زمان و مکان ( قسط دوم )

اس تحریر کی پہلی قسط درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔

http://aatifmalikk.blogspot.com/2023/05/blog-post_19.html 

 

 سڑک کنارے لگے کھمبوں کی ناکافی روشنی میں صبح ساڑھے چار بجے مزدور کے ہمراہ ایک طالب علم لڑکی ہوتی۔ پھندنے والی گرم اونی ٹوپی، گرم جیکٹ، گلے پر لپٹے لمبے اونی مفلر، جینز اور نیچے لمبے جوتے پہنے اس کی سفید ناک کا سرا سرخ ہوتا۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر نہ مسکرائے، صرف ملتے ہوئے ایک دوسرے کو صبح بخیر کہتے۔ منفی پانچ کی سرد صبح ابھی خیریت کی جانب جاگ رہی ہوتی، اور دو مزدور ایک الگ زمان و مکان میں جنس کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنی زندگی کے کھیت میں ہل چلانے نکل رہے ہوتے کہ آگے فصلِ گُل کھلے گی۔ صبح بڑی سرد تھی مگر انہیں یقین تھا کہ اُن کے صحن میں بھی سورج نکلے گا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کبھی نہیں مسکرائے، وہ آنے والی صبح کی خیریت کے طالب تھے۔ 

 ہر صبح جب وہ لڑکی نظر آتی تو مزدور سوچتا کیا مملکتِ خداداد میں یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے موسم، ایسے ویرانے، ایسی تنہائی، ایسے وقت میں کوئی لڑکی تن تنہا بس سٹاپ پر کھڑی ہو؟

مزدوری کی طلب گار بچیاں تو ہر جگہ پر ہیں کہ اپنے گھر، اپنے ماں باپ کا بازو بنیں، بوجھ اٹھالیں مگر ان کو لوٹنے کے طالب جابجا ہیں۔ جو ذمہ دار ہیں کہ اُنہیں محفوظ ماحول فراہم کریں، وہ خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے مگر دنیا ماوں اور ہونے والی ماوں  کے لیے مملکتِ پاک میں دوزخ کی صورت ہے۔
 

زندگی بھر جلی جہنم میں
جس کے پاوں کے نیچے تھی جنت

بس ریلوے اسٹیشن لے جاتی تھی، وہاں سے لوکل ٹرین لینا ہوتی تھی جو قریبی شہر لے کر جاتی تھی۔ دوسرے شہر کے ریلوے اسٹیشن سے دوبارہ بس لینا ہوتی تھی جو پرنٹنگ پریس لے کر جاتی تھی۔ مزدور زیادہ تر طالب علم لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ انہیں میں وہ مراکشی بربر لڑکی تھی جو طالب علم مزدوروں کی منظورِ نظر تھی۔ اُس کی رنگت صاف، قد لمبا، غلافی آنکھیں اور مزاج اکھڑ تھا کہ خود کما کر کھانے والے دوسروں کی باتیں نہیں سنتے۔ وہ بربر تھی اور مسافر نے انگریزی میں باربرزم اور اردو میں بربریت کے الفاظ سنے تھے۔  اُس سے مل کر اور بات کر کے مسافر کو پتہ لگا کہ بیانیہ کیسے الفاظ کا روپ دھار لیتا ہے، بے جان الفاظوں میں کیسے مرضی کی روح پھونک دی جاتی ہے۔ وہ الفاظ جن کے ورد سے پھر ایک الگ دنیا بنائی جاتی ہے۔ دنیا جس کے خواب و خیال بھی اُس بیانیہ کے تابع ہوتے ہیں۔ جب خواب و خیال کسی بیانیہ کے تابع ہوجائیں تو پھر فرد بھی تابعدار ہوجاتا ہے۔ تابعدار سے کوئی بھی خدمت کروالیں، اپنے کندھے دبوانے سے لے کر بیانیہ سے الگ سوچنے والے کی گردن اڑانے تک سب کام کروایا جاسکتا ہے۔

ایک دن مزدور پرنٹنگ پریس نہ پہنچ پایا، پہنچنا مزدور کے بس میں نہ تھا۔ وہ سفر پر دوسرے شہرگیا تھا۔ واپسی کے لیے اسٹیشن پر پہنچا تو ٹرین نکل چکی تھی۔ مزدور اُس سے اگلے دن پرنٹنگ پریس پہنچا اور مشین پر کھڑا ہی ہوا تھا کہ سپروائزرعورت نے بلایا۔ اُس دن تک کا حساب کیا اور کہا کہ نکلو یہاں سے، اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مزدور اب برطرف تھا اور اُس کی ضرورتیں اُسے اطراف دکھا رہی تھیں کہ اگلی مزدوری کہاں پاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کی مجبوریوں کو نہیں دیکھتا، اُن کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے اور پھر اِس سمجھ کو منافع کی مقدار بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

مزدور نے اگلی مزدوری گھوڑوں کی خوراک بنانے کے کارخانے میں کی۔ صبح چھ بجے شفٹ شروع ہوتی تھی۔ ماحول میں دھول اور بو ہوتی ۔ کارخانے جا کر مزدور کپڑے بدلتے اور مشینوں پر جا کھڑے ہوجاتے۔ ایک جانب مشین میں سویا بین، کنولا، چنے، مٹر کی طرح کی اجناس ڈالی جاتیں اور دوسری جانب کیلشیم، فاسفیٹ اور دوسرے کیمیکل ڈالے جاتے۔ مشین میں مختلف درجہ حرارت کی مدد سے ان کو ملا لیا جاتا اور آخر میں سانچے کی مدد سے ہاتھ کی لمبی انگلی کے ناپ کی بھورے رنگ کی ڈلیاں ایک چوکور راہ سے دھڑا دھڑ نکلتیں۔ مزدور بوری اس راہ کے آگے لگا کر بھرتا۔ چوکنا ہونا لازمی تھا، ڈلیاں زمین پر نہیں گرنی چاہیئیں۔ فضا گرد سے اٹی ہوتی، بو دار گرد سے بال اور چہرہ بھی بھورے ہوجاتے۔ ہمراہی طالب علم مذاق میں مزدور کو برآون صاحب کہتے۔ انہیں علم نہ تھا کہ مزدور کے دیس میں برآون صاحب مزدور نہیں ہوتے بلکہ آقا ہوتے ہیں، وہ آقا جن کی وجہ سے ہر جانب دھول بکھری ہے۔

آدھے گھنٹے کے وقفہِ خوراک میں گھوڑوں کے خوراک کے کارخانے میں کام کرتے انسانی گھوڑے اپنے بیگوں سے کھانا اور جوس کا ڈبہ نکالتے۔ ٹھنڈے سینڈوچ جو اس ڈبل روٹی کے بنے ہوتے جو بڑے سٹوروں پر سستی ترین ہوتی۔ جوس کا ڈبہ جو ایکسپائر ہونے والا ہوتا کہ سٹور ایسے جوس سستے بیچتے تھے۔

شفٹ ختم ہوتی تو مزدور کو نقد رقم ادا کر دی جاتی۔ اس کے بدلے ایک کاغذ پر وصولی کے دستخط لیے جاتے۔ وہ کاغذ جس پر رقم کا اندراج نہ ہوتا تھا کہ مزدوری دینے والے اور مزدوری لینے والے کی سطح کا فرق بعد میں اس کاغذ پر درج ہوگا۔ مزدور کو علم تھا کہ بھری جانی والی رقم دی جانے والی رقم سے فرق ہوگی، مگر اُسے یہ بھی علم تھا کہ اپنے حالات کا علم اُسے اِس علم کے بیان سے روکتا ہے۔ علم کبھی بیان چاہتا ہے کبھی خاموشی کا خواہاں ہے۔

(جاری ہے)

 
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu, #عاطف-ملک

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ