تحریر : عاطف ملک
تصاویر : عاطف ملک و محی الدین
اگر کوئی تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے تو تصویر کے نیچے لکھ کر بتا دیا گیا ہے۔
غرناطہ کے سفر کا دوسرا حصہ نیچے کے لنک پر دیکھا جاسکتا ہے۔
غرناطہ کے مدرسہ یوسفیہ پر الگ مضمون لکھا ہے جو کہ بلاگ پر دیکھا جاسکتا ہے، مگر یہاں کچھ تصاویر تبرکاً شامل کردی ہیں۔ مدرسے سے باہر نکلے تو دیکھا ایک بازی گر اپنا کمال دکھا رہا تھا۔ فٹ بال کے گول کیپر کا کردار ادا کررہا تھا کہ ایک ٹانگ ہوا میں معلق تھی، دائیں ہاتھ سے فٹ بال کو روکے جسم پیچھے کو گرتا تھا۔ چہرے پر اس کوشش کے تمام آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ مسافر کے ذہن میں مصرعے یاد آنے لگے کہ "دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا" یا "ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے"۔
سوچیے تو زندگی میں کئی تماشے سامنے چلتے رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ ہم سب خود بھی اپنے اپنے طور پر کچھ بازی گر ہیں۔ کئی بازیگر چہرے پر بھرپور تاثرات دکھاتے آتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا سچ بول رہے ہیں ؟ کیا جھوٹ کی ملاوٹ ہے؟ ملاوٹ بھی ہے کہ پورا ہی جھوٹ ہے؟ بازیگر بازی کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ مگر زندگی میں بعض ایسے بھی مل جاتے ہیں کہ بقول اقبال
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفِیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طرِیق
بد قسمتی یہ ہے کہ بازیگروں سے متاثر آنکھ ایسوں کو نہیں پہچان پاتی، چرب زبانوں کے متاثرکردہ کم گو کے مقام کو جان ہی نہیں پاتے۔ انفرادی نقصان تو شاید قابلِ قبول ہو، اس سے کہیں سے بڑھ کر قومی نقصان ہوجاتا ہے۔ بازی گر اپنے بوریا بستر اور مال اکٹھا کر کے اپنی راہ لیتا ہے، اور پیچھے تاسف کی گرد چھوڑ جاتا ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں یوں جاتا رہا ہے کہ اگلے مداری کی ڈگڈگی پر پھر مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ بازیگر وہ سحر طاری کرتا ہے، چہرے پر وہ محنت اور اخلاص کے تاثر دیتا ہے، ایسی بین بجاتا ہے کہ جرمن لوک کہانی کے پائیٹ پائیپر کی مانند ہجوم اس کے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ بصدِ شوق کسی بھی کھائی میں لے چلے۔ نشترِ تحقیق تو ایسا کند ہوا ہے کہ اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو خوش قسمت ہوگا تو صرف گالیوں سے مزین ہوگا ورنہ ہجوم بصدِ فخر اُسے موت کی گھاٹ اتار کر اتراتا پھرے گا کہ مذہبی و قومی ذمہ داری ادا کی ہے۔
ایسا سلسلہ ہمیشہ نہیں چل سکتا، آخر میں کھنڈرات ہی نشانِ عبرت و آہ کے طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔
|
مدرسہ یوسفیہ غرناطہ کی محراب |
|
مدرسہ یوسفیہ غرناطہ میں مسجد کے کمرے کی دیوار |
|
مدرسہ یوسفیہ غرناطہ میں مسجد کا دروازہ |
|
مدرسہ یوسفیہ میں مسجد کے کمرے کی چھت
|
بازیگر
|
|
مدرسے سے چلے تو بازار سے ہوتے ہوئے ایک سرائے کی جانب سفر تھا۔ اس کا نام اب کورل ڈی کاربن ہے، کاربن یعنی کوئلہ کیونکہ یہ سرائے سوداگروں کے ٹھہرنے کے علاوہ کوئلے کی تجارت کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی، سمجھیے کہ کوئلے کی منڈی بھی تھی۔ یہ سرائے چودھویں صدی میں بادشاہ یوسف اول کے دور میں بنی اور شاید پورے سپین میں یہی ایک ایسی نشانی ہے جو تقریبا پوری طرح اپنی اصل حالت میں ہے۔ سرائے کے داخلی دروازے پرخوبصورت قوس شکل کی محراب ہے جس پر عربی لکھی ہوئی ہے۔ دروازے سے داخل ہوں تو کھلا صحن ہے جس کے درمیان میں پتھر کی مستطیل جگہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے بنی ہے۔ بچپن میں جب پاکستان کے شہروں میں تانگے چلتے تھے تو اس سے ملتی جلتی ساخت گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے ہر تانگے اڈے پر ہوتی تھی۔ صحن کے چاروں طرف تین منزلہ کمرے تھے جن کے سامنے برآمدے ہیں۔
خیال کی آنکھ نے اس صحن میں طویل سفر سے آئے سوداگر دیکھے، کھانے کے بعد انہیں اس صحن میں بیٹھے دور دیسوں کے قصے سناتے دیکھا، عربی گھوڑوں کو نوکر پانی پلاتے اور مالش کرتے نظر آئے، کیا خبر کہ کسی دریچے سے کوئی آنکھ جھانکتی ہوگی، کہیں دور کی دنیا سے آیا عطر فضا کو مہکاتا ہوگا، کنیزیں دف بجاتی ہوں گی، بازیگر اس زمانے میں بھی کمال دکھا کر انعام پاتے ہونگے۔ کیا سلطنت تھی، کیا صنعت و حرفت تھی، کیا تجارت تھی، دنیا کا حسن یہاں اکٹھا تھا، اور پھرایک مشہور مصرعے میں تظمیم کے ساتھ کچھ یوں معاملہ ہوا کہ "خیال و خواب ہوئی ہیں حقیقتیں کیسی"۔
|
سرائے کو جاتا بازار |
|
یہ راستہ سرائے کو جاتا ہے |
|
ڈیوڈ رابرٹ کی اٹھارویں صدی میں بنائی ہوئ غرناطہ کےسرائے کے دروازے کی پینٹنگ، یہ انٹرنیٹ سے تصویر لی ہے
|
سرائے کے دروازے کی دور سے تصویر |
|
|
سرائے کے کمرے |
|
سرائے کی یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے |
|
سرائے کے صحن میں پانی پلانے کی سبیل |
|
قریب سے اس تاریخی سبیل کی تصویر |
|
سرائے کے برآمدے کا فرش |
|
سرائے کے مین دروازے کے اوپر کی تصویر
|
دروازے کے اوپر عربی کشیدہ کاری |
|
سرائے کے دروازے کی ایک اور زاویے سے تصویر |
|
عربی کشیدہ کاری کا ایک اور نمونہ
|
چھت کی قریب سے تصویر
|
مسافر سرائے کے دروازے پر
غرناطہ کے سفر کا چوتھا حصہ درجِ ذیل لنک پر پڑھا جاسکتا ہے۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
|
|
Comments
Post a Comment