غرناطہ کو چلیے، حصہ اول


تحریر : عاطف ملک
تصاویر : عاطف ملک و محی الدین
 اگر کوئی تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے تو تصویر کے نیچے لکھ کر بتا دیا گیا ہے۔

نوٹ : اس سفرنامے میں تحریر سے متعلقہ تصاویر ساتھ ساتھ لگائی گئی ہیں، سو سفر نامے کے مختلف حصے پڑھنے کے  لیے ہر حصے کی تصاویر سے آگے جانا پڑے گا۔ مصنف کو اس بات کا احساس ہے کہ تصاویر بہت ہیں مگر قارئین کو سفر میں ساتھ رکھنے کی خاطر ان تصاویر کو لگایا جارہا ہے۔ 

مصنف کی اندلس پر اس سے پچھلی تحریر " قرطبہ شہر اور مسافر" درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔
https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_23.html



قرطبہ میں رات سوتے سوتے دیر ہوگئی تھی۔ اس پر رات گلی میں کھڑی ہماری گاڑی کی تلاشی کوئی لڑکی لیتی رہی تھی، سو رات سوتے جاگتے گذری تھی۔ صبح اٹھ کر ناشتہ بنانے کے لیے چیزیں خریدنے کے لیے نکل پڑے۔ قرطبہ میں ایر بی این بی سے جو اپارٹمنٹ کروایا تھا اس میں کچن بھی تھا سو بھاری ناشتہ کرنے کا پروگرام تھا کہ آگے دو سو کلومیٹر کے لگ بھگ کا سفر غرناطہ کا تھا۔

کل قرطبہ میں پھرتے لیڈل کا سپر سٹور نظر آیا تھا۔ یہ جرمنی کا سستا سٹور ہمارے  اس سفر کے ساتھی کو پسند تھا، سو اس کی خواہش پر ہم دونوں اسے ڈھونڈنے نکلے۔ مگر نئے شہر میں مسافروں کو راستوں کی خبر نہیں ہوتی سو کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی نہ ملا۔ ایک مقامی سپر سٹور نظر آیا، وہاں پارکنگ کی جگہ بہت کم تھی۔ ایک کونے میں گاڑی کو ٹکایا اور جلدی جلدی خریداری کی۔ جلدی کیونکہ کسی بھی نئی جگہ کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ وہاں کے طور طریقے کیا ہیں۔ ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں پارکنگ کے جرمانے کا شکار نہ ہوجائیں۔ جلدی سے انڈے، ڈبل روٹی، جوس، بسکٹ خریدے اور واپس ہوئے۔ واپس اپارٹمنٹ میں پہنچ کر تگڑا ناشتہ کیا اور دوپہر کے قریب غرناطہ کے لیے نکل پڑے۔ قرطبہ سے غرناطہ کی سڑک پہاڑی راستوں کی طرح اوپر نیچے ہوتی جاتی ہے، سورج مکھی کے کھیت اور زیتون کے بہت سے باغات ہیں۔ راستے میں ایک گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کے لیے رکے اور ساتھ واقع ریسٹورنٹ سے کافی پی کہ فریش ہو سکیں، آگے غرناطہ پہنچ کر بھی شہر کی سیر کا خیال تھا۔


قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ میں زیتون کا باغ 

کھیت کی کٹائی اور بھوسہ

زیتون کی کاشت

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

غرناطہ کو چلیے

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

زیتون کی کاشت

زیتون کے باغات

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ اور پھول 

زیتون  کے درخت

زیتون

زیتون کا باغ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

غرناطہ کو چلیے

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی سڑک پر سے جاتی ایک اور سڑک

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ کا ایک منظر

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ پر ایک پہاڑی اور گھر

غرناطہ کو چلیے

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

غرناطہ کو چلیے

پہاڑ پر زیتون کے باغ

قرطبہ سے غرناطہ کی راہ

غرناطہ کو چلیے

غرناطہ کو چلیے

گم کردہ راہ
تین بجے کے قریب غرناطہ پہنچے، ایر بی این بی جو کمرہ کروایا تھا وہ شہر کے درمیان میں ہے۔ اندرون شہر تھا، سڑکیں تنگ تھیں اور جب جی-پی-ایس پر راستہ لگا کر پہنچے تو سڑک بننے کی بنا پر راستہ بند تھا۔  کمرے کے مالک کو فون کیا تو اس نے وہیں رکنے کا کہا، اور کہا کہ وہ خود آتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ پہنچ گیا۔ مینوئل نام کا نوجوان تھا، ملنسار، خوش آمیز، خوش گفتار۔ مینوئل نام سپین میں کافی عام ہے، یہ نام بازینطینی دور سے آیا ہے اور اس کا معنی خدا ہمارے ساتھ ہے۔  

 گپ لگی تو پتہ لگا کہ بنیادی طور پر سول انجینئر ہے، مگر نوکریاں نہ ہونے کی بنا پر ٹورازم کی جانب آگیا۔ اندرون شہر میں اس نے ایک اپارٹمنٹ لیا جو اب کرائے پر ٹورسٹ کو دیتا ہے، جبکہ ایک اور اپارٹمنٹ لینے کی کوشش کررہا تھا۔ مینوئل ہماری گاڑی میں بیٹھ گیا اور تنگ راستوں سے لیتا اپنے اپارٹمنٹ تک لے آیا۔ ہمیں لاہور کی گنجان آبادیاں یاد آگئی ہیں کہ اکثر ٹریفک پھنسی ہونے کی صورت میں سیدھا راہ چھوڑ کر گلیوں اور کوچوں سے نکل کرمنزل تک پہنچنا ہوتا تھا۔


گاڑی کھڑی کرنے کی کوئی جگہ گلی میں نہ تھی، اور اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں بھی کوئی پارکنگ کی جگہ نہ تھی،  سو مینوئل نے قریب کی ایک اور عمارت کی بیسمنٹ میں ایک کار پارک کرنے کی جگہ کرائے پر لی تھی۔  کئی رہائشی اپارٹمنٹ اس گیراج کے اوپر تھے۔  مینوئل نے ہماری اُس جگہ تک رہنمائی کی۔ تنگ گلی سے مڑ کر اس بیسمنٹ میں گاڑی اتارنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ گاڑی کو ریورس میں لگانا ہوتا  تھا کہ دوسری طرح تنگ گلی میں نکالنا ممکن نہ تھا۔ اگلے دن اندازہ ہوا کہ اس گیراج کے تالے کو کھولنا بھی کافی کوشش لیتا تھا۔  گیراج کا دروازہ مشکل سے کھلتا تھا اور پھر ساتھ ہی ڈھلوان تھی جو کافی نیچے تک جاتی تھی۔ گیراج کا دروازہ کھولو، ایک بندہ دروازہ پکڑ کر رکھے، دوسرا ریورس میں گاڑی نیچے لے کر جائے، دائیں دیکھے، بائیں دیکھے، دروازے پکڑے ہوئے کی آواز سنے، غرض اکیلے آدمی کا کام نہ تھا۔ سو ہم نے غرناطہ میں اپنے قیام کے دوران گاڑی صرف شدید ضرورت ہی پر ہی نکالی۔ کار کھڑی کرنے کے کارِ مشکل کے بعد مینوئل ہمیں اپارٹمنٹ کی طرف لے چلا۔ عمارت میں داخل ہوئے تو سامنے چھوٹا سا صحن تھا جس کے ایک کونے سے سیڑھیاں اوپر جارہی تھیں۔ صحن کے چاروں جانب خوبصورت نیلے رنگ کی منقشی ٹائلز باڈر سمیت چار چار فٹ تک تھیں جن کے ساتھ زمینی اپارٹمنٹس کی  سلاخ دار کھڑکیاں تھیں جن سے  گملوں میں لگی سبز بیلیں نکلی تھیں۔غرض ایک خوبصورت منظر تھا۔  

 ہمارا اپارٹمنٹ دوسری منزل پر تھا، سپینش میں فلور پر سیگنڈو لکھا تھا۔ اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچے تو پتہ لگا کہ اس کا تالا بھی آسانی سے نہیں کھلتا۔ تالا کبھی زور مانگتا تھا اور کبھی پیار، اب یہ پتا ہونا کہ کب پیار سے کام لینا ہے اور کب سختی دکھانی ہے، ایک مشکل سوال ہے۔ مینجمنٹ اور بچوں کی پرورش پر لکھی گئی کتابیں اسی سوال کا جواب کے لارے پر بکتی ہیں۔ ہم نے تو یہی پایا کہ آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ موقع کے لحاظ سے پیار یا غصہ کا چناو آپ کسی کتاب سے نہیں بلکہ تجربے سے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ اب اس کے بعد کتاب کے مصنف یا مصنفہ کی تصویر دیکھ کر ہی بندہ غصے یا پیار کا چناو کر سکتا ہے۔


اب ہم چلتے ہیں اپارٹمنٹ کی تفصیلات کی جانب، ایک ڈبل بیڈ کا کمرہ ہے جبکہ دوسرا صوفہ کم بیڈ کچن اور اوپن لاونچ میں ہے، انٹرنیٹ موجود نہیں ہے، ایرکنڈیشنڈ بھی نہیں ہے۔ کچن میں برتن تمام پورے ہیں، فریج بھی اچھا ہے۔ مینوئل نے جوس اور چپس کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے۔ کپڑے دھونے کی مشین اور واشنگ پاوڈر بھی موجود ہے۔ 

مینوئل نے غرناطہ شہر کا ایک بڑا نقشہ ہمارے لیے رکھا تھا، اس پر تمام قابل دید مقامات پر اُس نے نشان لگائے اور ہمیں ان کے بارے میں بتانے لگا۔ جیسے پہلے کہا تھا کہ ملنسار لڑکا تھا، ہمیں تو اُس کی  گرم جوشی اور اپنائیت میں علامہ اقبال کے اشعار کی جھلک ملتی تھی۔

آہ وہ مردان حق وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب
سلطنت اہل دل فقر ہے شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں

ہم منہہ ہاتھ دھو کر شہر کی سیر کو نکل پڑے۔ غرناطہ کا شہر پہاڑی پر ہے سو چلنا خوب پڑا، اچھی ورزش رہی۔

غرناطہ پہنچتے ہوئے

ہماری رہائش گاہ کو جاتی تنگ سڑک

ہماری رہائش گاہ کو جاتی تنگ سڑک

ہماری رہائش کا صحن

ہماری رہائش کا صحن

اندرون غرناطہ میں ہماری رہائش کے باہرکی سڑک

گھر سے نکلے ہی تھے تو ساتھ ہی ایک پرانی خانقاہ تھی جسے انگریزی میں مونسٹری کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں علم مذہبی درسگاہوں سے نکلتا تھا۔ پاکستان میں ٹیکسلا اور دوسرے علاقوں میں بدھ مت کی ایسی خانقاہوں کے نشانات اب بھی ملتے ہیں جہاں طالبعلم علم حاصل کرنے کے لیے رہائش پذیر ہوتے تھے۔ غرناطہ کی اس مونسٹری کا نام سینٹ جیروم کی خانقاہ ہے، اس کی تصاویربلاگ میں نیچے شیئرکی گئی ہیں ۔ یہ تعمیر بھی اندلسی تعمیر سے متاثر ہے۔  مسلم سپین کے سفر سے اندازہ ہوا کہ مسلم شکست کے بعد سپین کے کیتھولک حکمرانوں نے دانستاً کوشش کی ہے کہ وہ بھی عظیم الشان عمارتیں بنائیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ، دستکاروں اور ہنرمندوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا، فتح سے حاصل کی جانے والی دولت کا استعمال، مسلم ہنرمندوں کا استحصال وغیرہ وغیرہ۔ کئی عمارتیں مسمار کرکے ان کی جگہ نئی عمارتیں بنائی گئی ہیں خصوصاً مساجد کو گرا کر یا انکی تعمیر میں تبدیلی لا کر  چرچ بنائے گئے ہیں۔


سینٹ جیروم کی خانقاہ

سینٹ جیروم کی خانقاہ

سینٹ جیروم کی خانقاہ

سینٹ جیروم کی خانقاہ کا صحن

سینٹ جیروم کی خانقاہ

سینٹ جیروم کی خانقاہ کا صحن

سینٹ جیروم کی خانقاہ کا صحن

سینٹ جیروم کی خانقاہ صحن

مینار اور گھنٹی

پرانی تعمیر و دروازہ

خانقاہ کے ساتھ ہی ایک ہسپتال ہے، اس کا نام ہوسپٹل ڈی سان جوان ہے۔ یہ ہسپتال سولہویں صدی میں بنا تھا اور آج بھی مریضوں کی خدمت کررہا ہے۔ اس ہسپتال کی بنیاد غرناطہ کے ایک کتب فروش نے لوگوں کی مدد سے رکھی تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔  

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

مگر غرناطہ میں کتابیں بیچنے والا بے شک اپنی دکان بند کر گیا مگر اس کا بنایا گیا ہسپتال آج بھی صدیوں بعد دوائے دل دے رہا ہے اور آج بھی یہ ہسپتال اُسی کتب فروش کے نام پر ہے۔ اس ہسپتال کا طرز تعمیر بھی اندلسی مسلم تعمیرات سے متاثر ہے۔ درمیان میں کھلا صحن ہے جس کے چاروں طرف محرابوں سے مزین برآمدے ہیں۔ صحن کے درمیان میں فوارہ ہے اور کینو کے پودے ہیں۔ ہسپتال جانے سے آدمی کو ڈر لگتا ہے مگر اس ہسپتال کا اپنا ایک حسن ہے۔ اس کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، بلاشبہ یہ ایک دیکھنے کے قابل جگہ ہے۔ اس ہسپتال کی تصاویر اس بلاگ میں شامل کردی ہیں۔ 

ہوسپٹل ڈی سان جوان غرناطہ کا داخلی دروازہ ، یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی ہے 
ہسپتال کی تاریخ پر لکھی گئی تختی

ہسپتال کا صحن

ہسپتال کا برآمدہ
ہسپتال کے صحن کا ایک اور منظر


سنگتروں کے موسم میں ہسپتال کے صحن کا منظر، انٹرنیٹ سے لی گئی تصویر
یورالوجی ڈیپارٹمنٹ کی راہ
دوسرے ڈیپارٹمنٹس کی راہ
ہسپتال، فوارہ، برآمدہ، بالکونی، چقیں
ہسپتال کا برآمدہ
ہسپتال کے برآمدے کی ایک اور رخ سے تصویر

برآمدے کی چھت
دیوار کے نقش و نگار

مزید سفر کی روداد "غرناطہ کو چلیے، حصہ دوم" میں لکھی ہے، جو کہ درجِ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے ۔



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر