اس سے پچھلی قسط، الحمرا اور مسافر ، قسط سوم درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔
http://aatifmalikk.blogspot.com/2022/01/blog-post_22.html
تخت گاہ سے نکل کر تیسرے محل میں داخل ہوا جاتا ہے۔ اسے الریاض السعید کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ درمیانی صحن کو شیروں کا صحن کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے درمیان میں مشہورِ زمانہ شیروں کی پشت پر دھرا فوارہ ہے۔ صحن کے گرد برآمدے ہیں جن میں ایک سو چوبیس ماربل کے ستون ہیں۔ مشرقی اور مغربی جانب دو خیمہ دریاں ہیں جو صحن میں آتی ہیں۔ یہ عرب بدوں کے خیموں کی یاد دلاتے ہیں۔ چاروں کونوں سے پانی کے راہ بہتے ہیں جو صحن کے درمیان میں شیروں کے فوارے میں جا کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس صحن کے سات خطِ تشاکل یعنی سمٹری ایکسیز ہیں جو اس زمانے کی تعمیراتی ترقی اور فن کو ظاہر کرتا ہے۔ شیروں کے فوارے میں بارہ شیر ہیں۔ یہ سوال ہے کہ یہ بارہ شیر کیوں ہیں؟ اس کے مختلف خیالات و توجیہات دی گئی ہیں مثلاً یہ سال کے بارہ ماہ دکھاتے ہیں، یا یہ ایک شہزادی کے آنسو ہیں جو جب صحن میں گرے تو انہوں نے بارہ شیروں کی شکل ڈھال لی، یا یہ آسمان کے بارہ برج ظاہر کرتے ہیں۔ ایک اور خیال ہے کہ یہ یروشلم میں حضرت سلیمان کے بنے ہیکلِ سلیمانی کے اسی طرح کی علامت کو پیش کرتا ہے جس میں بارہ عدد بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا ظاہر کرتا ہے۔ اس فوارے کی نچلی سطح پر ابن زمرک کی شاعری کنداں ہے، جبکہ خطِ کوفی میں برکہ لکھا بھی نظر آتا ہے۔
|
شیروں کا صحن
صحن میں جانے کی راہ
صحن کے جانب خیمہ دری
صحن کے ایک جانب خیمہ دری
خیمہ دری کی دوسرے رخ سے تصویر
صحن کے ایک جانب کی خیمہ دری
|
|
خیمہ دری |
خیمہ دری کا اندرونی حصہ
شیروں کا فوارہ
|
شیروں کا فوارہ اور اس پر لکھا قصیدہ |
شیروں کے صحن کا کونہ
صحن کے اردگرد دوسرے بڑے کمرے ہیں۔ ان میں ایک مقرنس ہال ہے۔ مقرنس تعمیر کا انداز ایرانی طرز تعمیر سے آیا ہے اور دنیا میں مختلف اسلامی عمارات میں اسے خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس تعمیر کے انداز میں شہد کے چھتے کی مشابہت ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ابنِ سراج ہال ہے جس کے نام کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پر جنگجو ابن سراج کا سر قلم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ کا کمرہ دو بہنوں کا کمرہ کہلاتا ہے۔ اس میں بادشاہ کا خاندان رہتا تھا۔ ایک ساتھ کا کمرہ شاہی کمرہ کہلاتا تھا۔
دو بہنوں کا ہال یا کمرہ صحن کے جنوبی جانب ہے اور محل کی خوبصورت ترین تعمیر گردانا جاتا ہے۔ اس کے نام کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ یہ خیال ہے کہ اس کا نام اس کمرے میں پائے جانے والے دو ماربل کے بڑے ٹکڑوں کے نام پر ہے جو ساخت، وزن، رنگ اور ماپ میں ہوبہو ایک ہیں۔ یہ پورے الحمرا محل کے سب سے بڑے ماربل کے ٹکڑے ہیں۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کمرے کا نام اس کی دیواروں پر کنداں شاعری سے آئی ہے، جس میں کہا گیا کہ کہکشاں میں برجِ جوزا اپنا ہاتھ تمہارے ساتھ دوستی میں اٹھائے ہے اور چاند اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ کمرہ شاہی خواتین کے لیے تھا۔ اس کے دریچوں سے شہر نظر آتا ہے اور اس کے بائیں جانب شاہی حمام واقع ہے۔ اس کمرے کی دیواروں پر محل کا سب سے بڑا قصیدہ کنداں ہے۔ یہ ابن زمرک کا ایک سو چھیالیس اشعار پر مشتمل قصیدہ ہے جس میں سے آدھا شیروں والے فوارے پر لکھا ہے۔ ان اشعار میں محل اور سلطان کی مدح کی گئی ہے۔
نیچے تصویروں میں اس قصیدے کے چار اشعار کی تصاویر ہیں۔ پہلا شعر ہے
تمد لھا الجوزا کف مصافح
ویدنو لھا بدر السما مناجیا
کہکشاں، برجِ جوزا، اُسے خوش آمدید کہنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے
اور چودھویں کا چاند اس سے باتیں کرتا ہے
دوسرا شعر ہے
بھا البھو قد حاز البھاء و قد غدا
بہ القصر آفاق السماء مباھیا
یہاں کے گنبد کو وہ شان و شوکت حاصل ہوئی ہے
کہ یہ محل آفاق کا مقابلہ کرتا ہے
تیسرا شعر ہے
فلم نر قصراً منہ اعلی مظاہراً ---- واوضح آفاقاً و افسح نادیا
ہم نے کبھی ایسی شان و شوکت کا محل نہیں دیکھا، ایسا جو آفاق کی مانند ہو اور مل بیٹھنے کے لیے موزوں و کھلا ہو
چوتھا شعر افقی لحاظ سے لکھا گیا ہے
یملو حجر الروض حول غصونھا---- دنانیر شمس تترک الروض حالیا
اس کے باغ اور اس کی شاخیں سورج کے دیناروں سے لدی ہیں
اس کمرے کے وسط میں ایک فوارہ ہے جس سے ایک راہ شیروں کے فوارے تک جاتی ہے۔
مقرنس ہال کی چھت
مقرنس ہال کی چھت کی ایک طرفعمارت کے متعلق کچھ تاریخ
مقرنس ہال
|
صحن کے ساتھ برآمدہ |
|
صحن کے ایک جانب سے خیمہ دری کی تصویر |
|
شیروں کےصحن کا برآمدہ |
|
برآمدے سے شہر کا منظر |
|
برآمدے سے شہر کا منظر |
|
برآمدے میں نقش کاری |
|
ولا غالب الا اللہ ستونوں اور اوپر کی لائن میں لکھا ہے |
دو بہنوں کے کمرے کی کھڑکی
|
دو بہنوں کے کمرے کا وسطی فوارہ
|
دو بہنوں کے کمرے کی قوس |
|
تمد لھا الجوزا کف مصافح---- ویدنو لھا بدر السما مناجیا کہکشاں، جوزا اُسے خوش آمدید کہنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے--اور چودھویں کا چاند اس سے باتیں کرتا ہے
|
|
بھا البھو قد حاز البھاء و قد غدا -----بہ القصر آفاق السماء مباھیا یہاں کے گنبد کو وہ شان و شوکت حاصل ہوئی ہے ---کہ یہ محل آفاق کا مقابلہ کرتا ہے
|
فلم نر قصراً منہ اعلی مظاہراً ---- واوضح آفاقاً و افسح نادیا ہم نے کبھی ایسی شان و شوکت کا محل نہیں دیکھا، ایسا جو آفاق کی مانند ہو اور مل بیٹھنے کے لیے موزوں و کھلا ہو
فیملو حجر الروض حول غصونھا---- دنانیر شمس تترک الروض حالیا اس کے باغ اور اس کی شاخیں سورج کے دیناروں سے لدی ہیں
|
|
دو بہنوں کے کمرے کی قوس |
دو بہنوں کے ہال سے متصل ایک چھوٹا کمرہ ہے، اس کمرے کا نام کمرہ ِسلطانہ ہے۔ یہ الحمرا کے خوبصورت ترین کمروں میں سے ایک ہے۔ ملکہ یہاں پر آرام کرتی تھی۔ کمرے سے غرناطہ شہر اور دریائے درو کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کمرے کی کھڑکیاں نیچے تک آتی ہیں کہ یہاں زمینی نشست قالین اور گاو تکیوں پر کی جاتی ہوگی۔ عیسائی حکمرانوں نے فتح کے بعد اس کمرے کے گرد تعمیرات کیں جس سے شہر کا منظر اوجھل ہوگیا۔ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ ساتھ واقع صحن کو ختم کرکے باغ بنا دیا گیا۔ اس کمرے کے بعد کی تمام تعمیرات عیسائی بادشاہوں کی بنائی ہیں سو یہ کمرہ اصل الحمرا محل کا آخری حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔
راہ میں واقع ایک چھوٹی سی عمارت میں جھانکا تو چھوٹے سے صحن میں بھی سنگِ مرمر کا فوارہ پایا۔ غرناطہ میں مسلمان تو ختم کردیے مگر ان کے نشان جا بجا بکھرے ہیں اور صدیوں بعد شہر کی آبادی کے روزگار کا سبب بنے ہیں۔ پرانے شہر میں واقع ہماری رہائش کی گلی بھی ایک اپنا خوابیدہ رنگ رکھتی تھی۔ آمنے سامنے تعمیر شدہ گھر اور ان کی بالکنیاں صدیوں سے داستانیں سرگوشیوں میں سنا رہی ہیں۔ راہ میں غرناطہ میں پیدا ہوئے یہودی محقق ابن تیبون کا مجسمہ نظرآیا، مسافر نے ایک تصویر اس مجسمے کے ساتھ کھچوائی کہ اُس رواداری کی یاد کے طور پر رکھ سکے جب مسلم اندلس میں وصف پر غیر مسلم اعلی عہدہ پاتے تھے۔ شہر کا ماضی حال کے ساتھ ایسا جڑا ہے کہ تعمیرات میں واضح نظر آتا ہے۔
رات جلد سوئے کہ صبح اشبیلیہ کا سفر تھا کہ واپسی کی فلائیٹ اشبیلیہ سے تھی۔ واپسی کی راہ پر جابجا زیتون کے باغات تھے۔ اشبیلیہ کے ایرپورٹ پر گاڑی واپس کی اور رائن ایر کا جہاز ہمارے فرینکفرٹ کے سفر کے لیے رن وے پر کھڑا تھا، اور ہمارے سفر کا ایک باب مکمل ہوا۔
|
غرناطہ کا چرچ |
|
غرناطہ کا چرچ
|
|
ایک عام عمارت کا صحن
| غرناطہ میں ہماری رہائش کی گلی
|
مسافر اور ابن تیبون
| |
|
|
غرناطہ کی ایک عمارت
| غرناطہ کی ایک عمارت
| رات اتری ہے
واپسی کا سفر
|
راہ میں زیتون کے باغات
راہ میں زیتون کے باغات
راہ کا پل |
|
اندلس میں ہمارے سفر کی ساتھی
واپسی |
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
#AatifMalik, #Alhamra, #Alhambra, #UrduAdab, #Urdu
#عاطف ملک ،
#اردو
#الحمرا
#اندلس
#سفرنامہ
Excellent. Please consider publishing all four parts as a book. May your pen never stop.
ReplyDeleteMasood Mehmood