سکوٹر کی ڈگی اور آواری ہوٹل


تحریر : عاطف ملک

میرا نام عبدالمجید ملک ہے۔ میں نے محکمہ تعلیم میں نوکری کی، کئی سال پنجاب کے کئی سکولوں میں پڑھایا اوربعد میں انسپکشن سیکشن میں چلا گیا۔ آپ نےاگر سرکاری سکول میں  پڑھا ہے تو ضرورآ پ کے ذہن میں محکمہ تعلیم کےانسپکٹرکا دورہ  یاد ہوگا۔ اگر نہ بھی یاد ہو تو یہ وہ دن ہوتا ہے، جب استاد خلاف معمول تیارہو کر آتے ہیں، نیا استری شدہ شلوار قمیص، بال ترشے ہوئے، اگر استاد داڑھی رکھتا ہو تو اس دن داڑھی تازہ بنی ہوتی ہے۔ سکول کی صفائی ستھرائی ایک ہفتے سے جاری ہوتی ہے، جماعت میں نئے پوسٹر لگائے جاتے ہیں۔ حاضری کے رجسٹرکی قسمت بھی بدل جاتی ہے، ایک بھورے رنگ کے کاغذ میں وہ ملبوس ہوجاتا ہے۔ ایک جماعت میں درس و تدریس کے دوران انسپکٹرکولایا جانا ہوتا ہے، سو اُس سبق کی پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔ پہلے سے منصوبہ سازی ہوتی ہے، اچھے طالبعلموں کو جماعت میں مختلف جگہوں پر بٹھایا جاتا ہے کہ عام گمان ہے کہ لائق طلبہ عموماً  آگے بیٹھتے ہیں۔ سبق سے متعلقہ سوالات استاد پہلے سے تیار کراتا ہے، اور بتاتا ہے کہ میں سوال پوچھوں گا تو سب نے ہاتھ کھڑا کرنا ہے، گو یہ بھی پہلے سے طے ہوتا کہ جواب کون دے گا۔ اگر انسپکٹرکسی طالبعلم سے اپنے طور پر  سوال پوچھ لے تو کیسے جواب دینا ہے۔  بچوں کو کاپیوں پرنئےکورلگانے کا کہا جاتا ہے، بال کٹوا کر آئیں، یونیفارم اُس دن خصوصاً صاف ہو۔ غرض یہ دن عام دنوں سے فرق ہوتا ہے، سکول ایک سٹیج ہوتا ہے اور مختلف کردار اپنے اپنے کام کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اورانسپکٹر کی آوبھگت؛ سکول پہنچتے ہی ملائی سے بھری چائے، سکول کے محل وقوع کے مطابق قریبی بیکری کے بسکٹ، کھانے میں نان مرغ تو ضرورہوتا، ساتھ میں ہیڈ ماسٹرکے تخیل کی پرواز، حالات اور فنڈزکے مطابق مزید حصہ بقدر جثہ۔اگرانسپکٹرکی رپورٹ  سکول کے متعلق غلط ہو تو ہیڈماسٹرکی جوابدہی ہوسکتی ہے، اُسکا تبادلہ بھی ہوسکتا ہے۔ نواحی گاوں کے سکولوں میں ہیڈ ماسٹرعام طور پراُسی علاقے کا ہوتا ہے اوراس پوزیشن کی بنا پراس کی علاقے میں عزت ہوتی۔ سرکاری اساتذہ کے تنخواہ کم ہوتی ہے اور وہ سکول کے ساتھ ساتھ اپنا کوئی اور کام بھی جاری رکھے ہوتے ہیں، سو تبادلہ بہت بڑی سزا بن سکتا ہے۔ انسپکٹر سے بگاڑ نہیں لی جاسکتی، اُسے خوش جانا چاہیے۔ 

میں نے اپنی نوکری میں کئی سکولوں کی انسپکشن کی، مختلف طالبعلموں اوراساتذہ سے واسطہ پڑا۔ سوالوں کے جواب گمان سے باہر، اساتذہ ہر طرح کے؛ بعض اس نوکری کو عبادت کے درجہ پر جانے ہوئے، بعض صرف ماہانہ تنخواہ  کے انتظار میں، بعض ہوشیار، بعض حال مست۔  بڑا دلچسپ تجربہ ہے، مختلف واقعات پیش آئے، ناقابلِ یقین حد تک مختلف۔ ایک قصہ الگ ہے۔

لاہور سے باہر بھارت کی سرحد پرایک گاوں ہے، پڈھانہ۔  برکی ہڈیارے کا علاقہ ہے۔ گاوں سرحد پر واقع ہے، بالکل سرحد پر، 2 سے3 کلومیٹرکے بعد انڈیا شروع ہوجاتا ہے۔کاشتکاری کی زمینیں بھارت میں واقع گاوں سے جڑی ہیں۔ کاشتکاری کےعلاوہ سمگلنگ دونوں طرف سے خوب چلتی ۔

مجھے پڈھانہ گاوں میں واقع  گورنمنٹ سکول کا دورہ کرنا تھا۔ اپنے سکوٹر پر میں صبح آٹھ بجے نکلا، ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا سفرتھا۔ میں نے ساری عمر سکوٹر ہی چلایا ہے، موٹر سائیکل سے کوئی خاص رغبت نہیں۔  سکوٹرمیرے مزاج سے ملتا ہے، کوئی شوخی تیزی نہیں، بھاری، ایک وضع رکھتا ہوا، آگے بچے کے کھڑے ہونے کی جگہ، وہیں دائیں پیر پر بریک، ٹانگیں سرد ہوا سے محفوظ، اگلی ٹوکری میں آپ گھر کی سبزی لےآ ئیں، کوئی شاپر لٹکانے کا جھنجٹ نہیں۔ ایک ڈگی بھی پچھلے پہیے کے اوپر، تالے سمیت۔ اس میں آرام سے اپنا سامان رکھیں، تالا لگائیں اورمحفوظ۔۔ اس کے علاوہ پچھلی سیٹ کےساتھ لگا ایک اضافی پہیہ۔ مجھے ویسے بھی انسپیکشن کے لیے کافی دور دور جانا پڑتا تھا، سو پنکچر ہونے کی صورت میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ 

سو اُس دن نہر سے غازی روڈ سے ہوتا میں برکی روڈ پر چڑھا اورتقریباً دس بجے کے قریب پڈھانہ سکول پہنچا۔  ہیڈ ماسٹراختراعوان انتظارمیں ہی تھا، تپا ک سے ملا۔ درمیانے قد کا آدمی، استری شدہ سفید شلوار قمیض پہنے۔ پڈھانے کا ہی رہنے والا تھا بلکہ سکول کے باقی تین استادوں میں سے دو  اُس کے رشتہ دار تھے۔ میری پہلی ملاقات تھی، زمانہ فہم آدمی لگا۔ ہیڈ ماسٹر کے دفترمیں فوراً دودھ  پتی آگئی۔ بتایا کہ اپنی بھینس کا خالص دودھ ہے۔ کہنے لگا پندرہ کلے اپنی زمین ہے، جانور رکھے ہیں،اچھا گذارہ ہو جاتا ہے۔ سکول میں مقامی طلبا ہی تھے اور ہیڈ ماسٹر ہرایک کو انکے گھروں تک جانتا تھا۔ 

میں نے سکول کی انسپکشن کی، وہی مسائل جو دیہاتی سکولوں میں پائے جاتے ہیں۔ انگریزی پڑھانے کے لیے استاد نہیں، طالبعلم اپنے والدین کے ساتھ کاشتکاری میں بھی حصہ لیتے اوراستادوں کے جانوروں اور چارے کی دیکھ بھال بھی کرتے، اکثرسکول سےغیرحاضر ہوتے۔ قطعہ زمین چھوٹے ہونے کے سبب اکثر کے حالات سخت تھے۔ تین استادوں میں سے دو کو میں نے اوسط درجے کا پایا۔ انکے سبق کے دوران گیا توایک تو بہت پریشان ہوگیا، لڑکوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ خیرکچھ دیرمیں اُس نے اپنی حالت پر قابو پالیا، اورکسی طرح اپنے سبق کو مکمل کرنے لگا۔ ایک استاد کو میں نے اپنے کام سے سنجیدہ پایا۔ ہیڈ ماسٹر نے دوسرے مسائل بھی بتائے، عمارت کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز کم تھے، وہ بھی مکمل نہیں مل رہے تھے۔ میں نے اپنی رپورٹ کے لیے تمام باتیں نوٹ کیں۔

اسی دوران دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ ہیڈ ماسٹر اختر نے دیسی مرغ کا سالن تیارکروایا تھا، ساتھ کہنے لگا کہ آپ لاہور سے آئے ہیں آپ کی لیے خصوصاً ساگ بھی بنوایا ہے۔ کھانا  کھا کر کہنے لگا  سکول کی انسپکشن تو ختم ہو گی، آئیے آپ کو گاوں میں قدیمی سردارجوالہ سنگھ سندھو کی حویلی دکھاتے ہیں۔  اپنے سکوٹر کی چابی دیں اسے سائے میں کھڑا کرتے ہیں اور ہم پیدل چلتے ہیں کہ حویلی قریب ہی ہے۔  تقسیم سے قبل کی تعمیر شدہ علاقے کے زمیندار سکھ سردار کی حویلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، مگر اس کے باوجود وہ ایک پراثر عمارت تھی۔

حویلی سے واپس آئے اور میں نے ماسٹر اختر سے اجازت مانگی۔ اختر نے میرا ہاتھ پکڑا اورایک طرف لے گیا ۔ کہنے لگا، "ملک صاحب، آپ ہمارے افسر ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، آپکی شایانِ شان خدمت نہیں کرسکے۔  بس آپ کے سکوٹر کی ڈگی میں دو شراب کی بوتلیں رکھ دی ہیں، سرحد پار سے آتی رہتی ہیں۔ آپ اگر شوق نہیں رکھتے تو لاہورمال روڈ پر آواری ہوٹل کے باہر یہ اچھی قیمت میں بک جائیں گی۔ ہم غریب لوگ یہی آپ کی نظر کر سکتےہیں"۔

یقین کیجیے، محکمہ تعلیم کی انسپکشن کی نوکری میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں، ناقابلِ یقین حد تک مختلف، اور گمان سے بھی آگے۔  



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ