ایک فوجی اکیڈمی میں پڑھانے کا تجربہ


تحریر : عاطف ملک

قسمت کا لکھا تھا سو ہمیں نسٹ یونیورسٹی کے کالج آف ایروناٹیکل انجینرنگ میں پڑھانے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ یہ کالج پی اے ایف اکیڈمی میں ہے، سو ہمارے تجربے میں اضافہ ہوا۔ اکیڈمی میں استادی دراصل استادوں کا کام ہے، سو اس بنا پر ہم اپنے آپ کو شاگردوں میں شمار کرتے ہیں اور اپنے کئی شاگردوں کو استادوں میں گنتے ہیں، بلکہ ہمارے ہوتے ہوئے ہی بدرجہ استانیوں کی بھی آمد اکیڈمی میں شروع ہو گئی تھی۔ اکیڈمی عجب جگہ ہے جہاں گھاٹ گھاٹ کے نوزائیدہ  آئی ایس ایس بی کی چھلنی سے گذرکراکٹھے ہوتے ہیں، اور پھر ارتقائی عمل سے گذرتےہیں۔ اکیڈمی میں پڑھانے کے دوران ہم نے کیڈٹ کو بکری سے شیر بنتے اوربعد میں اُسی شیرکو نوکری میں بکری کی شکل اختیار کرتے دیکھا۔ اب پتہ نہیں ایسی تبدیلیاں ڈارون نے بھی دیکھی تھیں یا اُس نے بندر کو انسان ہی بنتےدیکھا۔ ہم نے ڈارون سے بڑھ کراکیڈمی میں انسان کو بندر بھی بنتے دیکھا۔ عجب سڑک پربندروں کی طرح کیڈٹ بیٹھتے اچھلتے جاتے تھے۔ شروع میں اس ارتقائی تنزل کو دیکھ کر پریشان ہوئے مگربعد میں پتا لگا کہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے کہ اس سے شخصیت سازی ہوتی ہے۔  اکیڈمی میں تعینات کچھ احباب سے واسطہ پڑا تو ہمیں اس شخصیت سازی کا یقین بھی ہو گیا۔ 

اکیڈمی میں گر پڑھنا ایک کام ہے تو پڑھانا اس سے بھی بڑھ کر وزن رکھتا ہے۔ آپ کلاس میں داخل ہوں تو یک دم باادب باملاحظہ کی آواز بلند ہوتی ہے۔ پھر شاگرد استاد کوتولتے ہیں کہ اس کے بعد کا معرکہ اس ذہنی ترازو کے نتیجہ پرمنحصر ہے۔ اگرآپ وزن میں ہلکے پائےجائیں تو پھراس ہوائی فوج کی اکیڈمی میں آپ ہوا میں اچھالے جاتے ہیں، گدگدائے جاتے ہیں، زمین پررکھے جاتے ہیں، دوبارہ اچھالے جانے کے لیے۔ اسی اچھل کود میں وہ وقفہِ تعلیم مکمل ہوجاتا ہے جسے پیریڈ کہتے ہیں اورآپ خاک جھاڑتے اگلے معرکہِ بے وزنی کے لیے کسی دوسری جماعت کی طرف عازمِ سفر ہوتےہیں ۔

اوردوسری طرف اگر آپ اس معرکہِ ذہنی اوزان میں بھاری پائے جائیں، تو کلاس میں ایک سکوت ہوگا۔ ایسا سکوت کہ کچھ دیربعد کلاس خوابِ خرگوش کے مزے لیتی پائی جائیگی۔ ایک کو اِدھر سوتے سےجگایا، دوسرے کو اُدھر سوتا پایا۔ غرض اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔ کچھ دیربعد آپ خود کو وہ چوکیدار محسوس کررہے ہونگے جو بار بار صدا بلند کرتا ہے، "جاگدے رہنا، جاگدے رہنا"۔ اسی مقابلہِ بیداری وندیاری میں یکایک پریڈ گراونڈ سے بینڈ کی دھن بجنے لگتی ہے، "جاگ رہا ہے پاکستان"۔  پاکستان کا پتہ نہیں جاگ رہا ہے کہ نہیں مگر آپ کی کلاس یقیناً نہیں جاگ رہی۔  شاید ان کیڈٹس نے وہ کاروں پر لگے سٹکر دیکھے ہیں، "آرام سے سوئیے، فضائیہ جاگ رہی ہے"، سو آنیوالے کل جو انہیں جاگنا ہے سو اُس کی نیند آج ہی پوری کررہے ہیں۔

اگر آپ اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں توبلا تخصیص ایک درجے کے کیڈٹ آپ بھی ہیں۔ ہفتے میں ایک دن پریڈ گراونڈ پرڈیوٹی دیں، شام کو وقفہ پڑھائی کے آرام میں مخل ہونے کے لیے کیڈٹ میس کا چکر لگائیں۔ رسالپور کوانگلستان جانیے کہ تمام جگہوں پرٹائی سوٹ پہننے کی پابندی ہوگی۔ مختلف مقابلہ جات بشمول اتھلیٹکس اور گھڑسواری کی دھول اپنے ولیمے کے کوٹ پینٹ میں لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ اکیڈمی کے مہمان سپیکر کو مہمانداری کے زمرے میں سنیے یعنی آمناً صدقاً۔ پاسنگ آوٹ پریڈ پرجوانتظامات آپ کی ذمہ داری ہیں انکا عشرعشیر بھی آپ نے اپنی ذاتی شادی پر بھی نہ سوچا ہوگا۔ مہمانوں کو لائیے، حفظِ مراتب بٹھائیے، اٹھائیے، کھلائیے اورپھربھی یہ گلہ ہے کہ تو وفادار نہیں۔

ان تمام باتوں سے بڑھ کر رسالپور کا مقام خود ایک پُرفضائی  مقام ہے۔ یہاں فضا میں تو ہر لمحہ جہازوں سے تغیر ہے، مگر زمینی مقام قبل ازمسیح سے جامد ہے۔ رسالپور کے واحد صدر بازار کے بارے میں کوئی بات بھی کہنا توھینِ صدر کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرتعریف کریں گے تو جھوٹ کہلائے گا، اگر بد تعریفی کریں گے توکونسی ایسی بات ہے جو دوسروں کےعلم میں نہیں۔ رسالپور جارہے تھے توایک تجربہ کار صاحب نے ہماری پریشانی دیکھ کر کچھ  یوں ڈھارس بندھائی، رسالپوراچھی جگہ ہے، وہاں تمہیں کوئی مسلہ نہ ہوگا۔ اچھی صحت کی سہولیات ہیں اگرتم بیمار نہ پڑو، اچھے نوکر مل جاتے ہیں اگر تم اپنا کام خود کرو، بچوں کے لیے اچھے سکول ہیں اگر تم بچوں کوخود پڑھاو، اچھے ریسٹورنٹ ہیں اگر تم  کھانا گھر پرکھاو۔ غرض اس کے بعد رسالپور کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کہنا اصل میں اپنی نااہلی کا ہی اعتراف کرنا ہوگا۔

رسالپورمیں ہمیں جو بنگلہ رہائش کے لیے ملا، وہ انگریزدور کی یادگارتھا۔ کچی سی اینٹوں کا بنا مکان ایک وسیع وعریض قطعہِ زمین کےدرمیان میں واقع تھا۔ لان میں ہم بہادروں کے ساتھ گیڈربھی دھوپ سینکتے تھے۔ پڑوسی نے خبردارکیا تھا کہ ایک سانپ کی بھی رہائش اسی احاطے میں ہے۔ غرض بڑا قدرتی ماحول تھا؛ سانپ و گیڈروں کے لیے قدرتی اورہمارے لیے ہول اٹھاتا۔ مکان کی چھت مٹی کی بنی تھی، اکثرمٹی گرتی اورمٹی کے آدمی کو اپنی اوقات یاد کرادیتی تھی۔ بارش ہوتی تو جلترنگ سا بج اٹھتا، گو یہ ان سٹیل کے برتنوں کی دھن تھی جو بیگم اپنے میکے سے لیکرآئی تھی اوراب خوش تھی کہ برتن پکانے کے لیے نہیں بلکہ قومی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ رات کو گربارش ہو جاتی تو ہم بغیر گرامو فون کے ہی تمام رات راگ ملہار سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔

انتظامیہ کے کسی عقلمند نےسوچا کہ پاکستان بن چکا ہے سو اس انگریزسامراج کی نشانی کا بھی بٹوارہ کیا جائے، سو آثارِ قدیمہ کی اس نشانی کو دو خاندانوں کو الاٹ کر دیا گیا۔ اس  تقسیم  کے بعد ہمارے حصے کے بنگلے کا لان چار کنال کا  اور رہائش تین کمروں کی رہ گئی۔ ان میں سے بھی ایک کمرے میں سکواڈرن اولرچ پاولسکی کی روح 1934 سے رہائش پذیرتھی۔ شروع میں تو ہم سے بڑے کھنچے کھنچے سے رہے، مگر پھر ایک گرمیوں کی رات  لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ کر ہم سے ہاتھ کا پنکھا مانگنے آ گئے۔  کہنے لگے کہ قدیمی مکین کا بھی آخر کوئی حق ہوتا ہے اور یہاں تم سے پہلے کئی آئے اور کئی گئے۔ اور پھر اپنی بات میں اثرڈالنے اورپنکھا حاصل کرنے کے لیےمصرعہ پڑھنے لگے کہ، "سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیں مقیم"۔ اُس کے بعد جب بھی بوریت یا لوڈشیڈنگ کا شکار ہوتے تو تشریف لے آتے۔  پرانے بیوروکریٹّوں اور سینیئرافسروں کی خو رکھتے تھے کہ متواتر اور بلاتکان بولتے تھے۔  مذہبی نہ تھے مگر رسالپور کے گرجوں کو خوب یاد کرتے {مصنف کا نوٹ: رسالپور شہر میں انگریزدور کے یورپین طرزِ تعمیر کے دو تین خوبصورت گرجے موجود ہیں} کہتے، اور ایسے میں انکے چہرے پر  معصومانہ اورمعنی خیز مسکراہٹ ہمیشہ ساتھ ہوتی کہ چرچوں میں اتوار کی تقریبات کے چرچے رسالپور آفیسر میس میں ہفتہ وار رہتے تھے۔ عبادت کے بعد چرچ کا سکاٹش پادری اپنے خاص مہمانوں کی تواضع مقامی کشید کیے مشروب سےعلیحدہ کرتا تھا۔ فرمانے لگے بارہ بانڈے{رسالپورکا نزدیکی گاوں} کی کشید ہوئی کی کیا بات ہے، میرا اردلی حضرت خان سپیشل لے کرآتا تھا۔ اِسی کے سہارے رسالپور کی گرمیاں کاٹ پاتا تھا۔ ایک رات راز کی بات بھی افشا کردی کہ اسی حضرت اور بنتِ عنب کے باعث وقت سے پہلے دوسرے جہاں کو عازمِ سفر ہوئےتھے۔ اچھے بندے تھے، بس آج کی کئی زندہ روحوں کی طرح ناسٹیلجیا بقول یوسفی صاحب یادش بخیریا کے شکار تھے۔ رسالپور کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے  لیے ہم ہر روز ابالتے تھے۔ ہمارے اس روزانہ پانی ابالنے کی مشقت سے سیخ پا ہوتے تھے کہ ان کے نزدیک پانی پینے کے نہیں صرف حل کرنے کے کام آتا۔ پرانے آدمی تھے، پانی کی ایسی بے حرمتی انہوں نے پہلےنہ دیکھی تھی۔

ہمارے چھوٹے بیٹے پر خاص شفقت فرماتے تھے۔ کہتے تھے کہ میرا بچپن بھی اس کی مانند تہذیب سے دور گذرا۔ اس سے انسان میں کم عمری سے ہی تپسیا، غوروفکر اور سوچ بچار کی عادت پڑجاتی ہے۔ ہم بھی بیٹے کو اکثرصبح مونٹیسری جانے سے پہلےبستر پرچپ چاپ گم سم پاتے۔ کیا خبر کہ حاضروغائب کے مسلے پر غور کر رہا ہو۔ شاید یہ اہم مسلہ اب تک حل ہوگیا ہوتا مگر اُس کی ماں اسکی ذہنی فکر میں ہمیشہ مخل ہوکراسکا گیلا پاجامہ بدلنے میں مصروف ہوجاتی۔

موسم کی طرف آئیں تو رسالپورکا موسم بھی الگ آن بان رکھتا ہے۔ گرمیوں میں سخت گرمی اورسردیوں میں سخت سردی آپ کو اورکہاں ملے گی۔ حشرات الارض کی فراوانی اوراشیاء صرف کی گرانی آپ کومسلسل خدا کی یاد دلاتے رہتےہیں۔ پشتو آپ کے ذخیرہِ الفاظ میں اضافے اورتذکیروتاںیث کی درستگی کے لیے یہاں آب و تاب سے موجود ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود جب آپ کا کوئی دوست آپ کو کہتا ہے کہ استاد صاحب، آپ تو موج میں ہیں ، تو میر تقی میر سےمعذرت کے ساتھ دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے استاد نکلتے ہیں


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com


















  


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر