غرناطہ کو چلیے، حصہ دوم


تحریر : عاطف ملک
تصاویر : عاطف ملک و محی الدین
 اگر کوئی تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے تو تصویر کے نیچے لکھ کر بتا دیا گیا ہے۔

 غرناطہ کے سفر کا پہلا حصہ نیچے کے لنک پر دیکھا جاسکتا ہے۔


غرناطہ کے اس تاریخی ہسپتال سے نکلے تو ساتھ ہی اک تاریخی چرچ تھا، اُدھر چلے گئے۔ یہ بازلیکا جان آف گاڈ ہے۔  کیتھولک عیسائیت میں بازلیکا وہ چرچ ہیں جنہیں پوپ نے کسی وجہ سے امتیازی حیثیت عطا کی ہو۔ چار بنیادی، مین یا اہم ترین بازلیکا چرچ روم میں واقع ہیں جبکہ ان سے چھوٹی حیثیت کے بازلیکا دنیا بھر میں ہیں، انہیں میں سے ایک یہ غرناطہ کا چرچ ہے۔ یہ کوئی بہت بڑا چرچ نہیں ہے، اس کے ایک جانب ایک چھوٹا سے باغ درمیان میں فوارے سمیت ہے۔ مسلم اندلس میں باغ اور اس کے درمیان میں فوارہ اکثر تعمیرات میں پایا جاتا ہے۔ اس چرچ کی چھت میں مذہبی تصاویر بنی ہیں جبکہ عمارت میں سنہرے گولڈ کا کام بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ سپین کے لیے یہ مال و متاع کہاں سے آیا ؟ پہلے مسلم اندلس کو فتح کرنے کے بعد اور بعد میں براعظم امریکہ میں سپین کے کالونیاں اس سنہرے پن کا باعث ہوں گی۔ 

 بازلیکا جان آف گاڈ کا دروازہ
چرچ کا بنیادی دروازہ


چرچ کے ساتھ کا باغ


چرچ کے باغ میں فوارہ



چرچ کی چھت



چرچ کا اندرونی منظر


چرچ کا اندرونی منظر

چرچ میں ایک شبیہہ

چرچ کے اندر کا منظر
چرچ کے اندر کا ایک منظر

چرچ سے نکلے اور آگے کو چل پڑے۔ غرناطہ میں تاریخ بکھری پڑی ہے، اگر کوئی شخص اس شہر اور اس کی عمارات پر تحقیق کو اپنا لے تو اس کی زندگی اسی میں ہی گذر جائے گی۔ تاریخی عمارات، تنگ گلیاں، مدرسے، مذہبی عمارات سب بکھرے پڑے ہیں۔ کئی عمارتوں کی کھڑکیوں پر چقیں لگی تھیں۔ اب تو پاکستان میں چقیں اس طرح نظر نہیں آتیں مگر بچپن میں جگہ جگہ چقیں نظر آتی تھیں۔ گرمیوں میں لوگ اُن پر پانی ڈال دیتے تھے کہ ہوا ٹھنڈی ہو کر گھر میں داخل ہوتی تھی۔ ایک تنگ گلی میں موٹر سائیکل کھڑا دیکھا تو اندرون لاہور کی گلیاں یاد آگئیں۔ چلے تو ساتھ ہی سولہ سو انچاس عیسوی کا قائم کردہ ایک تاریخی کالج تھا جس کا نام رائل کالج آف سینٹ بارتھلیمو و سینٹیاگو ہے، یہ کالج آج بھی طالبعلموں کے رہائشی کالج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اندر نہیں جاسکتے تھے مگر باہر لگی تاریخ بتاتی تختی کے مطابق اس عمارت کی عربی طرز کی چھتیں دیکھنے کے قابل ہیں۔  


چلیے اس گلی میں
غرناطہ کی ایک گلی
چار منزلہ عمارت اور چقیں
غرناطہ کی تنگ گلی اور موٹر سائیکل
ایک تنگ تنگ گلی
رائل کالج آف سینٹ بارتھلیمو و سینٹیاگوکا داخلی دروازہ
 رائل کالج آف سینٹ بارتھلیمو و سینٹیاگوکی تاریخ

 آگے ہمیں یونیورسٹی کا لاء ڈیپارٹمنٹ مل گیا جوکہ سولہویں صدی کے ایک ہسپانوی سکالر فرانسسکو سوریز کے نام پر ہے۔ اس سکالر کا ایک مجسمہ بھی ڈیپارٹمنٹ کے صحن میں نصب ہے۔

راہ میں بازار کو جا نکلے، وہاں مختلف مصالحہ جات کی دکان تھی۔ سپین کے کھانوں میں بھی اس کے ماضی کی بنا پر مختلف ذائقوں کا امتزاج ہے۔راہ میں بازار کو جا نکلے، وہاں مختلف مصالحہ جات کی دکان تھی۔ سپین کے کھانوں میں بھی اس کے ماضی کی بنا پر مختلف ذائقوں کا امتزاج ہے۔ اس کا اندازہ سپین میں مختلف کھانوں سے ہوا، جس میں پائیلا کی ڈش بھی ہے جو کہ چاول، مچھلی، جھینگے کو ملا کر تیار کی جاتی ہے۔ چکن کے ساتھ بھی پائیلا تیار کیا جاتا ہے کہ گوشت کو گئی گھنٹے ہلکی آگ پر پکایا جاتا ہے کہ اس کا ریشہ ریشہ الگ ہو جائے۔ 



 ہسپانوی سکالر فرانسسکو سوریز کا مجسمہ 

یونیورسٹی کے لاء ڈیپارٹمنٹ کے سامنے
ایک تاریخی عمارت کا دروازہ

غرناطہ کے مصالحہ جات کی ایک دکان

ہسپانوی مصالحہ جات
ہسپانوی ڈش پائیلا

اندرون غرناطہ میں چلتے چلتے ہم ایک تاریخی عرب بازار میں جانکلے جسے الکسیریا کہتے ہیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ یہ نام بازینطینی شہنشاہ قیصر سے نکلا تھا جس نے عرب تاجروں کی چھ عیسوی میں اپنی سلطنت میں سلک بیچنے کی اجازت دی تھی۔ اس نام کے بازار مشرق وسطی اور مسلم سپین میں جا بجا پائے جاتے تھے۔ آج اس قسم کا تاریخی بازار غرناطہ کے علاوہ سپین کے کسی علاقے میں نہیں باقی رہا۔بازار کے ستون اور قوسین اپنا حسن آج بھی رکھتے ہیں۔ کچھ تنگ گلیوں پر مشتمل اس بازار میں اب زیادہ تر سوینئر بکتے ہیں۔ 

تاریخی عرب بازار کے دروازے پر

بازار کی تنگ گلی

بازار کی محرابیں و ستون

بازار کی محرابیں و ستون
غرناطہ کا عرب بازار

بازار کا اختتامی حصہ

عرب بازار کے ساتھ ہی غرناطہ کا چرچ ہے۔ وقت نہ تھا سو بس جلدی سے اس پر نظر ڈالی کیونکہ آگے تاریخی مدرسہ یوسفیہ جانے کی جلدی تھی۔ اس چرچ کی کچھ تصاویر بلاگ میں لگائی ہیں۔ چرچ کے سامنے ہی مدر ٹریسا کی ایک بڑی تصویر کپڑے کے بڑے بینر پر لگی تھی۔ جب کوئی انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی ہستی مٹا دے تو پھر وہ آفاقی ہو جاتا ہے۔  

غرناطہ کے چرچ کا داخلی دروازہ ، یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے
غرناطہ کے چرچ کی چھت
غرناطہ کے چرچ کے ستون
غرناطہ میں سسٹر ٹریسا

غرناطہ شہرکی سیر کے اگلے مرحلے میں ہم 
غرناطہ کے مدرسہ یوسفیہ چلے گئے۔ مدرسہ کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔ اس کی روداد علیحدہ تفصیل مانگتی تھی سو اس کی تحریر درج ذیل لنک پر دیکھی جاسکتی ہے ۔


جبکہ غرناطہ کو چلیے، حصہ سوم درج ذیل لنک پر ہے۔

https://aatifmalikk.blogspot.com/2019/12/blog-post_30.html

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر