A thing of beauty is joy for ever.

کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تخلیق کی صلاحیت سب سے زیادہ بچوں میں ہوتی ہے، اور جیسے وہ عمر میں بڑھتے جاتے ہیں انکی تخلیقی صلاحیت کوختم کرنے کے لیے بڑے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نیک نیتی سے بچوں کو روایتی طور پر کام کرنےکی عادت ڈالی جاتی ہے اور اگراس کے باوجود بھی اگر کچھ تخلیق کی صلاحیت بچ جائے تو اس کے خاتمہ کے لیے جگہ جگہ پہلے حکومت نے سکول بنائے تھے، اب کئی چرب زبانوں نے تخلیق کی ترویچ کے نام سے تخلیق کے خاتمے کے سکول بنائے ہیں جہاں سادہ لوح اپنے پلے سے پیسے دیکر بچوں کی تخلیق کی حجامت بلکہ ٹنڈ بنواتے ہیں۔
کل مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو ایک منظر دیکھا جس سے طبیعیت ہری بھری ہو گئی۔ یہ ایک ترک مسجد ہے۔ ترکوں کے نزدیک مسجد ہمارے پاکستانی مزاج کے مطابق طاق پر رکھا قرآن نہیں بلکہ گھر کا صحن ہے، جہاں ٹھنڈی ہوا میں جانماز ڈال کر عبادت بھی کر لی جائے، فٹبال میں ہوا بھر کر بچوں کے ساتھ میچ بھی ہوجائے، موڈ ہو تو چادر بچھا کر لوڈو کی بازی بھی لگالی جائے، چولہے پر کیتلی چڑھا کر چائے کا لطف بھی اٹھا لیا جائے۔ سو زندگی میں کئی ترک مساجد دیکھیں، مسجد کے احاطے میں چائے کی دکان کہ لوگ نماز پڑھ کر کیبل بھی دیکھ رہے ہیں اور چائے بسکٹ بھی کھارہے ہیں، سبزی اور روٹی بھی دسیتاب ہے۔ ساتھ کے کمرے میں نائی دو کرسیاں ڈالے نمازیوں یا بے نمازیوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ غرض مسجد ایک ایسی جگہ ہے جو چوبیس نہیں تو اٹھارہ گھنٹے کھلی ہے، نماز کے بعد تالا نہیں لگا ہوتا۔ ایک کلچر سینٹر ہے کہ نمازی اور پرہیز گار ہی نہیں گنہگار بھی بے دھڑک آتے ہیں۔

سو ہماری اس مسجد کے احاطے میں دکان ہے، اس کے ساتھ دو ٹیبل ٹینس کے میز بھی لگے ہیں۔ مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو دیکھا کہ بچے ہیں، ٹیبل ٹینس کھیلنے کے لیے میز پر کھڑے ہیں۔ ایک کو کہیں پڑا ٹیبل ٹینس کا گیند مل گیا ہے مگر ریکٹ کہیں نہیں ہیں۔ دونوں نے کچھ دیر ریکٹ ڈھونڈے ، مگر نہ ملنے پر گیند پھینک کر ہاتھوں سے ٹیبل ٹینس کھیلنے لگے، مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ ایسے مزہ نہیں آئے گا۔
ایک نے چند لمحے سوچا اور پھراپنے پیروں سے ایک ہوائی چپل اتار کر دوسرے کھلاڑی کے حوالے کی۔ اب سفید گیند تھا، ہاتھوں میں پکڑی چپلیں اور بے ساختہ ہنستے بچے۔ میچ دلچسپ ہوگیا کہ اب اس میں جوتیوں کی جان پڑ گئی تھی۔

جوتیوں کا استعمال ہم نے گھروں اور بازاروں میں ضرور دیکھا تھا۔ بعض اوقات سینڈل بھی مردانہ جوتی کی برابری کی دعویدار ہوکر اپنا کردار پوری طرح ادا کرتے دیکھی۔ مسجد میں اس سے قبل جوتی چوری بھی کروائی ۔ ایک زمانے میں ایک پولیس ٹرینگ سینٹر کی مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تو میزبان نے نماز سے قبل جوتی کو اپنے سامنے رکھنے کی اہمیت پرزور دیا کہ مفت کی جوتیاں پولیس والوں پر حلال ہوتی ہیں۔ جوتیوں کا ایک کھیل ہم نے بچپن میں باندر کلے کے نام سےبھی کھیلا تھا مگر جوتیوں کا ایسا ٹیبل ٹینسی استعمال پہلے نہ دیکھا تھا۔
بچے خوش تھے اور ہم اس سے زیادہ خوش۔
جان کیٹ نے کہا تھا کہ
A thing of beauty is joy for ever.
بیوٹی کی کیا تعریف ہے؟ علم نہیں، مگرجان لیجیئے کہ جوتیوں کی مدد سے اس کھکھلاتے منظر نے ہمیشہ کے لیے ایک یاد کی خوشی دے دی۔ اور بتا دیا کہ تخلیق یعنی
creativity
سیکھنی ہو تو بچوں سے سیکھو۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ