سرکاری فائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھوپھی جان کے نام ایک خط
تحریر: عاطف ملک
پیاری پھوپھی
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگی۔
آپ میرے سویڈن آنے کے انتظار میں ہیں۔ میں بھی امید کررہا تھا کہ میں اب تک آپ کے پاس چکر لگا لیتا، مگر کیا کروں کہ عقلمندوں کے ہاتھ لگ گیا ہوں۔ اور آج کل گلشن میں عقلمندوں کی ایسی بہتات ہے کہ شاخوں سے اتر کر کرسیوں پر آن بیٹھے ہیں۔
آپ خفا ہیں کہ میں اب تک کیوں نہیں پہنچا۔ کہانی کچھ لمبی ہے اورعالمانہ ہے مگر یہ عالمانہ علم سے متعلقہ نہیں بلکہ اس بے ثبات عالم کے متعلق ہے۔
مجھے یاد ہے کہ آپ بہت خوش ہوئی تھیں جب آپ کو پتہ لگا کہ میرا ایک ریسرچ پیپر ناروے کی ایک کانفرنس میں قبول ہوگیا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے میں آپ کے پاس سویڈن بھی چکر لگاونگا۔ آپ کی اردو کا تو میں ہمیشہ سے معترف رہا ہوں اور آپ نے قبول کے لفظ پر جو تبصرے کیے تھے وہ میری خوشی کا باعث بنے کہ قبول کو چھوٹا لفظ نہ جانو یہ تو زندگیوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔ آپ نے میری ایک تحریر پڑھ کر جو فارسی کہاوت مجھے لکھ بھیجی تھی، اس نے بڑا لطف دیا کہ " قبول خاطر و لطف سخن خُداد است" کہ کلام یا تحریر میں خوبی اور دل پسندی خداداد ہوتی ہے۔ مگر یہ جو"قبول ہے، قبول ہے" کے الفاظ ہیں یہ بعض اوقات خوار کُن ہوتے ہیں۔ یہ لفظ خوار کُن میں نے خود بنایا ہے کہ دو مختلف الفاظ خوار اور کُن کو ملانے سے معاملہ دوچند ہوگیا ہے۔ کہ سادہ لوح نے "قبول ہے" کہا مگر "جا خوار ہوجا" کے معنی اس میں چھپے تھے۔ سو ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ پیش آیا ہے۔
کسی زمانے میں آپ کے بھتیجے، کہ اپنا شمار وہ سادہ لوحوں میں کرتا ہے، نے ایک سرکاری نوکری قبول کرلی تھی۔ کبھی تو یہ قبول خوش آئند رہا اور کبھی "ببول ہے" کی مصداق رہا۔ لگتا تھا کہ کانٹوں میں جان یوں پھنسی کہ لیر لیر ہوئے جاتی ہے۔ اب موجودہ کہانی یوں ہے کہ بیرونِ ملک جانے کے لیے سرکاری ملازمین کو ایک نوآبجیکشن سرٹیفکیٹ کہ جسے این-او-سی کہتے ہیں، اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ این-او-سی بعض اوقات "ایہہ نہ ہو سی" بن جاتا ہے۔ سو موجودہ قصے میں میں نے بیرونِ ملک جانے کے لیے چھٹی کی درخواست دی کہ پہلے چھٹی منظور ہو تو پھر ہی این-او-سی کی چٹھی کی جانب معاملہ بڑھتا ہے۔ اب اس درخواست میں لکھ دیا کہ وجہِ رخصت بیرون ملک ایک کانفرنس میں تحقیقی پیپر پیش کرنا ہے، اور چونکہ محکمہِ سرکار ایسی بےعلمیت کو پسند نہیں کرتا اور اگر پسند بھی کرتا ہے تو اس کی وجوہات ِدیگر بمثلِ رنگ، نسل، نسب، چرب زبانی و چاپلوسی ہوتی ہیں، اور سادہ لوح ان خواصِ سرکاری سے عاری ہے، سو اس سفر کا تمام خرچہ مسافر خود اٹھائے گا۔
درخواست سفرِ افقی پر چل نکلی کہ پہلے میرے سے اوپر کے افسر نے اثبات کی مہر نصب کی اور اپنے سے اوپر کے افسر کو بھجوادی۔ درخواست کے اس بلندی کے سفر میں عرضیِ رخصت ایک عقلِ گراں مایہ کے سامنے آن پہنچی۔ یہ صاحبِ عقل وفراست میں اسم بامسمی تھے کہ پہلے سے ہی محکمے میں اپنی عقل و دانش کی موقع و بے موقع تحسین پاتے تھے۔ انہوں نے درخواست کو پہلے دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں پڑھا کہ وہ اردو اور انگریزی میں فرق کرنے کے قائل نہ تھے۔ پھر ان کی عقلِ سلیم اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ چھٹی کی درخواست درست نہیں ہے۔
ہمیں حاضری کا حکم ہوا۔ بندہِ ناچیز کو کہنے لگے کیونکہ آپ ایک تحقیقی مقالہ پڑھنے جارہے ہیں اور اس سے پاکستان کا بلخصوص اور محکمے کا بالعموم نام روشن ہو سکنے کا خدشہ ہے، سو اس بنا پر آپ کی چھٹی نہیں بنتی۔ ہم پہلے ہی اپنے اوپر لگے ملکی اور محکمانہ خدشات سے پریشان تھے، اس نئی ضرب کی تاب نہ لاسکے۔
ہماری پریشانی کو دیکھ کر کہنے لگے، فکر مند نہ ہوں بلکہ خوش ہو جائیے کہ میں آپ کا کیس محکمے کی ٹریننگ برانچ کو بھیج رہا ہوں کہ آپ کو ڈیوٹی کے طور پر بھیجا جائے۔ ہم پچھلی ضرب سے ہی ابھی نہ سنبھلے تھے کہ نئے وار سے سر گھومنے لگا۔ خوشی کی روشنی پھیل گئی اور ہم اپنی سوچ کو لعن طعن کرنے لگا کہ سادہ لوح تو نہیں جانتا تھا کہ محکمے میں ایسے ایسے خیال کرنے والے چھپے بیٹھے ہیں۔
ہمارے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر کہنے لگے، اتنا بھی خوش نہ ہوں۔ میں اس کیس میں لکھ رہا ہوں کہ اس بیرونِ ملک جانے کی ڈیوٹی کا خرچہ آپ خود اٹھائیں گے۔ اب یہ وار ایسا تھا کہ اس کے بعد سمجھ نہ آتی تھی کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگرکومَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
بلکہ خیال تو یوں آرہا تھا کہ اُنہی کو پیٹوں۔ ہم نے پوچھا کہ مکرمی، آگے کا کیاعمل ہوگا ؟ اور اس گناہِ بے لذت کی طرح کی بیرونِ ملک ڈیوٹی جو آپ ہمیں مرحمت فرمارہے ہیں، اس کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
اُن صاحبِ تحسین و غلو نے ہم کم عقل کوغور سے دیکھا اور آگے آنے والے مراحل کے سرکاری راز سے پردہ اٹھا دیا۔ فرمایا ٹریننگ برانچ کیس بنائے گئی جو درجہ بدرجہ بزرجمہروں کے دفاتر اور میزوں کی زینت بننے کے بعد محکمے کے سربراہ تک پہنچے گی۔ وہاں سےقبولیت کے بعد ایک اور کیس بنے گا جو کہ خزانے کے امین یعنی محکمے کے فنانشل ایڈوائزر کے پاس جائے گا۔ جب وہ اپنا اثبات دیں گے تو معاملہ اس سے آگے چلے گا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے دخل اندازی کی کہ اگر تمام خرچہ مسافر کا ہے تو محکمے کے فنانشل ایڈوائزر سے کیا منظوری لینی ہے؟ کہنے لگے کہ سرکاری زبان میں آپ جیسے کم علموں کے لیے بہت برا لفظ ہے، خوش قسمت ہو کہ مجھے آپ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ نہیں لکھنی ورنہ وہ لفظ وہیں جڑ دیتا۔ ہمارا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت ایک ہاتھ اُن کو جڑ دیں، مگر عقلِ عیار آڑے آگئی۔ مزید سرکاری دانش کے موتی بکھیرتے کہنے لگے، میاں، سرکار کے کام سیکھو، اور اگر نہیں جانتے تو چپ رہو کہ بادشاہوں کے کام صرف بادشاہ ہی جانتے ہیں۔
ہم نے صرف بادشاہ سلامت سے پوچھا، آگے کیا ہوگا؟ کہنے لگے کہ ان مراحل سے اگر فائل کندن بن کر نکل آئی تو پھر میرے دفتر سے آپ کے بیرونِ ملک ڈیوٹی پر جانے کا پروانہ نکلے گا اور آپ کے ریکارڈ میں پکا لکھا جائے گا کہ آپ سرکاری دورے پر بیرونِ ملک گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ آپ اس حکم نامے کی بنیاد پر سرکاری گاڑی پر ایرپورٹ جا پائیں گے۔ دیکھیے ہمارا کام آپ کا خیال رکھنا ہے، سو خوش رہیے مگر اپنے خرچے پر۔ ہم نے ذکر کردہ فائدے کی پڑیا بنائی اور ان کے دفتر سے نکلنے میں جلدی کی کہ ہم سمجھ گئے تھے کہ ایسے شاہکار کے پاس ٹھہرنا ذہنی اختلاج کا باعث ہے۔
پھوپھو، آگے میں مزید ایک معاملے کو سلجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ محکمے کے بڑے عقل مند، فنانشل ایڈوائزر نے فائل پر اعتراض لکھ دیا ہے کہ حکومت کی بچت مہم کی وجہ سے درخواست گذار کو اپنے خرچے پر بھی باہر جانے کی اجازت نہیں دے جاسکتی۔ اب کوئی ہے کہ انہیں سمجھائے اور کیا سمجھائے؟ سنا ہے کہ سرکار میں سمجھانے کے لیے دلیل یا منطق کی نہیں بلکہ بڑے عہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں انہیں اب لکھ رہا ہوں کہ اس بیرون ملک ڈیوٹی کے واحد سرکاری خرچ یعنی ایرپورٹ تک کے لیے سواری سے بھی ہمیں آزاد کردیں تاکہ ہمارے خرچ کے کنویں کا پانی پوری طرح صاف رہے۔
سو میری پیاری پھوپھی جان، جان لیجیئے کہ اگر میں آپ تک پہنچ پایا تو کیسے فائلوں کا دریا پار کرکے پہنچوں گا۔ میرے لیے دعا کیجئے گا کہ کہیں راہ میں ہی نہ ڈوب جاوں کہ اس راہی کو ایسے رہبر فرزانہ مل رہے ہیں جنہوں نے اپنی عقل محلے کی فرزانہ کے حوالے کردی ہے کہ کہیں کارِسرکار میں خرچ نہ ہوجائے۔
خیر اندیش
آپ کا سادہ لوح بھتیجا
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment