کالک


 جین ریٹائرڈ نرس ہے، اور خوب خدمتی ہے۔ آج صبح پارک میں ہم کشتی چلانے والوں کا مل کر ناشتہ بنانے کا پروگرام تھا۔ جین کرسیاں، جگہ ٹھیک کرنے اور ناشتہ بنانے میں مصروف رہی جبکہ میں کشتی چلا کر واپس آیا تو ساتھ مدد کے لیے لگ گیا۔ پارک میں لگے الیکٹرک چولہے پر گول گول پلاسٹک کے سانچے لگا کر چولہے کی سائیڈ پر ایک طرف سے انڈہ مارتا اور اس سانچے میں ڈال دیتا۔ انڈے کے باریک چھلکے کو نکالتے ایک دفعہ ہاتھ بھی گرم چولہے پر جا لگا۔ انڈے نے کہا پتہ لگا خود جلنا پڑتا ہے تب شکل نکلتی ہے۔

انڈے کو پلٹنے کے لیے سانچے اٹھانا پڑتا اور پھر الٹایا جاتا۔ میں نے کہا انڈے کی زردی نظر نہ آئے تو مجھے تو بہت قلق ہوتا ہے۔ زردی سے سورج دیوتا نظر آتا ہے، یہ جو انڈے پلٹے جارہے ہیں ان سے لاہور کی سردیوں کی دھند بلکہ اب سنا ہے کہ سموگ بھی آجاتی ہے، اس کا احساس ہوتا ہے۔ انڈے کو نہ الٹا کہ زردی نظر نہ آئے تو مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ کہنے لگی چل تو کہتا ہے تو ایک انڈہ نہیں پلٹتے۔ پھر کہنے لگی میں تو خدمت پر معمور ہوں تو کدھر سے آگیا۔ میں نے جین سے کہا تو ساری عمر خدمتی رہی ہے سو یہ تیرا مسلہ نہیں ہے، میں ادھر کالک کم کرنے آیا ہوں۔

برسوں پہلے تبلیغی جماعت والے گھیر گھار کر تین دنوں کے لیے لے گئے تھے۔ نوشہرہ سے آگے ایک گاوں میں تشکیل ہوئی تھی۔ امیر صاحب نے خدمت پر معمور کردیا۔ پہلے دن ہی دیگچوں کی کالک اتارتے، ہاتھ سیاہ ہوگئے۔ وضو خانے میں ٹونٹیوں کے پائیپ کے نیچے اینٹ کے روڑے سے دیگچے کی کالک رگڑتا رہا مگر کالک تھی کہ اترتی نہ تھی۔ انجینئرنگ کے فائنل ایر کے طالب علم نے دیگچے کے ساتھ ساتھ اپنی کالک کو دیکھا تو کچھ کم ہوتی محسوس ہوئی۔

طالب علم بھلکڑ ہے مگر یہ جانتا ہے خدمت پر تشکیل ہوجائے تو کالک کم ہوجاتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ