ماں جی ----- عورتوں کے عالمی دن کے لحاظ سے ایک تحریر
تحریر : عاطف ملک
گرمیوں کی چھٹیاں لاہور میں سخت ہوتی تھیں۔
لمبے دن، آسمان سے برستی آگ، نلکوں سے نکلتا کھولتا پانی، گرم ہوا پھینکتے پنکھے، خاموش دوپہر، ساکت ہوا اور ایک سرکاری کواٹر میں کھڑکی سے باہر تکتے تین کم سن بچے۔
کبھی گھونسلے میں چڑیا کے چھوٹے بچوں کو دیکھا ہے، منہ کھولے، چونچیں اوپر کیے، ایک آس، ایک انتظار رکھے۔ آسماں جتنا بھی وسیع ہو انکی کائنات مختصر ہے۔ دانا کھلاتے دو ماں باپ، جو دانے کی تلاش کے ساتھ ساتھ بچوں کی حفاظت کے خیال کا بوجھ اٹھائے دور تک نہ پرواز کر پائیں۔
ماں جی ہسپتال میں نرس تھیں، خوش قسمتی تھی کہ ہسپتال میں دو کمروں کو سرکاری کواٹر ملا تھا۔ دو کمرے، آگے برآمدہ جس کے کونے میں ایک چھوٹا باورچی خانہ، برآمدے سے آگے چھوٹا سا اینٹوں کا صحن، صحن کے آخر میں ایک غسلخانہ، غسلخانےسے متصل بیت الخلا اور صحن کی بیرونی دیوار پر گھر سےباہر نکلنے کا ایک پٹ کا دروازہ۔ جب ہم پرانی انارکلی کے احاطہ مادھو رام کا ایک کمرے کا گھر چھوڑ کر اس سرکاری کواٹر میں آئے تھے، تو ہم بچوں کے لیے سب سے بڑی خوشی غسلخانے میں لگا شاور تھا۔ ہم جنہیں ہمیشہ ماں جی ڈبے بالٹی سے نہلاتی رہی تھیں، خوش تھے، خوش، بے انتہا خوش کہ اب آسمان سے برستی بارش کے مترادف ہمارا اپنا بادل ہوگا، ہمارے اپنے کنٹرول میں، ہمارے حکم کے تابع، ہمارے اپنے غسلخانے میں۔ دنیا جتنی بھی وسیع ہو ہماری کائنات مختصر تھی۔ مگر کیا ہمیں بڑی کائنات کی ضرورت بھی تھی؟ غسلخانے میں لگے شاور سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے۔
گرمیوں میں صحن کی اینٹیں ایسی کہ پیر رکھو تو پیرجل جائیں۔ گرمیوں کی شام کو پانی کا پائیپ لگا کر جب اینٹوں کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا تو زمین سے خوشبو اٹھتی، کوری زمین کی خوشبو، دن بھر کی جھلسی زمین کھل اٹھتی، سانس لینے لگتی اور بدلے میں خوشبوِ بے مثل عطا کرتی۔ اور ابا ہم بچوں پر بھی اسی پائیپ سے پانی پھینکتے، تو صحن پر ننگے پاوں بھاگتے، گیلی نیکروں، گیلی بنیانوں میں بھاگتے ننگ دھڑنگ بچے کھل اٹھتے اور بدلے میں آنکھوں کی چمک اور کھکھلاتی ہنسی دیتے، ایسی آواز جس کا کو ئی بدل نہیں، مرتا بوڑھا بھی اس آواز سے جی اٹھتا ہے۔
گھر میں کوئی فریج نہ تھا۔ دودھ اور رات کا بچا کھانا صحن میں کپڑے سکھانے والی تار پر ایک لٹکتے دھاتی تار کے ڈھانچے، جسے چھکو کہتے تھے، میں رکھا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ لکڑی کی ڈولی گرمیوں میں کھانا خراب ہونے سے بچانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ایک لکڑی کا ڈبہ جس کے چاروں جانب جالی لگی ہوتی تھی کہ رات کو ہوا پھرتی رہے اور سالن خراب نہ ہو۔ انسان بھی اسی ڈبے کی مانند ہے، اپنی ذات کے اندر مقید ہو جائے تو گل سڑ جاتا ہے، بساند دیتا، بدبو پھیلاتا ۔ ذات کےاسیر کی آنکھیں، کان، ذہن سب بند ہوتے ہیں، نہ سجھائی دیتا ہے، نہ دکھائی دیتا ہے، نہ حسِ شامہ کام کرتی ہے۔ اور اگرانسان کھلے ذہن کا ہو، دوسروں کے خیالات سن سکے، اختلافِ رائے برداشت کر سکتا ہو تو خیالات کی ہوا اس میں پھرتی رہتی ہے، روح تازہ رہتی ہے۔
گرمیوں کی چھٹیاں لاہور میں سخت ہوتی تھیں۔ چھٹیوں میں بھی بچوں کو صبح صبح اٹھنا ہوتا تھا۔ ماں جی جلدی میں ہوتی تھیں۔ وہ کب اٹھتی تھیں، علم نہیں۔ باورچی خانے میں برتنوں کی آوازیں آ رہی ہوتی تھیں۔ زمین پر سوئی گیس کا دو برنر کا چولہا تھا، پاس پڑی پیڑیوں یا لکڑی کی چوکیوں پر ہم بیٹھتے اور ماں جی پراٹھے بناکر دے رہی ہوتیں۔ چائے ہمارے لیے منع تھی۔ ماں جی دیہاتن تھیں اور ان کے مطابق بچوں کو صرف دودھ ملنا چاہیئے۔ سب کام جلد جلد ہورہے ہوتے۔ ابا دفتر کے لیے نکل جاتے اور اماں جلدی سے ہمیں ناشتہ کروا کر برتن سمیٹتیں اور ہمیں برتن صاف کرنے کا کہہ کر اپنے دفتر کے لیے تیار ہوتیں۔ پتلی دبلی، نرسوں کے سفید یونیفارم میں تیز قدم ہسپتال کو جاتیں، اور ہم کھڑکی سے انہیں اس وقت تک جاتا دیکھتے جب تک وہ آنکھ سے اوجھل نہ ہو جاتیں۔ جانے سے قبل روزانہ کی ہدایات دہراتیں۔ گھر سے باہر نہیں نکلنا، گھر کا دروازہ نہیں کھولنا، کوئی دستک ہو تو پہلے کھڑکی سے جھانکنا اور اشد ضروری نہ ہو تو دروازہ نہیں کھولنا۔ تم بڑے ہو، چھوٹوں کا خیال رکھنا، آپس میں لڑنا نہیں، سکول کا ہوم ورک کرنا، دونوں کمروں کی صفائی اپنی بساط کے مطابق کر دینا۔
گرمیوں کی چھٹیاں لاہور میں سخت ہوتی تھیں۔ لمبے دن، آسمان سے برستی آگ، نلکوں سے نکلتا کھولتا پانی، گرم ہوا پھینکتے پنکھے، خاموش دوپہر، ساکت ہوا اور ایک سرکاری کواٹر میں کھڑکی سے باہر تکتے تین کم سن بچے۔
دن میں بلند آواز پھیری والے، عجب لباس میں اول جول فقیر، سخت گرمیوں میں بھی کوٹ پہنےگھوم پھر کر کام کرتا ایک ادھیڑ عمر نائی، کسی نئی کمپنی کی ایڈورٹزئمنٹ بانٹی لڑکیاں اور لڑکے، باری باری سب آتے تھے۔ کوئی آواز لگاتا تھا، کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا تھا مگر تین بچے دروازہ نہیں کھولتے تھے۔ کھڑکی کے پردے سے چھپ کر باہر جھانکتے تھے کہ باہر والے کو پتہ نہ لگے۔ ڈر اُن کے ہمراہ رہتا تھا، چپ چاپ، لہو میں بہتا۔ اگر کوئی فقیر دروازہ زیادہ پیٹتا تھا تو وہ بھاگ کر دوسرے کمرے میں چارپائی کے نیچے چھپ جاتے تھے۔ گیارہ بجتے تھے اور ماں جی کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔ چڑیا کے چھوٹے بچے، منہ کھولے، چونچیں اوپر کیے، ایک آس، ایک انتظار رکھے، جالی دار کھڑکی سے باہر جھانکتے۔ ماں جی تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کو آتی نظر آتی تھیں۔ پتلی دبلی، سفید روشن یونیفارم۔ بچے بھاگ کر دروازہ کھول دیتے تھے۔
کیا خوشی ہوتی تھی، ان چڑیا کے بچوں کی چوں چوں کو سن لیں جب انکی ماں انکا چوگا لے کر آتی ہے۔ ماں جی جلدی جلدی رات کے بنے کھانے میں سے کچھ گرم کرتیں، کبھی چاول، کبھی جلدی سے روٹی کا پھلکا اتارا، کبھی گھی کی چوری بنادیتیں۔ جیسی تیزی سے آتی تھیں، اُسی تیزی سے واپس ہو جاتیں۔ پڑھائی کے کام پر ایک نظر ضرور ڈالتیں۔ اکثر کہتیں کہ بچو، زندگی بدلنی ہے تو یاد رکھو یہی محنت کی ایک سیڑھی ہے جو آگے لے جائے گی۔ بڑے بیٹے کو کہتی تھیں کہ تو اگر پڑھ گیا تو یہ اگلے بھی پڑھ جائیں گے، ہمت نہ ہاریں۔
ہمارے خوف کی کہانیاں سن لیتی تھیں۔ شاید خود بھی خوفزدہ ہوں، لمبے دن، آسمان سے برستی آگ، نلکوں سے نکلتا کھولتا پانی، گرم ہوا پھینکتے پنکھے، خاموش دوپہر، ساکت ہوا اور اکیلے گھر پر چھوڑے تین کم سن بچے، خوفزدہ شاید خود بھی ہوں مگر کبھی اظہار نہ کیا۔ حوصلہ ہی بڑھایا۔ نوکری میں کیا رویے دیکھتی تھیں، خاندان میں لوگ کیسے آواز کستے تھے، کبھی ذکر نہ کیا ، سب اپنے پاس ہی رکھا۔ شاید خوفزدہ بھی ہوں، مگر ظاہر کبھی نہ کیا۔ وہ بہادر تھیں۔ کیا بہادر خوفزدہ نہیں ہوتا، خوفزدہ ہوتا ہوگا مگر اظہار کبھی نہیں کرتا۔
ایک معاشرہ جو کام کرتی عورت پر منفی رائے زن رہتا ہے، ایک نرس جن کے لیے ارزاں ہے، چھوٹی، ادنی۔ کراھتا، سسکتا ،تڑپتا ، دوغلا معاشرہ، عورت سے مرہم مانگتا اور جب صحتیاب ہو جاتا تو گالی دیتا۔ اسے کیا پتہ کہ عورت کیا ہے۔ بتایا بھی نہیں جاسکتا، کیوں کہ یہ مقام معاشرے کی سوچ کی پہنچ سے کہیں اوپر ہے۔
ایک بے چھتے گھونسلے میں بے پر بچوں کو چڑیا کیسے پالتی ہے، طوفان، بارش، دشمن، بھوک، تیز ہوا، لرزتی شاخ، گھپ اندھیرا، سخت گرمی، بے رحم پرندوں سے بچا کر کیسے پالتی ہے۔
سوچ کہیں تھک کر نیچے گر جاتی ہے۔
خواتین کا عالمی دن مبارک ہو۔ مگر عورت کا تو پورا سال ہے، ساری زندگی ہے، پوری صدی ہے، مکمل انسانی تاریخ ہے۔ آپ کو سب مبارک ہو۔
مگر زیادہ نہ سوچیے، سوچ عورت کے مقام تک نہیں پہنچ پاتی ، کہیں تھک کر نیچے گر جاتی ہے۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment