شہزادہ احمد الکمال - قسط دوم

تحریر : واشنگٹن ارونگ

ترجمہ : عاطف ملک

اس کہانی کی قسط اول مندرجہ ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہے۔ 
http://aatifmalikk.blogspot.com/2020/12/blog-post.html

 قسط دوم

اسی اداسی کے درمیان میں سردیاں گذر گئیں، اور پھر موسم خوشگوار ہونے لگا۔ بہار کی آمد آمد تھی، ہوا میں نہ جانے کہاں سے یکایک تازگی آگئی تھی، پھول کھلنے لگے، کونپلیں پھوٹںے لگیں اور پرندوں کے جوڑے تنکے اٹھا اٹھا کر اپنے گھونسلے بنانے لگے۔  غرناطہ کے باغات سے پرندوں کی خوشیوں سے بھری آوازیں مینار کی تنہائی میں رہتے شہزادے احمد تک آنے لگیں۔ ہر کونے سے محبت، محبت کی آواز شہزادے کو سنائی دینے لگی۔ کیا عجب آوازیں تھیں؛ بھنورا گا رہا تھا، محبت، محبت- بُلبل کی آواز کہہ رہی تھی محبت، محبت- کوئل کوکتی تھی، محبت، محبت۔ چاروں جانب سے مختلف سُروں میں آوازیں آرہی تھیں، محبت، محبت۔ ہوا بھی جب شہزادے کے پاس برج کی تنہائی میں گذرتی تھی تو سرگوشی کرتی جاتی تھی؛ محبت، محبت۔ شہزادہ حیران اور ہکا بکا تھا، یہ محبت کیا ہے جو یکایک فضا میں ہر جانب سے در آئی تھی۔  محبت کیا ہے جس کی سرگوشی اور نعرے سب پرندے، پھول، شجر، ہوا، بہتا پانی لگا رہے تھے۔ شہزادہ حیران تھا، اور پریشان تھا۔ " یہ محبت کیا ہے؟ محبت، جس سے یہ دنیا بھری محسوس ہورہی ہے، اور میں اس سے ناواقف ہوں"۔

شہزادے نے عقاب سے یہ سوال کیا۔ لڑاکے پرندے نے جواب دیا۔ 

" شہزادے، یہ سوال کسی عام اور ادنی قسم کے پرندے سے کرو، وہ جن کی تخلیق ہم جیسے بہادروں کی خوراک کی خاطر ہوئی ہے۔ میں ایک جنگجو ہوں، میری زندگی کا مقصد معرکہ آرائی ہے۔ میں جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر پھر جھپٹںے کا شوقین ہوں- پرندوں کا خون میری چاہت ہے۔ میں یہ محبت وغیرہ کچھ نہیں جانتا"۔ 

عقاب کے لہجے سے حقارت ظاہر تھی۔  

شہزادہ عقاب کے جواب سے بہت بیزار ہوا، اس نے سوچا کہ الو سے اس سوال کا جواب مانگتے  ہیں کہ الو ایک قابل پرندہ لگتا ہے اور اس کے اطوار بھی جنگجوانہ نہیں ہیں۔  وہ یقیناً میرے سوال کا جواب جانتا ہوگا کہ یہ محبت کیا ہے جس کی آواز باغ کے ہر گوشے اور کنج سے آرہی ہے۔ سو اُس نے الو سے محبت کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا ہے؟

سوال سنتے ہی الو کے چہرے پر تدبر کا گہرا رنگ آگیا۔ مگر یہ بھی محسوس کیا جاسکتا تھا کہ وہ اس سوال سے خوش نہیں ہوا۔ 

" شہزادے، میرا وقت تدبر اور غور و فکر میں گذرتا ہے۔ یہ گانا گاتے بیوقوف پرندے، میں انہیں نہیں سنتا بلکہ میں انہیں پسند بھی نہیں کرتا۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اُس نے مجھے گانا گانے کی صلاحیت نہیں دی۔ میں تو ایک فلسفی ہوں، ایک مفکر جو بڑے بڑے مسائل کے حل کی کوشش میں رہتا ہے۔ یہ جو تم گاتے پرندوں کے پیغام  اور محبت کے نعروں کے بارے میں پوچھ رہے ہو، میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا"۔

اس پر شہزادہ  بُرج کے تاریک حصے میں گیا، جہاں اندھیرے میں اُس کی دوست چمگاڈر اپنے پنجوں سے اُلٹی لٹک رہی تھی۔ شہزادے نے محبت کے متعلق اپنا سوال چمگاڈر کے سامنے رکھا۔  چمگاڈر نے سوال سُن کر اپنی ناک ناپسندیدگی سے سکیڑی۔ 

" شہزادے، یہ بھی کیا دن ہے کہ  صبح صبح میں نے ابھی اپنی اونگھ شروع ہی کی ہے اور تم اپنا بےکار سوال لے کر آگئے ہو۔ میں اندھیروں کی مسافر ہوں جب تمام پرندے سو رہے ہوتے ہیں اور مجھے اُن کی فضولیات میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔  جان لو کہ میں عام پرندوں سے الگ مخلوق ہوں اور بخدا میں اس کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کیونکہ میں نے جان لیا ہے کہ یہ پرندے بہت بے کار اور کمینے ہیں۔ میں انہیں پسند نہیں کرتی اور ان سے دور رہتی ہوں بلکہ میں تو اُن کی طرح بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتی، میرے اطوار اُن سے الٹ ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ یہ محبت کیا چیز ہے جس کا شور پرندوں نے مچا رکھا ہے"۔ چمگاڈر نے  پھر اپنے پیروں سے الٹے لٹکے لٹکے کروٹ بدلی اور شہزادے سے منہہ دوسری طرف کرکے آنکھیں بند کرلیں۔ 

شہزادے نے اب مجبوراً ابابیل کو روکا جو کہ حسبِ معمول مینار کے گرد تیزی سے چکر لگا رہا تھا۔ ابابیل ہمیشہ کی طرح جلدی میں تھا اور اُس کے پاس جواب دینے کے لیے مختصر وقت تھا۔ 

"شہزادے، آپ نے کدھر مجھے روک لیا ہے۔ مجھے جانیے، میں عالم کے لیے کام کرتا رضا کار ہوں اور قسم سے اکیلا ہوں جس نے دنیا کے مسائل کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ مجھے عام نہ جانیں، میں بہت مصروف پرندہ ہوں، میرے ذہن پر اتنے زیادہ کام ہیں کہ میں ہر طرف بھاگا اُڑتا ہوں۔ روزانہ ہزاروں جگہوں کا معائنہ کرتا ہوں اور اس معائنے کی بنیاد پر میں نے ہزاروں مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ اس مصروفیت کی بنا پر گانے بجانے والے موضوعات  پر سوچنے کے لیے میرے پاس کوئی وقت نہیں بچتا۔ مجھے محبت  اور دوسری عام چیزوں کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ مجھ سے آپ کوئی گہرا سوال کریں۔ میں ذرا جلدی میں ہوں"۔ اس کے ساتھ ہی ابابیل نے وادی کی جانب تیز اُڑان بھری اور لمحوں میں آنکھوں سے اوجھل تھا۔  

شہزادہ مایوس ہوا  کہ یہ پرندے اُسے بتا نہ پائے کہ محبت کیا ہے۔ اس کا تجسس اُسے حیران اور پریشان کیے تھا کہ اُسی وقت ابن بنین وہاں داخل ہوا۔ 

" اے استادِ محترم، اے عقل مندوں کے عقل مند، اے ابن بنین، آپ نے مجھے کائنات کے علوم سکھائے ہے، میں علومِ ماضی و علومِ جدید سے بہرہ مند ہوا ہوں۔ مگر ایک علم ایسا ہے جس سے میں ناواقف ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے بھی فیض یاب کریں"۔

" اے شہزادے، ضرور پوچھیں اور جو کچھ میں جانتا ہوں وہ میں آپ کو ضرور سکھاونگا"۔

" اے داناوں کے سردار، مجھے بتائیں کہ یہ محبت کیا چیز ہے؟"۔

ابن بنین نے یہ سوال سنا تو اپنی جگہ کانپ کر رہ گیا۔ اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور اُسے یوں محسوس ہوا کہ اس کا سر اس کے کندھوں پر دھرا ہے مگر موجود نہیں ہے۔ 

" اے شہزادے، یہ سوال ذہن میں کیسے آیا؟ محبت کا بے کار اور بے فائدہ لفظ کہاں سے سنا ہے؟"

اس پر شہزادے ابن بنین کو مینار کی کھڑکی پر لے گیا۔ 

 " اے ابن بنین، سُن"۔ 

صاحبِ علم سننے لگا۔ ایک بلبل اپنے محبوب گلاب کے گرد منڈلا رہا تھا اور محبت کا گیت گا رہا تھا۔ باغ کے ہر گوشے سے محبت کی صدا آرہی تھی۔ پرندوں کے جوڑے شاخوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو پیار و محبت کے نغمے سنا رہے تھے۔

قسط دوم

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:

aatif.malikk@gmail.com  


Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ