ایک روداد

عام طور پر میں سٹ ان کیاک میں کشتی رانی کرتا ہوں۔ اس میں آپ کشتی میں ایسے بیٹھتے ہیں کہ ٹانگیں آگے بنے خانے میں سیدھی ہوتی ہیں۔

دو ہفتے قبل میری کیاک دریا میں الٹ گئی اور میں الٹا پانی میں تھا۔ منہہ پانی میں تھا اور ٹانگیں کشتی کے اندر خانے میں تھیں۔ جانیے جیسے واپڈا کے کھمبوں کی تاروں پر کبھی پرندے الٹے لٹکے نظر آتے ہیں کچھ ویسی صورتحال تھی۔ یا سمجھیے جیسے سرکاری سکولوں میں بچوں کو مرغا بناتے ہیں یا بعض سرکاری نوکریوں میں چھوٹے ماتحت مرغے بنے ہوتے ہیں ویسی صورتحال درپیش تھی بلکہ اضافہ تھا کہ منہہ پانی میں تھا۔

استاد نے بتایا تھا کہ اگر کبھی کشتی الٹی تو آپ کو دنیا الٹی نظر نہیں آئے گی، تمہاری آنکھیں بند ہوں گی۔ ہم نے کہا کہ گویا سرکاری نوکری ہوئی کہ کوئی اور دنیا نظر نہیں آتی۔ کہنے لگے تمہاری مثال غلط ہے کہ اس الٹ سے تم جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرو گے۔

مزید فرمایا کہ اگر کشتی الٹے تو الٹی لٹکی چمگاڈر کی مانند ہو گے سو اپنے جسم کو اٹھانا اور کشتی سے بغلگیر ہونے کی کوشش کرنا، اس سے تم اپنی ٹانگیں خانے سے نکال پاو گے۔ ہم نے کہا محترم، پانی میں الٹے ہوکر کشتی سے بغلگیری ایسا تو ہم اپنی محبوبہ سے بھی نہ کریں۔ کہنے لگے جب وقت آتا ہے تو چوں چنا نہیں ہوتا بلکہ چنانچہ ہوتا ہے۔ 

سو صاحبو، کشتی نے بھی ہم سے ایسی شرارت کی کہ پہلے کوئی وارننگ نہ دی، کوئی اٹھکیلی نہ کی، کوئی جسم نہ مٹکایا۔ پتہ ہمیں تب لگا جب جہانِ پانی میں الٹے تھے۔ 

چناچہ بقول استاد وقت آگیا تھا، مگر بخدا استاد کا پڑھایا سب سبق اس وقت کچھ یاد نہ تھا، کس سے بغلگیر ہونا ہے، کیسے خانے سے ٹانگیں نکالنی ہیں، کچھ یاد نہ تھا۔ اب تو تجربے کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ پانی میں الٹے ہوں تو سانس ہی بند نہیں ہوتا دماغ بھی کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ مرغے بنے ہوئوں کے بارے میں بھی یہی خیال ہے۔

سو صاحبو، وہ گھڑی محشر کو ہو نہ ہو، مگر ہمیں سمجھ آگئی تھی کہ عمل کچھ پیش کرنا ہوگا۔ کچھ پتا نہیں کہ کیا کیا مگر لمحہِ الٹ میں کچھ کیا ضرور کہ سیدھے ہو کر پانی سے مرغابی کی مانند سر نکال ہی لیا۔ ساتھ دیکھا تو وہ کشتی جو کبھی کبھی ہم سے اٹھکیلیاں کرتی تھی مگر سمجھانے پر مان جاتی تھی، اُس وقت منہہ نیچے کیے پانی پر الٹی ناراض لیٹی تھی۔ اور ہمیں اب اُس کو منا کر سیدھا کرنا تھا۔



 


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com 


Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ