محبت کے مارے طالبعلم، انٹیگریشن پڑھاتا پیر اور اشفاق احمد



تحریر : عاطف ملک

انجیئنرنگ کی پڑھائی کا آخری سال تھا کہ ہمارا ایک ہم جماعت ایک لڑکی کےعشق میں مبتلا ہو گیا۔ وہ توعشق میں مبتلا ہوا ہی ہم بھی ایک ابتلا میں مبتلا ہو گئے۔ یہ طالبعلمی کا دور ویسے بھی عجب ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ کا۔ اپنے سامان کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائے پھرتے ہیں، ویسے ہی بلا وجہ۔ تو کون میں خوامخواہ سے لیکر پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بلکہ عبداللہ دیوانے تک۔ اور وہ تو ویسے بھی میرا دوست تھا، ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ محلے دار بھی۔

لاہور میں ہم ایک گنجان آباد متوسط طبقے کی آبادی میں رہتے تھے۔ تنگ گلیاں آپس میں گڈمڈ ہوتی نکل جاتی تھیں اوردودو تین تین منزلہ گھر بھی آپس میں بغلگیر تھے، جیسے جیسے گھروں کی اوپری منزلیں تعمیر ہوتی تھیں اُنکے چھجے باہرکو نکلتے آتے تھے، اس طرح تین سے پانچ مرلے کی زمین ہوا میں بڑھ جاتی ہے۔ اور جیسے مکان ایک دوسرے میں در آئے تھے، اُسی طرح ہمسائیگی بھی۔ پڑوسی کے ہاں کیا پک رہا ہے، خوشبو بتاتی۔ ٹی وی پرکیا پروگرام چل رہا ہے، آواز بتاتی۔ مہمان کون آیا ہے، پڑوسن خود آپ کے گھر  کی خواتین کو بتاتی۔

 اب یہ عاشق ہمارا دوست اورہم جماعت ہونےکےساتھ ساتھ محلےداربھی تھا۔ اب اُس کے اِس عشق میں ہم بھی کچھ قصوروار تھے، بلکہ شاید ہمارے ابا قصوروارتھے۔ ابا ٹیلیفون کے محکمے میں ملازم تھے، سو اس بنا پر پورے محلے میں ہمارے گھر پر ہی فون لگا تھا۔ جب ہمارے دوست نے ہمارے فون سے پہلے دن لمبی بات کی تھی تو اُسی دن ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا کہ اگلے دن کے امتحان کی تیاری کی بجائے یہ کونسا نصاب پڑھنے بیٹھ گیا ہے۔

معاملہ بڑھتا چلا گیا۔ پہلے پڑھائی سے گیا، پھر اپنےآپ سے۔ عشق کےمعاملات ویسے بھی سیدھےنہیں ہوتے اوراس واقعے میں تو کئی پیچ تھے۔ اکیلی ماں نے اُسے پالا تھا، مشکلات کا مقابلہ کر کے، محنت مزدوری کر کے، اُس پراپنا وقت اپنی توانائی صرف کر کے، اُسکی تعلیم پر پوری توجہ دے کر۔ اوراُس نے بھی پوری محنت کی تھی، ایف ایس سی میں بورڈ کےنمایاں ترین طالبعلموں میں تھا اورانجینئرنگ یونیورسٹی میں سب سے اوپر کے شعبے میں داخل ہوا۔ یونیورسٹی میں  اُسکی کارکردگی بھی بہت بہتر تھی کہ جب تک عشق کا شکار نہ ہوا تھا۔ اور یہ کہانی بھی "عشق نہ پوچھے ذات نہ ویکھے تخت نہ ویکھے تاج" کی تھی۔ لڑکی ایک امیرخاندان سےتعلق رکھتی تھی۔ اپنی کارچلاتی تھی اورہم فقرُوں کے موٹرسائیکل کے پلگ میں ہردوسرے دن کچرا آجاتا تھا۔

ہمارے دوست کی حالت بدلتی گئی۔ معاملہ اُس کی والدہ تک پہنچا۔ ماں نے لڑکی والوں کی طرف رشتہ لیکر جانے سے انکار کردیا۔ ہم نے نشئی دیکھے تھے، اب روگی بھی دیکھ لیا۔ عشق اورہوس کا فرق سامنے تھا۔ کتابوں میں مجنوں کے متعلق پڑھا تھا، اب اپنی آنکھوں کے سامنے تھا۔ دو ہفتوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ وہ تھا کہ ہمیں کہتا تھا کہ کچھ کریں اور ہم پریشان کہ کیا کریں۔ وہ دیوانہ ہمیں فرزانہ سمجھتا تھا، اور ہم نےسمجھا کہ پگلےکوسمجھانا مشکل ہے، بہتر یہ ہےکہ خود بھی اپنی حالت بدل کراُس جیسے ہوجائیں۔ سو وہ تھا، ہم تھے، ہمارا موٹرسائیکل اورلاہور کی سڑکیں۔ کبھی میاں میر کے مزار پردعائیں مانگتے، کبھی شاہ جمال کے مزار پر چڑھاوئے چڑھاتے، کبھی بی بی پاک دامن کے مزار پر ہاتھ اٹھائے بیٹھے تھے۔ مگرافاقہ کچھ نہ تھا، بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

سوچتے تھے کہ کیا کریں۔ بزرگوں کو بات سمجھ نہ آرہی تھی اورہمارا دوست توسمجھ کے مقام سے آگےنکل چکا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ویسے بھی جنریشن کے درمیان احترام کا رشتہ ہوتا ہے، دوستی کا نہیں۔ اردوادب پڑھتے رہے تھے، لکھاریوں کی تحریروں سے شناسائی تھی۔ اچانک خیال آیا کہ اشفاق احمد صاحب کے پاس چلتے ہیں، معاملہ پیش کرتے ہیں، شاید کوئی حل بتا پائیں۔ میں نے ٹیلیفوں انکوائری پرفون کر کےاشفاق صاحب کا نمبرمعلوم کیا۔ فون ملایا تواشفاق صاحب نے ہی اٹھایا۔ بتایا کہ طالبِ علم ہیں، دیوانے بھی ہیں، پریشان بھی ہیں، غرض تمام خصوصیات رکھتے ہیں، رہنمائی کے خواست گار ہیں، کوئی وقت عنایت کریں۔ دو دن کے بعد شام کا وقت دیا کہ ماڈل ٹاون گھر پرآجائیں۔

تیسرے دن شام کوہم دونوں ماڈل ٹاون سی بلاک میں انکے گھر کےسامنے کھڑے تھے۔ گھر کے باہر داستان سرائے کی تختی لگی تھی، ایک داستان اُس سرائے سے اُس شام ہم بھی اٹھا لائے۔ 

 گھر کےڈرائنگ روم میں اشفاق صاحب سےایک مجنوں اورایک تیماردارِمجنوں کی نشست دوسے تین گھنٹےچلی۔ بانو قدسیہ نہ تھیں مگر باتوں میں اُنکا، قدرت اللہ شہاب اورممتاز مفتی کا بھی ذکررہا۔ ہمارے مسلےکوسنا۔ اشفاق صاحب کہنے لگے کہ لاہورمیں فورٹریس سٹیڈیم سے ایک سڑک دھرمپورہ کوجاتی ہے، اسے انفنٹری روڈ کہتے ہیں۔ اُس پر ایک بابا جی رہتے تھے، آج بھی اُنکا ڈیرا بنام نوروالوں کا ڈیرہ وہاں موجود ہے۔ اُن بابا جی سے میرا تعلق تھا اورمیں اکثراُنکےڈیرے پر جاتا تھا۔ بابا جی کے پاس بیٹھنا اورانکی باتیں سننا۔ ایک دفعہ میں انکے پاس اگست کی کسی تاریخ کو گیا۔ اگست کا موسم لاہورمیں ایک بڑا سخت موسم ہوتا ہے۔ گرمی زیادہ نہیں ہوتی مگرحبس غضب کا ہوتا ہے، عجب طبیعیت اوازار ہوتی ہے، پنکھے کےنیچے بھی بیٹھےہوں تو پسینہ پانی کی طرح ٹپکتا ہے، پنکھے والے کولر کام کرنا چھوڑجاتے ہیں، سائےمیں بھی سکون نہیں ملتا۔ اشفاق صاحب نے بابا جی کوکہا کہ یہ بھی کوئی موسم ہے، بیکار، کسی نہ کام کا، نری تکلیف ہی تکلیف۔ بابا جی نےجواب دیا،" پتر، ایسا نہیں کہتے، ہمیں علم نہیں کہ اِس طرح کے موسم میں کیا حکمت ہے، کس پودے کے بڑھنے کےلیے کیا موسم چاہیئے، پھل کوپکنے کے لیے کیا درجہ حرارت درکار ہے"۔ بابا جی کےاس جواب پراشفاق صاحب نےبابا جی سے لاڈ میں جپھی ڈال لی اورکہا، "بابا جی، آپ بھی بس ہم سے کبھی اتفاق نہیں کرتے"۔ بابا جی نے موسم کے لحاظ سے ایک سلوکہ، واسکٹ کی طرح کی بنیان جو آگے سے کھلی ہوتی ہےاوربڑی بڑی جیبیں ہوتی ہیں، پہن رکھا تھا۔ جیسے ہی اشفاق صاحب بغلگیرہوئے تواُنکا ہاتھ سلوکےمیں چلا گیا، وہ سلوکہ اندرسےاتنا ٹھنڈا تھا جیسےایرکنڈیشنرلگا ہو۔ اشفاق صاحب نےفوراً ہاتھ باہرنکالا اوربابا جی کوکہا کہ آپ توسب سےالگ یہ ٹھنڈا سلوکہ پہنے بیٹھے ہیں، موسم نے آپ کوکیا کہنا ہے۔ بابا جی مسکرا کرخاموش رہے۔

اشفاق صاحب نے کہا کہ وہ اس معاملے پرسوچتے رہے کہ یہ ٹھنڈا سلوکہ کیسےملتا ہے۔ پھرایک دفعہ ایک سرائیکی علاقے سےایک وکیل ملنےآئے تویہ عقدہ کھلا۔ ان وکیل صاحب کے پیرکے ڈیرے پرصفیں بچھیں تھیں، جہاں پیر صاحب لوگوں سےملتے تھے اورنمازکے وقت باجماعت نماز بھی ہوتی تھی۔ اُن پیرصاحب کے گردے میں پتھر تھے جن کی وجہ سے وہ شدید درد کا شکار ہوجاتے تھے۔ جب اُن کو تکلیف ہوتی تھی تو وہ ان بچھی صفوں پرلوٹنےلگتے تھےمگراُس تکلیف کے وقت بھی اُن کی زبان پرایک شٰعررہتا تھا، "کرم تیرا ہرویلے، تےتکلیف گاہ گاہ، ایں وی سجن واہ واہ، تے اُوں وی سجن واہ واہ"۔ اشفاق صاحب نےکہا کہ اُس دن سمجھ آئی کہ جب ایں وی سجن واہ واہ، تے اُوں وی سجن واہ واہ کے مقام سے گذرجایا جائے تو پھردینے والا ایرکنڈیشنڈ سلوکہ عطا کردیتا ہے۔

اُن کی اس بات پرمجھے بھی ایک سرائیکی علاقے کا پیریاد آگیا۔ ایف ایس سی کے دوران میں بورڈنگ کالج میں رہتا تھا، انجینئرنگ کرنے کا شوق تھا۔ علم ہوا کہ انجینئرنگ کے لیے ریاضی میں انٹیگریشن اورڈیفرنسییشن کے سبق آنے چاہیئے۔ کالج والوں نے پرچے میں چوائس کی ضمن میں ان اسباق کو چھوڑدیا تھا کہ یہ مشکل سبق تھے۔ اس زمانے میں بوجہ روزگار والدین رحیم یارخان میں رہائش پذیر تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھرآیا توٹیوشن کے لیےاستاد ڈھونڈنا شروع کیا۔ پتہ لگا کہ ایک پیرصاحب ہیں، لیوربرادرزکی رحیم یارخان کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور ریاضی کے ماہرہیں۔ وہ گرمیوں کی چھٹیاں پیرصاحب کے ڈیرے پرزمیں پربچھی صفوں پرانٹیگریشن اورڈیفرنسییشن کے سوال کرتے گذریں۔ مرید آتے جاتے رہتے، وقت ہوتا توانہیں چٹائیوں پرنماز پڑھتے، ریاضی سے مقابلے میں جب تھک جاتا تو وہیں لیٹ کرآرام کرتا۔ ایسا پیرپہلے نہ سنا تھا، وہ سبق جنہیں ریاضی کے استاد نہ پڑھا پائے، پیرصاحب نے ایسے واضح کیے کہ پوری انجینئرنگ  کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ پیرگرکامل ہوتومسلے حل ہوجاتے ہیں چاہے ریاضی کے ہوں یا زندگی کے۔

 اشفاق صاجب کہنے لگے کہ ہمارے گاوں میں ایک بھٹیارن تھی۔ جوانی میں بیوہ ہو گئی، ساری عمرپھرشادی نہ کی۔ مٹی کے چولہے پرلوہےکی پرات میں لوگوں کو چنے، مونجھی وغیرہ بھون کر دیتی۔ خود زمین پربیٹھ کرکام کرتی مگراپنے ساتھ ایک رنگین خوبصورت بُنی پیڑی ضرور رکھتی۔ اُس پیڑی پرنہ خود بیٹھتی نہ کسی اورکوبیٹھنےدیتی۔ میں نے ایک دن اُس سے پوچھا، "ماسی ، تونے دوبارہ شادی کیوں نہ کی؟" ۔ کہنے لگی، میرا میاں فوت ہوا تو ایک دن ایک مولوی آیا اوراُس نے کہا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ اچھی بات ہے، صبر کر لیتے ہیں کہ کسی بندے کے ساتھ سے بڑھ کراللہ کا ساتھ ہو جائے گا، سو بس صبرکرلیا۔ میں نے پوچھا، ماسی یہ رنگدارپیڑی جو توساتھ لیے پھرتی ہے، یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگی، اشفاق، میں تو غریب نمانی ہوں، اللہ آیا تواُس کو بٹھانے کے لیے میرے پاس کچھ اچھا تو ہونا چاہیئے۔ میں سوچتا ہوں کہ رب سوہنا بھی کبھی نہ کبھی ماسی کے پاس بیٹھتا ہوگا۔

وقت گذرنے کا پتہ نہ لگا، اِن باتوں اور قصوں سے ہم پریشانوں کی کچھ ڈھارس بندھی۔ مجنون کو کہنے لگے کہ تمہاری مکمل بات سن کراورتمھارے گھرکےحالات جان کر یہی کہتا ہوں کہ مان لویا منا لو؛ یا توتم مان لویا اپنی ماں کومنا لو، یہی حل ہے۔ ہم داستان سرائے سے واپس آئےاوراب میں نے اپنی ماں کو آگے کیا۔ ماں جی نے دوست کی ماں کو اپنے لحاظ سے سمجھانا شروع کیا۔ کچھ وقت لگا اورآخر وہ اس رشتے کے لیے تیار ہو گئیں۔ 

پرانےعاشقوں کی مثل ہم نے صحرا نوردی تو نہ کی مگراس شہرنوردی نے مجھے لاہورکےمزاردکھلادیےاورداستان سرائے سے ایک داستان بھی سامانِ مسافرمیں شامل ہوئی۔ اورعلم ہوا کہ پیرگرکامل ہوتومسلےحل ہوجاتے ہیں چاہے ریاضی کے ہوں یا زندگی کے۔



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


  


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ