تحریر : عاطف ملک نوٹ: اس مضمون کی تمام تصاویر مصنف نے کھینچی ہیں۔ جو تصاویر کہیں اور سے لی جائیں گی، ان کی بابت لکھا جائے گا۔ ہے Seville اشبیلیہ کا انگریزی میں نام بچپن سے علامہ اقبال کی نظم مسجد قرطبہ پڑھنے کے بعد سرزمینِ اندلس دیکھنے کی خواہش تھی۔ 2018 میں الحمداللہ یہ خواہش پوری ہوئی۔ اس کا تصویری سفر نامہ پیش کرنے کی کوشش ہے۔ پہلی قسط اشبیلیہ شہر کے سفر کی ہے۔ اشبیلیہ کو 712 عیسوی میں بربر مسلمانوں نے فتح کیا تھا جو کہ مغرب سے حملہ آور ہوئے تھے۔ مغرب عربی میں شمالی افریقہ کےعلاقے کو کہا جاتا ہے جن میں الجزائر، مراکش، تیونس ، لیبیا اور موریطانیہ کے ممالک شامل ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی نسل بربر کہلاتی ہے جو کہ دس ہزار قبلِ مسیح سے ان علاقوں میں رہ رہی ہے۔ طارق بن زیاد جس نے 711 عیسوی میں سپین پر مغرب موجودہ مراکش سے حملہ کیا تھا وہ بربر النسل تھا۔ افریقہ اور سپین کے درمیان اس مقام پر پانی کی پتلی گذرگاہ ہے جو کہ اٹلانٹک سمندر جسے اردو میں بحر اوقیانوس کہتے ہیں اور میٹیٹیرین سمندر جسے اردو میں بحر روم کہتے ہیں، کو ملاتی ہے۔ اس مقام پر افریقہ
تحریر: عاطف ملک مسافر آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کے قائم شدہ احتجاجی خیمہ بستی کو روانہ ہے۔ مسافر یونیورسٹی میں داخل ہوا تو خاموشی ہے۔ اتوار کو یونیورسٹی بند ہوتی ہے۔ پارکنگ لاٹس خالی ہیں۔ مسافر کا سفر جاری ہے۔ پہلی پارکنگ کو چھوڑ دیا، اگلے کی جانب گاڑی ڈال دی۔ گاڑی کی درمیانی سکرین کے نقشے پر ایک نقطہ سفر میں ہے۔ مسافر بھی ایک ذرہ ہے جو یونیورسٹی کی راہوں پر سفر میں ہے۔ یونیورسٹی خاموش ہے۔ مسافر ان راہوں کو نہیں جانتا مگر وہ ان سے باخبر ہے۔ مسافر ملک ملک یونیورسٹیوں میں ایسی راہوں پر چلا ہے، راہ بھولا ہے، عمارتوں کے نمبر لگے، دروازے مقفل، کئی راہ برف سے اٹے تھے، کئی راہ بل کھاتے جاتے تھے، راہ چڑھتے تھے، پھر اترتے تھے، سیڑھیاں اوپر نیچے جاتی اور نمبر لگی عمارتوں میں بکھرے بالوں کے مصداق بل کھاتی راہیں جا پہنچتی تھیں۔ یہ یونیورسٹی کی راہیں وہ راہیں ہیں جو طالب علموں کی زندگی کے سفر میں شاہراوں کا کردار ادا کریں گی۔ یہ طالب علم کل مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ یونیورسٹی خاموش ہے، کچھ کمروں میں روشنی ہے، شاید کوئی یونیورسٹی پروفیسر ہےجو کسی ڈیڈ لائن پر
غزہ 25 میل لمبا اور 4 سے 8 میل چوڑا دنیا کا سب سے کھلا قید خانہ ہے جہاں 18 سے ۱۹ لاکھ فلسطینی قید ہیں، 50 سال سے قید، 10 سال سے ناکہ بند؛ خوراک، ادویات سب ناکہ بندی کا شکار۔ اورابھی سزا باقی ہے، سزا و امتحاں ابھی باقی ہے، وقت کے شمار سے ماورا سزا ابھی باقی ہے، صعوبت خانے کے امتحاں ابھی باقی ہیں۔ اس کھلے قید خانے میں پرندے بھی اترتے ہیں، پھول بھی کھلتے ہیں۔ پھول زرد رنگ ہیں، قبروں پر ڈالنے کے لیے موزوں۔ پرندے وہاں کم زندگی پاتے ہیں، گولیوں سے بچ جائیں تو بارود سے آلودہ ہوا کے شکار ہوکر مرجاتے ہیں، بموں کی آواز سے انکے ننھے دل بند ہوجاتے ہیں۔ مگرحیرانی ہے کہ پھر بھی چہچہاتے ہیں۔ پرندے کب کسی کی سمجھتے ہیں، آزاد آتے ہیں اور جسم چھوڑ کر آزاد اڑ جاتے ہیں۔ ان زرد پھولوں میں ایک پرندہ تھا، سفید پنکھ اوڑے ۔ غزہ کی خون آلود زمیں پر گرا، سفید پنکھ سرخ رنگ ہوئے، آزاد اڑ گیا۔ پرندوں کی پروازکو بھی بھلا کوئی روک سکا ہے ۔ رزان اشرف نجار، ایک نرس، ایک لڑکی، 21 سال عمر۔ وہ عمرجس میں مسکراہٹ گہری ہوتی ہے، آنکھیں چمک پاتی ہیں، خواب کھلتے ہیں۔ اس چھوٹی سی عمرمیں وہ عو
Comments
Post a Comment