کھانا
کھانے کے بعد کچھ مزید چہل قدمی کی کہ اندورن شہروں میں چہل قدمی شہروں کا چھپا رنگ
آشکار کردیتی ہے۔ راہ میں مسلمان نان بائیوں کی دکانیں، مختلف قہوہ فروش، جنرل سٹور، پھل بیچتےخوانچہ فروش، غرض شہر اپنی پرتیں کھول رہا تھا۔ ایک طرف ایک گاڑی کے پچھلے کھلے حصے میں تربوز اور دوسرے پھل دھرے تھے اور اس کے سامنے زمین پر بیٹھی پھل فروش عورت سبز گول گول پھل کو خمدار چاقو سے چیر رہی تھی۔ پہلی دفعہ دیکھا کہ اخروٹ کیسے اپنی سبز کھال سے نکالے جاتے ہیں۔
 |
| پھل فروش خاتون اخروٹ سبز کھال سے نکال رہی ہے، اس عمل کی ویڈیو نیچے ہے۔ |
اخروٹ نکالنے کی ویڈیو
اب
واپس ہوٹل جانے کا مرحلہ تھا۔
ٹیکسی
منگوانے کی ایپ کام نہ کرتی تھی۔ ہوٹل کا پتہ انگریزی اور چینی میں تھا، مگر اب ہر
ٹیکسی والا چینی نقشے کی ایپ استعمال کرتا اور ان سے بات کرنا بہت مشکل تھا۔ ٹیکسی
اور رائیڈ شیئر دونوں چلتی ہیں، مگر مسافر رائیڈ شیئر کو نہ بلا سکتا تھا کہ اس کی
ایپ کام نہ کر رہی تھی۔ ٹیکسی کو ہاتھ دیتے تھے، پہلے تو ٹیکسی میں نظر ڈالتے تھے کہ
کوئی مسافر بیٹھا ہے یا خالی ہے۔ کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ ٹیکسی پر ایک لائیٹ لگی
ہے، جو خالی ہونے پر سبز ہوتی ہے ورنہ سرخ ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں ہاتھ میں
موبائل ہو تو ٹیکسی دوڑی چلی آتی ہے، خالی ہاتھ کی اشارہ بازی پر بات نہیں بنتی۔ ایک
کرم فرما کے مطابق آج کے دور میں عشق بھی ایسا
ہی ہو گیا ہے۔
ایک
چینی لڑکی سے مدد چاہی، مگر اس سے بھی ٹیکسی نہ منگوائی گئی۔ قسمت سے ایک خالی ٹیکسی
آگئی اور آنے سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ دینے پر رک بھی گئی۔ اب ڈرائیور کو ہم کاغذ پر لکھا ہوٹل کا پتہ دکھاتے تھے مگر اُسے سمجھ نہ آتی تھی۔ اشاروں کی زبان میں ہر بات سمجھانا واقعی مشکل ہے۔
مسافر کو ایک خیال آیا اور اُس نے موبائل پر یونیورسٹی کے صدر دروازے پر کھنچی اپنی
تصویر ڈرائیور کو دکھائی جس میں یونیورسٹی
کا نام نظر آرہا تھا۔ ڈرائیور نے اپنی
خوشی سے ظاہر کیا کہ منزل سمجھ گیا ہے۔ مسافر نے زندگی میں یہی دیکھا ہے کہ منزل
کی سمجھ آجائے تو سفر طے ہوجاتا ہے، ورنہ تمام عمر آدمی دائروں
کے سفر میں پھرتا رہتا ہے، کبھی ایک جانب کو بھاگا، کبھی دوسری جانب کا رخ کیا اور
آخر میں تھک کر گرگیا۔ رزقِ خاک ہونے سے قبل منزل کا تعین بہت ضروری ہے۔
 |
|
مسافر
نارتھ ویسٹ نارمل یونیورسٹی، لان زو کے دروازے پر
|
یونیورسٹی کے صدر دروازے سے تھوڑا آگے ہوٹل تھا، سو ہمارے اشاروں پر ڈرائیور وہاں
لے گیا۔ اب نئی مشکل درپیش تھی، چین میں موبائل کے ذریعے ادائیگیاں ہوتی ہیں اور مسافر کے موبائل میں کچھ رقم نہ تھی کہ اس کے لیے کسی چینی بینک کا کارڈ چاہئیے تھا۔ ڈرائیور کو کرایہ کرنسی نوٹ کی شکل میں پیش کیا تو اُس کے
پاس بقایہ دینے کے لیے کھلا نہ تھا۔ قریب
کی دکان میں داخل ہوا کہ پیسے کھلے کروائے جائیں۔ اب وہاں بھی زبان آڑے تھی۔ ایسے
میں ایک چینی لڑکی دکان میں داخل ہوئی ، اس کو انگریزی میں اپنے مدعا پیش کیا اور
اس کے توسط سے ہمارے پیسے ٹوٹے۔ چین میں لوگوں کو مدد کے لیے بہت تیار پایا، جس کو روکا وہ رک گیا۔ زبان جانے یا نہ جانے کوشش
یہی کرتا کہ مدد کسی طرح کر پائے۔ مہمان داری بھی بہادری کی طرح ہوتی ہے، کچھ اور
نہیں صرف حوصلہ مانگتی ہے۔
ا نٹرنیٹ پر دیکھا تھا کہ لان زو میں دریائے زرد پر لوہے کا پل دیکھنےکی چیز ہے اور وہاں بہت لوگ آتے ہیں، سو شام کے کھانےکے بعد وہاں جانےکا پروگرام بنایا۔ شیان کی نورتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیک یونیورسٹی سے ایک پاکستانی طالبہ بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی ، اس نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی۔ یونیورسٹی کے کیفےٹیریا میں کھانا کھایا۔ کیفے ٹیریا میں بوفے کھانا دیا جاتا ہے۔ ایک جانب دیوار پر حلال کا بورڈ لگا تھا کہ اس کیفے ٹیریا میں تمام کھانا حلال ہے۔ یہ ایک بڑی بات تھی کہ کسی بھی ڈش سے کھانا لیتے کسی قسم کی فکر نہ تھی۔ چین میں ایسی نعمت ہم نے تو سوچی نہ تھی۔ تمام کھانے مصالحہ دار اور ذائقہ دار تھے۔ گوشت کی انواع و اقسام اور سمندری خوراک تھی۔
 |
| کیفے ٹیریا میں چینی اور انگریزی میں لکھا حلال |
کیفے ٹیریا بھی خوبصورت تھا، عمارت میں جابجا مصنوعی درخت لگائے گئے تھے جو بالکل قدرتی معلوم ہوتے تھے۔ ان درختوں کے نیچے میزیں رکھی تھیں کہ آپ عمارت کے اندر بھی درختوں کے نیچے بیٹھے کھانا کھائیں۔ یونیورسٹی میں ہریالی ہر جگہ تھی، باہر سرسبز میدان اور راہ کے ساتھ لگے قدرتی درختوں کی بہتات اور عمارت میں نصب مصنوعی درخت ایک دوسرے کو تقویت دے رہے تھے۔ انسان کی سوچ بڑی ہو تو قدرت بھی اس کے تابع رہتی ہے۔
 |
| کیفے ٹیریا میں لگا ایک مصنوعی درخت |
کھانے کے بعد یونیورسٹی کے باہر سڑک پر چلے گئے کہ دریائے زرد پر لوہے کے پل پر جاتے ہیں کہ وہاں کی رونق دیکھیں۔ پتہ لگا تھا کہ بس کا کرایہ بہت کم ہوتا ہے۔ سامنے سڑک کے درمیان بس سٹاپ تھا، مگر سمجھ نہ آتی تھی کہ کدھر کو جائیں کیوں کہ سڑک کے درمیان بنا بس سٹاپ ایک عمارت تھی اور اس کے دروازے خودکار یعنی آٹومیٹک تھے مگر تب ہی کھلتے تھے جب بس سامنے آکر رکتی تھی۔ ہم نے سڑک عبور کی اور دیکھا کہ کیسے اندر جا سکتے ہیں، تب پتہ لگا کہ بس سٹاپ میں داخل ہونے کے لیے سڑک کی دوسری جانب انڈر پاس بنے تھے سو ہمیں دوبارہ سڑک پار کرنی پڑی۔ ہم اب بس سٹاپ پر کھڑے تھے اور بسوں کے اوقات پر نظر ڈال رہے تھے۔ کچھ سمجھ نہ آرہی تھی اور اسی الجھن میں ہم نے ایک دو بسیں چھوڑ دیں۔
اس دن ہماری قسمت میں پریشانی لکھی تھی۔ آسانی سوچی اور کہا کہ بس چھوڑ دیں اور ٹیکسی پر چلتے ہیں۔ انسان بعض اوقات آسانی سوچتا ہے اور مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
اب اس پریشانی کی روداد اگلی قسط میں۔
Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#
Comments
Post a Comment