ڈاکٹر شعیب کی پرتھ آمد پر استقبالیہ

 

معزز حاضرین، ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ڈاکٹر شعیب ہمارے درمیان پرتھ میں موجود ہیں، کیونکہ

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

 
اس محفل میں شریک اور اس کے علاوہ پرتھ اور دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں کئی لوگ کسی زلف کے اسیر ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں ڈاکٹر شعیب کے اسیر رہے ہیں، دلی اسیر۔ پرتھ میں ان کے آنے کا پتہ لگا تو بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا جس سے علم ہوا کہ

  
اک ہم ہی نہیں تنہا الفت میں تیری رسوا
اس شہر میں ہم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں


 ڈاکٹر صاحب نے  کئی دہائیاں پاکستان میں تعلیم کی آبیاری کی ہے۔ افرادی قوت کی اعلی درجے کی تربیت کی ، وہ موقع جس کی بنا پر ان کے شاگرد اور ان کی ادارے میں کام کرنے والے دنیا کی نامور یونیورسٹیوں جیسے ایم آئی ٹی، سٹینفورڈ وغیرہ میں داخلہ لے پائے، غرض عملی مثال ہیں کہ "سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے


میرا ڈاکٹر صاحب سے تعلق ادبی اور غیر ادبی ہے۔
 

ڈاکٹر شعیب سے اپنے تعلق کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ اردو ریاضی میں کہتے ہیں تناسب راست، یعنی ڈائریکٹ پروپوشن، انیس سو چھیاسی سے ڈاکٹر صاحب سے راست تعلق ہے جب میں کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ میں داخل ہوا تھا تو یہ رہنمائی کے لیے ہم سے ایک سال اوپر تھے۔  مگر اس سے قبل کا بھی ہمارا تعلق عکسی رہا ہے ۔ لاہور کے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول میں یہ ہم سے اوپر کی جماعتوں میں تھے، گو وہاں ان سے ملاقات نہیں رہی۔ کیونکہ وہ سکول اتنا بڑا تھا کہ ایک کلاس کے ہی دس سیکشن ہوتے سو اپنے ہم جماعتوں کو ہی جاننا مشکل تھا چہ جائیکہ سینئرز کو جانیں، مگر جب انیس سو چھیاسی میں ملاقات ہوئی تھی تو جانا کہ ایک دلی تعلق ان سرخ اینٹوں کی بنے کمروں و راہداریوں اور اونچے روشندانوں والی جماعتوں کے کمرے میں بیٹھنے کا  مشترک رہا ہے کہ وہاں کی خوشبو ہم محسوس کر پائے تھے۔

 
پہلے غیر ادبی بات کہ کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ میں ہم ایک ہی ہاوس میں تھے، ایک ہی عمارت میں رہائش پذیر رہے۔ ہم دونوں اتھلیٹیکس ٹیم میں اکٹھے رہے۔ میں دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا جبکہ ڈاکٹر صاحب ہائی جمپ لگاتے تھے، جس میں دو ڈنڈوں کی درمیاں تنی رسی اونچی سے اونچی ہوتی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت سے ہی بلندیوں کو زیر کرتے جارہے ہیں۔ مجھ علم ہے کہ اس میں انہیں بہت سے مشکلات کا سامنا رہا مگر ڈاکٹر شعیب مثال ہیں کہ

 
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے


لوگ ڈاکٹر صاحب کی ہائی جمپ سے لے کر آگے کی کامرانیوں پر واہ واہ کرتے ہیں، مگر ہم وہ ہیں جنہوں نے ایک مقابلے میں ہارنے کے بعد دیکھا کہ یہ آگے نعرہ لگارہے تھے، ہم جان کے ہارے، تو ہم پیچھے اُس گروہ میں تھے جو ہم آواز جواب آں غزل نعرہ لگاتا تھا، واہ بھی واہ۔  ہم جان کے ہارے واہ بھی واہ، ہم جان کے ہارے واہ بھی واہ۔  سو ہم نے انہیں سے سیکھا کہ جیتنے پر تو واہ ہے ہی، ہارنے پر بھی واہ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیئے۔

 
ادبی تعلق کہ یہ ادب کے تعلق کی بات ہے کہ یہ ہمارے استاد ہیں اںجینئرنگ کی ڈگری میں مشکل اسباق میں مدد دی، پی ایچ ڈی میں رہنمائی کی۔ غرض زندگی میں ہمیں ایک نمونہ دیا ، ایک رول ماڈل کہ جس کی طرف دیکھ کر ایک ہمت، ایک تقویت  ملی۔


کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ میں اپنی پڑھائی کے میز پر میں نے ان کا مختلف رنگوں کا بنایا ڈیزائن لگایا تھا جس پر اپنے ٹرم کے رزلٹ لکھتا تھا کہ کارکردگی پر نظر رہے۔ جب یہ انجینرنگ کی ڈگری مکمل کرکے پنڈی میں نوکری کر رہے تھے تو میں ان کے پاس گیا تو پتہ لگا کہ آپ مقابلے کے  سکالر شپ کے بعد امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہیں تو ہمیں بھی اگلا ہدف مل گیا۔

 
اور بھی کہانیاں ہیں، مثلاً ایک کانفرنس میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے میزبانی کے لیے چنا اور میں نے وقت سے پہلے کھانا کھلوا دیا تھا، اور اُس دن بہت سے لوگوں کی بڑی دوڑیں لگی تھیں۔ سو باتیں بہت سی ہیں، مگر

 
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں

سو میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ آپ ڈاکٹر شعیب اور دوسرے حاضرین کے خیالات سے مستفیذ ہو سکیں۔ آپ سب کی آمد کا بہت شکریہ۔

نوٹ

اس استقبالیہ تحریر کی ویڈیو یوٹیوب پر درجِ ذیل لنک پر دیکھی جاسکتی ہے۔

https://youtu.be/HCHaogzcz5w 


 










Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ