براسطہ جہادِ کشمیر سب سے پہلے ہم

تحریر : عاطف ملک

آئیے مل کر پڑھتے ہیں درودِ پاک، اللھم صلی اللہ"، اُس کے سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ اس کے ذہن میں سوچ آئی کہ یہ سامنے بیٹھا شخص مجھے کتنا بڑا بیوقوف سمجھتا ہے۔ وہ ہنس پڑا یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس صورتحال میں ہے۔ یہ ایک مسکراہٹ تھی، اُس کی کوشش تھی کہ یہ مسکراہٹ سامنے والے کو نظر نہ آئے، مگر  صورتحال اتنی عجیب تھی کہ وہ مسکراہٹ چھپا نہ سکا۔ یہ مسکراہٹ اکیلی نہ ابھری تھی، بلکہ اُس کے دل میں اس سامنے بیٹھےشخص کے لیے گالی بھی ابھر کر آئی تھی، بے ساختہ، منہ بھر آتی؛ بے غیرت بلکہ اس سے بھی آگے کی گالی بلکہ گالیاں، شدید نفرت کے ساتھ بھری گالیاں، جو اُس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے والے کے منہ پر دے  مارے، متواتر، مشین گن کے برسٹ کی مانند، مگر وہ چپ رہا۔ وہ گالیاں بکنے والا شخص نہ تھا، گالیاں تو اُس نے اس وقت بھی نہ دیں تھیں جب وہ کیڈٹ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ وہ وقت جب اُس کے آس پاس والے بات بے بات پر گالیاں دیتے تھے، انگریزی میں اور اردو میں گالیاں، صبح شام گالیاں، وجہ بے وجہ گالیاں، کسی بدیسی تربیت کو اپناتے گالیوں کو بھی تربیت کا حصہ سمجھا گیا تھا۔ انگریزی گالیوں کے مطلب سمجھنے میں اُسے ایک عرصہ لگا تھا۔ انگریزی تو چھوڑیں اُسے اردو اور پنجابی کے گالیاں بھی کچھ احساس  نہ دیتی تھیں۔ یہ دونوں اُس کی زبانیں نہ تھیں۔ مگر آج  وہ عجب صورتحال سے دوچار تھا۔ صورتحال عجیب نہ تھی بلکہ بے یقینی کے ساتھ مل کر خوفناک تھی۔ 

ارشد لون ایک ایسا  شخص تھا، جو ملے تو اچھا لگے۔ عمر تیس سال کے لگ بھگ، درمیانہ قد، مناسب ترشی ہوئی داڑھی، بال سلیقے سے بنے ہوئے، لباس صاف ستھرا، زیادہ تر جین کی پینٹ کے اوپر شرٹ اور پیروں میں جوگرز پہنے ہوتا۔ جمعے کے جمعے استری شدہ شلوار قمیص اُس پر جچتی تھی۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک، بات دھیمے لہجے میں ایک مسکراھٹ کے ساتھ کرتا۔ اُس میں کچھ تھا، کچھ اَن کہا، اس کے گرد ایک ہالہ تھا، ایک کشش کا ہالہ،  نظر  نہ آتا مگر خودبخود محسوس کرواتا۔ چال مناسب رفتار مگر جب وہ کسی بنا پر تیز حرکت کرتا تو دیکھنے والا جان جاتا کہ وہ ایک پھرتیلا شخص ہے۔

 انجینیر ارشد لون، الیکٹرونکس انجینیر، غلام اسحاق خان یونیورسٹی کا بہترین گریجوئیٹ، ایف ایس سی بورڈ میں پوزیشن، لنشوپنگ یونیورسٹی سویڈن سے ماسڑز اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد  کا لیکچرار تھا۔ پچیس برس قبل اُس کا خاندان سرینگر سے مظفر آباد شفٹ ہوا تھا۔ ارشد کے ذہن میں سرینگر ڈل یا نگین جھیل کی وجہ سے یا اپنے باغوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت بل کی درگاہ کی وجہ سے زندہ تھا۔ وہ درگاہ جہاں اس نے پہلی دفعہ انسانی ہجوم دیکھا تھا، ہجوم جو اس کی سیکھی ہوئی گنتی سے کہیں زیادہ تھا، نعرے لگاتا، مکے لہراتا، ظلم کی بندوقوں کے سائے میں مکے لہراتا، نوجوان جن کے چہرے خانےدار رومالوں سے چُھپے تھے، رومال جن پر چوکور خانوں کے ڈیزائن چھپے تھے جو فلسطینی جدوجہد کا نشان ہیں۔ یہ رومال کشمیر میں بھی جدوجہد کے علمبردار تھے۔ ارشد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حضرت بل کی درگاہ پر ایک جنازے کے لیے پہنچا تھا۔ یہ اُس کے بھائی جاوید لون کے دوست کا جنازہ تھا۔ مگر یہ جنازہ عام جنازہ نہ تھا، یہ مٹھی میں انتقام کو  لپیٹے، اگلے جنازوں کا رہبر تھا۔ ارشد کے والد ڈاکٹر اقبال نے سوچا  کہ اس سے پہلے کہ چہار سو پھیلی آگ کی تپش انکے گھر تک آئے، وہ سرینگر چھوڑ جائیں۔ مگر جب ایک دفعہ سینے میں آگ لگ جائے تو کدھر بجھتی ہے۔ مظفر آباد آئے تین سال ہوئے تھے اور جاوید ٹریننگ کیمپ میں تھا۔ کشمیر میں کتنے کیمپ تھے؟ کون یہ کیمپ چلارہے تھے؟ کتنے گروپ کام کر رہے تھے؟ یہ جاننا بہت مشکل تھا۔ کشمیر کسی کی رگِ جاں ہو نہ ہو، کئی گروپوں کے لیےسرمایہِ حیات تھا۔ مقتدر حلقوں کے منظورِ نظر، اعلی حکام تک رسائی، پجارو گاڑیاں، کلاشنکوفیں، جوان باڈی گارڈز اور جذباتی نوجوانوں کی کھیپ، یہ تو دین اور دنیا دونوں کی کامیابی کا نسخہ تھی۔ ڈاکٹر اقبال نے جاوید کو سمجھانے اور روکنے کی کوشش کی مگر جوانی کا جوش، انتقام کی آگ، ہتھیاروں کی کشش، غازی یا شہید کا نعرہ، تھرل، ریڑھ کی ہڈی سے گذرتی تھرل، غیریقینی حالات میں موت کے سامنے کھڑے ہو کرریڑھ کی ہڈی سے گذرتی تھرل، اس کے مقابلے میں مظفر آباد کی سست، خوابیدہ زندگی جاوید کو کیا دے سکتی تھی۔

چھ ہفتوں کی ٹریننگ؛ پہاڑوں پر بھاگنے دوڑنے کی مشقت، کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کی فائرنگ، جنگل میں چھپنے کی تربیت، بھوکے پیاسے جنگل میں اپنی خوراک کے بندوبست کی ترکیبیں، بارود لگانے کے طریقے سب بنیادی تربیت کے حصے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے لڑکوں کا ساتھ علیحدہ تھا، بعض جن کی مسیں بھی ابھی نہ پھوٹی تھیں اور بعض جو زندگی کو کچھ گذار پائے تھے۔ دنیا پور کے قریب کے چک تیرہ سے حسین بخش تھا، جس کا اپنے گاوں سے باہر کی دنیا کا علم مظفرآباد تک کے واحد سفر پر مشتمل تھا۔ غربت کا مارا حسین بخش جب اُس نے کیمپ میں جوگرز پہنے تھے تو یہ اس کا زندگی میں بند جوتے پہننے کا پہلا تجربہ تھا۔ گاوں کی مسجد میں بہاولپور سے مہمان آئے تھے۔ گاوں کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں نے بھی بڑی گاڑی سے اترتے ان مہمانوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ سفید اجلے کپڑے پہنے، صحت مند، پیٹ بھرے، لمبی داڑھیوں والے، دین اور دنیا دونوں سے بہرہ مند، یہ مہمان پورے گاوں کے لیے خوش بختی کے نشان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر جل رہا ہے، پکار رہا ہے، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نکلے۔ گاوں کے مولوی اللہ وسائے نےسترہ سالہ حسین بخش کو دیکھا، ایک کونے میں لے گیا اور بتایا  کہ یہی موقع ہے مجاہد بننے گا۔ حسین بخش جو تیسری جماعت  میں استادوں کی مار کی وجہ سے سکول سے بھاگا تھا، گاوں میں آوارہ پھرتا تھا۔ تین ہفتوں بعد گھر والوں کو بتائے بغیر وہ چک چھوڑ چکا تھا۔ مولوی اللہ وسائے کے توسط سے لوگ اسے ملتان اور پھر آگے مظفر آباد لے آئے تھے۔ حسین بخش کوعلم نہ تھا  کہ تنظیم کو اُس کے اس جہاد کے ایک قدم کے بدلے لاکھ روپے ملے۔ ایک لاکھ سکہ رائج الوقت، دین اور دنیا دونوں کو بہرہ مند کرتا۔

خیر پور میرس کے آدم چانڈیو کی الگ کہانی تھی۔ وہ وریا  ڈاکو کے گینگ میں شامل تھا، دریائے سندھ کے کنارے کچے کے جنگل سے نکل کر ڈاکے مارتے اور واپس چھپ جاتے۔ آدم ایک ڈاکے کے بعد فرار ہوتے پکڑا گیا۔ حوالات میں پیشکش آئی کہ آخرت کے لیے ہتھیار اٹھائے، سو وہ بھی کیمپ میں تھا۔ ہتھیار چلانا جانتا تھا، جنگل میں چھپنے اور خوراک کے طریقوں سے واقف تھا، مقابلے کی تھرل جانتا تھا۔ اس کے پاس کہانیاں تھیں، جاوید کو اُس کی کہانیاں اور اردو بڑا مزہ دیتی تھی۔ تربیت کرانے والے کون تھے؟ یقین ہے کہ انکے نام کچھ اور تھے۔ پہلا سبق جاوید نے یہ سیکھا تھا کہ یہ دنیا الگ ناموں کی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ، موقعے اور موسم کے ساتھ بدلتے نام، اگر کبھی پکڑے جاو تو نام بتانا پڑ جاتا ہے؛ غلام رسول، محمد یسین، علی حیدر، دلنواز، سب ایک ہی شخص کے نام ہیں- سب عالم تمھارا ہے، تمام نام تمھارے ہیں۔ روس کی افغانستان میں شکست ہوئی تھی، استادوں کے پاس اصل تجربہ تھا۔ اسلحہ بہت تھا، پیسے مختلف کرنسیوں میں کھل کر آرہے تھے، امریکی ڈالر، عربی ریال، برطانوی پاونڈ سب برس رہے تھے۔  

جاوید لون، حسین بخش، آدم چانڈیو، تینوں کی سستی قیمت تھی۔ سستا سودا، نہ ماہانہ تنخواہ، نہ مراعات، مرجائیں تو نہ کوئی واجبات، صرف شہید کا لفظ آخر میں لگنا تھا۔ اگرلاش آجائے تو نمازِ جنازہ پر بغلگیریت اور آخرت میں مراعات کی بشارت، اگر لاش نہ آئے تو  گاوں کے باہر مین سڑک پر ایک بورڈ: گاوں حسین بخش شہید، مقامِ شہادت بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر، عمر ۱۹ سال۔

جاوید لون نے تربیت کے بعد پہلی دفعہ رات کے اندھیرے میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ  سرحد پار کی۔ وہ ایک رہبر اور چار مجاہد تھے۔ اُن کی راہ سے الگ دوسری جانب فائرنگ شروع ہوگئی تھی اور انہیں اپنا راستہ صاف ملا تھا۔ رہبر ان راہوں کا پرانا راہی تھا۔ ٹارگٹ پہلے سے منتخب تھا، معلومات مکمل تھیں۔ ایک دن کا سفر، پل کو بارود لگا کر اُڑانا اور پھر واپسی کا سفر اس مہم کے حصے تھے۔ اگلے دو سال میں جاوید لون نے بڑا تجربہ حاصل کر لیا تھا۔ اس نے سرحد پار کئی آپریشن کیے۔ مقامی زبان بولنا، جگہوں سے آگاہی، علاقائی لباس سب اُس کی مدد کو آتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال اس کو واپس پڑھائی کی جانب لانے کی کوشش کرتے رہے مگر اب تنظیم میں اُس کی اہمیت بھی زیادہ تھی اور پھر وہ تو اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بھارتی فوج کی ظلم و ستم کی کہانیاں وہ سنتا رہتا تھا۔ انتقام، انتقام، لہو میں بولتا انتقام اس کی رگوں میں دوڑتا تھا۔ 

اُس دن حسین بخش اور جاوید لون چھ ساتھیوں کے ہمراہ بارہ مولا کے علاقے میں ایک فوجی کانوائے پر حملے کی مہم پر تھے۔ فوجی کانوائے حملوں سے بچاو کی تیاری کر کے صرف دن میں چلتے تھے۔ جنگل میں بل کھاتی سڑک کے ایک موڑ پر جاوید اور اُس کے ساتھیوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور کانوائے کی گھات میں چُھپ کر بیٹھ گئے۔ کانوائے رکاوٹ پر پہنچا تو فوجیوں نےجان لیا کہ حملہ سر پر ہے۔ سپاھیوں نے فوراً اتر کر گاڑیوں کی اوٹ لی اور فائرنگ شروع ہوگئی۔ تین گھنٹے کی لڑائی میں آٹھ فوجی اور دو مجاھد مارے گئے۔ حسین بخش شہید، مقامِ شہادت بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر، عمر ۱۹ سال اور جاوید لون، پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا۔ دونوں کسی گمنام گڑھے کے پیٹ میں اکٹھے دفن کر دیے گئے۔ 

 ڈاکٹراقبال کو اگلے دن خبر مل گئی۔ لاش نہ تھی مگر تعزیت اور مبارکباد دینے والوں کا ہجوم تھا۔ لوگ صبح سے چلے آرہےتھے۔ غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ تنظیم کے بڑوں کے ہمراہ اور لوگ بھی آئے، کئی ناموں والے غلام رسول، محمد یسین، علی حیدر، دلنواز سب آئے تھے۔ چھ ماہ بعد ڈاکٹر اقبال نے فیصلہ کیا کہ وہ مظفر آباد چھوڑ کرایبٹ آباد منتقل ہورہے ہیں۔ ارشد لون کے ذہن میں یہ سب تازہ تھا، حضرت بل کی درگاہ کے جنازے سے لیکر اپنے بھائی جاوید کے غائبانہ جنازہ تک سب گہرا نقش تھا۔ 

ڈاکٹراقبال ارشد کو پڑھائی پر ہی توجہ کی تلقین کرتے۔ دو سال بعد اُس نے کیڈٹ کالج کا امتحان پاس کرلیا تو وہ اب بورڈنگ سکول میں تھا۔ آٹھویں کلاس کا بچہ، گالیوں سمیت کئی چیزیں سیکھتا۔ یہ بورڈنگ سکول بھی الگ دنیا ہیں، گھروں سے دور رہتے کمسن لڑکے، اعتماد  پاتے، اپنے کام خود کرتے، الصبح اٹھ کرمیس میں اکٹھا ناشتہ کرنے جاتے ہوئے اپنے چھوڑے گھروں کی یاد کی پوٹلی ساتھ اٹھائے ایک دستے کی صورت میں لیفٹ رائیٹ لیفٹ مارچ کرتے۔ چھری کانٹے سے ڈبل روٹی کاٹنا سیکھتے، پڑھائی کرتے، سہ پہر کو گراونڈ میں فٹبال، باسکٹ بال اور دوسرے کھیل کھیلتے۔ شام کو دوبارہ پڑھائی اور رات کو میس میں کھانا سب لگی بندھی روٹین کا حصہ تھے۔ سب اچھا بھی نہ تھا، معاشرے کی مختلف سطحوں سے آئے ہوئے بھانت بھانت کے لڑکے اپنے اپنے انداز میں دی جانے والی تربیت سے اثر پذیر تھے۔ سسٹم سینئرز کو بدتمیزی اور جونیئرز کو تعبداری گالیوں اور سزا کے ساتھ سکھاتا تھا۔ کبھی کبھار پیسے اور سامان بھی چوری ہوجاتا تھا، لڑکوں کے جنسی دست درازی کے واقعات بھی سننے میں آجاتے تھے۔ ارشد اس ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہوسکا، وہ گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ اُس کے مسلسل اصرار پر سال بعد ڈاکٹر اقبال اُسے واپس ایبٹ آباد لے آئے۔

ارشد لون ایک سنجیدہ طالبعلم تھا۔ اُس کی زندگی کے تجربے اپنے ہم جماعتوں سے فرق تھے۔ اُس نے اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھی۔ ایف ایس سی بورڈ میں پوزیشن لی اور پھر غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ میں الیکٹرونکس انجینرنگ میں اسکا داخلہ ہو گیا۔ یہ انسٹیٹوٹ بھی ایک کم آباد علاقے میں قائم شدہ ہے، کوئی قابلِ ذکر شہر پاس نہیں ہے۔ کلاسوں کے بعد  ہوسٹل واپسی، میس، انٹرنیٹ، نمازیں، تبلیغی جماعت، کھیل، مباحثے، سیاسی اور مذہبی بحثیں، توانائی سے بھرپور جواں لوگوں نے اپنے اپنے شوق ڈھونڈ لیے تھے۔ مختلف طالب علم اپنے اپنے رجحان کے مطابق کام کرتے، بعض انٹرنیٹ پر فری لانس کام کرتے، بعض یونیورسٹی میں بنائے گئے مختلف کلبوں کا حصہ بن جاتے۔ ارشد لون روبوٹکس اور الیکٹرونکس کلب میں شامل ہوگیا۔ دوسرے ممبران کے ساتھ مل کر چھوٹے چھوٹے ہابی پروجیکٹ بناتا؛ موٹر کنٹرول، دھواں محسوس کرتا الارم سسٹم، سفید لائن پر چلتا چھوٹا روبوٹ وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹراقبال کی کوشش تھی کہ ارشد کو تنظیموں سے دور رکھیں مگر یہ دور تنظیموں کی ترویج کا دور تھا۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد سے پیسہ، اسلحہ، جذبہ سب کی بہتات تھی۔ گلی گلی بینرز لگے تھے اور دکان دکان چندے کے ڈبے پڑے تھے۔ نعرے تھے کہ کشمیر کی آزادی اگلی منزل ہے، بس آیا ہی چاہتی ہے۔ امریکہ اپنا کام کرواکے جا چکا تھا، افغانستان میں خانہ جنگی تھی۔ جہاد کا نعرہ اور پیسے کا کھیل سب ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ مذہبی جوش، غربت، پروپگینڈہ، سکول کالجوں اور مدرسوں میں پھیلی فرسٹیشن، درپردہ سر پرستی، سب عوامل تھے۔ ایسے میں ارشد لون جیسا سوچتا شخص کیسے الگ رہ پاتا مگر ڈاکٹر اقبال گہری نظر رکھے تھے، جیسے ہی ارشد کی ڈگری مکمل ہوئی، انہوں نے اُسے باہر کسی یونیورسٹی میں مزید تعلیم کی ترغیب دی ۔

ارشد لون کا داخلہ لنشوپنگ یونیورسٹی سویڈن میں ہوا۔ پڑھائی مقصد نہ تھا بلکہ  مقصد اُسے تمام معاملات سے دور رکھنا تھا، مگر قسمت کا لکھا ہو کر رہتا ہے۔ وطن واپس آنے کے بعد اُسے اسلامک یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل گئی۔ ایک دھیمے لہجے میں پڑھاتا استاد، جس کی زندگی کے تجربات اُس کی آواز میں کہیں دور چھلکتے تھے، نہ محسوس انداز میں، حضرت بل کی درگاہ پر سینہ کوبی کرتا ہجوم، بارہ مولا کی کسی کھائی میں دبی ایک گمنام لاش، لنشوپنگ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں اس کے ساتھ کےکمرے میں رہتی گھنگھرالےبالوں والی میڈیلینا جسے وہ برآمدے میں آتے جاتے ہیلو کہتا تھا اور جب وہ پڑھائی مکمل کرکے وطن واپس جا رہا تھا تو اُس نے بھری آنکھوں سے اُس اجنبی طالبعلم کو کہا تھا کہ واپس نہ جا، کون کہتا ہے کہ مغربی عورت محبت نہیں کرتی۔ جب وہ ڈیجیٹل الیکٹرونکس کے لیکچر کے لیے کھڑا ہوتا تو سرکٹ بورڈ پڑھاتے کیپسٹرز، رجسڑز کو آپس میں سولڈر ہوا دیکھتا اور سوچتا کہ یادیں بھی ان اجزاء کی طرح جڑی ہیں، باہمی چپکی ہوئیں،علیحدہ نہ ہوپائیں، چند یادیں منتخب کرکے ہم انہیں مٹا نہیں سکتے۔ سرکٹ بورڈ جلے گا تو ہی اجزاء علیحدہ ہونگے، جلے ہوئے، سیاہ رنگ، مستقل نشان چھوڑتے۔

حالات بدل چکے تھے۔ جہاد کا نعرہ مٹا کر "سب سے پہلے ہم" کا نعرہ لکھنے کی کوشش کی گئی تھی مگر مسلہ یہ تھا کہ پہلے لکھے گئے نعرے کی روشنائی اتنی گہری تھی کہ کوئی بھی ربڑ اسے مٹا نہ سکتا تھا۔ اس روشنائی میں متعدد اجزاء تھے؛ کئی سالوں کی سر پرستی، مذہبی جذباتیت، روح تک اترتے نعرے، حق و ناحق خون کی قربانی، پیسے کی سرمایہ کاری۔ تیزاب لایا گیا، الفاظ جل گئے مگر مٹ نہ پائے۔ اب کل کے دوست آج کے دشمن تھے۔ داڑھی اورعمامہ دشمن ٹھہرا، پگڑی اور شلوار دشمن تھی، ٹوپی اور پرنا دشمن تھا، حلق سے آواز نکال کر کلام کرتا دشمن تھا، آنکھیں بند کرکے لحن سے پڑھتا دشمن تھا، دنیا پور کے چک تیرہ کا خیرات پر چلتا مدرسہ دشمن تھا، مظفر آباد کا خود بنایا ٹریننگ کیمپ دشمن تھا۔ کل کے دوست آج کے دشمن تھے۔

وہ فصل جس کی دہائیوں تک آبیاری کی تھی، اُس کے پھل کی تاثیربدلنے کا حکم ہوا، یک دم، اک جنبشِ قلم کے ذریعے سے جو اب تک سیاہ تھا وہ سفید قرار پایا اور اب تک جو دن تھا وہ رات قرار پائی۔ یہ نری خام خیالی ظاہر ہوئی۔ تناور درختوں کی جڑیں گہری تھیں اور زیرِ زمیں دوسری جڑوں سے ملی تھیں۔ ایک گنجلق تھا اور کند ذہنوں کی سمجھ کی استعداد سے کہیں آگے کا معاملہ تھا۔ وہ حشر بپا ہوا کہ کسی کو بھی جائے اماں نہ ملی۔ خون ارزاں تھا، بلا تفریق؛ بلا تفریقِ جنس، بلا تخصیص مرد و عورت، بلا تفریق عمر، بلا تفریق شیر خوار و ضعیف، بلا تفریق گناہگار و نیک، بلا تفریق مزدور وسرکار، بلا تفریق سپاہی و افسر، بس خون ارزاں تھا۔

خون تو سستا ہوا سچ بھی سستا ہوگیا، سانس لیتا آدم بھی سستا ہوا۔ جس پر شک ہوا، وہ اٹھایا گیا، بیچا گیا، گم شدہ، لاپتہ ایک طرف، لکھ پتی، ارب پتی بنتے دوسری طرف تھے۔ گندم  کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا۔ وہ جنہیں خود پالا تھا، بالمقابل تھے۔ دوست دوست نہ رہا، بدگمانی اور بے یقینی چہار سو تھی، خوف تھا کہ ذہنوں میں در آیا تھا۔ جس پر بھی شک نے سر اٹھایا، خوف نے کہا کہ اٹھالے۔ وہ جو ایک اکٹھی کمین گاہ تھی اب کمینگی کی گاہ تھی۔ خوف نے تفریق ایسی مٹائی کہ گناہگار اور بے گناہ ایک ہی قطار میں تھے۔ بھائی بھائی کو ڈھونڈتے تھے، بیویاں جانتی نہ تھیں کہ سہاگن ہیں کہ بیوائیں، مائیں نم ناک تھیں اور مسلسل حالتِ دعا میں تھیں۔ منصف آنکھیں چُراتے تھے۔ ایسا حبس کا عالم تھا کہ چرند پرند تو اک جانب انسان بھی امان مانگتا تھا، سانس لینے کا امان مانگتا تھا،غرض کہ خوف کا عذاب تھا۔

ارشد لون کو کئی دنوں سے محسوس ہورہا تھا کہ کچھ افراد اسکا  پیچھا کررہے ہیں، کوئی گاڑی اسکے تعاقب میں رہتی ہے۔ ایک رات اسکی ماں نے صحن میں چند لوگوں کو چلتا محسوس کیا۔ ارشد کو کتابوں کی الماری میں کتابیں اپنی ترتیب سے نکلی نظر آئیں۔ کدھر جاتا، وہ اپنے بھائی کے پرانے ساتھیوں کو جانتا تھا اور ان سے تعلق رکھے تھا۔ اس کا باپ ڈاکٹر اقبال اپنے ایک بیٹے کے بعد  دوسرے کو ان تمام حالات سے دور رکھنے کی کوشش میں تھا مگر وقت بھی بوم رِنگ کی طرح  ہوتا ہے، وہ لکڑی کا ٹیڑھا ٹکڑا جو دور پھینکو تو ہوا میں گھوم کر واپس آتا ہے، جتنی قوت سے پھینکو، اتنی تیزی سے واپس آتا ہے۔ ماضی حال سے ایسا جڑا ہوتا ہے کہ مستقبل پر بھی پرچھائیاں ڈال جاتا ہے۔

ارشد کو دو تین گمنام فون آئے، ہم آپ کے نظریات سے متفق ہیں، آئیے ملتے ہیں۔ میں آپ کا بھائی کا دوست ہوں، اس جدوجہد کا حصہ رہا ہوں، آئیے ملتے ہیں۔ وہ ان سے ملنے نہ گیا۔ ارشد کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اُس شام وہ یونیورسٹی سے گھر جانے کے لیے نکلا تو اُٹھا لیا گیا۔ گاڑی کھول کر اس میں بیٹھا ہی تھا کہ تین لوگ تیزی سے دروازے کھول کر اندر بیٹھ گئے۔ ایک نے پستول کی جھلک دکھائی اور ساتھ ہی اسکا نام لے کر کہا کہ ہم دوست ہیں، گاڑی چلاو۔ دوست، دوستوں کی تعریف پچھلے چند سالوں میں ایسی بدلی تھی کہ اُسے ایک خوف محسوس ہوا۔

 چند کلومیٹر کے بعد گاڑی بدل گئی اور ارشد کی آنکھوں پر پٹی بند گئی۔ راہیں بدلتی محسوس ہوتی تھیں اور ارشد کے ذہن میں خیالات بھی گڈمڈ آرہے تھے۔ گاڑی رکی تو اس کی گھڑی، بٹوہ اور دوسر ی اشیاء لے لی گئیں۔ پٹی اتاری گئی تو وہ ایک کمرے میں تھا۔ عام کمروں سے الگ کمرہ، ایک چوکور کمرہ، خالی، بالکل خالی، کسی کھڑکی کے بغیر، کسی روشندان کے بغیر، کسی پنکھےکے بغیر، وہ ایک کمرہ کسی بڑی قبر کی مانند تھا۔ چاروں دیواریں اور چھت ایک سی سفید رنگ تھیں۔ کمرے کے چاروں جانب سے روشنی کا انتظام ایسے کیا گیا تھا کہ وقت تھم سا گیا تھا، روشنی کی ایک ہی مقدار رہتی تھی۔ دن رات کے گذرے پہروں سے قطع نظر روشنی ایک سی رہتی تھی۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں پریشانی، خوف، ہنسی، غیریقینی سب کچھ اکٹھا تھا۔

ارشد جلد ہی وقت کے احساس سے نکل چکا تھا۔ کب رات ہوئی، وہ کتنا سویا تھا، کیا تاریخ تھی، اسے کچھ علم نہ تھا۔ مسلسل جلتی روشنی، خالی کمرہ اور سخت زمین کا کونہ وقت کو روکے کھڑے تھے۔ پھر اُسے کمرے سے نکال کر ایک اور کمرے میں لے جایا گیا۔ کمرہ جس میں دیواروں پر اذیت دینے کے آلات لٹکے تھے؛ بڑے بڑے چھتر، ہتھکڑیاں، مختلف بھیانک شکلوں کے اوزار دیواروں پر آویزاں تھے۔ کمرے کا دورہ کروانے کے بعد اُسے واپس پچھلے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ وہ بیوقوف نہ تھا، وہ اس دورے کا مطلب سمجھتا تھا۔

وقت کا حساب نہیں مگر گمان ہے کہ اگلے دن دو کرسیاں کمرے میں لگائی گئیں اور ارشد ایک  شخص کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ شخص جس نے اپنا تعارف نام کے ساتھ ایک عہدہ جوڑ کر کروایا تھا۔ ارشد نے سوچا کہ ان افراد کی بدلتی دنیا بدلتے ناموں کے ساتھ ہے۔ جاوید نے سالہا سال قبل فخریہ انداز میں اُسے ایسے کئی عہدیداروں کےٹریننگ کیمپ میں وزٹ کا بتایا تھا۔ اُس نے سوچا، کیا یہ سامنے بیٹھا شخص بھی جاوید کو جانتا ہوگا۔ جاوید لون شہید، پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں ہر ایک یہی بتاتا تھا کہ شہید زندہ ہیں۔ ارشد نے سوچا کیا بھائی بھی اس کمرے میں کہیں موجود ہوگا۔ اُس بے نام کمرے کے ساقت وقت میں ارشد کے ذہن میں تمام یادیں گڈمڈ ہورہی تھیں۔

 آئیے مل کر پڑھتے ہیں درودِ پاک، اللھم صلی اللہ"، اُس کے سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ وہ ہنس پڑا، یہ سوچتا کہ سامنے بیٹھا مجھے کتنا بڑا بیوقوف سمجھتا ہے۔ وہ ہنس پڑا، یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس صورتحال میں ہے۔ یہ ایک چھپی مسکراہٹ تھی، اُس کی کوشش تھی کہ یہ مسکراہٹ سامنے والے کو نظر نہ آئے، مگر  صورتحال اتنی عجیب تھی کہ وہ مسکراہٹ چھپا نہ سکا۔ یہ مسکراہٹ اکیلی نہ ابھری تھی، بلکہ اُس کے دل میں اس سامنے بیٹھےشخص کے لیے گالی بھی ابھر کر آئی تھی، بے ساختہ، منہ بھر آتی، بےغیرت بلکہ اس سے بھی آگے کی گالی بلکہ گالیاں، شدید نفرت کے ساتھ بھری گالیاں، جو اُس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے والے کے  منہ پر دے  مارے، متواتر، مشین گن کے برسٹ کی مانند، مگر وہ چپ رہا۔

اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئےشخص کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات محسوس کیے۔ سامنے والا مختلف سوالات پوچھنے لگا۔ سوالات جن کا تعلق اُس سے تھا، اس کے خاندان سے، سری نگر سے ایبٹ آباد تک، کیڈٹ کالج سے لنشوپنگ یونیورسٹی تک مختلف سوالات پوچھے گئے۔ وہ جان گیا تھا کہ تمام معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ مقصد یہ احساس دینا بھی تھا کہ ہم سب جانتے ہیں۔ ارشد سوچ رہا تھا کہ وہ یہاں کیوں ہے، کیوں؟

کیا تم الیکٹرونکس کاونٹر بنانا جانتے ہو؟ جی، بنیادی ڈیجیٹل الیکٹرونکس کے کورس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ کیا ڈیٹونیٹر میں یہ استعمال ہوسکتے ہیں؟ جی ہوسکتے ہیں۔ تم ڈیٹونیٹر بناتے ہو، نہیں۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ارشد لون کوپتہ چل گیا  کہ وہ وہاں کیوں ہے۔ چند دن قبل ایک پل اڑایا گیا تھا، اور وہ ایک مشتبہ شخص تھا۔ ایک مشتبہ ماضی اس کے ساتھ جڑا تھا۔ گیا وقت جو کبھی قابل تعریف تھا مگر اب دور ایسا آیا کہ ماضی بھی تبدیل ہو کر سیاہ رنگ ہوگیا تھا۔ یہی تبدیل شدہ ماضی اُسے اس کمرے تک لایا تھا۔

سالہا سال گذر گئے۔ ڈاکٹراقبال ایک در سے دوسرے در تک بھاگ  بھاگ کر تھک چکے ہیں، بس ایک امید انہیں بھگائے پھرتی ہے کہ شاید ارشد لون واپس آجائے۔ سات سمندر پار ایک گھنگریالے بالوں والی عورت بھی کبھی کبھی سوچتی ہے، ایک عجیب لڑکا تھا عورت کے جسم کے پیچھے بھاگتے ہجوم سے فرق، جانے وہ کس حال میں ہوگا۔

اور ایک ماں، جس کے  سامنےدو بورڈ سرخ روشنائی میں لکھے ہیں۔

جاوید لون ----- پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر۔

انجینیر ارشد لون ----- پیدائش سرینگر، حال مقیم : محلہ نامعلوم، شہر نامعلوم، سانس نامعلوم

ختم شد۔


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com 



Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ