غزل

 شاعر: عاطف ملک

یہ عمر ہم نے کیسے بِتائی ہے

اک خواب ہے، خواب کی کمائی ہے


چار سو پھیلے گھپ اندھیرے میں

خیال کی شمع اک جلائی ہے


آنسو، دھواں، ندی، زنجیر

تیری زلف کی ہم نوائی ہے


مجبور جا بجا ہیں بکھرے ہوئے

گام گام الگ الگ خدائی ہے


دہائی دیتے دیتے آواز بیٹھ گئی

آنکھ روتے روتے پتھرائی ہے 


زندہ رہنے کی مجبوری ہے

"کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے"


اپنے اندر جو جی لیا عاطف

لمحہ، وہ  لمحہ ہی خدائی ہے

 

 


Comments

Popular posts from this blog

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

چین کا سفر، قسط اول

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ