غرناطہ کو چلیے - حصہ چہارم

تحریر : عاطف ملک
تصاویر : عاطف ملک و محی الدین
 اگر کوئی تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے تو تصویر کے نیچے لکھ کر بتا دیا گیا ہے۔

 غرناطہ کے سفر کا تیسرا حصہ نیچے کے لنک پر دیکھا جاسکتا ہے۔

https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html

مدرسہ اور سرائے سے نکل کر ہم غرناطہ کے اس علاقے کی جانب چلنے لگے جو الحمرا کی مانند عالمی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ غرناطہ شہر کا البیسین کے ڈسٹرکٹ کاعلاقہ ہے۔ یہ علاقہ دسویں صدی عیسوی میں آباد ہوا تھا۔ اس علاقے کا نام عربی کے لفظ البیزا ن سے نکلا ہے۔ اس نام کی بابت دو روایتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی کہ یہ علاقہ جنوبی سپین کے صوبے جیان کے شہر بیاسہ کے رہنے والوں نے آکر آباد کیا تھا، جس کی بنا پر اس کا نام البیسین ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اس علاقے کا نام البیازن سے آیا ہے جس کا مطلب ہے باز پالنے والوں کا علاقہ، کہ اس علاقے میں باز پالنے، سدھانے اور شکار کھیلنے والے رہتے تھے۔

 یہ علاقہ غرناطہ شہر کی ایک پہاڑی پر آباد کیا گیا تھا جو کہ الحمرا کے محل کے بالکل سامنے ہے۔ یہاں خوب ہریالی ہے کیونکہ یہاں ندیاں بہتی ہیں۔ آج بھی دریائے درو اس علاقے میں بہتا ہے جوکہ الحمرا کے محل کو سیراب کرتا، بہتا دونوں پہاڑیوں کے بیچ سے ہوتا ہوا نیچے وادی میں اتر جاتا ہے۔ یہ اصل میں ایک ندی ہے جس کے نام کا مطلب سنہرا دریا یا سونے کا دریا ہے کیونکہ لوگ اس دریا کی تہہ سے سونا ڈھونڈتے تھے۔ البیسین سے الحمرا  جانے کے لیے اس دریا پر ایک پل تھا جس کے برج پر پہریدار تعینات ہوتے تھے جو آںے اور جانے والوں کی پڑتال کرتے تھے۔ آج اُس کا پل کا کچھ حصہ ہی باقی رہا ہے۔  

البیسین پہاڑی پرواقع یہ ایک خوبصورت آبادی ہے۔ پہاڑی پر پتھر کی فرشیلی تنگ گلیاں ایک طرف سے دوسری جانب اوپر نیچے جاتی ہیں، آمنے سامنے گھر اور انکی بالکنیاں ہیں، گھروں کے صحنوں میں فوارے ہیں اور بہتے پانی کی آوازجابجا سنائی دیتی ہے۔ اکثر یہ گلیاں چھوٹے چوکوں میں ملتی ہیں، جہاں اب کیفے بنے ہیں، باہر کرسیوں پر بیٹھیں اور سامنے کی پہاڑی پر بنے الحمرا کے حُسن کو دیکھیں۔

البیسین غرناطہ کی ابتدائی آبادی خیال کی جاتی ہے جو کہ زیریون شاہی خاندان نے آباد کی تھی۔ زیریون ایک بربر قبیلہ ہے جس کا تعلق الجزائر کے علاقے سےتھا۔ المنصور زاوی بن زيری  سپین میں ایک ہزار عیسوی میں آیا اور قرطبہ کی خلافت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا۔ اس نے غرناطہ کی علیحدہ حکومت کا آغاز کیا اور البیسین کی آبادی اسی کے دورِحکومت میں بنی۔

زاوی نے البیسین میں ایک قلعہ بنایا، اور البیسین کی آبادی بڑھنے لگی۔ یہاں مختلف علاقوں سے لوگ آ کر آباد ہونے لگے، اور مساجد، محلات، باغات، حوض اورعوامی باتھ کی تعمیر ہوئی۔ ان میں سب سے اہم تیسرے زیری بادشاہ بادیس کا محل تھا جو بدقسمتی سے اب باقی نہیں رہا۔ البیسین کے علاقے میں گاڑی نہیں داخل ہو سکتی کہ گلیاں تنگ ہیں۔ اگر کوئی تعمیری کام کرنا ہو تو آج بھی گدھوں گھوڑوں پر سامان لانا ہوگا۔

البیسین سے آپ کو سیریا نیواڈا کا پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ سیریا نیواڈا کا معنی سپینش میں برف سے ڈھکا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اسی پہاڑی سلسلے میں سپین کی سب سے اونچا پہاڑ جبل مولائی حسن ہے جس کی اونچائی تین ہزار چار سو اسی میٹر ہے۔ اس پہاڑی کا نام غرناطہ کے حکمران ابو حسن علی کے نام پر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر دفن ہے۔ 

ہم دریائے درو کے ساتھ ساتھ اوپر چڑھتے رہے۔ یہ خاصا محنت طلب کام تھا کہ چڑھائی تھی۔ بس اب یہی کہہ سکتے ہیں کی جس راہ پر ایک تاریخ چلی تھی، اُس راہ پر ہم بھی چلے۔
 سڑک پتھروں کی بنی تھی اور ہمارے بائیں جانب البیسین کا علاقہ تھا۔ جب دل چاہتا تو اس علاقے کی گلیوں میں نکل جاتے تھے۔ تاریخ چہار سو بکھری تھی۔ اس علاقے میں ایک سحر سا ہے، آدمی سوچے تو سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر آج یہ عالم ہے تو تہذیب کی ترقی کے اس موڑ پر یہ جگہ کیا ہوگی۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں غرناطہ کو عالم کا لعل اور ہیرا کہا جاتا تھا۔ گھڑسوار الحمرا سے نکلتا ہوگا، پل کو عبور کیا اور اسی راہ پر گھوڑا دوڑاتا نیچے وادی میں اتر جاتا ہوگا۔ اس پتھریلی راہ کو اگر زبان مل جائے تو کیا کیا نہ کہانیاں اس کے پاس ہوں گی۔ رکیے، ایک گھوڑے کے سموں کی آواز تو ابھی بھی آرہی ہے۔ نہیں یہ گھوڑا نہیں بلکہ مشینی پہیے اور سٹینڈ کی آواز ہے جو آپ چڑھائی سے پہلے کرائے پر لے سکتے ہیں کہ قدامت میں جدت مل جائے۔ کچھ بچے ہم نے دیکھا کہ خوشی خوشی اس پر سوار اوپر کو جارہے تھے۔  

البیسین میں کئی پرانی عمارات پر گریفٹی بنی دیکھ کر دکھ سا ہوا کہ عالمی ورثے کی ایسی درگت بھی بعض جگہ پر بن رہی ہے۔ آگے چلے تو عوامی حمام  یعنی پبلک باتھ کی عمارت آگئی جو کہ گیارہویں صدی عیسوی میں زیریون شاہی خاندان کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا۔ غرناطہ میں کئی پبلک باتھ تھے، ایک تاریخی تحریر کے مطابق اکیس حمام تھے،مگر عیسائی فتح کے بعد انہیں تباہ کردیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ عیسائی نہانے سے احتراز کرتے تھے۔ یہ موجودہ حمام بھی ایک دھوبی گھاٹ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ 


اس کی عمارت اگرچہ خستہ حال ہے مگر موجود ہے۔ اس کوعربی میں حمال الیوزہ جبکہ ہسپانوی میں بینولو یا بینو ڈیل نوگال کہتے ہیں۔ یہ حمام ایک گلی میں ہیں جو کہ دریائے درو کے متوازی واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حمام کی عمارت کے ساتھ ہی مسجد تھی جو کہ بعد میں تباہ کر دی گئی۔  اس حمام کے لیے پانی دریا سے آتا ہے جس کے لیے بہت زبردست سسٹم بنایا گیا تھا۔ اُس دور کے لحاظ سے یہ ایک صناعی کا نمونہ تھا۔ حمام میں کئی کمرے تھے، پہلا کپڑے بدلنے کا کمرہ، جس کے بعد ٹھنڈا کمرہ، پھر گرم کمرہ جس کے بعد بہت گرم کمرہ اور آخر میں بوائلر کا کمرہ تھا۔ ان گرم کمروں کے فرش نیچے سے خالی ہوتے تھے جن سے گرم پانی بہہ کر کمرے کے حوض میں آتا تھا۔ ان کمروں کی چھتوں میں ستاروں کی شکل کے سوراخ تھے، جنہیں زیادہ گرم ہونے کی صورت میں کھول دیا جاتا تھا کہ حرارت نکل جائے۔ ان سوراخوں پر شیشہ تھا تاکہ روشنی آتی رہے۔ ایک حوض کھلے میں بھی تھا۔   


سرائے سے باہر کی ایک گلی
سرائے سے باہر کی ایک عمارت
پرانے عرب بازار کا دروازہ
طرزِ تعمیر
غرناطہ کے بازار کی ایک گلی
غرناطہ کا ایک بازار
غرناطہ کے بازار کی ایک گلی
الحمرا کی جانب جاتا راہ جو کہ البسین سے ہوکر جاتا ہے
البسین کی ایک گلی
غرناطہ میں عدالت کی عمارت
دریائے درو پر ایک پل


طرز تعمیر
بالکنیاں 
البیسین کی ایک گلی 
بالکنی اور چق

دریائے درو کا ایک موجودہ پل
دریائے درو اور البسین کے درمیان کی پیتھریلی راہ جو الحمرا تک جاتی ہے
دریا کے ساتھ کی چڑھائی

اس راہ پر ہم تھے چلے الحمرا کی جانب
البسین اور دریائے درو
البسین کی ایک گلی
دریائے درو پر ایک محراب کی شکل کا پل

البیسین کی ایک گلی
پل
 grafifiti ایک پرانی عمارت اور اس پر 
 grafifiti ایک پرانی عمارت اور اس پر 


 grafifiti البسین کی ایک گلی اور اس پر 


بالکنیاں اور پھول
البیسین کی ایک پتھریلی راہ
البسین اور اس کے ریسٹورنٹ
نئی طرز کی بالکنیاں
 پہاڑی راستے پر چلنے کے لیےٹیکنالوجی کا استعمال
حمام کا باہر کا حوض
حمام کا کمرہ، یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے
حمام کے بایر کی تختی، جس کے مطابق غرناطہ میں اکیس حمام تھے۔ 




غرناطہ کے سفر کا پانچواں حصہ درجِ ذیل لنک پر پڑھا جاسکتا ہے۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر