ایک سرکاری سکول کے عظیم استاد کی یاد میں

تحریر:عاطف ملک

پچھلے دنوں فیس بک پر نوٹیفکیشنز آئیں کہ آپ  کو ٹیگ  کیا  گیا  ہے ۔ دیکھا  تو چند پرانے طالبعلموں نے مختلف  صفحات پر ان اساتذہ میں شامل کیا تھا جنہیں وہ یاد کرتے ہیں۔ اس سے قبل  بھی کچھ  پرانے  طلبا  نے جب پیشہ ورانہ زندگی  شروع کرنے پر پڑھائے گئے مضمون کی افادیت پائی تو ای میل کر کے اپنے تاثرات بھیجے تھے۔

 اپنے  دامن میں جھانکتا ہوں تو کچھ بھی نہیں پاتا،  بس ایک اطمینان ہے کہ  وقت ِسوال کچھ تو  پیش  کرنے کے قابل ہوں گا۔ 
 
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصہء محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

کچھ کہانیاں سنا پائے، کچھ زندگیوں میں اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی، خود پیاسے تھے، آگے بھی پیاس دیتے  رہے۔  شاباشیں دیں، ڈانٹیں بانٹیں، محبتیں جہاں ملیں، نفرتوں کا بھی شکار ہوئے۔ کہیں غلطیاں بھی کیں، بس نیت ٹھیک تھی۔ کچھ کے آگے چلے، کچھ  ایسے ملے کہ  جن کے پیچھے چلنے کو بہتر جانا۔ ایک ادھیڑ عمر طالبعلم ملا جس نے جدوجہد  کے معنی سمجھا دیے۔ ایک انجینیرنگ پڑھتا مضطرب تھا جو  سائنس کا سوال پوچھنے بھی آیا  تو فارسی کے اشعار ساتھ لایا، اپنی بے چینی کا رنگ ہمیں بھی دے گیا۔ وہ سراپا برقعے و نقاب میں ملبوس طالبہ تھی، جو سمسڑ کی آخری  کلاس کے بعد ساتھ تصویر کھنچوانے کی درخواست لے کر آئی۔ ایک استاد ایک برقعہ پوش طالبہ کے ساتھ کھڑا ہے جس کی صرف آنکھیں اس تصویر میں نظر آرہی ہیں۔ وہ تصویر کسی کے لیے بے معنی ہو، مگر شاید اس کم عمر کے لیے بہت معنی رکھتی ہوگی۔ وہ زندگی میں کبھی گر ملی تو پہچان نہ پاونگا مگر تعلق کے لیے پہچان ضروری نہیں۔ ا پنے طالبعلموں سے بہت  سیکھنے کو ملا، یہ تفصیل پھر کبھی سہی۔ ابھی اپنے سفر کی بات کرتا ہوں۔ 

زندگی میں بہت سے استادوں سے مستفیذ  ہوئے، اندرون وبیرون ملک کئی اساتذہ  نے سکھایا، جو سیکھا کوشش کی کہ آگے دے  پائیں۔ انسانی زندگی  کا ارتقا ء   اسی سفر  کا  نتیجہ ہے۔

اندرون  سندھ   کے ایک چھوٹے سے قصبے  میں کسی  زمانے میں میرے ماموں سکول ماسڑ تھے۔  پنجاب  سے  چھٹیوں میں اپنے نانا  نانی کو ملنے جاتے تو بعض اوقات  ماموں کے ساتھ  سکول جانے کا اتفاق ہوتا۔ میں اس وقت  سات  آٹھ سال کا ہوں گا، مگر استاد کے احترام کا منظر ابھی تک  آنکھوں کے سامنے ہے۔ ماموں اپنی کرسی پر  کلاس  کے سامنے بیٹھتے اور ہر طالبعلم جو جماعت میں داخل ہوتا، استاد کے پاس آتا، جھک کر احترام سے ہاتھ ملاتا اور پھر اپنی نشسست پر جاتا۔ مجھے  یہ بہت اچھا لگتا تھا، شام کو کہیں بازار جاتے تواکثر  ماموں کا  کوئی شاگرد مل جاتا، فوراً  آگے بڑھتا، سلام کرتا، احترام سے ہاتھ ملاتا۔ ماموں اُس قصبے کے وی آئی پی  تھے، مگر تنخواہ کم تھی۔ ماموں نے نوکری چھوڑی اور کراچی جاکر بہت  ترقی کر لی۔ 

 ترقی آتی ہے تو اپنے ساتھ بہت کچھ  بہا لے جاتی ہے۔ کار میں سکول جانا بہت آرام دہ ہوگا مگر بچپن میں جو کبھی ٹانگے پر  بیٹھ کر سکول جاتے تھے وہ الگ تجربہ  تھا۔ گاڑی  کا  ہارن  مترنم بھی ہو تو کوچوان کے منہ سے نکلتے گھوڑے کو کہتے  چک چک کا مقابلہ  نہیں کرسکتا کہ انسانی و حیوانی تعلق تو اس دوسری آواز میں ہی ہے۔ کچھ معنی نہ رکھتا  ہوگا مگر بہت معنی رکھتا ہے۔ کیا الفاظ  معنی رکھتے ہیں یا  تعلق معنی رکھتا  ہے، کسی نومولود کی ماں سے پوچھ کر دیکھیے گا۔

واپس ٹانگے کی طرف آتے ہیں، چھانٹا  ہوا سے گزرتے جو  آواز  پیدا  کرتا ہے وہ الگ آواز ہے، آج بھی سنسنی سی جسم میں دوڑا دیتا ہے۔ گاڑی کے پرفیوم  اور گھوڑے کی بساند دو  مختلف چیزیں ہیں۔ ٹانگے کے پائیدان  پرکھڑے ہو کر سکول جانا ایک الگ تجربہ  ہے، اور اگر کبھی ٹانگہ چلانے کو مل جائے تو کیا ہی بات بن جاتی ہے۔ لگامیں ڈھیلی چھوڑے، دلکی چال  پر  جاتا  گھوڑا، جگہ بدلتے اس کے طاقتور کولہے، گھوڑے کے کانوں کے درمیان میں لگا  پھندنا جو  اس کے سر  جھکاتے آگے کو جاتا  اور ایک بچہ لگامیں تھامے کسی اور ہی دنیا میں پایا جاتا۔ ترقی کیا کیا  نہ ساتھ بہا لے گئی۔ 

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

مگر  استاد  شاگرد  کا  تعلق  اور ہے، الفاظ  اور معنی کے  ربط سے کہیں  اوپر کا تعلق، اور ابھی بھی  اس تعلق  کااحترام  باقی ہے۔ 

گورنمنٹ سنڑل  ماڈل سکول لاہور میں عظیم صاحب  ہمار ے ساتویں کے استاد تھے۔  چھوٹا قد، عینک لگاتے، زیادہ تر  پتلون  قمیض پہنے، بال ہمیشہ سلیقے سے  بنے ہوئے، کبھی کبھی مسکراتے، زیاد تر سنجیدہ ۔  کلاس میں  ستر سے زیادہ  طالبعلم تھے، مگر عظیم صاحب  جانتے تھے کہ کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ ایک ایک شاگرد کو  جانتے تھے، اُنکے گھروں سے لیکر انکی  صلاحیتوں تک سب سے واقف تھے۔ گورنمنٹ سکول عموماً متوسط طبقے اور اس سے بھی نچلی  معاشرتی سطح کے افراد کے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرتا تھا۔  سنڑل ماڈل سکول  کا  محل وقوع  قدرتی طور پر ایسے  معاشرتی  طبقوں کو  دیکھ رہا  تھا۔ کربلا  گامے شاہ  متصل،  داتا دربار، موہنی روڈ اور راوی روڈ عقب میں، گھوڑا  ہسپتال ایک طرف، بھاٹی  اور لوہاری بلکہ پورا اندرون لاہور بالکل ساتھ،  کرشن نگر،  سنت نگر  ایک  طرف، پرانی انارکلی،  گوالمنڈی  بالکل قریب، اور  ہم سب طالبعلم انہی علاقوں سے آتے تھے۔ ہمارے تجربے حقیقی تھے، گلیوں میں  پڑے نشیوں سے  لیکرمحلےکوچوں میں پروان چڑھتی محبتوں تک، لاہور  کی ہیرا منڈی سے  داتا دربار کی عقیدتوں تک، ان علاقوں کی بھیڑ نے ہمیں سب دکھا دیا  تھا۔ ہمارے لیے دنیا حیران کن تھی، شور مچاتی،  اپنی طرف کھینچتی۔ حقیقتیں ہمیں سکھا رہی  تھیں، معاشی حالات ہمیں بہت سے حقائق  بتا رہے تھے۔ ہم زندگی   کے معنی اپنے اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ خودغرضی اور اخلاقیات کی حدود اکثر مبہم  ہو جاتی تھیں۔ ہم ایک استاد کی تلاش میں تھے جو  ہمیں ریاضی کے سوال کی طرح  زندگی سمجھا دے، مگر بتائے بھی نہ اورسمجھا دے۔ ہم جو اضافی اداکاروں، ایکسڑا سے بنیادی اداکار، مین ایکڑ، بننے جارہے تھے کسی ڈائریکٹر کی تلاش میں تھے جو زندگی کی سٹیج  پر  ہمارے کردار کی جانب رہنمائی کر دے۔ 

 سنڑل ماڈل ایک مصنوعی سکول نہ تھا، یہ  لا ہوری کلچر کا نمائندہ سکول تھا، "ر" کو  "ڑ" بولتا، جذبات سے بھرا۔ پرائمری سکول کو ہم چھوٹا سکول کہتے تھے جبکہ ہائی سکول بڑا سکول کہلاتا تھا۔ چھٹی کے وقت سکول کے باہر خوانچہ فروشوں کے گرد طلبہ کا ہجوم ہوتا تھا۔ علم نہیں کب سے یہ روایت تھی مگر طلبا خوانچہ فروشوں کو مائی ڈیر سے مخاطب کرتے تھے، نہ بولنے والوں کو اس کے معنی پتہ تھے نہ سننے والے جانتے تھے کہ یہ لفظ کیا مطلب رکھتے ہیں، مگر ایک شور ہوتا تھا، مائی ڈیرنان ٹکی دینا، مائی ڈیر لچھے دینا، مائی ڈیر ایک قلفی دینا۔ لفظ ایسے پکے ہوئے کہ آج بھی ایک پرانا ہم جماعت ملے تو مائی ڈیر سے ہی مخاطب ہوتا ہے۔ ہم بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ یاد میں خوشگوار لمحے اور زبان پر نان ٹکی کا ذائقہ آن پہنچتا ہے۔

 سنٹرل ماڈل ایک صدی سے پرانا سکول تھا۔ علمی  روایت  کا  بہاو، کیا کیا  نام نہ اس  سکول سے نکلے اور ملکی اور عالمی  سطح پر ایک مقام  پاگئے۔ کسی چیف کالج، کسی کیڈٹ کالج،  کسی مہنگے ترین انگریزی  سکول کو اس  کے مقابلے پر لے آئیں، دوسرے کو سر جھکاتا ، آنکھیں  چراتا  پائیں گے۔ اور کون لوگ تھے جنہوں نے اس سکول کو بلند کیا تھا، سرکاری استاد۔ وہ جو ناکافی  تنخواہ پاتے، مگر جانتے تھے کہ وہ کس ورثے کے امین ہیں۔

عظیم صاحب ہمارے ڈائریکٹر  تھے۔ ساتویں جماعت کا پہلا  دن تھا، پوری  جماعت کو باہر کھڑا  کیا  اور قد کے مطابق ہر کسی کی جگہ   بتلا دی۔ اب سے صبح کی اسمبلی میں قطار سیدھی ہو، چھوٹے طلباء  آگے، لمبے پیچھے کھڑے ہونگے۔ ہر روز  صبح  اسمبلی  کے آخر میں ترتیب میں کھڑی جماعتوں کے نام پکارے جاتے اور انہیں پوائنٹ دیا جاتا، اور سال کے آخر میں سب سے زیادہ  پوائنٹ حاصل کرنے والی جماعت  انعام  کی حقدار ہوتی۔ یہاں سے ہم نے ترتیب  سیکھنا  شروع   کی ۔  

ہر جماعت سال میں اپنا  ایک رسالہ نکالتی تھی۔ اردو بازار  سے  مختلف رنگوں کے کاغذ  لائے جاتے، تصاویر بنائی جاتیں، مضامین اور نظمیں خوش خط  لکھی جاتیں۔  یہ سب کام طالبعلم  خود کرتے۔ آخر  میں ان ہاتھوں سے  لکھے   کاغذوں کی جلد بندی ہوتی۔ یاد  ہے کہ علامہ اقبال کی نظم   "ایک آرزو" ہم نے  اس میں  لکھی اور اس نظم کے شعر  "مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری ۔ دامن میں کوہ کے اِک چھوٹا سا جھونپڑا  ہو" کے  مطابق  تصویر ایک مصور طالبعلم نے بنائی۔ یہ ہم طالبعلموں کی تخلیق، ادب، پراجیکٹ کے انتظام  کی عملی تربیت تھی۔ عظیم  صاحب  ہمارے ڈائریکٹر تھے، خوش خط  طلباء ایک طرف، مصور دوسری طرف، بھاگ دوڑ اور  اردو  بازار  کے چکر  لگانے والے تیسری طرف۔  مقابلے کا جوش، وقت کی تقسیم ، حالات کے مطابق  تبدیلی سب  ہم نے اُن سے سیکھی۔  اسی طرح  سال میں ایک دفعہ  جماعت کو سجانے کا مقابلہ ہوتا،  پوسڑ بنائے جاتے، رنگین  لڑیاں لائی جاتیں، ڈیسک پینٹ ہوتے۔ یہ سب  ہم نے کرنا ہوتا ، فنڈ جمع کرنے سے لیکر  خرچ کے حساب تک۔ اورایک شخص تھا کہ ہمیں بتاتا، سکھاتا ، ہم  پر نظر رکھتا۔ یہ تلقین نہیں بلکہ عمل کی ٹریننگ تھی۔
 
ان تمام معاملات  کے ساتھ ساتھ ہماری تعلیم  پر عظیم صاحب  کی  کڑی نظر ہوتی۔  وہ دن جب استاد   پوچھتا جاتا  تھا  اور جواب نہ آنے پر  طلباء  کھڑے ہوتے۔ ہاتھوں پر چھڑی پڑتی اور ہمیں علم ہوتا کہ نہ پڑھا تو ہاتھ سینکے جائیں گے۔ عظیم صاحب نے کلاس  کے لائق طلباء  کے ساتھ  پڑھائی میں کمزور طلباء  کی نشسستیں مختص کی تھیں کہ  خود بھی پڑھو اور ساتھیوں کی بھی مدد کرو۔ کر بھلا، ہو بھلا، انت بھلے کا بھلا۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے ہم میں اس احساس کو جگانے کی کوشش کی کہ پڑھنا تو ضروری  ہے مگر دوسروں کو بھی ساتھ  لے کر چلو۔ 

میں جو اردو کا  شیدائی تھا ، اُسے ریاضی کی طرف اُنہوں نے موڑا۔ الجبرا بھاری تھا، اصطلاحات  بھاری تھیں؛ کسر، عادِ اعظم، ذواضعاف اقل، متغیر مگر وہ ہمیں الجبرے  کے متغیرات  سے  آسانی کی طرف  لے گئے۔ ہر سوال  میں آتے  متغیر   "لا "  کو انہوں نے معنی  دے دیے۔  سہ ماہی امتحان کے پرچےچیک  کیے، تو جماعت  میں  کہا  کہ  دو طالبعلم  ہیں جنہوں نے سو  نمبر  کے پرچے  میں   سو  سے زیادہ نمبر  لیے ہیں۔ سو  کے پرچے میں سو  سے زیادہ نمبر لینا، یہ تو ہمارے لیے بڑا معمہ تھا۔ پرچے واپس ہوئے تو میں نے دیکھا  کہ  میرے پرچے پر سو میں سے ایک سو آٹھ نمبر لکھے ہیں کہ میں نے چوائس  کا اضافی  سوال بھی حل  کیا تھا۔  کہنے لگے،" جیتا رہ ، تو  نے  اور  شہباز     نے  خوش  کردیا"۔ وہ شاباش، شاید  اُسی  نے الجبرے سے جبر کو کہیں دور اُٹھا پھینکا۔ آج  وہ  دونوں بچوں میں سے ایک میڈیکل  کالج میں اور دوسرا  انجیننرنگ یونیورسٹی میں پڑھاتا  ہے اور جانتے  ہیں کہ خوشی ایک انوکھی چیز ہے، ڈھیروں خرچ کر کے بھی نہ ملے اور بے قیمت ایسی کہ اپنے طالبعلم  کا اچھا حل  کیا ہوا پرچہ بھی عجب خوشی  دے جا ئے۔

تقریباً  تیس سال بعد  پچھلے سال ایک تقریب میں اتفاقاً عظیم صاحب سے ملاقات ہوئی،  پینٹ شرٹ کی جگہ  شلوار قمیض  پہن رکھی تھی، داڑھی رکھ  لی تھی۔ مجھے پہچان لیا، کہنے لگے تو عاطف ہے۔  سب یاد تھا؛ میرے والد ، میری والدہ ،  میرے ہم جماعت ، سب کے متعلق  پوچھتے رہے۔  آنکھوں میں چمک تھی ، خوشی تھی کہ اپنے لگائے  پودے کو تناور دیکھ رہے ہیں۔  استاد  کے لیے  شاگرد وہ  پنیری ہوتا  ہے جسے اُس نے سینچا  ہوتا  ہے، پانی  سے آبیاری دیکر پروان چڑھایا ہوتا  ہے۔ کبھی  سبز کپڑے کا سایہ دے کر، کبھی دھوپ کی سختی دے کر کہ بڑھوتی کے لیے سب ضروری ہے۔ میں ایک بیج  تھا،خوش قسمتی مجھے ایک  ماہر کے پاس لے آئی  جسکا پیوند ہریالی لے آیا۔  مٹی تھا، خام، روڑے ملی مٹی، ایک  کوزہ گر کے ہاتھوں نے سنوار دیا، ایک سانچے میں ڈھال دیا، بہت شکر گذار ہوں۔

 ملاقات کے درمیان انہیں لگا کہ میں کچھ  تکلیف میں کھڑا ہوں، پوچھا تو بتلایا کہ کمر میں کچھ درد ہے۔ وہیں تقریب میں ایک طرف لے گئے، کاندھوں پر ہاتھ  رکھے اور پڑھ کر پھونک دیا۔ کمر کی  درد ختم  ہوگئی۔ مسیحا تھے، مسیحا رہے، مسیحا رہیں گے۔ 

 کیا  کہوں عاطف  کون ہے، ایک عکس ہے ایک ڈائریکٹر کا، جس نے کہا  تھا، "خوش  رہ، جا اس سٹیج پر تو نے اپنا  کردار ادا کرنا ہے، اور دیکھ  میرا نام عظیم ہے، میرے نام کی لاج رکھنا"۔   
 

#aatifmalik
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر