وائرس کے ساتھ ساتھ خوف کو بھی شکست دینا ہوگی

تحریر: عاطف ملک

پچھلے کئی سالوں سے ایک فلاحی طبی ادارے کے ساتھ رضا کارانہ طور پر منسلک ہوں، اور اس ادارے کو پچھلے کئی سالوں میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے بڑھ کر ایک مکمل ہسپتال بنتا دیکھا ہے۔ اس سفر میں پاکستانیوں کی مدد اور جذبے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دنیا کی  ہر قوم میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، پاکستانی قوم بھی کوئی استثناء نہیں ہے، جہاں بری کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، وہیں قربانی کی بھی کئی واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ کل اس طبی ادارے کے انچارج سے بات ہوئی تو علم ہوا کہ ایک ڈاکٹر استعفی دے گئی ہیں، وجہ جو بھی بیان کی گئی مگر ظاہر بات تھی کہ وہ خوف کی شکار تھیں، اور ہسپتال میں مریضوں سے رابطے سے بچنا چاہ رہی تھیں۔ مزید علم ہوا کہ دو اور ڈاکٹر بھی ایسا ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ کسی اور ذرائع سے پتہ لگا ہے کہ  کچھ مزید طبی عملہ بھی گھر بیٹھ گیا ہے، کچھ ہسپتال بھی بند ہوگئے ہیں اور کچھ نے اپنا دورانیہ بہت کم کردیا ہے۔ طبی عملے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ اس معاملے کی وجہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا چاہیئیں۔ 

خوف انسانی جبلت میں شامل ہے، اس کا انکار ممکن نہیں۔ بعض مقامات پر خوف  بچا لیتا ہے، مقابلے کی بجائے بھاگ جانا حیوانات میں زندگی کا بچاو بھی ہے، مگر دوسرے مقامات پر خوف سمجھ اورعقل بند کردیتا ہے اور ایسے کئی کام کروادیتا ہے جو سراسر تباہی ہیں۔ کرونہ وائرس نے اس خوف کو آشکار کردیا ہے، گلوبل ولیج میں کمیونیکشن کی سہولیات نے اس خوف کو پھیلانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر انسانی نفسیات کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں، جھوٹی خبریں اور خوف پھیلانے کی ارادی کوشش بھی ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق کے بغیر آگے بات پہنچانے کی خواہش نے بھی تباہی پھیلائی ہے۔ میڈیا کا کردار بھی قابلِ تعریف نہیں ہے۔

خوف کے کچھ قصوں سے واسطہ پڑا تھا۔ ایک زمانہ میں ایر فورس کی اکیڈمی میں تربیت کا زمانہ گذارا تھا۔ کیڈٹ بہت سے کام جانتے تھے جن سے میڈیکل چھٹی مل جاتی تھی- ڈاکٹر کے پاس جانے سے قبل آنکھوں میں صابن ڈال کر لالی لے آنے سے لیکر پیشاب میں جلن کا کہہ کر پیشاب کے نمونے میں انگلی پر پن چبھو کر خون کی آمیزش کر دینا، کئی واقعات سے آگہی رہی ہے۔ اُس زمانے میں وہاں تعینات ایک سینئر پائلٹ کے بارے میں عام افواہ تھی کہ جنگ کے دنوں میں یہ صاحب کسی جنگی مشن سے بیماری کا بہانہ کرکے بھاگ گئے تھے۔ یہ جھوٹ بھی ہوسکتا ہے مگر کوئی بعید ازامکان بھی نہیں ہے۔ اسی طرح گارگل کی جنگ میں لڑے ایک فوجی افسر سےایک دفعہ کئی گھنٹے کی نشست ہوئی تھی جس میں اس معرکے پر تفصیلاً بات ہوئی۔ انہیں کارگل کے بعد بہادری کا اعلی قومی اعزاز ملا تھا، وہ دونوں نشان حیدر حاصل کرنے والوں یعنی کیپٹن کرنل شیر خان اور حوالدار لالک جان کو ذاتی اور عسکری حیثیت سے جانتے تھے۔ انہوں نے جہاں بہادری کے قصے سنائے وہیں خوف کے زیراثر کچھ واقعات کا بھی بتایا جس کے نتیجے میں بعد میں افراد کا کورٹ مارشل بھی ہوا تھا۔ خوف کسی بھی طرح در آسکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو فلائینگ کوچ پر سفر نہیں کرسکتے۔ بس، فلائنگ کوچ پر بیٹھتے ہی خوف اور پریشانی ان پر طاری ہوجاتی ہے۔ اگر کسی دوسرے شہر جانا ہو تو انہیں زیادہ خرچہ کرکے گاڑی کروانی پڑتی ہے۔ 

طبی عملے بھی آج خوف کا شکار ہورہا ہے اور اس بنا پر کچھ نے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی ہے۔ اس میں غیر یقینی صورتحال، افواہوں کی بھر مار، حفاظتی لباس و آلات کی عدم دستیابی، حکومت کے اقدامات پر عدم اطمینان، اور ہسپتالوں میں طبی رہنماوں کی جانب سے رہنمائی کی کمی کچھ وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔  

ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرونہ کی افتداد سے اجتماعی مقابلہ کرنا ہوگا اور طبی عملہ اس جنگ میں ہراول دستہ ہے، ہمیں اپنے خوف کے باوجود انہیں بھرپور سہارا دینا ہوگا۔ اگر ہم ماسک اور دوسری اشیاء کا ذخیرہ  کرکے میڈیکل کے افراد کے لیے ان اشیاء کی کمی کا باعث بن رہے ہیں تو یاد رکھئیے یہ بیماری ہم تک ضرور پہنچے گی۔  طبی عملے کو حفاظتی لباس، ماسک، سینیٹائز اور دوسری متعلقہ اشیاء کی فراہمی میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے جذبے اور قربانی کی قدر کیجئے اور حت المقدور ان کی مدد کریں۔ 

افواہوں اور غیر مصدقہ خبروں کو مت پھیلائیے۔ افواہوں کی تصدیق کرنا بھی آج کل آسان ہوگیا ہے، شیئر کرنے سے پہلے بنیادی تصدیق ضرور کریں۔ اگر کوئی خبر اور اس کے جڑی عبارت آپ کے جذبات پر اثرانداز ہورہی ہے اور کسی قسم کے خوف، پریشانی یا اگر زیادہ جوش کی جانب لے جارہی ہے تو اس کی تصدیق کرنا زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ جذبات اور حقائق میں فرق کرنے کی کوشش کریں۔  سب سے بڑھ کر کامن سینس کو استعمال کریں۔ 

اس موقع پرعام افراد بہت سے مسائل کا سامنا کررہے ہیں، لاک ڈاون، روزگار کی عدم دستیابی، بیماری کا ڈر، زندگی کی ڈگر کا یک دم بدل جانا، اشیاء کی گرانی و عدم دستیابی اور سب سے بڑھ کر ایک غیر یقینی مستقبل سامنے کھڑا نظر آرہا ہے۔ اس مشکل وقت میں طبی عملے کے رویے کی شکایات بھی سننے میں آرہی ہیں۔ ہمارا تمام معاشرتی ڈھانچہ اس وقت اپنی ڈگر سے ہلا نظر آرہا ہے کہ باہمی میل جول پاکستانی معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ یہ تمام دباو گھبراہٹ اور ڈپریشن کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ لاک ڈاون کے درمیان ٹی وی اور خبروں کو زیادہ دیکھنے سے آپ پریشانی کو اپنے اوپر حاوی کرلیں گے، دن میں ایک شیڈول بنا لیں کہ مثلاً صرف دو دفعہ صبح اور شام خبریں یا تجزیے سنیں گے۔ خوف کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ جان لیں کہ ان حالات میں مختلف لوگ مختلف طرح پیش آئیں گے سو اس بنا پر برداشت زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی شخصیت کے مطابق خوف کو ہرانے کی سرگرمیاں کیجیئے، مثلاً عبادت، ورزش، یوگا، کتاب بینی، فلم دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ بس یاد رکھیے کہ آپ کو خوف کو ہرانا ہے۔ یہ تمام عالم کے لیے غیر معمولی حالات  ہیں اور ان حالات کا سب سے زیادہ دباو طبی عملے پر ہے۔ 

 حکومت کی جانب سے طبی عملے کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ضرورت اُن کے لیے حفاظتی لباس اور آلات کی فوری فراہمی ہے۔ طبی عملے کو کرونہ وائرس، اس کے اثرات، مجوزہ علاج اور متعلقہ اعداد وشمار کی مستند معلومات چاہیئے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی انہیں یہ میسر نہیں، جس کی بنا پر غیر یقینیت خوف کو جنم دے رہی ہے۔ حکومت کو دوسرے ممالک کے ماہرین اور خصوصاً وقت اور تجربے کی بنا پر چینی ماہرین سے معلومات اکٹھی کرکے اپنے طبی ماہرین کو فوراً دینی چاہئیں۔ حکومت کو ایک واضح لائحہ عمل کا تعین اور اس کا اعلان جلد از جلد کرنا چاہیئے۔ 

حکومت کے علاوہ طبی لیڈرشپ کو بھی اس وقت اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے آپ کو دنیا میں ہونے والی متعلقہ ریسرچ اور اعداد و شمار سے باخبر رکھنا ہے، اور پاکستان کے حالات کے مطابق  اپنے ماتحتوں کی رہنمائی کرنی ہے۔ اپنی ذاتی مثال اور جذبے سے طبی  رہنما اپنے ماتحت  عملے کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔

رونہ کی وبا ہمیں ایک قوم بنانے میں بھی مصروف ہے، جہاں کچھ مفاد پرستوں کا سننے میں آیا ہے، وہیں لوگ اس وبا کا مقابلہ جدت اور ایجاد سے کررہے ہیں۔ انجینرز کم قیمت وینٹی لیٹر بنانے میں مصروف ہیں، سوفٹ ویر کے ماہرین اس کے مقابلے کے لیے اپلیکیشن بنانے میں لگے ہیں، تھری ڈی مشینوں سے  ماسک اور دوسری طبی اشیاء بنانے کی کوشش ہورہی ہے، درد دل رکھنے والے لوگ مل کر دیہاڑی دار مزدوروں کی مدد کی تگ و دو میں ہیں۔ نوجوان نسل اس جدوجہد میں آگے ہے۔  قوم پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس وبا میں کردار کی معترف ہے۔ مشکل وقت میں ہی قوم اور ہجوم کا فرق پتہ لگتا ہے۔ انشاء اللہ ہم سب مل کر اس مشکل وقت سے نکل آئیں گے۔

مگر یاد رکھیئے،  وائرس کے ساتھ ساتھ خوف کو بھی شکست دینا ہوگی۔




Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر