توھین

 

 

" آپ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، آپ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ "

اُس نوجوان کی آنکھوں میں غصہ اور آواز میں کاٹ تھی۔

وہ رواں انگریزی میں مجھ سے بات کررہا تھا، اور میں نے محسوس کیا کہ اُس کا انگریزی کا چناو دانستہ تھا۔ وہ مجھے باور کرانا چاہ رہا تھا کہ اُسے میں عامی نہ جانوں۔

مگر میں اُسے عام نہیں سمجھ رہا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ صرف اُن طالب علموں کو ملتا تھا جو ایف ایس سی میں نمایاں ترین ہوتے ہیں۔ مجھے علم تھا کہ اُن میں سے کچھ نے لاہور کی  یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں سول، میکینیکل انجینئرنگ  اور دوسرے شعبوں کے داخلے چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی کو فوقیت دی تھی کیونکہ وہ الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتے تھے۔

وہ نوجوان عام نہیں تھا۔

مگر وہ عام تھا، وہ عام تھا کہ وہ ہمارے مطالعہ پاکستان کے مضمون کی مار تھا، وہ مضمون جس کی مار نے کئی خواص کو عام بنایا۔ وہ مضمون جو سکول کے بچوں میں سوچ کو مارتا اور عقلی استدلال کو طریقے سے ختم کرتا ہے۔

وہ ذہین تھا مگر بند ذہن بنا دیا گیا تھا۔

اس نوجوان کے غصے اور اطوار نے مجھے کچھ خوفزدہ کیا تھا۔ بعض یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طالب علموں کو جان سے بھی مار دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے مروجہ بیان سے الگ بات کی تھی۔ نظامِ تعلیم یک رنگی کی افزائش کرتا، اور اختلاف رائے کو کچلنے کا پروردہ تھا۔ آسان تھا کہ کسی پر بھی توھینِ مذھب کا الزام لگا دیا جائے۔ اس الزام کی عدالت فی الفور لگتی  اور سزا پر عمل سزا سنانے سے بھی قبل ہوتا۔

میں الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ڈیجیٹل سگنل پروسیسنگ کا مضمون پڑھا رہا تھا اور پرانے اساتذہ کی طرح سمجھتا تھا کہ استاد کی ذمہ داریوں میں مضمون پڑھانے کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی ہے۔ اُس دن کے لیکچر میں میں نے قصور میں ایک مسیحی جوڑے کو توھین کے الزام میں اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلانے کی مذمت کی تھی۔ لیکچر ختم کرنے کے بعد میں کمرہِ جماعت سے نکلا ہی تھا تو اُس طالب علم نے مجھے روک لیا۔

اُس نوجوان کی آنکھوں میں غصہ اور آواز میں کاٹ تھی، " یہ مسلمانوں کو ملک ہے، یہاں کا قانون مسلمانوں کے لحاظ سے ہے، غیر مسلم اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں"۔

میں اُس کو کیا بتاتا کہ عباسی خلافت کو پڑھ لے یا اندلس میں مسلمانوں کے عروج کے دور کو دیکھ لے کہ مذھب کے قطعِ نظر قابلیت کو دیکھا جاتا کہ خلیفہ کے کئی وزراء بلکہ وزیرِاعظم بھی یہودی تھے۔ میں اُس کو کیا بتاتا  اور وہ کیا مانتا کہ مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں مسلمانوں کے شاندار ماضی پر تو کئی اسباق تھے اور مگر اس شاندار ماضی کی وجوھات پر کچھ نہ لکھا تھا۔  

مذہب سے بالاتر انسانی جان کی حرمت کا قرآنی حکم اس نوجوان کو نہیں سمجھایا گیا تھا۔

اُس وقت میں اُسے کیا سمجھاتا، وہ مجھے سمجھانے آیا تھا۔ کئی جگہوں پر اس سمجھانے کے عمل میں طاقت کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا تھا۔ اُس لمحے میں خوفزدہ تھا، کچھ خوفزدہ۔

نوجوان کی آواز سُن کر اور طالب علم بھی اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان طالب علموں میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء کا ناظم بھی ہے۔ ناظم کو مخاطب کر کے میں نے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتا ہے کہ مملکتِ پاک میں اقلیتوں کو وہ حقوق دیے جارہے ہیں جو اسلام نے دیے ہیں؟ اُس کا جواب نفی میں تھا۔ دوسرے طلباء نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور معاملے کو سمجھداری سے خاتمے کی جانب لے جایا گیا۔  

آج میری بیٹی کے سرکاری سکول نے جب اپنے مسلمان طلباء (جو شاید سکول میں 5 فی صد سے بھی کم ہیں ) کے جمعہ کے لیے ایک کمرہ مختص کیا ہے اور اپنے سکول کے فنڈز سے جائے نماز خریدے ہیں (تصویر) تو مجھے اپنا وہ طالب علم یاد آگیا۔

امید ہے کہ وہ نوجوان دنیا کے سفر پر نکلا ہوگا اور اُس نے جان لیا ہوگا کہ تنوع اور اختلاف کسی معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری  ہے اور انسانی جان  قطع نظر رنگ، نسل اور مذھب کے مقدس ترین ہے۔

معاشرتی علوم کے پڑھائے گئے اسباق سے آزادی کے لیے مختلف معاشروں کا  سفر ضروری  ہے۔

 

 

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu, #عاطف-ملک

 

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ