زمان و مکان ( قسط اول)

تحریر : عاطف ملک
یہ تصویر انٹرنیٹ پر ان محترمہ نے پبلک پوسٹ کے طور پر لگائی، یہ حال میں ہوئی کسی آرٹ کی نمائش کی  تصویر ہے۔ کسی طرح اتفاقاً یہ تصویر مسافر کے سامنے آگئی۔ مسافر نے اِس مکان کو دیکھا تو زمان کے ایک اور دور میں پہنچ گیا جہاں مسافر اس مکان میں پایا جاتا تھا۔
  
یہ جگہ آرٹ کے لیے شروع سے مختص رہی ہے۔ 

یہ لاہور میں ایر فورس کا ایر ڈیفنس سکول تھا جو کہ اب ایک کلب بن گیا ہے۔ اس جگہ جہاں محترمہ و بزرگ کھڑے ہیں، یہ کھلی جگہ تھی۔  ہر دوسرے تیسرے ماہ یہاں میز لگا کر چائے اور کھانے کا بندوبست ہوتا تھا۔  اس چائے اور کھانے کا خرچ عام طور پر کسی پر ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ خرچ اُس کلاس پر ڈالا جاتا تھا جو یہاں کورس مکمل کرکے جارہی ہوتی تھی۔ سنا ہے موجودہ زمان میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہاں لوگ اپنے کھانے کا خرچہ
خود اٹھاتے ہیں۔
  
یہاں سے تھوڑا بائیں چلیں توایک برآمدہ آتا ہے جس کے ایک طرف چھوٹا سے باغیچہ ہے اور دوسری طرف کمروں کی ایک قطار ہے۔ مسافر دو سے تین سال ان کمروں میں سے ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ یہ مسافر کا دفتر تھا۔ مسافر کی یہاں کئی یادیں ہیں۔  

 یہیں اسی دفتر میں لگے نوٹس بورڈ پر مسافر نے پراںے اخبار کی ایک تصویر کاٹ کر لگا رکھی تھی جس میں مردِ حق بننے سے قبل کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق یونیفارم میں جھک کر ذوالفقارعلی بھٹو سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ایک دن مسافر دفتر آیا تو بورڈ سے وہ تصویر غائب تھی، پتہ لگا کہ آفیسر کمانڈنگ کسی وجہ سے اُس دفتر آئے تو تصویر کو دیکھ کر کہنے لگے کہ اس فلائیٹ لفٹیننٹ کے مسائل پہلے ہی کیا کم ہیں کہ مزید کی تلاش میں ہے۔ وہ آفیسر کمانڈنگ جس نے ایک دفعہ اس کی حرکات پر اپنے دفتر میں اُسے بلا کر ڈانٹا کہ مسافر نے کچھ ایسا کیا تھا کہ جو ہیڈ کواٹرز سے تنبیہ کے ساتھ آیا تھا۔ ڈانٹ کے آخر میں ایک جملہ عجب ادا کردیا کہ میں خوش بھی ہوں کہ کوئی ایسا بھی ہے جو سچ کو سچ کہہ سکتا ہے۔ مسافر آج بھی اُس شخص کا شکرگذار ہے کہ جو سمجھ گیا تھا کہ مسافر ایسے موڑ سے گذر رہا ہے، جہاں اصول و قوائد درست رہنمائی نہیں کر سکتے سو درگذری ہی بہتر ہے۔ سمجھدار لوگ بہت عام نہیں۔ 
 
مسافر اس دور میں زندگی کے عجب موڑ سے گذر رہا تھا۔ زندگی اور خدا پر اس کا اعتماد متزلزل تھا۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ناراض تھا، شاید وہ چیزوں کو دیکھ نہیں پارہا تھا، یا شاید ایسے دیکھ پارہا تھا جو عام حالات میں نہیں دکھتے۔

 بیرونی منظر اندرونی منظر کے تابع ہوتا ہے۔  ہر منظر اپنے اپنے معنی رکھتا ہے، ایک منظر کئی معنی رکھتا ہے، کئی منظر ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ آنکھ کیا دیکھ سکتی ہے؟ آنکھ کیا کیا دیکھ سکتی ہے؟ بے چینی کیا کیا دکھا سکتی ہے؟

مسافر سفر میں تھا، وہ ساکت کھڑا تھا مگر ایک سفر میں تھا۔ ایسا سفر اکیلے ہوتا ہے، چاہیں بھی تو کوئی ہمراہی نہیں ملتا۔ اپنا بوجھ خود ہی اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ دیوانگی اور فرزانگی کی جانب کا سفر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیوانگی اور فرزانگی کیا  ایک سکے کے دو رخ ہیں، ایک دوسرے سے پیوست، گُٹھ کے بغلگیر،  کبھی ایک سطح دکھتی ہے کبھی دوسری سطح سامنے آجاتی ہے، یا یہ سکے کی ایک ہی سطح ہے۔ دیوانگی اور فرزانگی دونوں اپنے عکس ایک ہی سطح پر ڈالے ہیں، کبھی ایک عکس غالب آتا ہے کبھی دوسرا زور آور ہوجاتا ہے۔

مسافر کی ہم سفر نے ایک دن اُسے کہا کہ وہ دیوانگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مسافر کو اس کا علم تھا مگر اُسے یہ بھی یقین تھا کہ یہ تلاش کا سفر ہے، یہ زمین، آسمان اور کائنات سے نکل بھاگنے کا سفر نہیں، یہ تلاش کا سفر ہے۔ خدا پر اعتماد نہ رکھتے ہوئے بھی یہ بدست و گریباں ہونے کا منظر نہیں بلکہ صحرا میں بھٹکے مسافر کے بے یقینی کے سفر میں کہیں چھپی ایک آس تھی کہ کہیں سے سوچ کے آسمان پر وہ ستارہ چمکے گا جو منزل کی جانب رہنمائی کرے گا۔
 
میں نہیں مانتا، میں قصے کہانیوں کو نہیں مانتا، میں ماتھا ٹیکنے کو تیار نہیں، میں ناراض بچہ ہوں تو نے مجھے کیوں صحرا میں بھٹکا دیا۔ مجھے کیوں بھٹکایا ہے، اب میں تجھ سے راہ نہیں پوچھتا، اب تو خود بتا تو بتا، ورنہ مجھے ڈوبتا دیکھ۔
 
مسافر نے کچھ ماہ قبل اپنے جوان سال چھوٹے بھائی کو سپرد خاک کیا تھا۔ اس کے بعد کے منظر عجب تھے، انسانی اقدار کی بلندی اور کمینگی سب سامنے آئے۔
 
لاہور سے کراچی جاتی فلائیٹ میں ساتھ بیٹھے اجنبی نے اُس کی آنکھوں میں چھپے آنسووں کو دیکھ کر پوچھا کہ کدھر جارہے ہو۔ مسافر نے کہا کہ اگلے سفر پر چلے جانے والے ایک مسافر کا سامان لینےجارہا ہوں کہ جانے والے رہنے والوں کے لیے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ اجنبی نے مسافر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہنے لگا کہ بات شاید سادہ ہو، میں تمہیں اور اُس جانے والے کو کیا دے سکتا ہوں بس ایک چھوٹی سے نذر ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے پیغمبر کی مدح میں دن رات درود پڑھتا رہا ہوں۔ آج اُس جانے والے کی نذر کرتا ہوں کہ ایک شہید کو دینے کے لیے اپنے پاس کچھ اور نہیں پاتا۔ وہ اجنبی آج بھی مسافر کے لیے اجنبی ہی ہے، اس کی شکل، قد کاٹھ کچھ بھی یاد نہیں بس یاد ہے تو اُس ہاتھ کا لمس اور غم میں شراکت یاد ہے۔
 
دوسری طرف ایک ایر مارشل اور اس کے ماتحت گروپ کیپٹن کی کمینگی بھی یاد ہے۔ ایر مارشل کا رینک بڑا تھا اور سوچ چھوٹی تھی۔ مسافر ان دنوں محکماتی مشکلات کا شکار تھا۔ وہ بیرون ملک پڑھنے گیا تھا تو وقت پر واپس نہ آیا تھا۔ وقت پر واپس اس وجہ سے نہ آیا تھا کہ تحقیق کے معاملات وقت کی قید میں آنا پسند نہیں کرتے۔ محکمے نے کچھ خرچ نہ کیا تھا۔ ملکی سطح پر مقابلے کے بعد مسافر کو سائنس کی منسٹری نے اتنا سکالرشپ دیا تھا کہ بیرون ملک صرف سانس کا معاملہ چلتا رہے۔ محکمہ نے چھٹی دی تھی، کچھ عرصہ مقامی تنخواہ دی۔ بیرون ملک پڑھائی کے ساتھ مزدوری کرکے روٹی اور رہائش کے خرچ اُٹھائے تھے۔ کبھی پرننٹنگ مشین کے سامنے کھڑے آٹھ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں کام کیا۔ اشتہاروں کا ڈھیر مشین کے ایک طرف سے نکلتا تھا اور ایک تعداد کے بعد اُن کو اکٹھا باندھ کر ایک طرف سنبھالنا ہوتا تھا۔ وزن ہوتا مگر جوان جسم یہ وزن آسانی سے اٹھالیتا۔ کام مشکل نہ تھا مگر گھنٹوں یہ کام کرنا دماغ اور جسم کو تھکا دیتا تھا۔ ایسا تھکا دیتا کہ اشتہار پر پرنٹ ہوتی نیم برہنہ ماڈلوں کی تصاویر بھی اچاٹ طبیعیت میں کچھ تبدیلی نہ لاتیں۔ مزدور گھڑی دیکھ کر شفٹ ختم کرنے کے انتظار میں ہوتا۔ کام قسمت والوں کو ملتا تھا اور پرنٹنگ پریس پر صبح کی شفٹ پر پہنچنے کے لیے مسافر منفی درجہ حرارت میں جب نکلتا تھا تو سورج بھی ابھی آرام کر رہا ہوتا تھا۔ 
 
یونیورسٹی شہر سے باہر تھی اور  مسافر کا ہوسٹل یونیورسٹی کے پاس واقع درختوں کے ذخیرے کے ساتھ تھا۔ برف سے اٹے جنگل سے گذر کر مسافر بس سٹاپ پر پہنچتا تھا کہ دن کی پہلی بس لے کر سفر شروع کر سکے۔ بس جس کا ڈرائیور اور وہ اپنے آپ کو ایک تعلق میں محسوس کرتے تھے کہ قادرِ مطلق کے جہاں میں بندہ مزدور کے اوقات زمان و مکاں سے بالاتر تلخ ہیں۔  وہ سرد صبح جو اجالے میں ابھی نہ بدلی ہوتی، برف زمین کو سفیدی کی شکل میں ڈھانپتی، درختوں کے سبز پتوں پر برف روئی کے گالوں کی مانند بکھری ہوتی، اور درختوں کے درمیان بل کھاتی اندھیری سڑک برف سے سفید ہوتی۔ ساڑھے چار بجے دن کی پہلی بس جب اس پر چلے گی تو اپنے پہیوں کی سیاہی اور وزن سے سڑک پر لکیریں ڈالے گی، وہ لکیریں جو کچھ دیر میں مزید گرتی برف سے مٹ جائیں گی، مگر وقت کی لکیریں مزدوروں پر اپنے پکے نشان ڈال جائیں گی۔ سردیوں کی برفیلی صبح کا رنگ تاریکی اور سفیدی کا امتزاج رکھتا ہے جیسے مزدور کو کچھ اطمینان کہ مزدوری ہے کہ کچھ  رقم پائے گا، مگر افسردگی بھی کہ کرایہ اور خرچ کے بعد رقم اتنی نہیں کہ نومولود بیٹی کے لیے سٹور سے غذائیت بھرا دودھ خرید سکے۔
 
مزدور کے کئی رنگ رہے، ایک زمان و مکان میں وہ فضائیہ کا افسر تھا، ایک اور زمان و مکان میں وہ  بدیسی طالب علم اور مزدور تھا، وہ مزدوری کہ جو ایک سفر کا حصہ ٹھہرے گی اور اسے ایک الگ زمان و مکان میں یونیورسٹی کے پروفیسر کے عہدے پر لے جائے گی۔ مگر سیلف میڈ لوگوں کے المیے کے مطابق مزدور نے آشیاں بنانے میں، گلستان سجانے میں عمر کاٹ دی، اپنے حصے کے پھول بانٹ دیے، صبر کے سمندر میں کشتیاں چلا لیں اور محنت کا اجر بھی آخرکار مل گیا مگر آج بھی نومولود بیٹی کے لیے غذائیت بھرا دودھ نہ خرید پانے کا قلق ایک بوجھ کی مانند ساتھ جڑا ہے۔ 
 
  اس کہانی کی قسط دوم درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔
http://aatifmalikk.blogspot.com/2023/05/blog-post_23.html
 
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu, #عاطف-ملک

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ