلیوں سے مقصد کیا ہوگا ؟ ایک اہم سوال یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے طالبعلم کو کن صلاحیتوں پرعبور حاصل کرنا ہوگا؟ اس سوال کا جواب جاننا اس لیے ضروری ہے کہ جب ہم منزل کا تعین کرلیں گے توہمیں راستہ ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ نیزازاں ہمیں تبدیلی کے اثرات جانچنے کے لیے پیمانہ بھی مل جائے گا۔ اس جواب کے تعین کے لیے مختلف مضامین سے نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی اوراس کےعلاوہ مصنف کو شعبہ تعلیم سےمنسلک ہونے کے باٰعث کچھ ماہرین تعلیم سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ نتیجتاً   اکیسویں صدی کی ضرورت کے پیشِ نظر درجِ ذیل صلاحیتوں کی فہرست تیار ہوئی۔

:سوچ بچاراورجانچ کی صلاحیت 
Critical Thinking
 آج کے دور میں جھوٹ اورسچ کی آمیزش اتنی زیادہ ہے کہ ایک جانچ کی صلاحیت رکھنے والا ذہن ہی درست فیصلہ کر سکتا ہے۔ انٹرنیٹ، سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس اور میڈیا حقیقت کےساتھ ساتھ افواہ سازی اورغلط بیانی کے بھی علمبردارہیں۔ اس غلط بیانی کے دوررس نقصانات ہوئےہیں اوراگرتعلیمی نظام آگے بھی ذہنی نابینا پیدا کرتا رہا تو نقصان دوچند ہوگا کیونکہ دھوکا دہی کے نئے آلات پُراثراور دورمار ہیں۔ اس علاوہ اس صدی کے مسائل پیچیدہ اوراتنی جہتوں میں ہیں کہ انکی درست سمجھ اتنا آسان کام نہیں۔

:مسائل حل کرنے کی صلاحیت
Problem Solving Ability
ایک سوچ بچاراورجانچ کی صلاحیت رکھنے والا ذہن ہی ایک موضوع کومختلف زاویوں سےدیکھ کردرست شکل دیکھنے کےقابل ہوگا، اورپھران مسائل کا صحیح حل ڈھونڈ سکےگا۔ اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی کےہمراہ نئے مسائل لائی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ایسے ذہنوں کی ضرورت ہے جو موجود وسائل کو استعمال کرکے ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکیں۔ اس کےعلاوہ ٹیکنالوجی کے استعمال سےپرانے کاموں کوکرنےکے بہتر طریقے بنائے جاسکتے ہیں، جن سے اخراجات میں کمی، نتیجے میں بہتری، وسائل  کی بچت،  قدرتی آب وہوا اورحیات کا تحفظ ہوسکتا ہے۔

:تخلیقی صلاحیت
Creativity
تخلیقی صلاحیت کیا ایک خدادادعطیہ ہےیا تخلیق سکھائی جاسکتی ہے؟ یہ سوال بہت سے افراد پوچھتےہیں۔ ہربچہ تخلیقی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے، آگے اس کے گردوپیش اور   پرورش کےحالات پرمنحصرہے کہ یہ صلاحیت جلا بخشتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے۔ کئی زبانوں میں مستعمل محاورہ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے" ، اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تخلیق سکھائی جاسکتی ہے۔ اور یہ  اکیسویں صدی تو شاعر مشرق کے شعر کے عین مطابق ہے، کہ

یہ  کائنات ابھی نا تمام  ہے شاید 
کہ آرہی ہےدمادم صدائےکن فیکوں

سوآج کے طالبعلم کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی حفاظت کرنی ہے، اس کوترقی دینی ہے اوراس کا بھرپوراظہارکرنا ہے۔اُسکی پٹاری سے تخلیقی حل نکلنے چاہیئے۔

:خود ضابطگی کی صلاحیت 
Self Regulation
بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں سے ہی انسانی سرشت اجتماعیت سےانفرادیت کی طرف چل نکلی تھی۔ آج انفرادی آزادی کا نعرہ مختلف اشکال میں واشگاف سنائی دیتا ہے۔ یہ ارتقا کا ایک رنگ ہے جسے شاید چاہتے یا نہ چاہتے ہوئےبھی ماننا ہی پڑے گا۔ مگریہ یقیناً فرد پرخودضابطگی کامطالبہ رکھتاہے۔ اکیسویں صدی کے طالبعلم کےچاروں طرف کشش کےاتنےمنبع ہیں کہ اُسےایک طرف توجہ مرکوزرکھنے کے لیےخودضابطگی کی اشد ضرورت ہے۔ 

:انفرادی وہمہ جہتی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت
Personalized learning & Learning across the subjects
اکیسویں صدی کےطالبعلم کے پاس علم حاصل کرنے کے وہ مواقع ہیں جوکہ یقیناً آج سے قبل نوع ِ انسانی کوکبھی حاصل نہ تھے۔ اب تک کی تعلیم ایک اجتمائی پڑھائی کا طریقہ تھا، جس میں فرد کی انفرادی برتری، کمزوری یاعلم سے قطع نظرسب کو ایک ہی نصاب اورایک ہی استاد کی لاٹھی سے پڑھایا جاتا تھا۔ ٹیکنالوجی نے آج یہ ممکن کر دیا ہے کہ طالبعلم اپنی انفرادی ضرورت کے مطابق اپنا نصاب چن سکتا ہے اوراستاد کے چناو میں بھی ایک حد تک آزاد ہے۔

نیزازاں اس صدی کے مسائل کا حل اورتخلیقی مہارت کئی مضامین کا علم مانگتا ہے، اورطالبعلم کواپنے طور پرمختلف میدانوں میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ زمانہ قدیم کے ماہرین کی مانند ایک شخص موسیقی، ریاضی اور طب کے میدانوں کا بیک وقت شاہسوار بن سکتا ہے۔

:اشتراک ِعلم و ہنر
Collaboration & Teamwork
اکیسویں صدی کی تعلیم اورترقی میں باہمی اشتراک نے ایک اہم کردارادا کیا ہے۔ چاہے وکی پیڈیا کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہو یا مختلف فورمز پرسوالات اورانکے جوابات ہوں، رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد مدد کے لیے مستعد ہوتی ہے۔ بہت بڑے بڑے پروجیکٹ ان رضاکاروں نے باہمی مدد سے  مکمل کیے ہیں مثلاًوکی پیڈیا، لینکس جیسا اوپریٹنگ سسٹم، اورگٹ ہب پر پڑے کئی سوفٹ ویرز کے سسٹم وغیرہ۔ سوآج کےطالبعلم کو ایک ٹیم میں کام کرنا بھی آنا چاہیئے۔ مضمون اور فنی مہارت کے ساتھ ساتھ  برداشت، نرم گوئی، حکمت بھی انتہائی ضروری ہیں۔

:کمپیوٹر کے استعمال میں مہارت 
Digital Literacy
کمپیوٹراوراس کے متعلقہ بنیادی پروگرامزمیں مہارت آج ایک بنیادی ضرورت ہے۔ یہ آج کے پڑھے لکھے کی تعریف میں شامل ہوگئی ہے۔ بنیادی پروگرامز کےعلاوہ طالبعلم کواپنے شعبے سے متعلقہ تمام کمپیوٹر پروگرامزپربھی عبور یا کم ازکم بنیادی مہارت ضرور ہونا چاہیئے۔

:بات بیان کرنے کی صلاحیت
Communication Skill
 خود اعتمادی اوربات کواحسن طریقے سے ادا کرنے کی صلاحیت اس صدی میں بہت ضروری ہیں۔ آج کی پیشہ ورانہ زندگی میں کام کو اکثر مختلف سطحوں پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں بات کو اچھے طریقے سے دوسروں تک پہچانے کی صلاحیت کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ٹیکنالوجیکل اورکمپیوٹر کے متعلقہ پروگرامز میں مہارت بھی آج کے طالبعلم کے لیے ضروری 
ہے۔

اوپربیان کی گئی فہرست گوحتمی نہیں مگراس موضوع پرایک درست سمت کی طرف یقیناً اشارہ کرتی ہے۔ تعلیمی نظام کوان صلاحیتوں کی ترویج میں اپنا کردارادا کرنا ہوگا، تبھی ہم موجودہ دور کے چیلنجز کے لیے تیارہونگے۔ انسانی نسل کو اب زندگی بھرپڑھنے کے لیے تیار ہونا ہوگا اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک فرد میں اس کے لیے جذبہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ صدی ڈگری کے کاغذ سے بڑھ کر ہنر کی متقاضی ہے۔

خوش آمدید -------- اکیسویں صدی میں پڑھائی کا سفرانفرادی، ہمہ جہتی، اطمینان بخش اوردلچسپ ہے، مگر یاد رکھیے اس میں کئی جھٹکے بھی لگیں گے- اپنے ارادے کی سیٹ بیلٹ مضبوطی سے باندھے رکھیے گا۔


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com










Comments

  1. Very rightly spelled out. Need to hear more and specific. Appreciated.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر