اور جان لو کہ ہرتکلیف کے بعد آسانی ہے

تحریر : عاطف ملک


جمعہ کا دن ڈیپارٹمنٹ میں  مہمان لیکچرز کے لیے مختص ہے، تین چار دن قبل اساتذہ اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں کو ای میل بھیج کر مقرر کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے۔

مگر یہ جمعہ فرق تھا کہ اس جمعے کو ایک سعودی لڑکی اپنا پی ایچ ڈی کا فائنل ڈیفنس دے رہی تھی۔ میں خصوصاً  یہ سننا چاہ رہا تھا، سعودی طالبعلم یونیورسٹی میں ویسے بھی کم تھے اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے والی سعودی طالبات تو اور بھی کم ہیں۔ حجاب اوڑھے، لمبا عبایہ پہنے طالبہ نے اپنا کام پیش کیا۔  اسکی انگریزی کا لہجہ اس کے علاقے کا پتا دیتا تھا۔ سوالات ہوئے، کچھ کے جوابات دیے، ایک آدھ سوال پراُسکا سپروائزر مدد کو آیا۔ ایسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ ڈگری کے اس آخری مقام پر مقصد  فیل کرنا نہیں ہوتا بلکہ سمجھنا ہوتا ہے۔ سپروائزر نے پہلے ہی کام  کو چیک کیا ہوتا ہے، تھیسس بیرونی ماہرین سے چیک ہوگیا ہوتا ہے، تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہوتے ہیں۔  یہ آخری مرحلہ شاید بس پریشان کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔

حاضرین میں بیٹھے مجھے مختلف خیال آرہا تھا؛ علمی نہیں معاشرتی۔ اس کے لباس کا خیال، سر پر لپٹے حجاب کا، لمبے عبائے کا خیال۔ آسڑیلیا میں گرمیوں کا موسم ہے، اور طالبات  کیا کیا نہ مختصر لباس پہن کر آتی ہیں، ایسے میں ایک طالبہ ایک مختلف لباس میں اپنا چار سال کا کام پیش کر رہی ہے۔ وہ لباس جو یہاں کے معاشرے  سے فرق ہے، صرف فرق ہی نہیں انگلی اٹھاتا فرق۔ ایسے میں مجھ برسوں قبل اپنی یورپی یونیورسٹی کے کچھ ساتھی بھی یاد آگئے۔ وہ بیس، اکیس سال کا سانولا سا لڑکا جس کے پیچھے ایک گوری لڑکی لگی ہوئی تھی اور وہ  اُس سے دور بھاگتا تھا، یا وہ کلاس میں ویلنٹائن  کےدن میرے ساتھی کو دعوت دیتی ساوتھ امریکہ  کی ہسپانوی نزاد  لڑکی کہ جس نے اسے کہا تھا کہ آ اس دیارِغیر میں ہم دونوں مل کر آج محبت کا دن امر کرتے ہیں۔ جواباً اس نے لڑکی کو کہا کہ تو خوبصور ت ہے مگر میں  تیرے ساتھ نہیں جاسکتا۔ میں جانا چاہتا ہوں مگر نہیں جاسکتا۔ لڑکی نے اُسے تاسف سے کہا کہ تو فرق ہے، اس یونیورسٹی کے ہجومِ طلبگاروں میں تو فرق ہے۔ بیوقوف، میں تجھے یاد رکھوں گی۔

  یہ کون لوگ ہیں، اپنے ممالک سے ہزاروں میل دور، اپنوں کی نگاہوں سے دور، اپنے اوپر پابندیاں لگا ئےبیٹھےہیں۔ عبایہ اوڑھے، اپنی نگاہیں نیچے کیے، اپنے نفس کو مارتے، ہجوم طلبگاراں میں اپنا پیالہ الٹ رکھے پیاسے۔ یہ بیوقوف، یہ کون ہیں۔ اس مادی دنیا میں یہ لوگ ایک خیا ل پر اپنے آپ کو مشکل میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ بلاوجہ، عیش کو چھوڑ کرتکلیف لینے والے۔ 

 جو کچھ بھی ہیں، بس جان لیں کہ فرق ہیں۔

سوالات ختم ہوئے، مبارکبادیں دی گئیں۔ اب سٹاف روم میں چائے ہے۔ ابھی کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک مسلم پی ایچ ڈی کے طالبعلم نے کان میں سرگوشی کی، "کرائسسٹ چرچ میں مسجد پر حملہ ہوگیا ہے، ابھی پوری خبر نہیں کہ کتنے لوگ زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں"۔ وقت تھم سا گیا۔ ابھی کچھ دیر بعد یونیورسٹی کے جمنزیم میں ہم نے جمعہ پڑھنا تھا، یہی لوگ جو یہاں ہونگے ایسے ہی وہاں ہونگے۔ میں انہیں جانتا نہیں مگر مجھے پتا ہے کہ کرائسسٹ چرچ کی مسجد میں کون ہونگے۔ میں انہیں جانتا ہوں۔ وہ گھنکھریلے بالوں میں  لمبے پتلے دبلے صومالی، جو قرآن سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ انکا ایک ایک بچہ کئی سپارے یاد کیے ہوتا ہے۔ کیا خوبصورت قاری ہیں، رفع یدین کرتے نوجوان  نماز میں امامت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تلاوت ایک اور جہاں میں لے جاتی ہے۔ میں نے کئی صومالی  طالبات اور طالبعلموں کو  پڑھایا ہے، اُنکی آنکھوں میں چمک ہوتی ہے، جسم پھرتیلے، چہرہ مسکراہٹ آمیز۔ صومالی  محنت کار ہیں، کئی ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ سواری کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑے اپنی ٹیکسیوں میں اکثر قرآن پڑھتے نظر آتےہیں۔

ان میں درمیانے قد کے انڈونیشی اور ملائشی ہیں، عموماً  چہرے پر صرف کچھ بال، خانے دار دھوتیاں پہنے جو آگے سے بند ہوتی ہیں ۔ ہمیشہ اپنے بچوں کو ساتھ لاتے۔ بچے جو نماز کے دوران پیچھے صفوں کو الٹ پلٹ کر رہے ہوتے   یا باپ کے کندھوں پر چڑھ رہے ہوتے یا گود میں بیٹھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر کبھی بھی بچوں کو انہیں ڈانٹتے نہ دیکھا۔ یہ صوفی نظریے کو مانتے، دھیمے لہجے میں بات کرتے لوگ  ہیں۔ ان میں افغان ہیں۔ جنگ پیچھے چھوڑ آئے مگر دل بھی وہیں ساتھ ہی رہ گیا۔ شلوار قمیص سب چھوٹے بڑے  پہنتے ہیں، سر پرسفید گول پٹھانوں والی ٹوپی، بزرگوں کی سفید داڑھی۔ اردو میں بات کرو تو ہر ایک بول پاتا  کہ عمر کا ایک حصہ  پاکستان کی کسی خیمہ بستی میں گذار آئےہیں ۔ اردو  کے ساتھ ساتھ  جوان نسل کرکٹ کا شوق بھی ساتھ باندھے لے آئی ہے۔  اکثر کسی گراونڈ میں شلوار قمیض پہنے ٹیپ بال پر چھکے لگاتے نظر آتے ہیں۔ افغان طبیعیت ان کے کھیل کے انداز میں بھی بخوبی نظر آتی ہے۔ 

انڈین مسلمان ہیں، مختلف علاقوں سے آنے کی بنا پرانکی اردو فرق ہے، ملتے محبت سے ہیں۔ نوجوان نسل میں مسکراتے شرارتی ہیں جو پاکستان سے کرکٹ کے مقابلوں کی کوئی نہ کوئی پھلجڑی چھوڑتے۔ کرتے کے نیچے پاجامہ پہنے بنگلہ دیشی ہیں، ایک تکلیف دہ تاریخ کے باوجود سلام دعا  کرتے ملتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ کے برتاو میں ایک دراڑ سی محسوس ہوتی ہے، ورنہ تو یونیورسٹی میں وہ بنگالی پی ایچ ڈی طالبعلموں کا گروپ ہے، جن کے ساتھ  کئی ماہ میں دوپہر  کے کھانے میں شریک ہوتا رہا۔ اکٹھے میز پر اپنا اپنا لایا کھانا سامنے رکھ کر مل کر کھاتے، بنگالی طریقے کی بنی مچھلی، سبزی، پاکستانی بریانی- سب مل جاتا، آپس میں گھل مل کر سب مل جاتا ہے۔ ساوتھ افریقہ سے آئے انڈین نسل کے اردو بولتے مسلمان ہیں، مذہب ان کے لیے بہت اہم ہے۔ ان کے بڑوں نے نسل پرستی کے خلاف لڑا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ اٹھارہ سال جیل کاٹںے والے احمد کاترادا  کا فخر ان کے ساتھ ہے ۔اپنے لہجے کی  اردو بولتے فجی کے مسلمان ہیں جن کے آباو اجداد کو برطانوی حکمران انڈیا سے کھیت مزدور کے طور پر اٹھارویں صدی کے آخر میں لے  کر گئے تھے۔ گٹھے جسموں والے لبنانی، ترک اورعرب ہیں، بلند آواز بات کرتے یوں کہ لگے کہ ہمیشہ کسی بحث میں ہیں۔ فلسطینی ہیں، گھر سے بے گھر ہوئے۔ سانولے مسلم سری لنکن ہیں، اپنے ملک میں دبائے گئے مگر اپنے مذہب کے ساتھ جڑے کھڑے ہیں۔  پاکستانی ہیں، جذبات جن پر چھائے رہتے ہیں، جلد باز مگر محبت آمیز۔ 

اوران میں نو مسلم بھی ہیں، وہ آسٹریلوی جس نے آج سے دس سال قبل اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔  مجھے کہنے لگا، ہمارے لیے مسلمان ہونا آسان نہیں۔ ہمارے لہجوں میں عربی آسانی سے نہیں چڑھتی، کئی سال تو مجھے اسلام علیکم صحیح کہنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ہم اپنا رہن سہن، ماحول، دوست، خاندان سب چھوڑ کر مسلمان ہوتے ہیں۔ کسی دوسرے کو کیا خبر کہ یہ کیسا مشکل سفر ہے مگر پھر ایسے لوگ بھی ملے جن کے لیے میں ان کے خاندان کا حصہ تھا۔  چند الفاظ کے کلمے نے مجھے انکے خاندان کا حصہ بنا دیا۔ یہ سفر ان کے بنا نہ کٹ پاتا۔ وہیں وہ جاپانی نومسلم بھی ہے جو اپنے نوعمر بیٹے کے ساتھ  ہمیشہ نماز پرآتا ہے، پرسکون، خاموش بہتے دریا  کی مانند پرسکون۔

میں انہیں جانتا ہوں، یہ لوگ فرق ہیں۔ مختلف زبانیں بولتے، مختلف رہن سہن رکھتے، فرق خوراک کھاتے، مختلف علاقوں سے آئے، یہ فرق ہیں۔ اپنے علاقے پر انہیں فخر ہے، مگر یہ یوں فرق ہیں کہ مذہب ان کے تمام تمدنی فخروں پر بھاری ہے۔ 

جمعہ کے وقت تک خبریں واضح ہونے لگ گئی تھیں۔ حملہ آور آسڑیلین ہے، اب تک تیس  شہادتوں کی خبر ہے۔ پرتھ کے دو لوگ شہیدوں میں ہیں۔

جمعہ یونیورسٹی کےجمنیزیم  میں ہورہا ہے۔  یہ چار باسکٹ بال کے کورٹوں کے درمیان میں صفوں پر نمازی بیٹھے ہیں۔ سو گز پیچھے مسلم طالبات کی بھی دو صفیں ہیں۔ چارسو سے پانچ سو تک کا مجمع ہے۔ ایسا ہی جیسا کرائسسٹ چرچ میں تھا مگر یہ کون لوگ ہیں، زمین پر بیٹھے، سامنے کھڑے باریش  ریاضی کے استاد  کا خطبہ سن رہے ہیں۔ استاد جو آج سے کئی دہائیاں قبل فجی سے اسی یونیورسٹی میں ریاضی پڑھنے آیا تھا، اور پھر اسی یونیورسٹی کا ہو کر رہ گیا۔ اس کی آواز  تھر تھرا رہی ہے، ابھی تک اس نے کرائسسٹ چرچ میں مسجد پر حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مگر سب کو پتا ہے، ایسے ہی جیسے ہم صفوں پر بیٹھے ہیں، وہ بیٹھےتھے ۔ ہماری طرح مختلف علاقوں سے آئے۔ کیا کوئی سکیورٹی کا انتظام ہے، کچھ نہیں۔ دروازہ کھلتا ہے۔ ایسے ہی دروازہ کھلا ہوگا اور وہ قاتل داخل ہوا ہوگا۔  نیکروں میں دو کھلاڑی طالبات اند ر داخل ہو گئی ہیں۔ انہیں باسکٹ بال کھیلنا ہے۔ مگر یہ جمنزیم ابھی پندرہ منٹ مزید نماز کے لیے بک ہے، وہ واپس مڑ جاتی ہیں۔  صفوں پر بیٹھے ملک ملک کے طالبعلموں کی نگاہیں نیچی ہیں، دل غمزدہ ہیں، آنکھیں پرنم ہیں۔ ہم کرائسسٹ چرچ کے نمازیوں کا جانتے تھے، ہم  ان سب کو جانتے تھے۔ سب کو جانتے، بغیر ملے جانتے تھے۔  امام کہہ رہا ہے، مسجد ہم سے آباد  رہے گی، یہ مسجد  ہمارا  نشان ہے، ہم  یہاں آئیں گے، تمام خوف اور پریشانی کے باوجود، یہ مسجد آباد رہے گی۔ ہم فرق ہیں۔ اور سن لو کہ ہرتکلیف کے بعد آسانی ہے اور جان لو کہ ہرتکلیف کے بعد آسانی ہے۔

پرتھ ریلوے اسٹیشن کے سامنے چوک میں شام کو لوگ اکٹھے ہونگے۔ دعوت ِعام ہے، آئیے غم میں شریک ہوں۔ غم، کیا یہ صرف  مسلمانوں کا غم ہے۔ نہیں، یہ غم  سب کا غم ہے۔ یہ انسانیت کا غم ہے۔ میں گھر سے نکل کر جارہا ہوں۔ کیا لباس پہنوں؟  یونیورسٹی تو ہمیشہ پینٹ قمیض پہنی ہے، مگر یہاں میں شلوار قمیض پہن کر جاونگا۔ میں مسلمان ہوں، خون بہتا ہے، اور بہاو کی وجہ ایک ہی ہے، کہ میں فرق ہوں۔ مگر میں کھڑا ہوں، میرا ایک تشخص ہے۔ تمہیں کہیں یہ نہ لگے کہ  میں فرق نہیں، میں فرق ہوں۔ یہ شلوار قمیض، یہ پشاوری چپل سب استعارے ہیں، مختصر سے استعارے کہ میں فرق ہوں۔ بڑا استعارہ میرا مزہب ہے۔  اور چوک میں کھڑے ہجوم میں میرے ساتھ وہ لڑکی کھڑی ہے جسے میں نے ہمیشہ ننگے سر ہی دیکھا۔ وہ ساتھ کھڑی ہے، مگر آج  فرق ہے۔ آج وہ  حجاب اوڑھے ہے۔ وہ اپنی شناخت کو لوٹی ہے۔ تمہیں مجھے پہچاننے میں مشکل نہ ہو ، ہاں میں مسلمان ہوں۔

 پھولوں کے گلدستے پڑے ہیں، بے بہا، رنگ برنگے، اپنی اپنی خوشبو لیے، اپنا اپنا تشخص لیے۔ اس ہجوم میں شامل لوگوں کی مانند۔ کندھوں پر بچے کو اٹھائے وہ گورا ہے، اس  کے ساتھ ہی پرام میں اپنے دو بچے لائی ایک سفید فام عورت۔  بھری آنکھوں کے ساتھ کھڑی وہ آسڑیلین لڑکی ہے جو پھولوں کے ساتھ اپنا دیا جلارہی ہے۔ ویل چیئر میں آئی وہ ادھیڑعمر   سفید عورت ہے، جس نے اپنی معذوری کے باوجود اس یاد میں شرکت کو اہم جانا، اس کی آنکھیں سرخ ہیں ۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، دنیا کے  مختلف علاقوں کے نقش اور شباہتیں لیے۔  میرے ساتھ والا کچھ پڑھ رہا ہے، اس کے ہونٹ ہل رہے ہیں۔ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف 
لوٹ کر جانا ہے۔ ایک سفید فام میرے پاس آتا ہے، کہتا ہے مجھے افسوس ہے، بہت افسوس۔ اسکی آواز میں اخلاص ہے، اسکے ہونٹ کپکپا رہے ہیں۔ 

ہجوم سے اب نیوزی لینڈ کے مائوری قبیلے کا ایک فرد خطاب کر رہا ہے۔ یہ ہماری زمین ہے، ہم صدیوں سے یہاں کے باسی ہیں۔ انگریزوں کے آنے سے کہیں پہلے کے رہائشی ہیں۔ خوش آمدید، آپ یہاں خوش آمدید ہیں۔ اے مسلمانو، تم یہاں خوش آمدید ہو۔اپنے فرق کے ساتھ تم یہاں خوش آمدید ہو۔  ہم تمہارے غم میں شریک ہیں۔  وہ اپنی زبان میں کہتا ہے۔

کی آ کاہا، کی آ ٹوا ، کی آ مناوانی

Kia kaha, kia toa, kia manawanui

حوصلہ مندو، بہادرو، یہ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔

ہم کھڑے ہیں، ہم غم آمیز، نم آلود، پرسکون، ہم کھڑے ہیں۔ مذہب ہمارے ساتھ ہے، ایمان ہمیں طاقت دیتا ہے۔ اس بیوہ کا صبر ہمیں طاقت دیتا ہے جو ایک لمحے میں محبت کرتے شوہر اور جوان تابع فرمان بیٹا کھو دیتی ہے، مگر وہ کھڑی ہے، کسی چٹان کی مانند، کسی گہرے سمندر کی مثل، پرسکون، قرار کے ساتھ۔ اس کا ٹھہراو ہمیں طاقت دیتا ہے۔ 

ہم فرق ہیں، جان لو کہ ہم فرق ہیں۔ 

اور ہر تکلیف کے بعد آسانی ہے اورجان لو کہ ہرتکلیف کے بعد آسانی ہے۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ