اقبال کے پیغام کی آج کے دور میں پرکھ
عاطف ملک
سات دسمبر ۲۰۱۹
پرتھ ، آسٹریلیا میں بیاد اقبال کی تقریب میں یہ تحریر پڑھی۔
پرانے زمانے میں استاد اقبال پڑھاتے تھے،اقبال کو سمجھا جاتا تھا، اقبال جانا جاتا تھا، گو اقبال دیر سے آتا ہے سو اس کی سمجھ بھی دیر سے آتی ہے۔ یہ پہلے تھا بعد میں معاملہ اقبال سے اقبال بانو کی طرف چلا گیا۔ پھراس میں سے بھی اقبال گم ہوگیا اور صرف بانو رہ گئی۔ مغربی فلموں کا اثر بڑھا تو بانو بھی بدل کر بیب ہوگئی۔
پاکستان ایسویشن آف ویسٹرن آسٹریلیا اور آپ سب ادب نواز جو یہاں بیٹھے ہیں مبارک کے مستحق ہیں کہ اس دیارِ غیر میں اردو کا پودا لگائے ہیں۔ اور آسٹریلیا کا براعظم کہ جہاں پانی کی کمی ہے، یہاں اردو کے پودے کی پال پونس کوئی آسان کام نہیں۔ گلشنِ اردو میں اقبال ایک تنا آور درخت ہے۔ ایسا درخت کہ جس کا سایہ پیغامِ خودی دیتا ہے۔ اس کے نیچے بیٹھ کر تھکےہارے تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ ایک ولولہ زندہ ہوتا ہے، خودی رگ و پے میں دوڑتی ہے، اورسب سے بڑھ کر زندگی گذارنے کے ڈھنگ کا پتہ لگ جاتا ہے۔ اصولِ زندگی اور سفرِ حیات کے درست قوانین کا علم ہوجائے تو سختیاں تو آتی ہیں مگر حتمی کامیابی لکھ دی جاتی ہے۔
اقبال تناور درخت ہے جس کی شاخوں پر پرندے چہا چہاتے ہیں اور پیغامِ زندگی دیتے ہیں۔ بلبل اور جگنو کا مکالمہ ہوتا ہے، جو بے شک بچوں کی لیے نظم ہے، اس کا مکالمہ وقتی ہے مگر پیغام ابدی ہے اور قطع نظر عمر سب کے لیے ہے کہ
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
اسی درخت پر ایک مکڑے نے مکھی کو اپنے جالے میں پھنسانے کے لیے خوشامد کا جال ُبنا، کہ
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
اور پھر مکھی کے ساتھ وہ ہوا جو بچوں سے لے کر بڑوں سب کے لیے ایک سبق ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا
اور اسی درخت کی گلہری نے پہاڑ کو بتلاتے بتلا تے ہم سب کو کائنات کا راز بتا دیا۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اور اسی درخت کے پاس ایک بکری نے اپنے سے بڑے رتبے والے یعنی گائے کو یوں سبق دیا تھا کہ آخر میں گائے بھی کہہ اُٹھی
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
حاضرین، آج کل کچھ لوگوں کو اقبال کے خطوط عالمِ بالا سے آتے ہیں، مگر ہمیں تو اقبال اپنے آس پاس زندہ و جاوید نظر آتے ہیں۔ جب بھی ان کا کلام پڑھا یوں محسوس ہوا کہ وہ آس پاس رہنمائی کے لیے ہیں، کہ اقبال کا ہی ایک شعر ہے
ہو اگر خود نگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
آج کل اقبال کے نام پر کچھ ایسی چیزیں شیئر کی جاتی ہیں جن پر اعتراض ہے، ہنسی ہے بلکہ ندامت بھی ہے۔ علامہ اقبال کی تصویر لگا کر کچھ ایسے مصرعے لکھ دیے جاتے ہیں، جن کا نہ تو اقبال کی سوچ یا نظریے سے تعلق ہوتا ہے، نہ ہی وہ شعری پیرائے پر پورے اترتے ہیں۔ نہ انکی کوئی وقعت ہے بلکہ انہیں شعر ہی نہیں کہا جاسکتا۔ مگر پھر بھی لوگ انہیں آگے بھیجتے چلے جاتے ہیں۔ عاشقانِ اقبال کو یہ بہت برا لگتا ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم میرا محبوبِ نظر تو دیکھو
سو اقبال کے چاہنے والے ایسے ہی لوگ ہیں اور ان کے لیے اقبال کی یہ بےحرمتی بڑی تکلیف کا باعث ہے۔ ان بے سروپا شعروں اور شئیر پر بے سمجھ واہ کرتے ہیں اور سمجھدار آہ بھرتے ہیں۔ آج کی اس محفل کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم جانیں کہ اقبال کون تھا، کیا کہتا تھا، اس کو سمجھیں کہ اُس کا پیغام کیا تھا تاکہ کوئی بھروپیہ ہمیں دھوکا نہ دے سکے۔
ہم نے اپنے ایک صاحبِ علم دوست سے اس معاملے کی شکایت کی کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں کہ علامہ صاحب کی تصویر کے ساتھ کچھ فضول لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ یہ علامہ اقبال نے کہا تھا۔ کہنے لگے، ہمارے لوگ معصوم ہیں۔ اسی لیے ایک صابن کی ٹکیہ کا نام صوفی رکھ دیا اور ایسے بھی سادہ لوح مل جائیں گے جو سمجھتے ہیں کہ صوفی بننے کے لیے اعمال نہیں بلکہ صوفی سوپ سے نہانا ضروری ہے۔ اس کے برعکس ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک صوفی بننے کے لیے نہ نہانا ضروری ہے۔ کہنے لگے کہ اقبال کے کلام کی پرکھ مشکل نہیں، ایک قصہ سنایا۔
انور مسعود صاحب کہ نامور مزاحیہ شاعر ہیں اس قصے کے راوی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی سفرمیں وہ ایک ڈرائیور ہوٹل پر چائے کے لیے رکے کہ ڈرائیور ہوٹل کی چائے کڑک اور دال تڑک، یعنی دیسی گھی کے تڑکے کی ہوتی ہے۔ ساتھ کی چارپائی پر چائے پیتے دو ٹرک ڈرائیور بیٹھے تھے، اور ہمیں علم ہے کہ آج پاکستان میں میں ٹرکوں کے پیچھےلکھے شعروں کی تصاویر انگریزی سکولوں میں کلچر کے نام پر سٹوڈنٹس کو پڑھا کر اردو کی ترویج کی جاتی ہے۔
ایک ڈرائیور نے دوسرے ڈرائیور کو کہا، اسلم، اے علامہ اقبال دا شعر سُن۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
مخاطب ڈرائیور نے کہا، نہیں یہ علامہ اقبال کا شعر نہیں ہے۔ پہلے نے پوچھا تو یہ کیسے کہتا ہے، اس شعر میں تو عقاب آیا ہے؟ سو یہ اقبال کا ہی شعر ہے۔ دوسرے نے جواب دیا، بے شک عقاب اس شعر میں آیا ہے، مگر ذرا غور کراس شعر میں عقاب گھبرایا لگتا ہے اور اقبال کا عقاب کبھی نہیں گبھراتا۔ اور واقعی یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں ہے۔
سو حاضرینِ محفل، جان لیجیئے کہ اگر شعر میں ذرا سی بھی ادبی کپکپاہٹ ہے اور پیغام گھبرایا ہوا ہے تو یہ اقبال کا شعر نہیں ہوسکتا۔ یہ پرکھ کی پہچان ہی میرے آج کے بیان کا سبق ہے۔ جان لیں کہ اقبال نےکہا تھا۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گِرتا
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اُفتاد
آپ کو زندگی میں بہت سی مشکلات سے واسطہ پڑا ہوگا اور آگے بھی پڑے گا ۔ جان لیں کہ اقبال کا پیغام ہمیں ان حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اس نکتے پر میں اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں۔ آپ کی توجہ کا بہت شکریہ۔
Comments
Post a Comment