الحمرا اور مسافر, قسط اول

تحریر : عاطف ملک
تصاویر : عاطف ملک و محی الدین

غرناطہ کی سیاحت کے متعلق تحریر مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی  ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2020/01/blog-post_5.html

اس مضمون کے شروع میں  غرناطہ پر غور کرتے ہوئے سپین کی تاریخ پر پہلے تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔ سپین میں مسلم حکومت 711 عیسوی سے 1492 عیسوی تک تقریباً لگ بھگ آٹھ سو سال رہی۔ اس دور کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جس میں کچھ وقت امن کے گذرے اور بعض میں مسلسل باہمی لڑائی اور خانہ جنگی رہی۔ 
 سپین میں اموی خلافت کے 1013 عیسوی میں ٹوٹنے کے بعد مسلم سپین کے کئی ٹکڑے ہوگئے اور مختلف خاندان حکومت کرنے لگے۔ یہ دور پڑوسی عیسائی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کی باہمی جنگوں کا تھا۔ نتیجتاً مسلمان شکست کھا کر اپنے علاقے عیسائی حکمرانوں کے ہاتھ دیتے رہے۔ 1236 عیسوی میں قرطبہ کی فرنینڈو سوم کے ہاتھوں شکست کے بعد غرناطہ کا واحدعلاقہ مسلم حکمرانی میں بچا۔ اس حکمرانی کا خاتمہ 2 جنوری 1492 کو ہوا جب  فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا  کے لشکر کے سامنے بنو نصر کے آخری حکمران ابو عبدااللہ محمد ثانی نے ہتھیار ڈال کر غرناطہ کا شہر اُن کے حوالے کردیا۔ اس کے ساتھ ہی سپین میں مسلم حکمرانی کا سورج غروب ہوگیا۔   

سپین میں مسلم حکمرانی کا دور درج ذیل اداور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ابتدائی اموی خلافت، 711 عیسوی سے 756 عیسوی
 سات سو گیارہ عیسوی میں طارق بن زیاد کی سپہ سالاری میں تقریباً سات ہزار کا لشکر جو زیادہ تر بربر النسل مسلمانوں پر مشتمل تھا، آبنائے جبل الطارق کو عبور کر کے سپین پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہ آبنائے بحر اوقیانوس کو بحر روم سے ملاتی ہے اور تقریباً 14 کلومیٹر کا بحری فاصلہ سپین اور مراکش کو جدا کرتا ہے۔ اس کے بعد اور مہمات بھی آئیں اور سپین کے علاقے فتح کیا جانے لگے ، یہاں پر متعین کیے جانے والے امیر دمشق میں خلیفہ کو جوابدہ تھے۔ 

خود مختار امارت،  756 عیسوی سے 929 عیسوی
عباسیوں نے جب امویوں کو شکست دی تو اموی شہزادہ عبدالرحمان اول بھاگ کر سپین پہنچا اور اشبیلیہ پر فتح حاصل کی اور اس وقت کے امیرِ اندلس کو قرطبہ کے مقام پر شکست دے کر قرطبہ کی امارت کا آغاز کیا۔ یہ تقریباً دو سو سال تک ایک منظم، خود مختار اور خوشحال سلطنت کا آغآز تھا۔

خلافت قرطبہ، 929 عیسوی سے  1013 عیسوی
عبدالرحمن سوم نے اپنا خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور خلافتِ قرطبہ کی بنیاد رکھی۔  اس خلافت کا دارالحکومت قرطبہ تھا جبکہ غرناطہ اس دور میں ثانوی حیثیت میں تھا۔

 دور طوائف الملوک ، غرناطہ پر بنو زیری کی حکومت، 1013 عیسوی سے 1090 عیسوی

گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں  قرطبہ کی اموی خلافت کا زوال ہوا، جس کے بعد اندلس کے مختلف علاقوں میں سرداروں نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ ان علاقوں کو طائفہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مسلم سردار اپنی سلطنت بچانے اور بڑھانے کے لیے آپس میں لڑتے رہتے تھے اور اس کی خاطر پڑوس کے عیسائی سرداروں سے بھی مدد لیتے رہتے تھے۔ اس دور میں غرناطہ پر زیریون یا بنو زیری نے حکومت کی۔ یہ الجزائر میں رہنے والے صنھاجہ بربر قبیلہ تھا، اس کے چار بادشاہوں نے غرناطہ پر حکومت کی۔ 

المرابطون و الموحدون 1090 عیسوی سے 1231 عیسوی 
المرابطون مراکش کے بربر قبیلہ تھا جس نے 11 عیسوی میں مراکش میں اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ المرابطون کے حکمران یوسف بن تاشفین کو اندلس کے طائفے کی امیروں نے مدد کے لیے بلایا تھا۔1086 عیسوی میں یوسف بن تاشفین نے مراکش سے آکر معرکہ الزلاقہ میں عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کو شکست دے کر اندلس میں اسلامی سلطنت کو مضبوط کیا تھا، مگر وطن میں کچھ شورشوں کی وجہ سے یوسف بن تاشفین کو واپس مراکش جانا پڑا۔ 1090 عیسوی میں وہ دوبارہ حملہ آور ہوا  اور زیادہ تر طائفوں کو شکست دے کر اندلس میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 
الموحدون ایک بربر تحریک تھی جس کے بانی ایک بربر مذہبی رہنما عبد الله محمد ابن تومرت تھے۔ انہوں نے 1147 عیسوی میں مراکش میں المرابطون  کی حکمرانی کو شکست دی اور 1172 میں اندلس میں بھی اپنی حکمرانی قائم کی۔ 
تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں اندلس میں مسلمان حکمرانوں کی آپس کی لڑائیوں نے انکی طاقت کو کمزور کردیا تھا، جبکہ نزدیکی سلطنت ارگون اور قشتالہ  کے عیسائی حکمران طاقتور ہوگئے تھے۔  
 الموحدون کی 16 جولائی 1212 کو معرکتہ العقاب کی جنگ میں عیسائی متحدہ افواج کے ہاتھوں شکست نے سپین پر مسلم حکمرانی کے خاتمے کی ابتدا کی تھی۔
Battle of Las Navas de Tolosa معرکتہ العقاب 

 بنو ںصر، غرناطہ کی امارت، 1238 عیسوی سے 1492 عیسوی 

بنو نصر اندلس میں آخری مسلم حکومت تھی۔ اس کا بانی ابو عبداللہ محمد ابن یوسف ابن نصر تھا جو ابن نصر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس غیر یقینی دور کا ایک بڑا موقع پرست تھا جس نے موقع کی مناسبت سے پڑوسی عیسائی بادشاہوں سے بھی اپنی حکمرانی کے لیے دوسرے مسلمانوں کے خلاف مدد لی۔
 قرطبہ جو غرناطہ سے اس زمانے میں اونچا مقام رکھتا تھا، وہاں کا سلطان أبو عبد الله محمد بن يوسف بن هود جس کا لقب المتوكل على اللہ تھا اور وہ ابن ھود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابن ھود الموحدوں کے وقت اندلسی شہر مرسیہ کا گورنر تھا اور بعد میں اُس نے بغاوت کر کے اپنی امارت کا اعلان کر دیا۔  1231 عیسوی میں ابن ھود کی افواج کو عیسائی افواج نے ہسپانوی شہر  جیریز کے قریب شکست دی اور اس کا اقتدار کمزور ہوگیا ۔ اسی دوران ابن نصر نے غرناطہ میں اپنی امارت کا اعلان کردیا۔ ابن ھود نے 1234 عیسوی میں ابن نصر کو شکست دی مگر 1236 عیسوی میں ابن ھود نے فرٹیننڈ سوم کے ہاتھوں شکست کھائی جس کے بعد قرطبہ کا شہر عیسائی تسلط میں چلا گیا۔ ابن نصر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غرناطہ میں اپنی سلطنت قائم کر لی۔ اب پورے اندلس میں صرف ایک علاقہ یعنی غرناطہ مسلمانوں کے زیرِ انتظام باقی رہا۔  ابن ھود 1238 میں قتل کردیا گیا تھا۔ 

ابن ںصر نے فرٹیننڈ سوم سے باج گذاری کا معاہدہ قائم کیا جس کے لحاظ سے ابن ںصر سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار اشرفیاں بطور خراج ادا کررہا تھا۔ اس کےعلاوہ فرٹیننڈ کی کسی بھی عسکری مہم میں ابن نصر کو فوجی فراہم کرنے تھے۔ اس معاہدے کے بعد غرناطہ کو امن میسر آیا اور یہ ابن نصر ہی ہے جس نے الحمرا کی بنیاد رکھی۔ الحمرا کو بنی نصر کے بعد میں آںے والے سلاطین نے مزید نکھارا، ان میں یوسف اول اور محمد پنجم قابلِ ذکر ہیں۔ 
ابن نصر مئی 1238 میں غرناطہ میں حکمران بن کر داخل ہوا اور اس نے البسین کے علاقے میں بنے بنو زری کے زمانے کے محل اور قلعہ میں رہائش اختیار کی۔ کچھ عرصے بعد اُس نے صبیکا پہاڑ پر محل بنانے کا حکم دیا۔ ایک سال میں ایک قلعہ تیار تھا جس میں پانی لے جانے کے لیے ڈیم اور نہر بنائی گئی تھی۔ 
الحمرا کا نقشہ، یہ انٹرنیٹ سے لیا گیا ہے۔
 الحمرا کا نام قلعتہ الحمرا یعنی سرخ قلعہ سے نکلا ہے، حمر عربی میں سرخ کو کہتے ہیں۔ گمان ہے کہ شاید یہ نام اس عمارت کی سرخ اینٹوں کی وجہ سے دیا گیا تھا، مگر اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر کا پتھر سفید تھا جیسا کہ ابیسین کے اکثر گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوئے ہیں۔ اُس دور کے وزیر اور تاریخ دان ابن الخطیب کی تحریر کے مطابق سرخ رنگ رات کو اس محل میں جلائے گئی شمعوں کے اثر سے نظر آتا تھا، جس کی بنیاد پر البسین اور نزدیکی علاقوں کے رہائشی اسے الحمرا کے نام سے پکارنے لگے۔ ابن الخطیب کی شاعری الحمرا کی دیواروں پر آج بھی لکھی نظر آتی ہے۔ ابن الخطیب کی کتاب "الحاطہ فی اخبار غرناطہ" 1369 عیسوی میں لکھی گئی تھی۔ ابن الخطیب اندلس کی محلاتی سازشوں کا شکار ہوا اور فرار ہو کر مراکش کے شہر فاص میں پناہ لی، مگر وہاں بھی مخالفین کے زیر اثر موت کی گھاٹ اتار دیے گئے۔ ابن الخطیب کی موت کو اُس کے ہم عصر، دوست اور سکالر ابن خلدون نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔  ابن خلدون گو کہ تیونس میں پیدا ہوئےمگر انہیں اندلس نسل سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ انکا خاندان اندلس میں اعلی مقام رکھتا تھا۔ یہ خاندان اشبیلیہ کی 1248 عیسوی میں عیسائی فتح کے بعد سپین چھوڑ کر تیونس ہجرت کر گیا تھا

سفر نامہ 
رات غرناطہ کی اونچائی سے اترے اور اگلے دن  کی تیاری کی کہ صبح صبح الحمرا پہنچنا تھا۔ الحمرا کھلنے کا وقت ۹ بجے تھا اور ہمیں کمرے سے ساڑھے سات نکلنا تھا۔ الحمرا تک جانے کے لیے پیدل راستہ بھی ہے مگر وہ کافی تھکا دینے والا ہے کہ مسلسل چڑھائی ہے اور اس کے بعد محل کی سیر کا لُطف بھی جاتے رہے گا۔ سو ہم نے غرناطہ کے چوک سے بس لینی تھی جو کہ الحمرا لے کر جاتی ہے۔ 

صبح ساڑھے چھ بجے اٹھ گئے۔ رات انڈے اور ڈبل روٹی خرید لائے تھے سو ناشتہ بنایا۔ نمک نہ تھا سو زیتون ملا کر انڈوں کا زائقہ نمکین کیا۔ ناشتہ کرکے غرناطہ کے اُس چوک کو چل پڑے جس کے ساتھ  الحمرا جانے کے لیےبس کا سٹاپ واقع ہے۔ اس چوک کے درمیان میں ملکہ ازابیلا کا بت ہے جس کے سامنے کرسٹوفر کولمبس کچھ کاغذات پیش کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انڈیا ڈھوںڈنے کی سمندری مہم کی تفصیل ہے جس کا خرچہ ملکہ ازابیلا نے اٹھایا تھا۔  اس مہم کے نتیجے میں امریکہ دریافت ہوا۔ یہ پیسہ غرناطہ کی شکست کے مالِ غنیمت کا ثمر تھا۔

 ہم بس پرسوار ہو کر الحمرا پہنچ گئے۔ داخلے پر لمبی لائن تھی۔ ہم نے آن لائن ٹکٹ خریدا ہوا تھا ورنہ بہت دیر لگ جاتی، پھر بھی داخل ہوتے ساڑھے نو بج گئے۔ ہم داخل ہوئے تو سب سے پہلے ایک خوبصورت باغ تھا جس میں سے پانی کی گذرگاہ بنی ہوئی تھی۔ باغ بڑی اچھی طرح سنبھالا ہواہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں اس جگہ پر شاہی قبرستان بھی تھا جس کی کوئی نشانی اب باقی نہیں ہے۔  
نوٹ : مزید تحریر نچلی تصاویر کے بعد ہے۔ 

صبح ہسپتال کے سامنے 

صبح غرناطہ میں
صبح غرناطہ میں
غرناطہ کی صبح

غرناطہ کی صبح

تاریخی بازاد صبح کے وقت
غرناطہ کو چوک
چوک میں ملکہ ازابیلا اور کولمبس کا مجسمہ
الحمرا کی راہ
غرناطہ کی ایک گلی صبح کے وقت

االحمرا کے باہر کا باغ
مسافر الحمرا کے دروازے پر

 الحمرا کے دروازے پر مسافر

پانی کی گذرگاہ

 شاہی نہر کے بارے میں تفصیل
الحمرا کا باغ

الحمرا کا باغ

الحمرا کا باغ
الحمرا کے باغ سے غرناطہ شہر کا منظر
 باغ کی جانب جاتا راستہ 
 قوس کی شکل میں راہ
گھومتا راستہ
 باغ سے آگے کو چل نکلے۔ پرانی طرز تعمیر کی اینٹوں کا راستہ ایک قوس کے نیچے سے نکل کر آگے جارہا تھا۔ یہ راستہ بنو نصر کے محل، القصبہ یعنی الحمرا کے اندر فوجی چھاونی اورعیسائی فتح کے بعد الحمرا میں بنائے گئے کارلوس پنجم کے محل کی طرف جارہا تھا۔ 

الحمرا کے مرکزی داخلے سے آئیں تو باغ کے بعد سب سے پہلا حصہ مدینہ کا ہے۔ مدینہ شہر کو کہتے ہیں، سو یہ آبادی کا حصہ تھا جہاں ملازمین او عمائدین کی رہائش گاہیں تھیں۔ اب اس آبادی کے صرف کھنڈر باقی ہیں، لیکن یہ کھنڈرات اُس زمانے کی گلیوں اورگھروں کی تعمیر پر روشنی ضرور ڈالتے ہیں۔ 

الحمرا کے اندر سیاحوں کے لیے ایک ہوٹل رہائش کے لیے بھی موجود ہے، اس کا نام پراڈور سان فرانسسکو ہے۔ سپین پھرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ امریکہ کے کئی شہروں کے نام سپین کے علاقوں پر ہیں۔ اس کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے کہ امریکہ کی دریافت کولمبس کے ذریعے ہسپانوی جہاز رانوں نے کی تھی۔ ابھی بھی  جنوبی امریکہ کے زیادہ تر ممالک میں ہسپانوی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست ہائےامریکہ کے موجودہ علاقوں میں بھی سپین نے اپنی آبادیاں برطانوی آبادکاروں سے پہلے بنائی تھیں جن کے نام ابھی بھی ہسپانوی ہیں۔

الحمرا اونچائی پر ہونے کے باعث یہاں پیدل چلنے میں بھی اونچائی اور اترائی سے واسطہ پڑتا ہے۔ مسافر کو ذہنی طور پر تیار ہو کر آنا چاہیئے کہ پورے الحمرا کی سیر کم ازکم پانچ سے چھ گھنٹے لے جاتی ہے۔

ہوٹل سان فرانسسکو سے آگے نکلے تو الحمرا کی شاہی مسجد کے حمام آ گئے۔ یہ گرم حمام  وضو خانے اور غسل کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ان میں گرم پانی اور بھاپ کا انتظام اُس دور کی صناعی اور ایجاد کا مظہر ہے۔ یہ گرم حمام سلطان محمد سوم، جس کا دورِ حکومت 1302  عیسوی سے لے کر 1309 عیسوی تک تھا، کے دور میں بنائے گئے تھے۔
  اس حمام میں  ایک کمرہ  کپڑے بدلنے کے لیے بنا تھا، ایک گرم حمام کا کمرہ ہے جسے میں بھاپ لانے کے انتظام کیا گیا تھا، جبکہ ایک کمرہ ٹھنڈے پانی کا بھی ہے۔ ان کمروں کی چھتوں پر قدرتی روشنی کے لیے ستاروں کی شکل کے روزن بنائے گئے تھے۔ ایک طرف اوپر والی منزل پر ایک برآمدہ بھی ہے۔ حمام کے درمیان میں جگہ چھت کے بغیر تھی جس کے ایک طرف ایک پتھر کا بڑا سے مستطیل ساخت تھی جس میں پانی گرنے کی راہ بنی تھی، شاید یہ جگہ وضو کے لیے استعمال ہوتی ہو۔ 
 حمام میں ستون اور قوس کی شکل کی محرابیں ہیں۔ اتنی صدیوں کے بعد بھی اینٹیں اور مٹی کا گارا مستحکم کھڑا ہے۔ دیواروں پر سے نقش و نگار اتر گئے ہیں، مگر ایک جگہ کچھ بچے کھچے آثار اب بھی باقی ہیں۔ ایک دیوار پر عربی خطاطی بھی ابھی تک موجود ہے، ث اور اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں۔ یہ بنو نصر کا شاہی قول ہے جو کہ الحمرا کی دیواروں پر اکثر جگہ پر بعد میں لکھا نظر آیا۔ایک جگہ گمان ہے کہ "الفاتح الا اللہ" بھی لکھا ہوا ہے۔ بے شک اللہ کے سوا کوئی طاقتور نہیں مگر اندلس کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اللہ کے انتظام کے قوانین اپنی جگہ پر متعین ہیں اور وہ کسی قسم کی مذہبی ترجیح نہیں دیتے۔ اعمال کی بنیاد پر ترقی اور تنزلی کے اصول عالمی ہیں۔  
اسی لیے وضو گاہ تو باقی ہے مگر مسجد مٹ چکی ہے۔ مسجد گرا کر آج وہاں پر سینٹ ماریا کا گرجا کھڑا ہے۔ 

 نوٹ : اس سے آگے کی روداد " الحمرا اور مسافر، قسط دوم" میں ہوگی۔ 


بنو نصر کے محل، القصبہ اور کارلوس پنجم کے محل کو جاتی راہ
مدینہ، الحمرا میں عمائدین کی آبادی
 الحمرا میں آبادی مدینہ کے کھنڈرات
 الحمرا میں آبادی مدینہ کے کھنڈرات
الحمرا میں آبادی مدینہ کے کھنڈرات

الحمرا میں آبادی مدینہ کے کھنڈرات
 الحمرا کی ایک دیوار کی ساخت
 الحمرا میں آبادی مدینہ کے کھنڈرات
 الحمرا کا ایک حفاظتی برج
  الحمرا کا ایک حفاظتی برج
 الحمرا میں آبادی مدینہ میں ایک قوسی دروازہ
 الحمرا میں آبادی مدینہ کی سطحیں
 الحمرا میں ایک برج
الحمرا محل کے اندر ہوٹل سان فرانسسکو کا دروازہ
 الحمرا کی ایک راہ
 الحمرا کی ایک راہ
 الحمرا میں شاہی مسجد کے ساتھ وضو خانہ و گرم حمام
 الحمرا گرم حمام میں وضو خانہ
 الحمرا میں شاہی مسجد کا گرم حمام
الحمرا میں شاہی مسجد کا گرم حمام
 گرم حمام کی ایک دیوار پر لا غالب الا اللہ یا الفاتح الا االلہ لکھا ہے
صحن میں وضو کی جگہ
گرم حمام کی اوپر کی منزل کا برآمدہ

حمام کی ایک دیوار پر باقی کچھ نقش و نگار
حمام کا ایک کمرہ
حمام کی چھت پر روشنی کے روزن
حمام کا ایک حصہ
حمام کی چھت پر روشنی کے لیے روزن
حمام کی چھت کا ایک اور منظر
حمام کی چھت


الحمرا کے متعلق مصنف کی تحریر کا دوسرا حصہ  " الحمرا اور مسافر، قسط دوم" درجِ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔
 
https://aatifmalikk.blogspot.com/2020/04/blog-post_21.html

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author۔ For permissions contact:


aatif.malikk@gmail.com
#AatifMalik, #Alhamra, #Alhambra, #UrduAdab, #Urdu, #Andalusia
#عاطف ملک 
#اردو
#الحمرا
#اندلس
#سفرنامہ

Comments

  1. بہت عمدہ۔ آپ نے خاصی مفید معلومات بہت عمدگی سے ایک جگہ جمع کر دیں۔ شکریہ۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر