ماں جی --- مکمل تحریر

اپنی والدہ مسز کلثوم منصور کی یاد میں   

ماں جی کے ہاتھ میں سلائیاں ہوتیں، مختلف رنگوں کے اون کے گولوں کے ساتھ ، جن کے نرم دھاگے وہ مہارت سےاُن سلائیوں کی مدد سے ایک دوسرے سےجوڑ دیتیں، اُلجھی ہوئی ڈوریں سیدھی کردیتیں۔ مختلف رنگ دھاگے ایک دوسرے سے ریشے، طوالت اورملائمت میں فرق رکھتے، مگر وہ سلائی سے ایک دھاگے کواُٹھاتیں، اُس کواہمیت دیتیں، دوسری سلائی سے دوسرے کو قریب لاتیں، دونوں کو بغلگیر کرتیں اور ٹانکا لگا کر ہمیشہ کے لیے جوڑدیتیں- اور پھر جب سویٹرتیار ہوجاتا  تواُن کی مہارت نظر آرہی ہوتی، کہیں رنگوں کا مقابلی امتزاج، کہیں رنگوں کی یک رنگی، کہیں بازووں  پرخانہ داراُبھرے ڈیزائن، کہیں ایک چلتی ہمواریت، کبھی گول گلا اورکبھی وی ڈیزائن، کبھی سامنے سے بند، کبھی سامنے سے بٹن دار، اورجب وہ سویٹرپہنتا تواُن کی خوشبو، محبت، گرمائش سب سینے کے ساتھ ہوتی۔ 

اُنہیں پتہ تھا کسے کیا پسند ہے، انہیں پوچھنا نہ پڑتا تھا۔ اُن کے پاس اپنا  کوئی آلہ تھا، نہ نظر آنے والا، بہت حساس، ہمارے تمام احساسات خیالات کو ماپ لینے والا، ہماری موجودگی یاغیرموجودگی سے بالاتر، صحیح پیمائش کرنے والا۔ اگر دفتر سے کسی بنا پرمیں پریشان ہو کر گھر آتا توپتہ نہیں کیسے اُن کو پہلے سے ہی علم  ہوتا۔ ہماری خوشیاں، ہمارے غم، ہماری کامیابیاں، ہماری ناکامیاں، ہماری ہنسی، ہمارے آنسو سب اُن کی ذات کا حصہ تھے، بِن کہے، بِن بتائے۔ میں اپنی پریشانیاں خود اُٹھانا چاہتا تھا، اُن کو بتائے بغیرمگر وہ تو پوچھے بنا آپ کا وزن اُٹھا لینے والا خدمت گار تھیں اور مجھے یہ بات بحثیت بیٹا تکلیف دیتی تھی، مگر ماں جی— وہ ایسی ہی تھیں، وہ تمام عمر خدمتی رہیں۔ ما ں جی نے تمام عمر خدمت کی، اپنے بچوں کی، اپنے خاوند کی، رشتہ داروں کی، محلہ داروں کی، واقف کاروں کی، غیروں کی، اپنوں کی، پرائیوں کی، وہ ایک خدمتی تھیں۔

وہ کیا تھیں؟ کیا میں، اُن کا بڑا بیٹا، اُنہیں جانتا ہے۔ شاید ہاں، شاید نہیں۔ 

 وہ دستکارتھیں، زندگی کی اُلجھی ڈوریں کمال ہنرمندی سے سلجھا دینی والی۔

وہ ایک جنگجو تھیں، زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک معرکے سے نکل کر اگلے معرکے میں لڑنے والی۔ 

وہ ایک دیہاتی عورت تھیں، سادہ، محنتی، محبت آمیز، خود دار۔ 

وہ ایک خدمت گار تھیں، کندھے پر کپڑا ڈالے، جو ویسے کہیں نظرنہ آئے مگر ضرورت پڑتے ہی حاضر ہو،  جھٹ پٹ کام کرکےغائب ہوجائے، بنا کچھ چاہے، بنا صلہ مانگے۔ 

 کیا میں، اُن کا بڑا بیٹا اُنہیں جانتا ہے؟ شاید ہاں، شاید  نہیں۔

یقیناً نہیں، ماں کو اولاد کہاں جان سکتی ہے۔ 

زندگی میں بہت موقعوں پر ماں جی نے مجھے حیران کیا- اُنکی معاملہ فہمی اورموقع  کواحسن طریقے سے نمٹانا ایک بڑی صلاحیت تھی۔ کئی قصے ہیں۔ میں بوجہِ نوکری اسلام آباد میں تعینات تھا۔ ماں جی کبھی کبھی ہمارے پاس چند دن کے لیے آتی تھیں اور پھر واپس لاہور چلی جاتی تھیں۔ ایک دفعہ ماں جی کو میں اپنی گاڑی میں لیکر براستہ جی  ٹی روڈ اسلام آباد  کے لیے روانہ ہوا۔ صبح گیارہ کے لگ بھگ کا وقت ہوگا، کھاریاں سے گذر کر ہم پوٹھوہار کےعلاقے میں داخل ہورہے تھے کہ عقب سے آتی ایک کار نے باربار لائیٹ مارنا شروع کردی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی، کار کے درمیانی شیشے میں دیکھا توایک صاحب تنہا ٹویوٹا کرولا کار میں تھے اور مسلسل ہیڈ لائیٹ جلا بُجھا رہے تھے۔ کئی خیالات ذہن میں آئے؛ شاید کوئی واقف کار ہے، شاید میری گاڑی سے کوئی چیزگرگئی ہے، شاید گاڑی میں کوئی مسلہ ہے جو اُس گاڑی کے ڈرائیورکو نظرآرہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خیر، میں نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔ وہ صاحب اپنی گاڑی سے اترے اور چل کرہماری گاڑی میں ماں جی کی سیٹ کی جانب آ گئے۔ کہنے لگے کہ منڈی بہاو دین سے آرہا ہوں اوراسلام آباد جارہا ہوں، ابھی کسی ہوٹل پر چائے کے لیے رکا تو دیکھا کہ بٹوہ تو بھول آیا ہوں۔ اب گاڑی میں پٹرول بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔ آپ کی گاڑی کا اسلام آباد کا نمبر دیکھا توآپ کو روکنے کا خیال آیا۔ مجھے ایک ہزار روپیہ ادھار دے دیں، ایک کاغذ کو بڑھایا کہ یہ میرا فون نمبر ہے اور پشاورموڑ اسلام آباد پرمیرا سنگِ مرمر کا اِس نام سے کاروبار ہے۔ میں ابھی سوچ میں ہی تھا کہ ماں جی نے اپنا پرس کھولا اوراُن صاحب کے ہاتھ میں ہزار کا نوٹ رکھا اور مجھے کہا کہ گاڑی چلاو۔  گاڑی چلتے ہی ماں جی نے کہا کہ یہ آدمی فراڈ ہے۔ میں حیران پریشان تھا،  پہلے تواُن صاحب کے طورطریقے ایسے نہ تھے کہ وہ کوئی نوسر باز محسوس ہوں۔ اگر ماں جی کو ان کی نوسربازی کا یقین تھا تو اُسے پیسے کیوں دیے؟ سو میں نے ماں جی سے یہ پوچھا کہ آپ نے اسے پیسے کیوں دیے؟ کہنے لگیں تو نے اچانک گاڑی روک دی تھی، کوئی اتنی آمدورفت والی جگہ نہ تھی اگر وہ شخص پستول نکال لیتا توہم کیا کر لیتے۔ میں نے تو تیرا صدقہ جان کر ہزار روپیہ اُس کے حوالے کیا۔  مجھے یقین نہ تھا کہ وہ شخص جھوٹا ہے۔ اسلام آباد پہنچ کر اگلے دن اُس نمبر کو بند پایا اوراُس کے دیے گئے پتے پر کوئی سنگ مرمر کا کاروبار نہ تھا۔ ماں جی نے اُس دن کے بعد کبھی اُس واقعے کا ذکر نہ کیا کہ جیسے کبھی وہ پیش ہی نہ آیا ہو۔ 

ہماری بہن کی شادی تھی، شورمچ گیا کہ بارات آگئی، بارات آگئی۔ استقبال کے لیے ہم گھر کے باہرکھڑے تھے۔ ماں جی کے ہاتھ میں دلہا کی والدہ اوربہن کو آمد پردینے کے لیے کچھ زیورایک پوٹلی میں تھے۔ بارات کی آمد کے شور میں کوئی موقع پا کر پوٹلی کاٹ کر لے گیا۔ ماں جی کو جب اِس واردات کا احساس ہوا توانہوں نے کسی کو بتانے کی بجائے اپنے پاس پڑے کچھ اورزیورات سے اس موقع کو سنبھال لیا۔ والد صاحب اور باقی گھروالوں کو اگلے دن بتایا۔ کہنے لگیں، جو مال جانا تھا وہ تو چلا گیا تھا۔ شادی کے موقع پرکوئی بدمزگی نہ ہونا چاہیئے تھی، اس لیے اُس وقت چپ رہی، اللہ نے دیا تھا سو کام آگیا۔

ایک اورقصہ ہے۔ محلے کی مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد ایک عمررسیدہ شخص  کھڑا ہوا۔ اپنے غم اورمصیبت کا بیان رقت آمیز طریقے سے کیا کہ محتاج  ہوں، بیٹا جوانی میں مرگیا اوراب ایک ہفتے بعد بیٹی کی شادی ہے، ہاتھ  خالی ہیں، تمام نمازیوں سے مدد کی درخواست ہے۔  ضرورت مند  نے اپنی حالت یوں بیان کی کہ لوگوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر اس کی مدد  کی۔ میں خالی ہاتھ  تھا سو اُن صاحب کو گھر لے آیا اور برآمدے میں بٹھایا۔ ماں جی کو جا کرسارا معاملہ بتایا۔ وہ اُن صاحب سے ملنے آئیں اوراُن کی تمام بات سنی۔ ماں جی نے اُن صاحب کو کہا کہ میں آپ کی بیٹی  کے لیے کپڑے دیتی ہوں۔ ماں جی گھرپر ان سلے کپڑے رکھتی تھیں کہ عید تہوار اور تقریبات پرتحفے کے طور پردے سکیں۔ میں اندرگیا  تو دیکھا کہ صندوق سے دو ریشمی جوڑے نکال  رہی ہیں۔ مجھے کہنے لگیں کہ یہ آدمی فراڈ ہے۔ میں نے کہا  کہ پھر آپ اُسے کیوں کپڑے دے رہی ہیں؟  جواب دیا، جواُس کا کام ہے اُسے کرنے دیں، جو ہمارا کام ہے وہ ہم کرتے ہیں۔ ماں جی کے کہنے کو میں چیک کرنا  چاہ رہا تھا  سواُن صاحب سے کہا کہ میں کل اپنے دوستوں سےاورمدد اکٹھی کر کے اُن کے گھر پہنچا دونگا۔ میرے اصرار پرانہوں نے اپنا پتہ بتلایا ۔ اگلے دن اس پتے پرمیں اُنہیں ڈھونڈتا رہا مگروہ وہاں کہیں نہ رہتے تھے۔

ایک دفعہ ایک نوکرانی چوری کرتے پکڑی گئی۔ معاملے کو مزید پرکھا گیا تو علم ہوا کہ کافی عرصے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ ماں جی نے اُس سے چوری شدہ رقم کی وصولی کا ایک عرصہ مقرر کیا  اور اُسے بدستورکام پر رکھا۔ میں نے کہا کہ اسے فوراً نکال دینا چاہیئے۔ ماں جی نہ مانی، کہنے لگیں بیٹا، اُسے کام کی ضرورت ہے۔ اس کا میاں نکھٹو ہے، ایک بچہ مرگی کی بیماری کا شکار ہے۔ اُس کی چوری کے باوجود میں اُسے نہیں نکال سکتی۔ کچھ عرصے بعد اُس نوکرانی کا دس سالہ بیٹا  گم ہوگیا۔ ماں جی  کے علم میں لایا گیا تو کہا کہ قریب کے گندے نالے میں جاکر دیکھیں کہ کہیں وہاں مرگی کے دورے کی وجہ سے نہ گر پڑا ہو۔ وہاں گئے تو بچے کو نالے میں مردہ پایا گیا ۔ ہم سب بہت دکھ کا شکار ہوئے۔ ماں جی آڑے وقت اُسی نوکرانی کے ساتھ کھڑی تھیں۔

  ماں جی ساری عمر اپنا جو کام  ہے وہ کرتی رہیں، یہ دیکھے بغیر کہ اگلا  کیا کر رہا ہے۔

ماں جی کی زندگی کی کہانی انسانی جدوجہد  کی کہانی ہے،  اور ہمارے معاشرے کے لحاظ سے عورت ہونے کے ناطے یہ کہانی اور بھی پُر اثر ہے۔

ماں جی نے اپنے شہید بیٹے کے نام پر ہسپتال بنانا شروع کیا۔  یہ عجب بات تھی، بیٹے ماوں کے نام پر یادگاریں بناتے ہیں، یہ معاملہ اُلٹ تھا۔ مگر ماں جی  کہاں عام عورت تھیں وہ خاص عورت تھیں اور جب ماں جی نے ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا تو اُن کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دو دن قبل ہی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں تو اُن کی عمر شاید تین چار سال زیادہ ہی ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلےآپ گورداسپور کے ایک گاوں میں پیدا ہوئِیں۔ اُس وقت کون پیدائش کی تاریخ کا خیال رکھتا تھا اورماں جی تو بہت عرصہ بعد سکول داخل ہوئیں۔ خیال ہے کہ اُس وقت استاد نے جو دل چاہا تاریخِ پیدائش ڈال دی ہوگی۔

 ماں جی کے ماں باپ دونوں ان پڑھ تھے۔ شاید  تین چار  سال عمر ہو گی کہ اُن پر پہلا  دکھ آیا۔ شام کو جلتے دیے کے ساتھ  کھیل رہی تھیں کہ دوپٹے اور کپڑوں  کو آگ  لگ گئی۔ گاوں  میں کوئی نیم حکیم تھا جس نے علاج خراب کر دیا۔ ماں جی نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ حکیم نے چونے کا لیپ کر دیا تھا۔ چونے کے پانی سے لوگ جلے کا دیسی علاج کرتے ہیں، مگر حکیم شاید جانتا نہ تھا۔ نتیجتاً ماں جی کے چہرے پر بچپن سے ہی جلنے کے مستقل نشان پڑ گئے تھے اور اس سے بڑھ کے اُن کے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ضائع ہوگئی۔  بچپن میں جب میں نے ہوش سنبھالا توماں جی کے ہاتھوں کو دیکھتا اوراپنے ہاتھوں کو دیکھتا تو سمجھ نہ آتی تھی کہ ماں جی کی انگلیاں کم کیوں ہیں۔ ایک ننھے ذہن کو اس معمہ سمجھنے میں بہت عرصہ لگا، اور پھراِس معمے کی جگہ ایک خاموش درد نے لے لی۔ 

ماں جی آٹھ نو سال کی ہونگی  کہ انیس سو سنتالیس  کی ہجرت کے خون آلود سفر سے گذریں ۔ گورداسپورابتدائی اعلان اور نقشے کی رو سے پاکستان کا حصہ تھا سو وہاں کےمسلمان باسی مطمن تھے، مگرعین وقت وہ بھارت کا حصہ تھا اورقتل وغارت کا ایک بازار گرم ہوا۔ بے سروسامانی کی حالت میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑکرجان بچانے کو نکلے۔ وہ جگہ جہاں آپ کے بزرگوں کی قبریں ہوں، جہاں کی ہوا میں آپ کے بچپن اورجوانی کی یادوں کی آمیزش ہو، جن گھروں کی تعمیرآپ کے بزرگوں نے اپنا  پیٹ کاٹ کرکی ہو، وہ آ پ کی پشتی زمین جس نے آپ کے پرکھوں کو اناج دیا ہو، جس کا کونہ کونہ آپ کے بزرگوں کی محنت سے مہکا ہو، جہاں اُن کا خون پسینہ گرا ہو، وہ چھوڑنا کہاں آسان ہے۔ کسان کے لیے تو زمیں ماں کی مانند ہے کہ وہ اُسے پالتی ہے، اپنی کوکھ  سے رزق دیتی ہے اور پالے جانور کسان کو اولاد کی مثل ہوتے ہیں۔ اوران سب کو چھوڑنا، ہمیشہ کے لیے چھوڑنا، کبھی نہ واپس آنے کے لیے چھوڑنا، کیا کوئی لفظ اس دکھ کو بیان کرسکتا  ہے۔ الفاظ  کا دامن خالی ہے، بے معنی، کسی نہ کام کا، بے یار و مددگار، یہ دکھ الفاظ کی استطاعت سےکہیں آگے کا ہے۔ ماں جی آٹھ نو سال کی ہوں گی کہ یہ دکھ آن پہنچا۔ 

ماں جی نے پیدل قافلے کے ساتھ  دریائے راوی پار کیا اورپاکستان میں داخل ہوئیں۔ یہ سفر خوف کے سائے تلے تھا؛ مسلح سکھوں کے نہتے قافلوں پر حملے، جا بجا بکھری لاشیں، لاشیں نوچتے گدھ  اورایک آٹھ نو سال کی بچی غیر یقینی مستقبل کی راہ پر، ماں جی کے ذہن میں یہ سفر نقش تھا۔ اُس بچی کو یوں یاد  پڑتا تھا  کہ وہ  لُٹے پٹے قافلے کے ساتھ جب لاہورکی مال روڈ یا ملتی جلتی روڈ سے ننگے پیرگذری تھی تواُس کے پیر یوں جلے تھے کہ برسوں بعد بھی مال روڈ سے گذرتے تو یخ بستہ کار میں بھی ماں جی گبھرا کر پاوں جوتوں سے نکال کر سیٹ پر رکھ  لیتی تھیں۔

 ماں جی مرتے دم تک اپنے گاوں کو نہ بھولیں، انکی باتوں میں گورداسپور، کلانور، ڈھیسیاں، بیبل چک کا ذکرآتا رہتا۔ کبھی ماں جی اور ان کے ہم عمراکٹھے ہوتے تو چھوڑ آئے گاوں کے درختوں، مکانوں، حویلیوں، گلیوں، نہروں کا ذکر ہوتا۔ ایسے میں اُنکی آ نکھوں میں عجب اداسی ہوتی، اُن کی آنکھوں میں ایک نہ نظر آتی نمی ہوتی۔ یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ وہ پودے جنہیں اپنی زمین سے اکھاڑ کرنئی زمین میں لگا دیا گیا۔ وہ اس نئی زمین میں جڑ پکڑ تو گئے مگر پرانی زمین کی باس، اُس کی خوشبو وہ کبھی نہ بُھلا پائے، یہ ایک غمزدہ نسل تھی۔ ماں جی نے اس غم کو پاکستان سے گہری محبت میں بدل لیا۔ ماں جی نے ہمیں بتلایا کہ اس ملک کی کیا اہمیت ہے، اس کےحصول  کے لیے کیا قیمت ادا کی گئی ہے۔  ہم سالہا سال لاہورمیں رہے۔ یہ دور انڈین فلموں اور دوردرشن کی مقبولیت کا تھا مگر ہمارے گھر میں کبھی ٹی وی پرانڈین چینل نہ لگا۔ ہمارے گھر کی چھت  پر لگے انٹینا  کا رخ ہمیشہ پاکستان کی طرف ہی رہا۔

پاکستان ہجرت کے بعد ماں جی کے والدین کو جڑانوالہ کے قریب ایک گاوں میں زمین ملی اوروہ وہاں آباد ہو گئے۔ مگرابھی زندگی رواں بھی نہ ہوئی تھی کہ اگلا دکھ بھاگا آیا۔ گاوں میں کسی معمولی بات پررشتہ دار لڑ پڑے، ایک شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب تھانہ کچہری کا معاملہ چل پڑا۔ غریب لوگ لٹ پٹ کے آئے تھےمگر انا پرستی، عدم برداشت اور عزت کے سراب کے زیرِاثر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے۔ مقدمہ چل رہا تھا، دونوں فریقوں کے مرد حوالات  میں تھے۔ ایسے میں فریقِ مخالف کی کسی عورت نے ماں جی سے چھوٹے بھائی اوراس سے چھوٹی بہن کو زہرآلود مکئی کی چھلی دے دی۔ دونوں معصوم کہاں دشمنی کی بات جانتے تھے، دونوں زہرکا شکارہو کر مرگئے۔ ماں جی کبھی اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو نہ بھولیں۔ ماں جی اوراُنکے بھائی ہیرے میں دو یا تین سال کا فرق تھا- کبھی کبھی ماں جی بھائی کو یاد کرتیں تو کہتیں آج ہیرا زندہ ہوتا تو اتنے سال کا ہوتا۔ ان کے لہجے میں ایک تاسف ہوتا، ایک دکھ۔ ایک بہن کا دکھ جو کوئی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی سوچتی کہ کاش وہ کسی طرح اپنے ہیرے کو بچا لیتی۔ میں اُن کا چہرہ دیکھتا اور خاموش سوچتا کہ انسان کی پتھر دلی نے کتنے ہیرے مٹی میں رول دیے۔  

اب دشمنی کی ماہیت بدل گئی تھی ، نسلیں ختم کردینے کے ارادے تھے۔  ایسے میں  ماں جی کے والدین نے گاوں  چھوڑ دینے  کا فیصلہ کیا۔ ایک ہجرت کے بعد یہ دوسری ہجرت تھی۔ جڑانوالہ سے اب یہ اندرون سندھ کی جانب نقل مکانی تھی، اوراس سفر میں ایک بچی تھی، قسمت کے ہاتھوں ایک صعوبت سے نکل  کر دوسرے امتحان کی جانب جاتی۔ اندرون  سندھ میں رزق ڈھونڈتے یہ خاندان مختلف قصبات سے ہوتا بلآخر تحصیل نواب شاہ کے ایک قصبے ٹنڈوآدم  میں جاکر سکونت پذیرہوا۔

میرے ذہن میں ٹنڈو آدم کی اولین یاد میرے نانا کی چارے کی دکان ہے۔ ایک جانب ایک کتر مشین تھی جس میں ایک جانب سے مکئی کے سبز پودے ڈالے جاتے تھے اور کتر مشین کے گول پہیے کے ہینڈل کو گھمایا جاتا تھا تو دوسری جانب سے کٹا ہوا سبز چارہ نکلتا تھا- اسے کپڑے کی چادریا بوری میں ڈال کر گدھا گاڑی والے لے جاتے تھے۔ اکثر اونٹ والے بھی آتے، اونٹ کو دکان کی ایک جانب بٹھاتے اور چارا باندھ کر اونٹ پر لادتے اور چل پڑتے۔ میری فرمائش اور نانا کی سفارش پر اکثر مجھے گدھے اور اونٹ کی سیر کا موقع مل جاتا، ورنہ میں دکان کے کونے میں پڑے مکئی کے پودوں میں سے کوئی نرم چھلی ڈھونڈتا رہتا۔ ان پودوں کے تنے میں ایک نرم گِلی بھی ہوتی جسےدانتوں میں رکھ کر دبائیں تو رس چھوڑتی، وہ مل جاتی تو پنجاب سے آیا یہ بچہ بہت خوش ہو جاتا۔ زندگی میں بہت کچھ پایا ؛ انعام ، فتح ، کامیابی، جیت۔ بعض کے لیے بہت محنت کرنا پڑی، بعض بخشش کے طور پرخود بخود جھولی میں آن پڑا۔ ہنسے، خوشی منائی، ناچے، مبارکبادیں وصول کیں۔ مگروہ مکئی کے پودے سے ڈھونڈ کے پانے والی ڈلی کی خوشی کچھ عجب تھی۔ کسی کامیابی نے ویسی مسرت نہ دی۔ عرصے بعد یہ سمجھ آئی کہ جب آپکی زندگی کا کینوس محدود ہوتا ہے، تو برش کا ایک ہاتھ ہی آپ کو مکمل گُل رنگ کر جاتا ہے۔

زندگی بھی کیا کتر مشین ہے، لمبے تڑنگے بانکے ادھیڑ کر ریزہ ریزہ کر دیے۔ وہ جو کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، زندگی کے پہیے کی زد میں آئے تو کٹے چارے کی مانند ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے- مگراُن میں وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنا اندر سبز رکھا کہ کسی کے کام آتے رہے۔ ماں جی آخری وقت تک خدمت کی بدولت سرسبز تھیں، آخری وقت تک مجھے اُن کے پاس آکر وہی خوشی کا احساس ہوتا تھا جو بچپن میں سبز چارے سے رس بھرے ٹکڑے کے ملنےسے ہوتا تھا۔

 ساتھ والی دکان آٹا چکی کی تھی ۔ ایک مشین جسے جب چلایا جاتا تو خوب شور ہوتا، پٹے چلنے لگ جاتے۔ مشین پر ایک جانب اوپر بہت بڑا ٹین کا بنا چوکور سا ڈبہ تھا جس میں گندم کے دانے ڈال دیے جاتے اور دوسری  جانب ٹین کی ہی بنی ایک تنگ ہوتی چوڑائی سے سفید آٹا نکلتا۔ پھرتی سے اِس کے نیچے  بوری لگائی جاتی  جس کے بھرتے ہی اُسے تیزی سے دوسری بوری سے تبدیل کردیا جاتا۔ چکی پرکام کرنیوالوں کے کپڑے، بال، چہرے سب آٹے سے سفید ہوئے ہوتے اور تمام فضا  گرم تازہ  آٹے کی خوشبو دے رہی ہوتی، ایک سوندھی خوشبو۔ مجھے یہ کام کرنے والے ہمیشہ سفید روحیں لگتیں، سفید شلوارقمیص، سر پرسفید کپڑا باندھے محنت کش۔ گندم کوئی اتنا سستا سودا بھی نہ تھا کہ جس کے لیے جنت چھوڑی گئی۔

آٹےکی خوشبو کا مقابلہ صرف  بارش کی خوشبو کرتی ہے، جب کوری زمین پر بارش کے قطرے گرتے ہیں تو وہ خام خوشبو اٹھتی ہے کہ اعلی بنائے گئے پرفیوم بھی اُس کے آگے کوئی حیثیت  نہیں رکھتے۔ گرم آٹے کی خوشبو ہو یا مٹی کی،  دونوں خام ہیں، خالص، بغیرکسی ملاوٹ کے، کسی سنگھار کے بغیر، کسی دکھاوے کی  بیساکھیوں کےبغیر۔  ٹنڈوآدم  میرے لیے ہمیشہ ایسے ہی خالص رہا، کورا، مٹی کی بنی صراحی کی مانند جس کا پانی عجب مسرت دیتا ہے، ٹھنڈا، میٹھا، مٹی کی خوشبو  لیے ٹھنڈا ڈھار، پی لینے کے بعد خصوصاً  شکر  کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حلق سے نیچے جاتا پانی ہی جسم کے روئیں روئیں کو شکر میں مصروف کرجاتا، بن کہے، کسی عقلی تقاضےسے ماورا ۔ احساس کے معنی محسوس کرنے ہوں تو کسی صراحی کا ٹھنڈا پانی پی کر دیکھیں۔

ماں جی کی ایک چھوٹی بہن تھیں جو پیدائشی گونگی اور بہری تھیں۔ گڈی خالہ اچھے نقش و نگار کی پتلی دبلی تھیں۔ ٹنڈو آدم میں گھر کے صحن میں ہینڈ پمپ لگا تھا۔ جب بھی بچپن میں اس نلکے پر پہنچتا تو گڈی خالہ آکر نلکہ چلاتیں، پنجابی میں اسے نلکہ گیڑنا کہتے تھے، اور ہم بچے منہہ ہاتھ دھوتے۔ ماں جی بہن کا بہت خیال رکھتیں۔ نانا نانی کی وفات کے بعد ماں جی گڈی خالہ کو اپنے پاس لاہور لے آئی تھیں۔ ماں جی نے لاہور میں خالہ کی وفات تک تقریباً دس سال اُن کا خیال رکھا۔ اس کے علاوہ ابا کے ایک رشتے کے تایا تھا جو بے اولاد تھے۔ اپنی بیگم کے ساتھ لاہور میں گڑھی شاہو کے علاقے میں رہتے تھے۔ جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تو ان کے لیے اکیلا رہنا مشکل ہوگیا۔ ابا نے اماں سے بات کی اور انہیں گھر لے آئے۔ تایا باو بھی اپنی وفات تک ہمارے گھر رہے۔ ماں جی نوکری، بچوں اور دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ  یہ ذمہ داریاں کیسے اپنے سر لے لیتی تھیں۔ یہ احساس ہے جو انسان کو خدمت کے سفر پر لے جاتا ہے۔

احساس ہی سب چیز ہے، مذہب نے اسے نیت کا نام دیا ہے۔ ماں جی کے لیے ٹنڈو آدم ایک احساس کا نام تھا۔ گرمیوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہم ٹنڈو آدم کو عازم سفر ہوتے تھے۔ ہر سال ٹرین کے سفر کے انتظار میں ہوتے۔ لاہور سے باقر خانیاں گتے کے ڈبے میں بھر کر لے کر جاتے، سفر کے لیے واٹر کولر کے ساتھ ساتھ صراحی ساتھ رکھی جاتی تھی کہ راہ میں سٹیشنوں سے پانی بھر لیا جائے۔ شہداد پور کے سٹیشن سے گاڑی چلتی تو ہم سامان باندھنا شروع کرتے کہ اگلا سٹیشن ٹنڈو آدم کا آنا ہوتا، مگر اس سامان باندھنے سے پہلے ماں جی اپنا ایک بیگ کھولتیں اور کالے رنگ کا برقع نکال لیتیں۔ ایک پورا سیاہ لباس جو سامنے سے کھلا ہوتا، اسے پہن کر سامنے سے بٹن بند کر لیے جاتے اور سر کو ڈھانپنے کے لیے علیحدہ سیاہ کپڑا ہوتا جس کی ڈوری ٹھوڑی کے ساتھ باندھ لی جاتی۔ چہرے کے سامنے ڈالنے کے لیے دو کپڑے ہوتے؛ ایک جالی دار کہ اندر سے آسانی سے باہر نظر آسکے جب کہ دوسرا مقابلتا زیادہ گہرا ہوتا۔

 ماں جی نے کبھی لاہور میں برقعہ نہیں پہنا بلکہ میں نے انہیں کبھی کہیں اور برقعہ پہننے نہیں دیکھا۔ اُدھر ٹنڈو آدم  قریب آتا اِدھر ماں جی نے سیاہ برقعہ پہن لیا ہوتا۔ ماں جی سے ایک دفعہ میں نے اس بارے میں پوچھا کہنے لگیں ٹنڈو آدم سے میرا رشتہ محبت، اپنائیت اور تقدس کا ہے، میرے لیے ممکن نہیں کہ میں وہاں برقعے کے بغیر جاسکوں۔

 زندگی میں فرد کے اپنے مقدس مقام ہوتے ہیں، کہیں احرام اور کہیں برقعہ عقیدت کا لباس بن کر سامنے آتا ہے، کہیں برہنہ پاوں عقیدت کے نشان ہوتے ہیں اور کہیں ٹوٹے دانت عقیدت کا علم ٹھہرتے ہیں۔ 

ٹنڈو آدم میں جب ماں جی نے پرائمری سکول شروع کیا تو لڑکیوں کا سکول نہ تھا سو وہ لڑکوں کے سکول میں پڑھتی تھیں۔ یہ علم نہیں کہ کب صرف لڑکیوں کے سکول میں گئیں، مگر یہ پتہ ہے کہ آٹھویں جماعت میں تھیں تو لاہور میٹرک کا امتحان پرائیویٹ طور پر دینے آئی تھیں۔ اُس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی یہ امتحان لیتی تھی۔ ماں جی نے یہ امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ یہ مجبوری کا امتحان تھا، غربت کے دور میں دو سال کی بچت بڑی بات تھی۔ کئی دہائیوں بعد ماں جی نے اسی پنجاب یونیورسٹی سے شوق کا امتحان پاس کیا۔ بی-ایس-سی کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دینے جب وہ کمرہ امتحان میں گئی تھیں تو کئی امتحان دیتی لڑکیاں انہیں ممتحن سمجھ بیٹھی تھیں۔ شوق کا امتحان انہوں نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 

بڑی بیٹی ہونے کے لحاظ سے ماں جی اپنے والدین کے گھر کے خرچ اٹھانے میں شریک تھیں۔  سویٹر بُن کر بیچنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کر وہ اپنا حصہ گھر کے خرچ میں ڈالتی تھیں۔ میں نے ٹنڈو آدم میں بچوں کو اکثر اپنے لحاظ سے  کام کرتے دیکھا۔ دس دس سال کی لڑکیاں اور لڑکے اپنے گھروں کے باہر زمین پر ٹوکری لگا کر بیٹھے ہوتے اور آلو چنے بیچ رہے ہوتے۔ اس کے علاوہ پانی کی بھری بالٹی میں گول ڈھکن ہوتا کہ اس میں سکہ ڈالا جاتا، اگر وہ اس میں چلا جاتا تو مقدار دوگنی ہو کر واپس ملتی ورنہ وہ سکہ وہیں بالٹی میں پڑا  اگلے بچوں کو اپنی طرف کھینچتا۔ پیسہ دوگنا کرنے کی کشش اور کشش ثقل مل کر بچے کی جیب سے پیسہ نکال لیتے۔

ٹنڈو آدم میں کپڑے کی صنعت تھی، لوگ محنت کش تھے۔ گھر گھر کپڑے کی کھڈیاں لگی تھیں، گھر گھر سے ان کھڈیوں کی آواز بلند ہو رہی ہوتی۔ عورتیں اور مرد ان پر کام کرتے، محنت کش کے ہاں روٹی کمانے میں کوئی صنفی امتیاز نہیں، پیٹ کی بھوک مرد عورت میں تفریق نہیں کرتی۔ دو بازو چوڑائی کا لکڑی کا فریم، جس کے سامنے زمین پر بیٹھے ہوئے لوگ اپنے سامنے لکڑی کے ایک بلاک کو دائیں بائیں کرتے سامنے دھاگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہے ہوتے۔ گھنٹوں زمین پر کھڈی کے سامنے چوکڑی مارے بیٹھے، وہ خود بھی زمین کا حصہ بن جاتے۔ ٹانگیں لکڑی ہو جاتیں اور دھاگوں کے بُر سینے میں جا کر اپنی گٹھانیں لگا دیتے جن کو کھلوانے کا نہ وقت ہوتا نہ پیسے، سو آخر میں کھڈی کے سامنے زمین پر بیٹھے زمین پر ہمیشہ کے لیے لٹادیے جاتے۔ 

ماں جی نے میٹرک کیا تو کہیں سے علم ہوا کہ اگر نرسنگ کرلیں تو ماہانہ وظیفہ پائیں گی، سو ماں جی ٹنڈو آدم سے نکل کر جام شورو، حیدرآباد کے نرسنگ سکول میں جا پہنچیں۔ یہ پچاس کلومیٹر کا فاصلہ چاہے چھوٹا تھا مگر ٹنڈو آدم کے قصبے سے حیدرآباد شہر کا یہ سفر ایک لڑکی کے اعتماد کو جلا بخشنے کا سفر تھا۔ وہ سفر جس کی آج ایک منزل حیدرآباد سے ہزار میل کے فاصلے پر لاہور کے نواحی علاقے برکی میں بنا ضرار شہید ہسپتال ہے۔ قدم اٹھانا فرض ہے، منزلیں خود بخود پامال ہوتی جاتی ہیں۔ میں اس سفر کو نہیں سوچ سکتا، ماں جی کے والدین کی ہمت کو نہیں جانچ سکتا جو خود ان پڑھ تھے، نئی مملکت میں خون آلود واقعات سے گذرے تھے اور پچاس کی دہائی میں اپنی بیٹی کا ساتھ دیتے اُسے اکیلا پڑھنے دوسرے شہر بھیج دیتے ہیں۔ 

 حیدرآباد جیسی شام آپ کو کہیں نہ ملے گی، دن جیسا بھی گرم ہو، شام ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلتی ایسی کہ دل و جان میں طمانیت بھر دے۔ گھروں کی چھت پر ہوا کو اندر لانے کے لیے ہوا کے رخ پر خصوصی طرح کے روشندان بنائے جاتے جیسے کہ چمنیاں ہوتی ہیں، ایسے کہ ان کا منہہ ہوا کے بہاو کے رخ پر کر کے ہوا کو گھر کے اندر لایا جاتا تھا۔ حیدرآباد کا کوٹری بیراج، المنظر ہوٹل، پلہ مچھلی، دریائے سندھ کا کنارہ اور ساتھ بہتا پانی، وہ پانی جس پر ہزاروں سال کے افسانے لکھے ہیں اور ایک لڑکی کا بنتا نیا افسانہ جسے وقت کا دھارا گورداسپور کے گاوں بیبل چک سے براسطہ چک چھپن گوگیرہ برانچ جڑانوالہ اور محلہ چانیہ پاڑہ، ٹنڈو آدم بہاتا دریا سندھ کے قریب واقع جام شورو کے نرسنگ سکول لے آیا تھا۔  

آزاد پاکستاں جب زخموں سے چور تھا تو ملک کے ہسپتالوں کو کرسچن نرسوں نے سنبھالا  اور برسوں نوزائیدہ مملکت کے ہسپتالوں میں پیدائش اُن کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ وہ عیسائی لڑکیاں جو مشنری اداروں نے خدمت کے جذبے سے تیار کی تھیں، اس اسلامی مملکت کے زخمیوں پر پھائے رکھتی تھیں۔ ماں جی کو نرسنگ پڑھانے کے لیے وہ استانیاں ملیں جو حضرت عیسی کے بیماروں کو صحت یاب کرنے کی سنت زندہ رکھے تھیں۔ اُن کے ہاں خدمت کا قدم تبلیغ کے قدم سے پہلے آتا تھا۔ ماں جی نے ہمیں ان بے لوث روحوں کی کہانیاں سنائیں۔ جب ہم سرکاری ہسپتالوں کی کالونیوں میں پل بڑھ  رہے تھے تو ہمارے لیے سسٹر نینسی، سسٹر شادی خان، سسٹر مارتھا ہمارے گھر کے افراد کی مانند تھیں۔ سرگودھا میں انکل میسی ہمیں اپنے گٹار پر پرانے نغمے سناتے تھے، جبکہ ان کی اہلیہ کانونٹ سکول میں ہماری بہن کی استانی تھیں۔ کرسمس کے دن ہمارے گھر کیک آتے تھے اور ماں جی اپنی عیسائی ساتھیوں کے گھروں میں کیک بھجواتی تھیں۔ ماں جی کے زندگی کے سبق میں مذہب کا خانہ انسانیت کے بعد آتا۔ تقسیم کے خون آلود سفر نے ماں جی کو جمع کا سبق پڑھایا تھا۔ 

ماں جی نے یکم اگست انیس سو ستاون میں جام شورو، حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل کالج کے سکول آف نرسنگ میں داخلہ لیا اور اس کے بعد کالج آف نرسنگ، جناح ہسپتال کراچی سے انیس سو پینسٹھ میں پوسٹ گریجویشن کی۔

پوسٹ گریجویشن کے موقع پرانہیں ایکسیلینس ان نرسنگ ایوارڈ ملا۔ یہ ایوارڈ ایک چاندی کا لیمپ ہے جس پر ماں جی کا نام کنداں ہے۔ ماں جی کی ایک تصویر اس موقع کی یاد دلاتا ہے، دبلی پتلی ساڑھی میں ملبوس، دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر چراغ کا نچلا حصہ رکھا ہے، بائیں ہاتھ سے چراغ کے ہینڈل کو پکڑا ہوا ہے اور چراغ میں لگی سفید موم بتی روشن ہے۔ اس چراغ کو بطور انعام دینے والوں کو علم نہ تھا کہ کیا علامتی نشان وہ اس لڑکی کے حوالے کررہے ہیں۔

الہ دین کے چراغ کو رگڑا گیا تو ایک جن حاضر ہوا جس نے پوچھا، کیا حکم ہے میرے آقا۔ ماں جی کو انعام کے طور پر ملا چراغ ہمیں ان کی زندگی کی یاد دلاتا ہے جو بھی کسی مشکل میں گھرا وہ اس کے حل کے لیے ہمیشہ حاضر تھیں۔ گاوں سے بوڑھے رشتے دار بیماری کے علاج کے لیے آتے، ماں جی کے توسط سے ہسپتال میں داخل ہوتے اور تیماردار ہمارے گھر میں رہتے۔ 

اُن کی اولاد، اُن سے شام کو آکے مفت پڑھنے والے وارڈ بوائز، چپڑاسیوں اور اسی درجے کے عہدے کے لوگوں کے بچے، سروسز ہسپتال میں نرسنگ سکول کی سسٹر ٹیوٹر کے طور پر میل نرسوں کی ایک تعداد، ان کی مختلف طالب علم خواتین نرسیں اور برکی کے باو والا گاوں و گرد نواح کے دیہات کی عورتیں جنہیں انہوں نے ہاتھ دھونے سے لے کر بچوں کی صفائی کا خیال رکھنا سکھایا اس چراغ کی لو سے فیض یاب ہوئے۔ آج وہ چراغ خاندانی روایت کو حصہ ہے۔ جب بھی ان کی اولاد میں سے کوئی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرتا ہے تو وہ چراغ اسی انداز میں جلایا جاتا ہے، اسی انداز میں پکڑا جاتا ہے، ہاتھ میں اُس ہاتھ کی لمس محسوس کی جاتی ہے جس نے ایک دنیا کے زخموں پر مرہم رکھا۔ یادیں و خاموش دعا گریجویٹ کے ساتھ  سایہ فگن ہوتی ہیں۔ کوئی اپنی مثال سے خدمت کی ایک راہ دکھا گیا تھا۔ ایک کردار مثال کے لحاظ  سے پاس کھڑا ہے، رول ماڈل ڈھونڈنے کی جب ضرورت ہو تو اس جلتی لو سے لو لگا لی جاتی ہے۔ 

جلتے ہیں ایک چراغ کی لو سے کئی چراغ

دنیا تیرے خیال سے روشن ہوئی تو ہے

شہزاد احمد شہزاد کا یہ شعر ایک اور وجہ سے اور زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ ان کی اہلیہ آنٹی عطیہ شہزاد ماں جی کی دوست تھیں، اور دونوں ضرار شہید ہسپتال بنانے کے سفر کی اکٹھی ساتھی تھیں۔ 

ماں جی شادی کے بعد لاہور آگئیں۔ لاہور میں ان کی پہلی تعیناتی لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں تھی۔ مجھے اپنی زندگی کی لاہور کی پہلی یاد پرانی انارکلی کے احاطہ مادھو رام کا ایک کمرے کا گھر ہے۔ یہ کمرا لمبائی میں تھا، ایک کونے میں کُھرا تھا جس کے ساتھ برتن دھرے تھے۔ یہ اس کمرے میں ہمارا باورچی خانہ تھا۔ گھر میں علیحدہ غسل خانہ نہ تھا۔ ماں جی نے نہلانا ہوتا تھا تو اِسی جگہ ہمیں بالٹی ڈبے سے نہلاتی تھیں۔ مٹی کے تیل کا چولہا تھا جس میں سفید سوتی دھاگے کی بتیاں لگائی جاتی تھیں اور ان کو آگ لگا کر چولہا جلایا جاتا تھا۔ اس چولہے کو جلانے سے کمرے میں ایک ناگوار سی بو پھیل جاتی تھی۔ باتھ روم باہر گلی میں تھا جو صرف استعمال کے وقت کھولا جاتا تھا ورنہ اس کے دونوں دروازوں کے پٹ بندھ کر کے  کنڈی اوپر چوگھاٹ پر لگا کر تالا لگا دیا جاتا تھا۔ 

انہیں دنوں ماں جی کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوگیا۔ وہ پتلی دبلی تھیں اور مرض نے ان پر اپنا اثر چھوڑا۔ وقت لگا مگر علاج معالجے کے بعد وہ صحتیاب ہوگئیں۔ ان کی نوکری اب سروسز ہسپتال ہو گئی تھی۔ پرانی انارکلی سے سروسز ہسپتال کا سفر زیادہ تھا اور بچوں کو ہر روز محلے میں کسی پڑوسی خالہ کے پاس چھوڑ کر جانا آسان نہ تھا۔  دوسری طرف مشکل یہ تھی کہ ہسپتال میں کواٹر ملنا نہ صرف مشکل تھا بلکہ اس کے لیے سفارش اور تعلقات چاہیئے ہوتے تھے۔ انہیں دنوں ماں جی کی ایک ساتھی کا تبادلہ کسی اور شہر ہوگیا۔ انہوں نے جاتے ہوئے اپنے کواٹر کی چابی ماں جی کے حوالے کی اور اس طرح ہم لوگ سروسز ہسپتال کے دو کمروں کے کواٹر میں منتقل ہوئے۔ یہ پرانی انارکلی کے ایک کمرے کے گھر سے بہت بہتر رہائش تھی کہ اس میں علیحدہ باورچی خانہ، غسل خانہ، اور صحن تھا۔ ماں جی کے لیے دفتر سے وقت نکال کر گھر کا ایک چکر لگانا بھی اب ممکن تھا۔

ماں جی کے لیے بچوں کی تعلیم بہت اہم تھی۔ ہماری پرانی انارکلی میں رہائش کے دوران مجھے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اگرچہ سروسز ہسپتال سے سکول کا فاصلہ زیادہ تھا مگر مجھے اُسی سکول میں داخل رکھا گیا بلکہ چھوٹے بھائی ضرار کو بھی وہیں داخل کرادیا گیا۔ بہن کو شادمان کالونی میں واقع کریسنٹ ماڈل سکول میں داخل کروایا گیا۔ ہم دونوں بھائی گورنمنٹ سکول جاتے جبکہ بہن انگریزی میڈیم سکول جاتی۔ سب سے بڑھ کر کریسنٹ ماڈل سکول کی فیس ہمارے معاشی حالات کے لحاظ سے زیادہ تھی مگر ماں جی نے بیٹی کو وہیں پڑھوایا، کہتی تھیں بیٹیوں کی تعلیم کی اہمیت زیادہ ہے۔

سروسز ہسپتال اس زمانے میں کنکریٹ کا جنگل نہ تھا۔ وہ ایک صحت افزا ماحول رکھتا تھا۔ کالونی میں ایک مسجد تھی، اسی مسجد کے مولانا مرسلین سے ماں جی اور ابا جی نے عربی پڑھنا شروع کیا تھا۔ مسجد کے قریب بڑے بڑے باغ تھے۔ ان میں سے ایک میں کرکٹ کی پچ بنی تھی جہاں کالونی کے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے۔ دوسرے باغ میں شام کو ٹینس کورٹ بنتا اور ٹینس کھیلی جاتی۔ ڈاکٹروں کے بڑے گھروں کی جیل روڈ کی جانب جو لائن تھی اس کے سامنے جامن کا بہت بڑا باغ تھا۔ ہم نے گرمیوں میں وہاں سے بہت جامن چنے۔ 

سروسز ہسپتال کا علاقہ پہلے ڈسٹرکٹ جیل تھا، سو ابھی بھی جیل کے کمرے نظر آتے تھے۔ سٹاف کالونی کی مسجد کے پیچھے جیل کوٹھریاں ابھی بھی موجود تھیں۔ چند فٹ چوڑائی کی کوٹھری اور لوہے کا دروازہ جن میں سامنے لمبی سلاخیں لگی تھیں۔ ہمارے کچھ بزرگ گاوں میں لڑائی کے نتیجے میں اس جیل میں بند رہے تھے۔ وہ اپنے علاج کے لیے آئے تو ہم بچوں کو جیل کا حدود اربع بتانے لگے کہ یہاں موت کی سزا کے قیدی بند رہتے تھے۔ وہ جگہ جو قید کا مکان تھی اب علاج کا مسکن تھی۔ وہ کوٹھری جس میں آزادی کا نعرہ لگانے پر بھگت سنگھ اور دوسرے دیوانے بند رہے، اب اس میں مسجد کا موذن رہتا تھا۔ جگہ مقدس ہو تو فلاح کا نعرہ وہاں سے ابھرتا رہتا ہے۔ 

سروسز ہسپتال کے دوسری جانب پاگل خانہ تھا۔ سٹاف کالونی سے نکلیں تو مٹی کی ایک موٹی اونچی دیوار تھی۔ یہ جیل کی حد رہی ہوگی، بچپن میں کسی نے بتایا تھا کہ مٹی کی دیوار اس غرض سے بنی تھی کہ گولیوں اپنے اندر سمو لے۔ اس دیوار کی دوسری جانب پاگل خانے کی دو منزلہ عمارت تھی۔ اکثر وہاں سے گذرتے دوسری منزل کے کمروں سے مریض نظر آتے، بعض اوقات وہ کپڑوں کے بغیر بھی نظر آتے۔ کبھی بازار سے روٹی لینے جانا ہوتا تو وہ راہ شارٹ کٹ تھا مگر عموماً لمبے راہ سے جاتا تھا کہ وہاں سے گذرتے ڈر لگتا تھا۔ 

ماں جی سروسز ہسپتال کے نرسنگ سکول کی انچارج تھیں۔ یہ نرسنگ سکول اس لحاظ سے الگ تھا کہ یہاں لڑکوں یعنی میل نرسنگ کی تعلیم و ٹریننگ بھی دی جاتی تھی سو ماں جی کے شاگردوں میں بہت سے لڑکے تھے۔ اُن میں سے کئی ایف ایس اسی کرنے کے بعد آتے تھے کہ میڈیکل کالج کا داخلہ کچھ نمبروں سے نہ ہوا تو پھر نرسنگ کی جانب آ گئے۔ میل نرسوں میں سے کئی بعد میں خلیجی ممالک میں روزگار کے لیے چلے گئے۔ برسوں بعد بھی ان میں سے کچھ ماں جی کو سلام کرنے ہمارے گھر کا پتہ کر کے پہنچ جاتے تھے۔

ماں جی دن کو وہاں پڑھاتیں اور شام کو ہمارے گھر پر آس پاس کے کواٹروں کے بچے بغیر فیس پڑھنے آتے۔ وارڈ بوائز، ڈسپنسرز، ٹیکنیشنز کے بچے، شام کو ہمارے گھر میں رونق لگتی۔ گرمیوں میں یہ بچے اپنی اپنی بوریاں ساتھ لاتے، صحن میں سائے میں ایک جانب بچھا کر بیٹھ جاتے، پیڈسٹل پنکھا لگا دیا جاتا۔ ماں جی باری باری ایک ایک کا سبق دیکھتیں، اگلا سبق دیتیں۔ چولہے پر ہانڈی بھی رکھی ہوتی، کبھی خود چمچہ پھیر آتیں، کبھی پڑھنے آنے والی بڑی بچیوں میں سے کسی کو بھیج دیتیں۔  ماں جی کی وفات کے بعد اُن بچیوں میں سے ایک ملنے آئی۔ کہنے لگی، ماں جی نے راستہ دکھایا تھا کہ میں نے خود بھی نرسنگ کرلی اور اپنے خاندان کی کفالت میں شریک ہو گئی۔ بچیاں پڑھی ہوں تو ہانڈی پکاتے ایک اگلی نسل پڑھا جاتی ہیں۔

وہ زمانہ عسرت و تنگ دستی کا تھا۔ ابا کے پاس بائیسکل تھی، بعد میں انہوں نے نوکری کے ساتھ ٹافیوں کا کاروبار شروع کیا تو موٹر سائیکل خرید پائے۔ اسی دوران ہم دو کمروں کے کواٹر سے تین کمروں کے کواٹر میں شفٹ ہوگئے۔ اس گھر کا صحن بھی بڑا تھا سو اس کے ایک کونے میں ایک بڑا پنجرہ ابا نے اینٹوں، سیمنٹ سے بنایا۔ اس کے دو حصے تھے، پہلے حصے میں جالی لگائی گئی تھی جس پر سردیوں میں چق ڈال دی جاتی تھی جبکہ دوسرا حصہ اینٹوں سے پوری طرح بند تھا، اندر جانے کے لیے صرف ایک دروازہ سائید پر تھا۔ انڈے دینے والی مرغیوں کی نسل لئیر کے چوزے لائے گئے۔ اس کے علاوہ چتکبری مصری مرغیوں کے چوزے بھی لائے گئے۔ شروع میں انہیں چھوٹے پنجروں میں رکھا گیا جن میں برقی بلب ضروری حرارت پیدا کرتے تھے۔ جب وہ چوزے بڑے ہو گئے تو بڑے پنجرے میں ڈال دیا گیا۔ کالونی کے رہائشی ہم سے انڈے خریدتے تھے سو اس طرح کچھ اضافی آمدنی ہو جاتی تھی۔ اس کے علاوہ ہم اپنے صحن میں سبزی بھی لگاتے تھے۔ ماں جی کو پودوں سے بہت دلچسپی تھی۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ گھر کی سبزی کی دیکھ بھال خود کرتی تھیں، اکثر صبح وہ سبزی کے پودوں میں گوڈی کرتی نظر آتی تھیں۔ 

چھٹی کا دن ہوتا تو ماں جی ہمیں پیدل لے کر باغ جناح کو چل پڑتیں۔ سروسز ہسپتال سے نکل کر باغِ جناح کے اس کونے پر آتے جس کا اب نام چائنہ چوک رکھ دیا گیا ہے۔ جناح باغ میں اِس طرف ناشپاتیوں کا ایک باغ اور بچوں کے جھولے تھے۔ ہم وہاں خوب دوڑ بھاگ کرتے، کھیلتے اور گھر سے ساتھ لائے کھانے پینے پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد واپس پیدل گھر جاتے۔ 

سروسز ہسپتال میں وقت گذارنے کے بعد ماں جی کی ترقی ہونا تھی جس کے ساتھ تبادلہ بھی ہونا تھا۔ ماں جی نے جہلم اور سرگودھا کا چناو کیا کہ ان میں سے ایک میں تبادلہ کر دیا جائے۔ دونوں شہروں میں کیڈٹ کالج تھے، ماں جی کے ذہن میں بچوں کی تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی تھیں۔ 

انیس سو اکیاسی میں ماں جی کی تبدیلی نرسنگ سپرننڈنٹ کے طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال سرگودھا ہوگئی جبکہ ابا کی سرکاری نوکری لاہور ہی رہی۔ ابا دو ہفتوں بعد سرگودہا کا چکر لگاتے۔ سرگودہا شہر اور اس کے باسیوں کا لاہور سے الگ مزاج تھا۔ علاقے کے زمینداروں کا رہن سہن فرق تھا، پیسہ بہت تھا۔ سٹیلائیٹ ٹاون میں بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں، شکاری کتوں کو نوکر شام کو سیر کروارہے ہوتے، اصیل مرغوں کو خصوصی خوراک کھلائی جاتی۔ شہری آبادی میں کافی بڑی تعداد ہجرت کے بعد سرگودہا بسنے والے مہاجرین کی تھی جنہوں نے اپنی محنت سے اپنا مقام بنا لیا تھا۔ ہسپتال میں کام کرنے والا عملے اور ڈاکٹروں کی ایک تعداد مقامی تھی اور ان کے اطوار میں عورت کو برابری کا رتبہ نہیں دیا جاتا۔ اس کے علاوہ سیاسی مداخلت کا عنصر بھی تھا۔ ماں جی نے جلد ہی ہسپتال میں اپنی جگہ بنالی اور ایک اچھی منتظم کا کردار ادا کرنے لگیں۔  

علاقے میں دشمنیاں تھیں اور ہر دوسرے ماہ ہسپتال کے مردہ خانے کے باہر آہ وبکا کرتے ایک ہجوم ہوتا جو کسی دشمنی کے شاخسانے میں قتل ہونے والوں کو رو رہا تھا۔  ڈسٹرکٹ ہسپتال سرگودہا میں عیسائی نرسز کی تعداد کافی تھی۔ سرگودہا کے علاقے میں عیسائی مشنریز نے تعلیم پر کافی کام کیا تھا اور اس وجہ سے تعلیم اور صحت کے اداروں میں ان کا کردار قابلِ ستائس تھا۔ سرگودھا کے کانونٹ سکول کا تعلیم کے سلسلے میں بڑا نام تھا۔ بہن کو کانونٹ میں داخل کروادیا گیا۔ 

ماں جی کو احساس تھا کہ میٹرک کے بعد کی تعلیم انگریزی میں ہوتی ہے اور اردو میڈیم کے طالب علموں کو اُس وقت بڑی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ماں جی نے ہم دونوں بھائیوں کو ایک پرائیویٹ انگریزی سکول میں داخل کروادیا۔ میرے لیے وہ وقت بہت مشکل تھا کیونکہ اردو میں ریاضی پڑھتے پڑھتے اب تمام اصطلاحات انگریزی میں سامنے تھیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی آٹھویں جماعت کی بنیادی سی انگریزی کی کتاب سے یک دم آکسفورڈ کی انگریزی کتاب کی چھلانگ نے مجھے چاروں شانے چت گرا دیا۔ میں پہلے سہ ماہی امتحان میں چار مضامین میں فیل تھا۔ ماں جی میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں اور مجھے ہر شام کو پڑھاتیں۔ انگریزی میرے لیے بہت مشکل تھی مگر میں آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ ماں جی آکسفورڈ کی وہ مشکل کتاب بڑی آسانی سے مجھے پڑھا دیتی تھیں۔ کسی ٹیوشن کے بغیر ماں جی نے ہی دونوں بھائیوں کو پڑھایا۔ کچھ عرصے بعد جب ہماری تعلیمی حیثیت بہتر ہوگئی تو ماں جی نے ہم دونوں بھائیوں کو ایر بیس انٹر کالج میں داخل کروا دیا۔ ماں جی کی محنت کا یہ اثر ہوا کہ دو سال بعد میٹرک کے امتحان میں سکول کے تمام لڑکوں میں اول آیا۔ 

ماں جی چاہتی تھیں کہ میں ڈاکٹری کا شعبہ اختیار کروں جبکہ میں اردو پڑھنا چاہتا تھا۔ ہم میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی تھی۔ ماں جی کو علم تھا کہ میں اپنے ریاضی کے استاد نور محمد لالی سے بہت متاثر ہوں۔ ایک دن شام کو دیکھا کہ نور محمد صاحب ہمارے گھر چائے پر موجود ہیں۔ بات چیت ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آگے پڑھنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ اردو پڑھنے کا خیال ہے جبکہ ماں جی میڈیکل پڑھنے کا کہہ رہی ہیں۔ ماں جی بھی اس گفتگو میں شریک تھیں۔ نور صاحب نے کہا کہ تمہارا ریاضی کا مضمون اچھا ہے، تم اردو کی بجائے انجینئرنگ کے شعبے کی جانب چلے جاو۔ اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں انجینئرنگ کی جانب ہوگیا۔ مجھے بہت عرصے بعد سمجھ ائی کہ اُس دن کی ملاقات اتفاقیہ نہ تھی۔ 

ماں جی کے سرگودہا تبادلے کا  مقصد بھی پورا ہوگیا کہ میٹرک کے بعد میرا داخلہ پی اے ایف کیڈٹ کالج میں ہوگیا، گو زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوگیا کہ اُس کے بعد اپنے گھر بھی بطور مہمان ہی جانا ہوتا تھا۔  میں کیڈٹ کالج میں تھا کہ ماں جی کا تبادلہ رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں بطور نرسنگ سپرننڈنٹ ہوگیا۔ میں سرگودھا سے آگے رسالپور عازم سفر ہوا جبکہ ماں جی اب سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع رحیم یار خان کے ہسپتال میں خدمتِ انسانیت کر رہی تھیں۔ ماں جی روانی سے سندھی زبان بولتی تھیں اور رحیم یارخاں کے ہسپتال میں سکھر تک کے دیہاتوں سے مرِیض آتے تھے۔ سرگودھا ہسپتال میں ایک دفعہ ایک بوڑھا فقیر زخمی حالت میں لوگ لے کر آئے۔ فقیر کو اردو اور پنجابی دونوں زبانیں نہ آتی تھیں۔ نہ وہ اپنا پتہ بتا پا رہا تھا نہ علاج کی بات سمجھتا تھا۔ ماں جی تک معاملہ پہنچا تو وہ وہاں پہنچیں۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھتا وہ فقیر ٹرین پر چڑھ کر سرگودھا آن پہنچا تھا کہ کسی حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ ماں جی کی صورت میں اُسے کوئی اپنی بولی بولتا مل گیا۔ ماں جی نے اُس کا خوب خیال کروایا اور جب وہ صحت یاب ہوا تو اُس کے علاقے کی ٹکٹ خرید کر ریل گاڑی پر سوار کروا کر بھیجا۔ جو لوگ راہ دکھانے کے لیے چُن لیے جائیں، ان کے پاس مسافر خود ہی بھیج دیے جاتے ہیں۔  

رحیم یار خان میں ماں جی کی تعیناتی کے دوران ایک سٹاف نرس کی انکوائری آرڈر ہو گئی۔ کسی مریض کی موت واقع ہوئی جس دوران وہ ڈیوٹی پر تھیں مگر وہ ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل پیرا تھیں۔ اپنے اردگرد دیکھ لیجیئے صرف چھوٹے ہی سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ عدالتی کمیشن بن کر رپورٹیں بھی بن جائیں تو وہ رپورٹیں کبھی سامنے نہیں آتیں، ظلم سامنے دندناتا پھرتا ہے۔ قوموں کی تباہی کی وجہ بڑی چھوٹی ہے۔ اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی وہ نرس محکماتی سازشوں کا بھی شکار تھیں، جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بات چیت میں بڑی لٹھ مار تھیں۔ ماں جی جانتی تھیں کہ اُن کا کوئی قصور نہیں سو ماں جی نے اُس کی رہنمائی اور مدد کی۔ ایسا رشتہ قائم ہوا کہ وہ نرس ماں جی کی وفات تک لاہور ہمارے پاس آتی تھیں اور بیٹیوں کی طرح اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ ہمارے لیے باجی ایک گھر کے فرد کی مانند تھیں اور ہر کرسمس پر ماں جی اُن کے لیے تحفہ بھجواتی تھیں۔ 

رحیم یارخان میں ہمارا گھر عیدگاہ سے متصل تھا۔ صبح کے وقت عید گاہ میں واقع درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ سے آنکھ کھلتی تھی۔ چھوٹے شہروں کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے جو بڑا مزا دیتا ہے۔ یہیں چھوٹے بھائی نے سکول جانے کے ساتھ ساتھ شوق سے کرسیاں بُننے کا کام سیکھا۔ میں اُن دنوں رسالپور میں ٹریننگ میں تھا سو رحیم یار خان تک کا فاصلہ بہت دور پڑتا تھا اور میں صرف زیادہ چھٹیوں میں ہی گھر آسکتا تھا۔ رحیم یار خان سے ماں جی کی پوسٹنگ لاہور ڈائرکٹریٹ آف نرسنگ میں بحثیت ڈپٹی ڈائریکٹر ہو گئی۔  

لاہور میں سرکاری گھر نہ ملا سو صدر میں ایک چھوٹا گھر خرید کر رہائش اختیار کرلی۔ ماں جی کی خواہش تھی کہ بچوں میں سے کوئی طب کے شعبے میں جائے، سو بہن کو ایف ایس سی کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تو ماں جی بہت خوش ہوئیں۔ ماں جی کچھ عرصہ ڈائریکٹریٹ میں رہیں اور پھر اس کے بعد لاہور میں پوسٹ گریجویٹ کالج آف نرسنگ کی پرنسپل مقرر ہوگئیں۔ انہیں دنوں ان کے دوسرے بیٹے ضرار نے میٹرک کرنے کے بعد ایرفورس میں پائیلٹ کے لیے آئی-ایس-ایس-بی کا امتحان پاس کرلیا، مگر بعد میں اسی امتحان کی بنیاد پر بحریہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ بحریہ میں کمیشن لینے کے بعد ضرار نیوی کے ہوابازی کے شعبے میں چلا گیا۔ اس سلسلے میں اُس نے رسالپور میں فضائیہ کی اکیڈمی سے ہوابازی کی تربیت مکمل کی۔ 

ماں جی بچوں کی تعلیم میں حد درجہ دلچسپی لیتی تھیں۔ اُن کی حوصلہ افزائی کے باعث میں ایک قومی سطح کے مقابلے کے بعد بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لیے منتخب ہوگیا۔ ماں جی اس دوران ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب کے عہدے پر مقرر ہو گئیں۔ 

ماں جی آٹھ اگست انیس سو ننانوے کو محکمہ صحت میں تقریباً اٹھتیس سال کی نوکری کے بعد ریٹائر ہوئیں۔ ان کی زندگی کی جدوجہد کا ثمر سامنے تھا۔ تین بچوں میں سے ایک انجینئیر، ایک پائلٹ اور ایک ڈاکٹر بن گئے تھے۔ ماں جی اپنے چھبیس سالہ بیٹے کی شادی کا پروگرام بنا رہی تھیں، بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے باعث ضرار ویسے بھی سب کا لاڈلا تھا، گو چھ فٹ دو انچ قد میں وہ خاندان کا سب سے لمبا فرد تھا۔  امید تھی کہ اب ماں جی کی زندگی میں سکون و اطمینان کا دور شروع ہوگا، مگر قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ صرف دو دن بعد دس اگست انیس سو ننانوے کو ضرار ہوابازی کے ٹریننگ مشن پر تھا کہ بدین کے قریب بھارتی جنگی جہازوں نے اس کے جہاز کو میزائل مار کر تباہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ضرار اور اس کے پندرہ ساتھی شہید ہو گئے۔ اس واقعے نے پورے پاکستان میں کہرام مچا دیا۔ اس جہاز کی تباہی کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جایا گیا۔

اس سانحے کے بعد ماں جی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ ایک کاری ضرب تھی، پورا خاندان اس سے متاثر ہوا۔ ہماری زندگیوں نے اس واقعے کے بعد ایسا موڑ لیا جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ 

ماں جی نے اس سانحہ پر سوال اٹھایا۔ کیوں ایک نہتا جہاز بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے گھنٹوں سے سرحد کے قریب اُڑ رہا تھا؟ کیسے دشمن ایک جہاز کو تباہ کر کے اس کا ملبہ تک اٹھا کر لے جاتا ہے اوراس کا کوئی قرار واقعی جواب نہیں دیا گیا؟ کون ان سولہ شہادتوں کا ذمہ دار ہے؟ ہمارے بچے اتنے بے قیمت کہ مار دیے جائیں اور کوئی جواب بھی نہ دیا جائے؟ کیا شہادتوں کے مقدمے عدالتوں میں لڑے جاتے ہیں؟ رزمِ حق و باطل میں تو فولاد ہونا چاہیئے، دشمن کو اس کے حملے کا کاری جواب ملنا چاہیئے۔  ماں جی نے ضرار کی شہادت پر دیے جانے والے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ 

ہمارے یہاں شہادت کا تمغہ سستا ترین ہے۔ شہید کا بڑا مقام ہے، اس کے خاندان کی بڑی حیثیت ہے۔ انہیں کوئی سوال نہیں کرنا، وہ چپ ہو جائیں۔ اگر وہ سوال کریں گے تو وہ چھوٹے لوگ ہیں، وہ کچھ فائدہ اُٹھانا چاہ رہے ہیں۔

 " اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے"، مگر خدارا ان پتروں کو بے قیمت بھی تو نہ کرو۔ انہیں ہاتھ باندھ کر دشمنوں کے سامنے تو نہ پھینکو۔ دشمن ان کی موت پر خوشیاں منائے، اعزاز بانٹے، ان شہیدوں کا ذاتی سامان اٹھا کر لے جائے اور نمائش پر لگائے، اور تم کہو کہ چپ رہو، رو لو کہ تم شہید کی ماں ہو مگر سوال نہ کرو۔ بیانیہ وہی ہو جو بتایا جائے۔ سوال نہ کرو کہ سوال جرم ہے۔  انکوائریاں ہوں گی اور کسی الماریوں میں دیمک کا شکار ہو کر ختم ہو جائیں گی، اور دیمک پھیلتا ہی چلا جائے گا۔

 جن کے بیٹے نہتے مارے جائیں، چاہے اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھائے گئے ہوں، چاہے نیند قربان کرکے ان کے خواب دیکھے گئے ہوں، چاہے وہ سکول پڑھنے گئے ہوں اور مارے جائیں۔ ان کے سینوں پر شہید کے بیج لگادو، ان کی ماوں پر عقیدت کی چادر چڑھادو، سبز رنگ کی چادر، چاروں طرف سے سبز چادر لپیٹ دو کہ وہ چپ رہیں۔ پھر بھی اگر وہ مائیں پوچھیں کہ یہ کیوں ہوا تو اس پر ملعون زبانیں زہر اگلنے لگیں۔ وہی جو پہلے معتبر تھیں اگر احتساب کی بات کریں تو قابلِ نفرت ٹھہریں۔ 

 مملکتِ خداداد میں ماں جی بارش کا وہ پہلا قطرہ تھا جس نے شہادت سے متعلقہ سوال اٹھایا اور قابلِ مذمت ٹھہریں۔ 

ماں جی عام انسان نہ تھیں۔ وہ  بہت سے لوگوں کی ذہنی سطح سے اوپر تھیں، اور نچلی سطح کے لوگوں کی بات بھی چھوٹی ہوتی ہے۔ نیول ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر ویلفئیر کے عہدے پر فائز سفید وردی میں ملبوس شخص کے کندھوں پر سنہری رینک چمک رہے تھے مگرمیرے لیے اُس کی باتیں گھٹیا اور تکلیف دہ تھیں کیونکہ اس کی ذہنی سطح یس سر سے آگے دیکھنے سے قاصر تھی۔ نوکری میں ترقی کے خوگر رائے کے فرق سے خوفزدہ رہتے ہیں، اوپر والے کی رائے سے رائے ملاتے ہیں اور نچلے کی فرق رائے کو دباتے ہیں۔ ایک وجہ سے میں اُس دفترمیں تھا۔   

ماں جی نے ہمیں کہا کہ وہ ضرار کے نام پر ہسپتال بنانا چاہیں گی۔ ابا بھی متفق تھے، مگر ہمیں ادراک تھا کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ ہم حالتِ غم میں تھے، نوکری پیشہ ہونے کے لحاظ سے ہمارا کاروبار کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ ہسپتال بنانے کا پراجیکٹ بہت پیسے کا متقاضی تھا۔  ضرار کی شہادت کے بعد کچھ  واجبات حکومت سے ملے تھے۔ نیز وہ کئی سال سے نیول ہاوسنگ سوسائٹی کا رکن تھا اور ماہانہ ادائیگی کررہا تھا۔ اس ہاوسنگ سکیم کی انشورنس بھی تھی جس کے لحاظ سے رکن کی موت پر انشورنس کمپنی گھر کی تعمیر کی ادائیگی کرے گی۔ ضرار کی شہادت کے بعد محکمہ گھر دینے سے انکاری ہوگیا۔ تاویل یہ دی گئی کہ کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا سو گھر نہیں دیا جائے گا۔ شہید کے ماں باپ بڑے رتبے والے ہیں مگر وہ گھر دینے کے معاملے میں خاندان کی تعریف میں نہیں آتے۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر گھر مل جائے تو اُسے فروخت کر کے ہسپتال کی تعمیر میں لگادیں گے۔ میں اس سلسلے میں ڈپٹی چیف آف نیول سٹاف سے ملا، جن کے محکمے کے نیچے یہ معاملہ آتا تھا۔ میں اپنے ساتھ آرمی اور ایرفورس کے ان غیر شادی شدہ افسران کی مثالیں لے کر گیا جن کے ماں باپ کو ان کی وفات کے بعد گھر دیا گیا تھا۔ ان میں چکلالہ ایر بیس پر سی-ون- تھرٹی طیاروں میں شہید ہونے والے ایک غیر شادی شدہ فلائنگ آفیسر کی مثال تھی۔ وائس ایڈمرل صاحب فرمانے لگے کہ آرمی اور ایر فورس کے پاس زمین ہے، وہ دے سکتے ہیں ہم نہیں دے سکتے۔ ان کے نزدیک زندہ افسران کو شہیدوں پر فوقیت تھی۔ 

ایک فلاحی ہسپتال بنانا مشکل کام تھا سو اس وجہ سے بحریہ کے ویلفیئر ڈائریکٹریٹ سے رابطہ کیا گیا۔ کچھ تجاویز پیش کیں۔ میں اسی سلسلے میں ڈائریکٹر ویلفیئر کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ ہماری پیشکش تھی کہ ضرار کی شہادت پر ملے تمام واجبات ہم سے لے لیے جائیں اور اس کے نام پر ایک ٹرسٹ بنا دیا جائے جسے کا انتظام نیوی سنبھالے اور ہمارے خاندان میں سے ایک فرد اس ٹرسٹ کا ممبر ہو۔ دوسری پیشکش تھی کہ ہم ٹرسٹ بناتے ہیں اور نیوی کا ایک نمائندہ اس ٹرسٹ کا رکن ہو۔ اُس میٹنگ میں ڈائریکٹر ویلفئیر نے شہید کے خاندان کے متعلق نامناسب گفتگو کی۔ ان کا قصور شاید نہ ہو کہ وہ معاملات کو اپنی ذہنی بساط کے مطابق ہی دیکھ سکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ 

محکمے سے جواب ملنے کے بعد ماں جی اور ابا نے کہا کہ ہم خود یہ جدوجہد کریں گے۔ اول مرحلہ مناسب زمین کی خریداری تھی۔ زمین کے سلسلے میں ابا جی نے ڈھونڈ شروع کی۔ یہ کام آسان نہ تھا، زمین کے سلسلے میں اتنے فراڈ کی کہانیاں سننے میں آتی ہیں کہ ڈر لگا رہتا ہے۔ کچھ ماہ اسی ڈھونڈ میں لگ گئے، پھر برکی روڈ پر باو والا میں چھ کنال کے لگ بھگ زمین خریدی گئی۔ جس وقت زمین کی ادائیگی کردی تو پراپرٹی ڈیلر اور زمیںن فروخت کرنے والے میں لڑائی ہوگئی اور ہمیں پتا لگا کہ پراپرٹی ڈیلر نے ڈیل کی قیمت زیادہ کرکے اپنا حصہ زیادہ نکالا تھا گو کہ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک فلاحی مقصد کے لیے خریدی جارہی ہے۔ 

دو ہزار ایک کے سال میں زمین خرید کر ہم اپنا کام شروع کر رہے تھے کہ ماں جی کی گردن پر ایک گلٹی نمودار ہو گئی۔ اس کا آپریشن کروایا گیا اور پتہ لگا کہ کینسر گردن سے پھیل رہا ہے۔ ماں جی کے کینسر کا علاج شروع ہوگیا۔ کیموتھراپی اور ریڈیشن کے ذریعے سخت علاج میں تقریباً دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ 

ماں جی کی صحت بہتر ہوئی تو خریدی زمین پر دو کمروں کی ڈسپنسری تعمیر ہوئی اور ایک ڈاکٹر، ڈسپنسر اور لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہ پر رکھ کر ماں جی نے وہاں بیٹھنا شروع کردیا۔ ماں جی وہاں سب کی آپا تھیں۔ گاوں کی عورتوں کو ماں جی نے اپنے انداز سے تعلیم دینا شروع کردی۔ کھانے سے قبل کیسے ہاتھ دھوتے ہیں، بچوں کی کیسے دیکھ بھال کرتے ہیں۔ عورتیں اپنے گھروں کے مسائل میں ان سے رہنمائی حاصل کرنے لگیں۔ وہ غریبوں کے علاج میں اپنا کردار ادا کرنے لگیں۔ آج ماں جی کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ سے چھ سال ہوگئے ہیں، مگر اب بھی کوئی اپنے گاوں سے ساگ لے کر خاتون آجاتی ہے کہ یہ آپ کے خاندان کے لیے میری طرف سے ایک نذر ہے کہ آپا نے میری ماں کی آنکھیں بنوائی تھیں۔ 

ماں جی آس پاس کے سکولوں میں جا کر بچوں سے ملتیں۔ سکولوں کی انتظامیہ نے انہیں بچوں سے خطاب کے لیے بلانا شروع کردیا۔ ماں جی اچھی مقرر تھیں، اس کے علاوہ مطالعہ اور ساری زندگی کی جدوجہد نے ان کی باتوں میں گہرائی پیدا کردی تھی۔ وہ علاقے میں مشہور ہوتی چلی گئیں۔ ان کی ہسپتال بنانے کی کاوش میں دوسری خواتین بھی شامل ہوتی گئیں۔ اب یہ ہسپتال کا بننا خواتین کی جدوجہد تھی، اور جب مائیں کچھ ٹھان لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی۔

 ماں جی نے ارد گرد دیہات میں طبی کیمپ لگانا شروع کردیے۔ اس کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں پر بھی کیمپ لگا کر وہاں کے مزدوروں، عورتوں اور بچوں کو طبی امداد دیتیں۔ ہسپتال کی بڑھوتی کا کام بھی ساتھ چلاتی تھیں۔ اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کی تفصیل دینا آسان نہ ہوگا۔ فنڈز کی کمی، عملے کے مسائل، چوری چکاری، ٹھیکیداروں کی نوسربازیاں، میٹیریل و تعمیر کی مشکلات، سرکاری سرخ فیتہ، غرض ایک لمبی فہرست ہے۔ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر ماں جی عام عورت نہ تھیں۔ آج ضرار شہید ہسپتال میں کام کرنے والے زچہ و بچہ، آنکھوں، دانتوں، ایمرجینسی کے شعبے، ڈائیلیس سنٹر اور دوسری سہولیات اِس عورت کی یاد دلاتے ہیں جسے کم ظرفوں کی باتوں سے تکلیف تو پہنچی مگر اس نے باتوں کو برداشت کیا اور عمل سے ان کم ظرفوں کو مات کر کے دکھادیا۔ ماں جی کو اپنے نرس ہونے پر فخر تھا۔ کہتی تھیں کہ یہ خدمت کا شعبہ ہے۔ ہم، ان کے بچے بھی اپنی ماں پر فخر کرتے ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک قصہ یاد ہے جس میں ہمارے ایک رشتہ دار نے ہم پر طنز کرتے کہا تھا، تم نرس کے بچے ہو۔ مجھے اُس وقت اس بات کی سمجھ نہ آئی تھی، آج مگر یہ جان گیا ہوں کہ عمل بات سے کہیں بلند بولتا ہے۔ وہ رشتہ دار اور کچھ رینک کی بیساکھیوں سے بڑے بنے جو ماں جی کی دل آذاری کے مرتکب ہوئے تھے، کچھ عرصے میں مٹی میں گمنام ہو جائیں جبکہ ضرار شہید ہسپتال کی شکل میں خدمت کا سفر ایک عورت کی جدوجہد کا نشان بن کر زندہ و پائندہ رہے گا۔ 

دو ہزار چودہ میں ماں جی کا کینسر دوبارہ گردن میں گلٹی کی شکل میں آگیا۔ اب وہ بہت تیزی سے آیا تھا۔ ماں جی ایک جنگجو تھیں، سو اس کے مقابلے میں ڈٹ گئیں۔ گلے کے قریب آپریشن سے بولنے میں مشکل پیش آنے لگی مگر آپ پھر بھی ٹرسٹ ہسپتال جاتی تھیں۔ یہ نظر آرہا تھا کہ کینسر اب پھیل چکا ہے۔ ماں جی کو بھی اس کا ادراک ہو گیا تھا۔ اپنی تدفین کے لیے پیسے نکال کر مجھے دیے اور کہا کہ میرے بعد سب رشتہ داروں سے اچھی طرح ملتے رہنا۔ اس میں کوئی اچھے یا برے کی تفریق نہیں کی۔ 

جولائی دو ہزار سولہ میں ماں جی کی وفات ہوئی تو میں اُن کے پاس تھا۔ ان کے آخری وقت میں ان کے بستر کے پاس تھا۔ انہوں نے آخری سانس لی اور اگلے سفر کی اڑان پر چل نکلیں اور میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ میں ماتم کروں کہ یہ ایک شکر کی گھڑی ہے۔ اللہ نے مجھے کیا خوبصورت موقع دیا تھا، اُس عورت کے پاس رہنے کا، اُس کو دیکھنے کا، اُس سے سیکھنے کا، جو کہ ایک رہبر تھی۔ میں ماں جی کی موت کے لمحے سے اُس وقت کا احساس کر پایا تھا جب مالکِ کائنات نے فرشتوں کو آدم کا سجدہ کرنے کا کہا تھا ۔ وہ اُسی اسرار کی ایک کڑی تھیں جب مالکِ ارض و سما نے ملائکہ کو کہا تھا کہ اِس مٹی کی تخلیق کو سجدہ کرو کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے اپنے کرم سے مجھے اُس اسرار کو محسوس کرنے کا موقع دیا تھا، یہ اُس کی عطا کا شکر ادا کرنے کا موقع تھا۔

ماں جی دو تین ماہ سے ہی کہہ رہی تھیں، " جانے کا وقت آ گیا ہے"۔  مگرمجھے لگتا تھا کہ ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ رمضان کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا اورمجھے یقین تھا کہ ماں جی کے سفر کے لیے رمضان کا ہی مہینہ ہوگا۔ ایسا ہی ہوا ، دو ہزار سولہ کے رمضان کے آخری عشرے میں وہ اطمینان کے ساتھ چلی گئیں۔ ان کے چہرے پر سکون اور وقار تھا، ایسا جو کسی وفا شعار کے چہرے پر ہوتا ہے جس نے اپنے سپرد کام پوری دیانتداری، ایمانداری اور محنت سے پورا کردیا ہو ۔ ایسی محنت کہ جس سے ہڈیاں چٹخ گئی ہوں، جسم شل ہو گیا ہو، بدن کا رواں رواں ٹوٹ گیا ہو، مگر وہ محنت خود کو شانت کر گئی ہو کہ ذمہ داری ادا کرنے میں کوئی کو تاہی نہیں ہوئی۔ میں نے ماں جی کے ماتھے کو چوما اور ہاتھوں سے اُنہیں محسوس کیا۔ اب کے بعد وہ نہ ہوں گی۔

بہن اور چند رشتہ دارخواتین جنہوں نےانہیں غسل دیا بتلایا کہ جسم بالکل تروتازہ تھا، اور خواہش کی کہ ایسی موت اُن کو بھی میسر ہو۔ جنازہ ظہر کی نماز کے بعد تھا۔ فیصل مسجد کے ساتھ کے گراونڈ میں لوگ اکٹھے تھے، میں میت کے ساتھ کھڑا تھا۔ لوگ آکر افسوس کر رہے تھے- ایسے میں ایک دیہاتی آگے بڑھا، ادھیڑ عمر، سفید ریش، سر پر سفید کپڑا باندھے ہوئے۔ میں انہیں نہ جانتا تھا، میرے گلے لگا اور کہنے لگا کہ ضرار شہید ٹرسٹ ہسپتال کے ساتھ کے گاوں سے آیا ہوں، آپا کی وفات کا پتہ لگا، جنازہ کے لیے حاضر ہونا ضروری تھا۔ میرے کان میں کہا، "پتہ نہیں تجھے پتہ ہے کہ نہیں، تیری ماں ولی اللہ تھی"۔ میں کیا جواب دیتا، میں تو پہلے ہی اُنہیں ماں کے طور پرجانتا تھا۔

غضب کی گرمی پڑرہی تھی، روزہ بھی تھا۔ ظہرکی نماز کے بعد جب امام صاحب جنازہ پڑھنے لگے تو آسمان پر بادل کا ٹکڑا آ گیا اور ہوا چلنے لگ گئی۔ ایک نمازی نےاپنے ساتھ والے سے اس یکایک تبدیلی کا ذکر کیا تو دوسرے نے فوراً کہا ، "چپ رہو ، یہ بولنے کا نہیں محسوس کرنے کا لمحہ ہے "۔

ماں جی، کبھی اپنے بیٹے کی قبر پر نہ گئیں۔ اپنا مقصد اس کے نام پر ہسپتال کی تعمیر بنا لیا۔ آتے جاتے، دن میں کئی چکر قبرستان کے سامنے سے لگتے، کبھی نہ رکیں۔ صبر کا پتھرسینے پر رکھ لیا تھا، اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی ضرار کی قبر پر نہ گئیں۔ آخر سترہ سال بعد کاندھوں پر سوارآئیں، شہید بیٹے کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئیں۔ میں نے اُنہیں قبر میں اتارا اور اُن کے ساتھ ہی اپنا ایک حصہ بھی چھوڑ آیا۔ اب کون میری پریشانیوں کو بن کہے محسوس کریگا، کس کی دعائیں میرے گرد حصار ہوں گی، کون میرے دیر سے آنے پر دروازے پر کھڑا ہوگا، کون ہے جو بن کہے میرے پسند کے کھانے سامنے رکھے گا۔ آہ ، ایک در بند ہوا ہمیشہ کے لیے۔ مگر باخدا، میں خوش قسمتوں میں سے ہوں میں نے اُس عورت کو قریب سے دیکھا جس نے اپنی مثال سے مجھے عورت کے مرتبے کا بتلایا ہے۔

اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا

نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا




Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com  


#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu

#عاطف ملک


 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ