ایروناٹیکل انجینئرنگ کا اکتیسواں کورس - یاد رفتگاں

جی اکتیس: یادِ رفتگاں
تحریر : عاطف ملک


یہ مضمون یکم اکتوبر دو ہزار سولہ کو ایروناٹیکل انجینئرنگ کے جی-اکتیس کورس کی تیس سالہ سالگرہ کے اکٹھ پر پڑھا گیا۔ 

کہتے ہیں کہ کورس میٹ بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں کہ دونوں خدا کی طرف سے آتے ہیں اور دونوں کے انتخاب میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہوتا۔

آج سے تیس سال قبل جب ہم نے پی اے ایف کالج سرگودھا رپورٹ کی تو اک رنگارنگ گلدستہ سے واسطہ پڑا۔ پشاور سے پٹھان بھائی آئے تھے جو لان کو چمن کہتے تھے، اور ہم پنجابیوں نےتو چمن کے صرف انگور ہی سنے تھے۔ انگلستان سے او-لیول کرکے آئے بٹ صاحب تھے جو لان کو لون کہتے تھے، سمجھ نہیں آ تی تھی کہ سوٹ بنوانا ہے کہ سیر کو جانا ہے۔ گجرانوالہ سے آیا ثنا اللہ تھا جو کہ مارچ کرتے ٹانگ کے ساتھ اُسی طرف کا بازو بھی آگے لے کر جاتا تھا، کہ ایک دفعہ پریڈ کراتے سٹاف نے جب سائیڈ سے یہ دیکھا تو غصے سے بولا،" یہ کون بیوقوف کا بچہ دونوں ٹانگیں اٹھا کر چل رہا ہے"۔ ہندکو بولتا جہانگیری تھا جس کے دائِیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی ہاتھ سے یوں الگ رہتی تھی کہ پریڈ میں سلیوٹ کی خاطر وہ اُس پر بے رنگ کا دھاگا باندھ کر جوڑ بناتا تھا ورنہ پریڈ کرانے والے کی باتیں نہ ختم ہوتیں۔ فیصل آباد سے عامر تھا جس کے لیے اپنا شہر ابھی بھی لائلپور ہی تھا، جعلی دستخطوں کا ماہر تھا، کلاس میں پڑھنے پر سونے کو ترجیح دیتا تھا مگر امتحان میں اول آ تا تھا۔ اپنےالگ نظریات رکھتا مظہر تھا کہ اگر اس کا سورج مغرب سے نکلتا ہے تو جو مرضی کر لو وہ مغرب سے ہی نکلتا ہے۔ لاہوری قباچہ تھا جو فوٹو گرافی کا شوق رکھتا تھا اور کسی کا سر کسی اور کے دھڑ سے جوڑ کر عجب سما ں باندھتا تھا۔ شیخ تھا جسے دیکھ کرخیال آتا تھا اکہ یہ بچہ کہاں سے ہم بلوغت کے مسافروں میں آ گیا۔ مبشر تھا جس نے اپنے نام کے ساتھ متقی کی تعریف بھی جوڑ رکھی تھی۔ ہم سوچتے تھے کہ آدمی تو اپنے تقوی سےپہچانا جاتا ہے یہ اعلان کیوں ساتھ لگائے پھرتا ہے۔ بعد میں وقت کی دوڑ میں مبشر پیچھے رہ گیا اور نام کا اگلا حصہ ا تنا بک اپ ہوا کہ متقی کہیں آگے نکل گیا۔

مظفر آباد سے آیا نیلی آنکھوں والا فیصل فیاض تھا جو کلاس میں آکرجب اپنی ٹوپی اتارتا تھا تو اُس میں سے گولڈ لیف کی ڈبی نکلتی تھی۔ ٹوپی میں سے کبوتر نکلتے تو ہم نے دیکھے تھے مگر گولڈ لیف نکلنے کی جادوگری اُسی سے دیکھی۔ ممتاز راجہ تھا جو ممتاز رانی بھی ہو سکتا تھا۔ پیدائشی لیڈر تھا، بس یہ کہ پیروکاروں کی کسی بھی مصیبت کی طرف بھرپور رہنمائی کر سکتا تھا۔ کامران اور منصور تھے جنہوں نے مسجد میں عبادت کے ساتھ ساتھ چھپ کر سونے کی بندگی بھی دریافت کرلی تھا۔ نیڈو نے جلد ہی پی اے ایف کالج میں نیو خان فلائنگ کوچ سروس شروع کر دی۔

حلقہ ابدالین تھا، ایک سے بڑھ کر ایک صاحبِ کرامت پیر۔عامر خاقان، وقاص، طہماس اور بصورتِ چیلہ کامران ضیاء مگر اوصاف میں سب سے آگے کمال مرتبہ کو پہنچا ہوا۔ حلقہ موڈیلین بھی تھا خو کہ خاک پوش، ضمیرِ روشن، بزرگِ سخی و فدویِ ناچیز۔
نوٹ : ابدالین کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرانے طالبعلم کہلاتے ہیں جبکہ موڈیلین گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال لاہور کے پرانے طالبعلموں کا نام ہے۔
بہاولپور سے شاہ عامر فیض اللہ شاہ تھے جن کی چال سے اُنکے چال چلن کا اندازہ ہوتا تھا۔ رانجھا تھا جس کا تمام وقت ہیر کے ساتھ گذرا۔ ڈیرہ اسمعیل خان سے کنڈی آیا۔ ہم نےحفاظت یا خاص موقعوں پر کنڈی لگتے سنی تھی، یہ مذکر کنڈی پہلی دفعہ دیکھی۔ ملکی دارلحکومت سے آئے شہزاد ظفر تھے جن کی اہمیت کے باعث بعد ازاں اُنکی تصویر نمایاں طور پر باربر شاپ میں بطورِ نمونہ لگی۔ گِل تھا اورگُل بھی تھا۔ بہاولپوری شاہ کے مقابلے پر کوہاٹی امید شاہ تھا۔ ہمیں پٹھانیوں کے حسن کے ساتھ ساتھ کوہاٹی امردوں کی تعریفیں بھی اُسی نے سنائیں۔ بخارا سے بخاری شریف تھے اور گوجرہ سے واجد علی ذوق آئے جو کہ گانے بجانے کا اپنے نام سے بڑھ کر ذوق و شوق رکھتے تھے۔ خالی ڈیسک دیکھتے تھے تو ہاتھ بجنے لگتے تھے اور گلا بولنے لگتا تھا۔ کشمیری خواجہ تھے تو ہنجرے اور چٹھے جاٹ، لڑںے مرنے کو تیار ککے زئی تو فیصلہ دینے کے لیے قاضی، بصورتُ جواد اور سہیل سمارٹ اہلِ زبان بھی آئے تھے۔ یہی کیا کم تھا کہ پندرہ دن بعد گجرانوالہ سے ڈبل خان ہمراہ چکوالی مغل و پیرِ گیلانی بھی آوارد ہوئے۔ غرض ایک معجونِ مرکب تھا، ایک گلدستہِ رنگارنگ؛ کچھ پھول، کچھ کانٹے اور کچھ گوبھی کے پھول۔

پہلے ہی دن جب حجام کا غول حملہ آور ہوا تو اُس کے بعد اپنی صورت نہ پہچانی گئی، رہی سہی کسر سینئر ز نے پوری کردی ۔ صبح شام وہ دوڑ لگوائی کہ دیوانہ بنا ڈالا۔ آج تک اس دیوانگی سے نہ نکل پائے اور صورت ہے کہ آج بھی پہچانے میں نہیں آ تی۔

کیڈٹ شپ کا زمانہ کچھ روتے، کچھ دوڑتے اور کچھ روکتے گذرا۔ روکتے بٹ صاحب کو، کہ کبھی اسمبلی میں جانے سے روکا اور کبھی انہیں اپنے ابا کو کہ جو اکیڈمی میں افسر تھے، انہیں کورس کی تمام باتیں بتانے سے روکا۔

قافلے میں بعد میں کچھ مسافر اور شامل ہوئے۔ تین کراچوی آئے، ان میں سے دو ابے تبے والے بانکے تھے تو ایک آپ جناب والا مہذب  بھی آن پھنسا۔ پی آئی اے کی طرف سے مورو سے وہ سندھی ہمراہی آیا جس کا لہجہ اپنی مٹھاس رکھتا تھا۔ لوگ اس کی سادہ مزاجی اور بات سے  محظوظ ہوتے رہتے تھے۔ ہر بیماری کا دیسی علاج بتاتا تھا جس میں کالی مرچیں ضروری عنصر تھیں۔ جب کوئز، کہ چھوٹا سا امتحان ہوتا ہے، اُس میں اپنے نمبراپنے لہجے میں ٹین بٹا ٹین بتاتا تھا تو کم نمبر حاصل کرنے والے بھی مسکرا اٹھتے تھے۔ پی آئی اے نے سندھی بھیجا تھا تو دوسرا ملتانی اکھڑ بھی رنگارنگی کے لیےساتھ دیا تھا۔ ذہین آدمی تھا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ انجینیئرنگ کا دور اُس نے اچھا نتیجہ اور سزا کی بھاری مقدارکو ساتھ ساتھ نبھاتے گذارا۔ ڈگری کے بعد جب اس نے سی ایس ایس میں پورے پاکستان میں دوسری پوزیشن لی توگمان تھا کہ اکھڑ کو بیوروکریسی شاید ملائم کردے، مگر رنگ اصلی ہو تورنگ بازوں کے رنگ اس پرنہیں چڑھتے۔ کچھ عرصے بعد اُس نے بیوروکریسی کی چادر اتار پرے پھینکی اور ملتان کی پُرکھوں سے پائی چادر اوڑھ کر اپنے رنگ میں واپس ہوگیا۔ 

یہ سفر لمبا بھی تھا اور کٹھن بھی۔ اس میں دوبئی چلو کی طرح او- ٹی -ایس چلو کا دور بھی آیا۔ بدلتے موسموں کی طرح نام بھی بودلے، معاف کیجئے گا بدلے، دوستوں کے ہمراہ گذر گیا۔ اُن یادوں کے اجالے ہمراہ ہیں۔ آج جب ہم اس خوشی کے موقع پر اکٹھے ہیں تو آئیے اُن لوگوں کو بھی یاد کریں جو آج ہم میں نہیں۔ مظہر زیدی کا دھیما پن، وقاص کی شرارت آمیز مسکراہٹ اور طارق مہتاب کی کھنکتی آواز انمٹ نقوش کی مانند ہمارے ہمراہ ہیں۔ وہ جلدی اگلے سفر پر چلے گئے۔ آج دور سہی مگر دل کے تو قریب ہیں۔ آئیے، اس خوشی کے موقع پر اُن یارانِ بے بدل کے درجات کی بلندی کی دعا کریں کہ ہماری زندگی کے گملے کی پنیری کے یہ ساتھی ہم سے ایسے لپٹے ہیں کہ اُن کی خوشبو ہمیشہ کے لیے ہم میں رچ بس گئی ہے۔

شکریہ
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر